اسلامی وزرائے خارجہ کا اجلاس، اہم پہلو(2)
جیسا کہ ہم اپنی گذشتہ سطور میں کہہ چکے ہیں کہ 22 و 23 مارچ 2022ء کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کا اڑتالیسواں اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا عنوان تھا، ’’اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری۔‘‘ اس اجلاس میں افغانستان کے موضوع کو بھی خاص اہمیت حاصل رہی۔ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اجلاس میں شریک نہیں تھے بلکہ وہ اس دوران میں ترکی کے دورے پر تھے۔ افغانستان کی نمائندگی نائب وزیر خارجہ محمد اکبر عظیمی نے کی۔ وزیراعظم پاکستان نے اس حوالے سے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان کو مستحکم کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ افغانوں نے چالیس برس جنگ دیکھی ہے اور جتنا افغان متاثر ہوئے ہیں، کوئی قوم متاثر نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کا استحکام ہی دہشت گردی کو روک سکتا ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ افغانستان کے لوگ بیرونی مداخلت اور ڈکٹیشن کو ہرگز قبول نہیں کرتے۔
سعودی وزیر خارجہ نے افغانستان کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مملکت سعودیہ افغانستان کے امن و ترقی میں اسلامی ممالک کے کردار اور ان کی مدد کا اعادہ کرتی ہے اور ہم اس معاملے میں اپنی مزید مدد جاری رکھیں گے، تاکہ افغان شہری اس بحرانی صورتحال پر قابو پا سکیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی افغانستان میں مختلف برادریاں تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں گی اور افغانستان کی سرزمین کو کسی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گی۔ ایرانی وفد کے سربراہ نائب وزیر خارجہ سعید خطیب زادہ نے افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان جو آج اجتماعی، اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے بحرانوں کا شکار ہے، وہ امریکہ کے غلط، غیر سنجیدہ اور یک جانبہ اقدامات کا نتیجہ ہیں۔ ہم افغانستان میں مکمل استحکام اور امن چاہتے ہیں اور افغانستان میں امن و سلامتی کے حصول کے لیے اپنا تمام تر تعاون پیش کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ملک کے تمام سیاسی اور قومی گروہوں پر مشتمل ایک جامع حکومت تشکیل دینا ضروری ہے۔
افغانستان کے حوالے سے چین کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا: چین افغانستان میں امن، ترقی اور تعمیر نو کی ہر ممکن مدد اور تعاون کے لیے ساتھ ہے۔ بعض نمائندگان نے یمن کے موضوع پر بھی بات کی۔ سعودی وزیر خارجہ نے یمن میں انصار اللہ کی قیادت میں قائم حکومت کو امریکہ، برطانیہ اور جارحین کے دیئے گئے نام حوثی باغیوں کے عنوان سے ذکر کیا اور کہا کہ اسلحہ اسمگلنگ ختم کرنے، ان کی طرف سے حملے بند کیے جانے اور سمندر میں ان کی طرف سے سلامتی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس کے اعلامیے میں بھی یمن کا موضوع شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہم سعودی عرب اور امارات پر دہشتگردانہ حملوں اور جارجیت کی مذمت کرتے ہیں، ہم اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 26 24 کی تائید کرتے ہیں۔ ہم یمنی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ عام شہریوں پر حملے بند کیے جائیں، جنسی ہراسگی کا خاتمہ کیا جائے، بچوں کی فوج میں بھرتی بند کی جائے اور ان سے کام نہ لیا جائے، نیز انسانی امداد کے پہنچنے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ او آئی سی نے سعودی عرب اور امارات پر انصار اللہ کے حملوں کے نتیجے میں شہریوں کے نقصان پر تو اظہار افسوس کیا ہے، لیکن مظلوم یمنی عوام کے قتل عام اور یمن کے تمام تر وسائل کی جارحین کے ہاتھوں تباہی کی کھلے لفظوں میں مذمت نہیں کی اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ او آئی سی اسی طرح سعودی عرب کی گرفت میں ہے، جیسے اقوام متحدہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے شکنجے میں ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں دیگر موضوعات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں خاص طور پر جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کی تجدید کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حق، خودارادیت کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے، جبکہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی ہے۔
اعلامیہ کے مطابق 5 اگست 2019ء سے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کیا گیا، جن کا مقصد مقبوضہ علاقے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور مسافر طیاروں کو لاحق خطرات جبکہ 9 مارچ کو سپرسونک میزائل کے لانچ سے جنوبی ایشیاء میں امن و سلامتی کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ بھارت سے عالمی قوانین اور ذمے دار ریاستی رویے کے اصولوں کی پاسداری اور حقائق تک رسائی کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ تحقیقات پر زور دیا گیا۔ جنوبی ایشیاء میں استحکام کے لیے پاکستان کا کردار تسلیم کیا گیا اور اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں پر مبنی علاقائی امن کے فروغ کے لیے اس کے کردار اور کوششوں کو سراہا گیا۔ اعلامیہ میں مالی، افغانستان، صومالیہ، سوڈان، کوٹ ڈیوائر، کوموروس، جبوتی، بوسنیا اور ہرزیگووینا اور جموں و کشمیر کے عوام اور ترک قبرص کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کیا گیا۔
جموں و کشمیر کے حوالے سے او آئی سی کے اجلاس میں کی گئی تقریروں اور اعلامیوں پر بھارت اس وقت شدید غصے میں ہے۔ بھارت نے خاص طور پر چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی طرف سے کشمیر کے حوالے سے دیے گئے بیان کی مذمت کی ہے۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے موقف کی چینی حمایت کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ چین کے پاس اس مسئلے پر تبصرہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ بھارت نے ایک بار پھر اپنے اسی موقف کا اعادہ کیا کہ جموں و کشمیر اس کا داخلی معاملہ ہے اور کسی بھی بیرونی ملک کو اس بارے میں مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے او آئی سی کے افتتاحی اجلاس سے چینی وزیر خارجہ کے خطاب پر اپنے ردعمل میں کہا: ’’افتتاحی تقریب میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے خطاب کے دوران میں بھارت کے تعلق سے جو نام نہاد حوالے دیے ہیں، انہیں ہم مسترد کرتے ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا، ’’مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقے سے متعلق معاملات مکمل طور پر بھارت کا داخلی معاملہ ہیں۔ چین سمیت دیگر ممالک کے لیے اس پر اس طرح کا تبصرہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت ان کے اندرونی مسائل پر بیانات دینے سے گریز کرتا ہے۔‘‘
دوسری طرف پاکستان نے او آئی سی کے اجلاس میں منظور شدہ قراردادوں پر بھارتی بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ چنانچہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارتی بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزارت خارجہ کا منطق سے عاری بیان ایک ایسے ملک کی مایوسی کی عکاسی کرتا ہے، جو پہلے ہی بے نقاب اور تنہا ہوچکا ہے، تاریخی حقائق کو جھٹلانے اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے بجائے بھارت کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے موجودہ رویے پر نظرثانی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار نے بھارتی ریمارکس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی امت مسلمہ کی اجتماعی آواز اور اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے، جس کے 57 ارکان اور 6 مبصر ممالک ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے ان کی جائز جدوجہد کی حمایت میں او آئی سی کا دیرینہ اصولی موقف رہا ہے۔
عاصم افتخار نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد سے انکار کرتے ہوئے بھارت کئی دہائیوں سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی، آر ایس ایس سے متاثر ’’ہندوتوا ‘‘ نظریہ نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے، بھارت کی ریاستی سرپرستی میں اقلیتوں پر ظلم و ستم ایک معمول بن گیا ہے۔ بھارتی ردعمل اور پھر جوابی ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو کانفرنس میں اٹھا کر ایک دفعہ پھر پوری دنیا کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا پاکستان ہدف پورا ہوگیا ہے۔ بھارت کا کشمیری عوام کے خلاف استبداد و ظلم ایک دفعہ پھر عالمی سطح پر زیر بحث آرہا ہے۔ یقینی طور پر عالمی رائے عامہ کے اس کی طرف متوجہ ہونے کا مثبت نتیجہ نکلے گا، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اس کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھے۔ وگرنہ کسی ایک کانفرنس میں مسئلے کو زیر بحث لا کر بی جے پی اور اس جیسے دیگر بھارتی تنظیموں کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کو نہیں روکا جاسکتا۔
سعودی وزیر خارجہ نے افغانستان کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مملکت سعودیہ افغانستان کے امن و ترقی میں اسلامی ممالک کے کردار اور ان کی مدد کا اعادہ کرتی ہے اور ہم اس معاملے میں اپنی مزید مدد جاری رکھیں گے، تاکہ افغان شہری اس بحرانی صورتحال پر قابو پا سکیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی افغانستان میں مختلف برادریاں تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں گی اور افغانستان کی سرزمین کو کسی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گی۔ ایرانی وفد کے سربراہ نائب وزیر خارجہ سعید خطیب زادہ نے افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان جو آج اجتماعی، اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے بحرانوں کا شکار ہے، وہ امریکہ کے غلط، غیر سنجیدہ اور یک جانبہ اقدامات کا نتیجہ ہیں۔ ہم افغانستان میں مکمل استحکام اور امن چاہتے ہیں اور افغانستان میں امن و سلامتی کے حصول کے لیے اپنا تمام تر تعاون پیش کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ملک کے تمام سیاسی اور قومی گروہوں پر مشتمل ایک جامع حکومت تشکیل دینا ضروری ہے۔
افغانستان کے حوالے سے چین کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا: چین افغانستان میں امن، ترقی اور تعمیر نو کی ہر ممکن مدد اور تعاون کے لیے ساتھ ہے۔ بعض نمائندگان نے یمن کے موضوع پر بھی بات کی۔ سعودی وزیر خارجہ نے یمن میں انصار اللہ کی قیادت میں قائم حکومت کو امریکہ، برطانیہ اور جارحین کے دیئے گئے نام حوثی باغیوں کے عنوان سے ذکر کیا اور کہا کہ اسلحہ اسمگلنگ ختم کرنے، ان کی طرف سے حملے بند کیے جانے اور سمندر میں ان کی طرف سے سلامتی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس کے اعلامیے میں بھی یمن کا موضوع شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہم سعودی عرب اور امارات پر دہشتگردانہ حملوں اور جارجیت کی مذمت کرتے ہیں، ہم اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 26 24 کی تائید کرتے ہیں۔ ہم یمنی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ عام شہریوں پر حملے بند کیے جائیں، جنسی ہراسگی کا خاتمہ کیا جائے، بچوں کی فوج میں بھرتی بند کی جائے اور ان سے کام نہ لیا جائے، نیز انسانی امداد کے پہنچنے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ او آئی سی نے سعودی عرب اور امارات پر انصار اللہ کے حملوں کے نتیجے میں شہریوں کے نقصان پر تو اظہار افسوس کیا ہے، لیکن مظلوم یمنی عوام کے قتل عام اور یمن کے تمام تر وسائل کی جارحین کے ہاتھوں تباہی کی کھلے لفظوں میں مذمت نہیں کی اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ او آئی سی اسی طرح سعودی عرب کی گرفت میں ہے، جیسے اقوام متحدہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے شکنجے میں ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں دیگر موضوعات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں خاص طور پر جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کی تجدید کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حق، خودارادیت کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے، جبکہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی ہے۔
اعلامیہ کے مطابق 5 اگست 2019ء سے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کیا گیا، جن کا مقصد مقبوضہ علاقے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور مسافر طیاروں کو لاحق خطرات جبکہ 9 مارچ کو سپرسونک میزائل کے لانچ سے جنوبی ایشیاء میں امن و سلامتی کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ بھارت سے عالمی قوانین اور ذمے دار ریاستی رویے کے اصولوں کی پاسداری اور حقائق تک رسائی کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ تحقیقات پر زور دیا گیا۔ جنوبی ایشیاء میں استحکام کے لیے پاکستان کا کردار تسلیم کیا گیا اور اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں پر مبنی علاقائی امن کے فروغ کے لیے اس کے کردار اور کوششوں کو سراہا گیا۔ اعلامیہ میں مالی، افغانستان، صومالیہ، سوڈان، کوٹ ڈیوائر، کوموروس، جبوتی، بوسنیا اور ہرزیگووینا اور جموں و کشمیر کے عوام اور ترک قبرص کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کیا گیا۔
جموں و کشمیر کے حوالے سے او آئی سی کے اجلاس میں کی گئی تقریروں اور اعلامیوں پر بھارت اس وقت شدید غصے میں ہے۔ بھارت نے خاص طور پر چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی طرف سے کشمیر کے حوالے سے دیے گئے بیان کی مذمت کی ہے۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے موقف کی چینی حمایت کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ چین کے پاس اس مسئلے پر تبصرہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ بھارت نے ایک بار پھر اپنے اسی موقف کا اعادہ کیا کہ جموں و کشمیر اس کا داخلی معاملہ ہے اور کسی بھی بیرونی ملک کو اس بارے میں مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے او آئی سی کے افتتاحی اجلاس سے چینی وزیر خارجہ کے خطاب پر اپنے ردعمل میں کہا: ’’افتتاحی تقریب میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے خطاب کے دوران میں بھارت کے تعلق سے جو نام نہاد حوالے دیے ہیں، انہیں ہم مسترد کرتے ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا، ’’مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقے سے متعلق معاملات مکمل طور پر بھارت کا داخلی معاملہ ہیں۔ چین سمیت دیگر ممالک کے لیے اس پر اس طرح کا تبصرہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت ان کے اندرونی مسائل پر بیانات دینے سے گریز کرتا ہے۔‘‘
دوسری طرف پاکستان نے او آئی سی کے اجلاس میں منظور شدہ قراردادوں پر بھارتی بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ چنانچہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارتی بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزارت خارجہ کا منطق سے عاری بیان ایک ایسے ملک کی مایوسی کی عکاسی کرتا ہے، جو پہلے ہی بے نقاب اور تنہا ہوچکا ہے، تاریخی حقائق کو جھٹلانے اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے بجائے بھارت کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے موجودہ رویے پر نظرثانی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار نے بھارتی ریمارکس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی امت مسلمہ کی اجتماعی آواز اور اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے، جس کے 57 ارکان اور 6 مبصر ممالک ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے ان کی جائز جدوجہد کی حمایت میں او آئی سی کا دیرینہ اصولی موقف رہا ہے۔
عاصم افتخار نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد سے انکار کرتے ہوئے بھارت کئی دہائیوں سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی، آر ایس ایس سے متاثر ’’ہندوتوا ‘‘ نظریہ نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے، بھارت کی ریاستی سرپرستی میں اقلیتوں پر ظلم و ستم ایک معمول بن گیا ہے۔ بھارتی ردعمل اور پھر جوابی ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو کانفرنس میں اٹھا کر ایک دفعہ پھر پوری دنیا کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا پاکستان ہدف پورا ہوگیا ہے۔ بھارت کا کشمیری عوام کے خلاف استبداد و ظلم ایک دفعہ پھر عالمی سطح پر زیر بحث آرہا ہے۔ یقینی طور پر عالمی رائے عامہ کے اس کی طرف متوجہ ہونے کا مثبت نتیجہ نکلے گا، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اس کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھے۔ وگرنہ کسی ایک کانفرنس میں مسئلے کو زیر بحث لا کر بی جے پی اور اس جیسے دیگر بھارتی تنظیموں کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کو نہیں روکا جاسکتا۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز