الا_رسول_اللہ_یا_مودی
آج کا عنوان ایک ٹوئیر ٹرینڈ ہے، جو عرب دنیا میں ٹاپ ٹرینڈ کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ اس ٹرینڈ پر لاکھوں لوگ ٹویٹ کرچکے ہیں۔ اس ٹرینڈ کا مطلب ہے (سوائے رسول اللہ کے، اے مودی) اسی طرح عرب دنیا میں ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کے حوالے سے بھی ایک ایک ٹویٹر ٹرینڈ موجود ہے۔ اس ٹرینڈ کا عنوان (مقاطعہ_المنتجات_الھندیۃ) ہے، جس سے مراد ہے کہ ہندوستانی مصنوعات کا بائیکاٹ۔ یہ ٹویٹر ٹرینڈ اس وقت بہت سے عرب ممالک میں ٹاپ ٹرینڈ ہے اور اس ٹرینڈ کے سبب عرب دنیا میں بہت سے سٹورز نے ہندوستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ بے پناہ عوامی ردعمل کے جواب میں عرب حکومتیں بھی اقدام پر مجبور ہوئی ہیں اور ہندوستانی سفیر کو بلا کر اس اقدام پر معافی کا کہا گیا ہے، لیکن عوام کا غصہ ہے کہ تھمنے میں نہیں آرہا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ 2 جون کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاری ترجمان نوپور شرما نے ایک ٹی وی شو میں پیغمبر اکرم ؐ کی شان میں گستاخی کی۔ نوپور شرما کے ان الفاظ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہی ایک دوسرے رکن اور وزیر نوین کمار جندال نے بھی ٹویٹ کیا۔ ان دونوں اراکین کے اس اقدام کے خلاف بھارت میں غم و غصہ پیدا ہوا، نوپور شرما کے خلاف دو مقدمات درج ہوئے۔ یہ توہین کسی طرح سے عرب دنیا تک پہنچ گئی، جس کے بعد مفتی عمان نے ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ مفتی عمان کے اعلان کے بعد عرب دنیا میں درج بالا ٹرینڈز چل پڑے، جو اس وقت بھی ٹاپ ٹرینڈز ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی کے اراکین کی یہ توہین تو ایک طرف، تاہم عرب عوام کی رسالت ماب ؐ سے محبت پر مشتمل اس ٹرینڈ کو دیکھ کر امید کی وہ کرن بحال ہوئی، جو عرصہ دراز سے دم توڑ چکی تھی۔
عرب سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور عوام نے اس اہم مسئلہ پر جس محبت اور ولولے کا اظہار کیا ہے، اس نے ہندوستانی حکومت کو پسپائی اور وضاحتیں دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ بی جے پی حکومت اس وقت پوری عرب دنیا کو وضاحتیں پیش کر رہی ہے۔ پارٹی کے بیان کے مطابق نوپور شرما اور نوین کمار جندال کو پارٹی رکنیت سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی مذہب اور مذہبی شخصیات کے احترام پر یقین رکھتی ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس سوچ کے خلاف ہے، جو کسی بھی فرقے یا مذہب کی بے توقیری کرتی ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بی جے پی ایسے لوگوں اور فلسفہ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کے دونوں رہنماؤں کے بیانات ملک میں گذشتہ چند برسوں سے موجود گہری مذہبی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پر بی جے پی کا ردعمل شاید اب کافی نہ ہو، کیونکہ اب ملک کے اندورنی معاملے نے بین الاقوامی نوعیت اختیار کر لی ہے۔
کویت، قطر اور ایران نے اتوار کو انڈیا کے سفیروں کو بلا کر ان بیانات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا ہے۔ پیر کو سعودی عرب نے بھی ان بیانات کی مذمت کی ہے۔ اتوار کو اس معاملے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے قطر کی وزارت خارجہ نے دوحہ میں انڈیا کے سفیر دیپک متل کو طلب کرکے انڈیا سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے مطابق اس طرح کے اسلامو فوبیا پر مبنی ریمارکس کو بغیر سزا کے چھوڑ دینا، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور یہ مزید تعصب اور پسماندگی کا باعث بن سکتا ہے، جو تشدد اور نفرت کے ایک نئے سلسلے کو جنم دے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک کے ساتھ انڈیا کی تجارت سال 2020-21ء میں 87 ارب ڈالر تک رہی۔ اس کے علاوہ انڈیا کے لاکھوں شہری ان ممالک میں رہتے اور کام کرتے ہیں اور لاکھوں ڈالر کی ترسیلات زر وطن واپس بھیجتے ہیں۔ یہ خطہ انڈیا کی توانائی کی درآمدات کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کے اثرات کی سفارتی قیمت خطے میں انڈیا کے مفادات کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یہاں ایک نقطہ قابل ذکر ہے کہ ٹوئیٹر ٹرینڈ میں ابھی فقط بی جے پی کی رکن کی جانب سے کی جانے والی توہین پر بات ہو رہی ہے، عرب عوام نے ابھی تک ہندوستان میں مسلمانوں بالخصوص کشمیری مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے کوئی تصویر یا ویڈیو شیئر نہیں کی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرب عوام درست طور پر بی جے پی حکومت کے تحت مسلمانوں کی صورتحال سے آگاہ نہیں ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ برہمن سامراج کے تحت کشمیر میں کتنے جوان قتل ہوئے، کتنوں کو اغواء کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کتنی خواتین کی عصمت دری کی گئی، انھیں نہیں معلوم کہ یاسین ملک کے ساتھ ہندوستانی عدالت نے کیا کیا۔ عرب عوام کو یہ بھی نہیں معلوم کہ مودی کی اقتدار میں گجرات میں مسلمانوں پر زندگی اجیرن کر دی گئی، ہندوستانی ریاستوں میں حجاب پر پابندی لگائی گئی۔
اگر عرب عوام ان مسائل سے آگاہ ہوتے تو ان کے ٹویٹس میں ان معاملات کا بھی تذکرہ ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ تذکرہ ہے کہ ہندوستانی گائے کو پوجنے والے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ٹرینڈ ہندوستانی اور کشمیری مسلمانوں کے لیے عرب عوام سے براہ راست تعامل کا ایک اہم موقع ہے۔ وہ اپنے کیس کو براہ راست طور پر عرب عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ٹرینڈ امت مسلمہ کے لیے ایک امید کی کرن بھی ہے، دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان سوشل میڈیا کو اپنی طاقت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے امت کے مشترکہ مسائل پر اپنی آواز بلند کرسکتے ہیں۔ اگر عوام کے مابین روابط اور ہم آہنگی پیدا ہو جائے تو امت کے اتحاد کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، جو مسلمان دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ رسالت ماب ؐ کی ذات گرامی ایک مرتبہ پھر ہمارے اتحاد اور رابطے کا ذریعہ بنی ہے، ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ 2 جون کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاری ترجمان نوپور شرما نے ایک ٹی وی شو میں پیغمبر اکرم ؐ کی شان میں گستاخی کی۔ نوپور شرما کے ان الفاظ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہی ایک دوسرے رکن اور وزیر نوین کمار جندال نے بھی ٹویٹ کیا۔ ان دونوں اراکین کے اس اقدام کے خلاف بھارت میں غم و غصہ پیدا ہوا، نوپور شرما کے خلاف دو مقدمات درج ہوئے۔ یہ توہین کسی طرح سے عرب دنیا تک پہنچ گئی، جس کے بعد مفتی عمان نے ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ مفتی عمان کے اعلان کے بعد عرب دنیا میں درج بالا ٹرینڈز چل پڑے، جو اس وقت بھی ٹاپ ٹرینڈز ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی کے اراکین کی یہ توہین تو ایک طرف، تاہم عرب عوام کی رسالت ماب ؐ سے محبت پر مشتمل اس ٹرینڈ کو دیکھ کر امید کی وہ کرن بحال ہوئی، جو عرصہ دراز سے دم توڑ چکی تھی۔
