معرفت قیام امام حسین ؑ

Published by fawad on

پس منظر(تاریخی پہلو، تحلیل)

ڈاکٹر سید علی عباس
ڈاکٹر سید علی عباس

عوام اور طرح کی چیزوں کی عادی ہو گئے ہیں جیسے ان کی تربیت ہوئی تھی ان سے بہت دور چلے گئے تھے۔ حق کو باطل کے معیار دھندلا چکے تھے۔ دولت زیادہ ہو گئی، امت ایک بہت بڑی طاقت بن گئی۔ ایسے میں حکمرانوں کو خدا خوفی کاپہلو خدا کے سامنے جوابدہی، بلکہ عوام کے سامنے جوابدہی۔۔۔۔ وہ عدالتیں جو حضرت علیؑ کو پوچھ سکتی تھیں وہ مشکل ہو گئی تھیں۔ حق کی خاطر قیام، قربانی، ایثار، معاشرہ پورا کا پورا ختم ہو گیا تھا۔ ایسے میں ضروری تھا کہ وہ عام چیزوں کو بیدار نہیں کر سکتی تھیں۔ کوئی بہت بڑا واقعہ ہی ان کو ہلا سکتا تھا۔ پھر واقعہ بھی ایسا ہونا چاہیے تھا جسے دبایا نہ جا سکے، جسے روکا نہ جاسکے۔ پھر کوئی علاقائی واقعہ نہ ہو اس کی تاثیر زیادہ ہمہ گیر ہو پھر یہ کہ کوئی اتنا بڑا واقعہ ہو جائے تو روز روز ایسے واقعات نہیں ہو سکتے۔ اگر ہلا دینے والا بڑا واقعہ تو وہ تاریخ کو بدل دیتا ہے۔ ایک راستہ ایک معیار۔۔۔۔

میرے خیال میں یہ پس منظر امام حسینؑ کے قیام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
نیز یہ کہ اگر امام حسین نے معاویہ کے دورمیں قیام نہیں کیا تو وہ امام حسین کی صلح کی وجہ سے، کہ امام حسن کو صلح کیوں کرنا پڑی۔

یہ سب چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔۔تو امام جنگ کرتے ہوئے مارے جاتے۔ ختم ہو جاتا۔۔۔۔ یہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ لوگوں کو امام علی جیسا امام ہلا نہیں سکا جنگ کے لیے۔ تو امام حسن نے یہی بہتر سمجھا ذرا تاریخ کو تھوڑا اور بڑھنے دیں کہ لوگوں کو استبداد سے گزرنا پڑے گا۔

واقعات (کربلا)
کوئی مرحلہ آیا امام حسین نے رات و رات ہجرت کا ارادہ کیا۔
معاویہ سنہ 60ہجری میں سترسال سے کچھ زیادہ عمر میں فوت ہو جاتا ہے اور چالیس سال سے زیادہ شام میں حکومت کرتا ہے، جب وہ فوت ہوتا ہے تو اس کا بیٹا شام سے باہر ہوتا ہے اور وہ تین دن بعد واپس آتا ہے۔۔۔اورتخت نشین ہو جاتا ہے۔ اور یزید سب سے پہلا کام جو کرتا ہے حالانکہ اس کی حکومت ابھی مضبوط نہیں ہوتی وہ ایک خط جاری کرتا ہے جس میں امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر سے بیت لینے کے لیے حکم جاری کرتا ہے۔ جس میں وہ کہتا ہے کہ اگر وہ بیت نہ کریں تو ان کی گردن اڑا دو اور ان کے سر میرے پاس شام میں روانہ کرو۔
فاحضر الحسین و عبداللہ بن زبیر فخذ ھما با البیعۃ فان امتنعا فاضرب عنقھما وابعث الی برؤسھما)
یہ خط مدینہ کے والی ولید بن عتبہ کو روانہ کرتا ہے۔
یہ مختصر سا خط واقعہ عاشورا کے نکتۂ کا آغاز ہے۔ تو یہاں چند اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
۱۔ یزید کی ابھی حکومت مضبوط نہیں ہوئی تھی اور اس نے تخت پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے یہ خطرناک فیصلہ کیوں کیا؟( وہ کام جو اس کا باپ معاویہ نہیں کر سکا تھا) آخر اسے کس بات کی جلدی تھی؟ اس جلدی کا راز کیا ہے؟
۲۔ آیا یہ فیصلہ اس نے خود کیا یا اس کے پیچھے کوئی اور عوامل ہیں؟
۳۔ واقعہ عاشورا کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ اس کی جڑ اور بنیاد کیا ہے کہ آخر کیوں پچاس سال کے کم عرصے میں پیغمبر کی وفات کے بعد امت یزید جیسے فاسق و فاجر کے ہاتھوں کیوں گرفتار ہوئی؟
۴۔ یزید نے گفتگو اور مذاکرات کی بجائے امام کو ختم کرنے کا ارادہ کیوں کیا؟

وہ شخص جس کے بارے میں پیغمبرؐ نے فرمایا کہ یہ جوانان جنت کے سردار ہیں کہ ایک آدمی برسراقتدار آتا ہے اور یہ آرڈر کرتا ہے کہ جوانان جنت کے سردار کا سر مجھے چاہیے، یعنی جنت کا راستہ اس انداز میں بند کرنا ہے اور دوزخ کا راستہ اس انداز سے اس نے کھولنا ہے۔


انبیاء آئے کے انسانوں کو بشارت دے اور جنت کی طرف راہنمائی کریں، نظارت کریں اورخبردار کریں اور جہنم سے ڈرائیں۔ ایک شخص آیا جو سردار جنت کے قتل کا حکم دے تو وہ اعلان کرتا ہے کہ جنت والے کام کی مجھ سے توقع نہ کریں۔۔۔میرا راستہ اور ہے اورجنت کا راستہ اور ہے۔ He is not believe on Janat.یعنی کہ وہ جنت وغیرہ پر یقین نہیں کرتا تھا۔

آیا یزید کا یہ اپنا اقدام تھا یا کسی اور کے کہنے پر ایسا کر رہا ھتا مثلاً جون مسیحی۔

میرا خیال یہ ہے کہ استاد مطہری نے بھی سوال اٹھایا ہوا ہے، کہ اس میں یزید کا رول کیا تھا اور دیگر عوامل کتنے اس میں شامل تھے۔ سب کچھ ان پر ڈال دینا اور یزید کی معاویہ کی، ہندہ کی اور ابو سفیان کی ماہیت کو نظرانداز کرکے  اور اس خطے میں ۔۔۔۔عبداللہ ابن سبا نے یہ ساری سازش کی مسلمانوں کو لڑا دیا اور تو کسی کو کچھ نہیں کہا۔۔۔۔
تو عبداللہ ابن سبا کے کردار کو وہاں سے نکال دیا جائے  اور وہ ساری شکایات جو اس دور میں پیدا ہوئی امت تو کیا وہ ختم ہو جاتی ہیں لوگوں کے جو  اعتراضات تھے ، تقریریں ، جو گورنرز سے ان کو شکایات تھیں ان میں عبداللہ ابن سبا کہاں آیا۔ حضرت عثمان کا مسئلہ پیدا ہوا ۔۔۔۔بعد میں وہ عبداللہ ابن سبا نے بھیج دیا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو ۔۔۔۔حضرت عائشہ سے اس نے کہا کہ  آ جائیں سب ۔۔۔۔۔یعنی عبداللہ ابن سبا کو خواہ مخواہ ایک فرضی کردار ہے کہ انسان خواب و خیال میں تاریخ میں بعض لوگوں کو فرض کر لیتا ہے تو خاص دور میں ۔۔۔۔تو وہ ایک خواب کی سی کیفیت میں ہوتا ہے۔ جب وہ اس دور کے حقائق کی گھتیوں کو سلجھا نہیں پاتا تو وہ مفروضے قائم کرتا ہے۔ تاریخ تو کھلی کتاب اور ایک حقیقت ہے۔ اس میں عبداللہ ابن سبا کے مفروضے کی کیا اہمیت ہوگی۔ لہٰذا جون کو آپ تلاش کر بھی لیں تو اسے آپ عنصر کے معنی میں لے سکتے ہیں۔

دیگر واقعات اور ان کی ماہیت
یہاں پر دیگر واقعات اور ان کی ماہیت میں فرق بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اپنا کیا نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ ان کے پاس کیا تھا کہنے کو۔۔۔۔ وہ کہتے تھے مجھے رائی کی حکومت چاہیے۔ سپہ سالار خود کہتا تھا کہ مجھے رائی کی حکومت چاہیے، میرا تو یہ مقصد ہے۔۔۔۔شمر کے پاس کیا تھا۔۔۔۔۔ پھر انھوں نے جو لاشوں کے ساتھ کیا اس کی کیا دلیل ہے۔۔۔۔جو بچوں کو ذبح کیا اس کی کیا دلیل ہے۔۔۔۔جو بچوں پر پانی بند کیا اس کی کیا دلیل ہے۔۔۔۔۔ خیموں کو آگ لگائی تو اس کی کیا دلیل ہے۔۔۔۔وہ وحشی درندے ان کی یہ ماہیت تھی نہ کوئی انسان کی قدر تھی۔۔۔کسی نے کہا کہ یار یہ ترک بھی ہوتی تو جنگ میں ایک رات کی مہلت دے دیتے۔۔۔۔عبیداللہ ابن زیادہ لیڈرشپ میں تھا اس کو لالچ تھی۔۔۔۔

یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/qiyam-ul-hussain-as/
ادھر سے لوگوں کا ادھر آجانا کہ بھوکے پیاسے لشکر میں شامل ہو گئے جس میں موت یقینی تھی۔۔۔۔ عورتوں کا بھی ڈٹے رہنا، ان کے بچے ۔۔۔دلہا دلہن کا اس لشکر میں شریک ہونا اس کی ماں نے سر اٹھا کر پھینک دیا اپنے بیٹے کا ۔۔۔۔کیسے راتوں کو یہ عبادت کرتے تھے ۔۔۔۔عبادت کی آوازیں ۔۔۔۔۔ یہ وہ لوگ تھے جو کیا کہہ رہے تھے۔۔۔وہ لوگ کیا کہہ رہے تھے۔۔۔ماہیت کو سمجھنا ہوگا۔۔۔۔
اس فرق کو ظاہر کریں یہ اسلامی اقدار ایثار، وحدت اور صبر کا نمونہ اس میں جو بن گیا تھا معاشرہ اور جیسے حکمران تھے جو دوسری طرف کھڑے تھے ۔۔۔۔۔۔وہ عبیداللہ ابن زیاد اور یزید کو خوش کرنے کے لیے تھے۔۔۔۔ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے تھے۔۔۔

فرق اس کا ظاہر کریں اسلامی اقدار کا نمونہ ہے یہ قدرت اور طاقت کے سامنے آرہا ہے۔۔ اس میں جو عرب معاشرہ بن گیا تھا اور جیسے حکمرانی تھی تو وہ دوسری طرف کھڑے تھے۔۔۔سمجھ آ رہی تھی کہ کون کس سے ٹکرا رہا ہے۔۔۔۔ یہ اقدار یہ ویلیوز ان اقتدار ان ویلیوز ان ایمانیات سے ٹکرا رہے تھے۔۔۔۔یہ سامنے مشخص ہو کر آ گیا تھا۔۔۔۔وہ نماز بھی پڑھتے تھے تو اچھا انھوں نے ظواہر دین باقی تھے۔۔۔۔ روح نہیں تھی۔۔۔۔ سارے منحوس لوگ جمع ہو گئے تھے۔۔۔

اثرات، ثمرات نتائج
تاریخ نے پھر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ضروری نہیں کہ جب جب مسلمان حکمران کے طور پر سامنے آئیں تو وہ دین کا بھی ترجمان ہوں۔ اب حد فاضل کھینچ دی۔۔۔۔ امام حسینؑ نے پہلا اور بہت بڑا اور فوری اور دائمی نتیجہ یہ ہے۔۔۔الگ ہو گئے کیونکہ جو پہلے آئے انھوں نے اذان میں نئی چیز ڈال دی۔۔۔۔ لوگوں کو کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ انھوں نے طلاقیں تین کو ایک کردیا لوگوں کو کچھ نہیں ہوا۔۔۔ انھوں نے نئی نماز جماعت گھڑ لی لوگوں کو کچھ نہیں ہوا۔۔۔انھوں نے کیا کیا کر لیا لوگوں کو کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ انھو ںنے عوام کی طبقہ بندی کر دی یہاں تک کہ نبی پاکؐ کی ازدواج میں بھی طبقہ بندی کر دی۔۔۔۔ ایک طبقے کو زیادہ پیسے دوسرے کو کم۔۔۔۔انھوں نے قریشی غیر قریشی، عرب غیر عرب۔۔۔آزاد اور غلام۔۔۔پھر عجیب ان کو تقدس بھی بخشا۔۔۔۔ ایسے دور میں ایسے حالات سے گزر کر ہم پیچھے آ رہے ہیں تو ان کی ہر چیز کو اسلامیائی کر دیا اب وہ سلسلہ ختم ہو گیا۔۔۔۔ اور بعد میں ۔۔۔حکومت جو بھی آجائے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ نہیں قبول کیا جاسکتا۔۔۔۔ کہ جو بھی آجائے وہ برسراقتدار اس کو اسلام کی نمائندہ سمجھے۔۔۔تو پہلا فائدہ یہ ہوا کہ امام خمینی کے انقلاب تک یہ اس کے فوائد ہیں۔۔۔۔ ہم جو کچھ رکھتے ہیں وہ محرم و سفرکی وجہ سے ہے۔۔۔