عرب سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور عوام نے اس اہم مسئلہ پر جس محبت اور ولولے کا اظہار کیا ہے، اس نے ہندوستانی حکومت کو پسپائی اور وضاحتیں دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ بی جے پی حکومت اس وقت پوری عرب دنیا کو وضاحتیں پیش کر رہی ہے۔ پارٹی کے بیان کے مطابق نوپور شرما اور نوین کمار جندال کو پارٹی رکنیت سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی مذہب اور مذہبی شخصیات کے احترام پر یقین رکھتی ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس سوچ کے خلاف ہے، جو کسی بھی فرقے یا مذہب کی بے توقیری کرتی ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بی جے پی ایسے لوگوں اور فلسفہ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کے دونوں رہنماؤں کے بیانات ملک میں گذشتہ چند برسوں سے موجود گہری مذہبی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پر بی جے پی کا ردعمل شاید اب کافی نہ ہو، کیونکہ اب ملک کے اندورنی معاملے نے بین الاقوامی نوعیت اختیار کر لی ہے۔
کویت، قطر اور ایران نے اتوار کو انڈیا کے سفیروں کو بلا کر ان بیانات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا ہے۔ پیر کو سعودی عرب نے بھی ان بیانات کی مذمت کی ہے۔ اتوار کو اس معاملے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے قطر کی وزارت خارجہ نے دوحہ میں انڈیا کے سفیر دیپک متل کو طلب کرکے انڈیا سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے مطابق اس طرح کے اسلامو فوبیا پر مبنی ریمارکس کو بغیر سزا کے چھوڑ دینا، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور یہ مزید تعصب اور پسماندگی کا باعث بن سکتا ہے، جو تشدد اور نفرت کے ایک نئے سلسلے کو جنم دے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک کے ساتھ انڈیا کی تجارت سال 2020-21ء میں 87 ارب ڈالر تک رہی۔ اس کے علاوہ انڈیا کے لاکھوں شہری ان ممالک میں رہتے اور کام کرتے ہیں اور لاکھوں ڈالر کی ترسیلات زر وطن واپس بھیجتے ہیں۔ یہ خطہ انڈیا کی توانائی کی درآمدات کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کے اثرات کی سفارتی قیمت خطے میں انڈیا کے مفادات کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یہاں ایک نقطہ قابل ذکر ہے کہ ٹوئیٹر ٹرینڈ میں ابھی فقط بی جے پی کی رکن کی جانب سے کی جانے والی توہین پر بات ہو رہی ہے، عرب عوام نے ابھی تک ہندوستان میں مسلمانوں بالخصوص کشمیری مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے کوئی تصویر یا ویڈیو شیئر نہیں کی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرب عوام درست طور پر بی جے پی حکومت کے تحت مسلمانوں کی صورتحال سے آگاہ نہیں ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ برہمن سامراج کے تحت کشمیر میں کتنے جوان قتل ہوئے، کتنوں کو اغواء کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کتنی خواتین کی عصمت دری کی گئی، انھیں نہیں معلوم کہ یاسین ملک کے ساتھ ہندوستانی عدالت نے کیا کیا۔ عرب عوام کو یہ بھی نہیں معلوم کہ مودی کی اقتدار میں گجرات میں مسلمانوں پر زندگی اجیرن کر دی گئی، ہندوستانی ریاستوں میں حجاب پر پابندی لگائی گئی۔
اگر عرب عوام ان مسائل سے آگاہ ہوتے تو ان کے ٹویٹس میں ان معاملات کا بھی تذکرہ ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ تذکرہ ہے کہ ہندوستانی گائے کو پوجنے والے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ٹرینڈ ہندوستانی اور کشمیری مسلمانوں کے لیے عرب عوام سے براہ راست تعامل کا ایک اہم موقع ہے۔ وہ اپنے کیس کو براہ راست طور پر عرب عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ٹرینڈ امت مسلمہ کے لیے ایک امید کی کرن بھی ہے، دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان سوشل میڈیا کو اپنی طاقت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے امت کے مشترکہ مسائل پر اپنی آواز بلند کرسکتے ہیں۔ اگر عوام کے مابین روابط اور ہم آہنگی پیدا ہو جائے تو امت کے اتحاد کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، جو مسلمان دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ رسالت ماب ؐ کی ذات گرامی ایک مرتبہ پھر ہمارے اتحاد اور رابطے کا ذریعہ بنی ہے، ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: