ہم اس مصیبت کو بحالی کے بہتر موقع میں بدل سکتے ہیں

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
جیسے جیسے سیلاب کی تباہ کاریوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں، ساتھ ساتھ بدعنوانیوں کے قصے بھی عام ہو رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں سندھ کے ایک سرکاری  گودام کی ویڈیو منظر عام پر آئی، جس سے سیلاب زدگان کے لیے جمع ہونے والا سامان رات کے اندھیرے میں کسی نامعلوم مقام پر شفٹ کیا جا رہا تھا۔ ویڈیو بنانے والے نے پوچھا کہ یہ سامان کہاں جا رہا ہے تو شفٹ کرنے والوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ ویڈیو بنانے والے کو دھتکارتے رہے اور کہتے رہے کہ کسی مختار نامی شخص سے پوچھو کہ یہ سامان کہاں جا رہا ہے۔ یہ ایک بڑے پیمانے کی بدعنوانی تھی۔ چھوٹے پیمانے پر کیا کچھ ہو رہا ہے، کسی کے ریکارڈ میں نہیں ہے۔
ملک میں جس قدر تباہی آئی ہے، اس کا درست تخمینہ تو آئندہ آنے والے چند دنوں میں لگایا جا سکے گا، تاہم فی الحال جو اندازے لگائے جار ہے ہیں، اس کے مطابق لاکھوں ایکٹر زرعی اراضی پر کھڑی فصلیں سیلاب کے سبب ختم ہوچکی ہیں۔ مسمار ہونے والے اور جزوی طور پر نقصان اٹھانے والے مکانات کی تعداد لاکھوں میں بتائی جا رہی ہے۔ لائیو سٹاک اور وسائل کا نقصان اربوں میں ہے۔

حکومتی اندازوں کے مطابق اس سیلاب سے گلگت بلتستان، جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے تقریباً تین کروڑ باسی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ یہ ایک بڑی آفت ہے۔ کسی بھی انسان کا کل اثاثہ اس کی جان کے بعد اس کا آبائی مکان، اس مکان میں موجود وسائل زندگی ہوتے ہیں۔ اگر اڑھائی کروڑ انسان، جن میں سے اکثر خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور دو وقت کی روٹی کماتے ہیں، اپنے ان وسائل سے محروم ہوگئے ہیں تو یہ ایک بڑی مصیبت ہے، جس کے معاشرے پر اثرات بدیہی ہیں۔ عوامی نقصانات ایک جانب انفراسٹرکچر کی تباہی اس پر مستزاد ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی ہمدردی کے امور (یو این او سی ایچ اے) نے پاکستان میں مون سون اور سیلاب کی صورتحال پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سیلاب کے نتیجے میں پاکستان میں متاثرہ اضلاع کی تعداد 116 ہے، جن میں 66 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے اور بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے سے آفت زدہ اضلاع کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ 14 جون سے اب تک کم از کم 1033 افراد جاں بحق اور 1527 زخمی ہوئے ہیں۔

ادارے کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 30 برسوں کی اوسط کے مقابلے میں حالیہ بارشیں 2.87 گنا زیادہ ہوئی ہیں۔ کچھ صوبوں میں 30 سالہ اوسط کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ بارش ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان نے دیگر امداد کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے 35 ارب (173 ملین ڈالر) مختص کیے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ موسم اور زمینی حالات امداد پہنچانے میں مشکلات کا سبب بن رہے ہیں، تاہم کئی تنظیمیں انسانی ہمدردی کے تحت سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے امداد فراہم کر رہی ہیں۔ ادارے نے آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، کیونکہ کئی علاقوں میں کیے گئے انتظامات اور انفراسٹرکچر ان شدید بارشوں کا مقابلہ کرنے میں بری طرح سے ناکام ہو رہے ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سیلاب کے اب تک نقصانات کا تخمینہ نو سو ارب روپے لگایا گیا ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ آبادی متاثر ہونے کا تخمینہ ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق اب تک ملک کے 110 اضلاع میں جانی یا مالی نقصان ہوا ہے، جہاں قریب ساڑھے نو لاکھ مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے، وہیں دیہی علاقوں میں سات لاکھ سے زیادہ مویشی بہہ گئے ہیں۔ صوبہ سندھ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں 16 اضلاع کی 49 لاکھ سے زیادہ آبادی متاثرین میں شامل ہے۔ صوبہ بلوچستان کے 34 اضلاع اور تین لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد متاثرین میں شامل ہیں۔ پنجاب میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے صوبے کے کل 8 اضلاع اور وہاں کی چار لاکھ 45 ہزار سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا کے 33 اضلاع میں سیلاب سے 50 ہزار لوگ کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان کی پہلی کھیپ آج سہہ پہر پہنچنے کی توقع ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اپیل پر یو اے ای سے امدادی سامان کی پہلی کھیپ لے کر طیارہ آج نور خان ائیر بیس پہنچے گا۔ امدادی سامان میں خیمے، خوراک، ادویات اور دیگر اشیاء ضرویہ شامل ہیں۔ی و اے ای کی طرف سے امدادی سامان لے کر مزید 15 طیارے آئندہ چند روز میں پاکستان پہنچنے کی توقع ہے۔ اسی طرح ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بھی وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو بتایا ہے کہ انھوں نے اپنے ملک کے متعلقہ اداروں کو مصیبت کی اس گھڑی میں پاکستانی بھائیوں کی مدد کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ یقیناً مدد اور ملکوں سے بھی آئے گی، تاہم گذشتہ تجربات بتاتے ہیں کہ آنے والی امداد متاثرین تک پہنچنے کے بجائے کچھ عرصے بعد مارکیٹوں میں فروخت ہو رہی ہوتی ہے۔ خیموں، ملبوسات اور وہ اشیاء جو ہنگامی صورتحال میں درکار ہوتی ہیں، ان کے مہنگے ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ متاثریں امداد کے حصول کے لیے دفتروں کے چکر کاٹتے کاٹتے تھک جاتے ہیں، جس کی کوئی سفارش ہے، وہ دو دو مرتبہ مدد وصول کرتا ہے اور جس کا خدا کے سوا کوئی نہیں، وہ امداد کے بغیر ہی رہ جاتا ہے۔

امدادی سامان اور رقوم میں بدعنوانی، ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ وہ آفت ہے، جس کا سامنا ہمیں ہمیشہ کرنا پڑتا ہے، تاہم اس موقع پر ان مخلص اور خدا خوف افراد اور تنظیموں کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے، جو مشکل حالات میں متاثرین سیلاب کی مدد کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن، مسلم ہینڈز، آئی ایس او پاکستان اسکاوٹس، جے ڈی سی، ایدھی، تحریک بیداری، امام خمینی ٹرسٹ، ماوا، ہمدرد ڈیزاسٹر مینیجمٹ سیل اور اسی طرح کے دیگر ادارے و تنظیمیں جو ملکی اور علاقائی سطح پر ہمیشہ عوامی فلاح اور خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں، لائق تحسین ہیں۔ بہت سے ادارے اور شخصیات ایسی بھی ہوں گی، جن کا ہمیں علم نہیں اور وہ خدا پرستی کے جذبے کے ساتھ سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام کر رہے ہیں۔

ہر تنظیم اور ادارہ بہرحال ایک خاص حد تک ہی مدد فراہم کرسکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان سیلاب متاثرین کی بحالی کا ایسا شفاف نظام وضع کرے، جس سے لاکھوں بے گھر ہونے والے افراد کی زندگیاں از سر نو بحال ہوسکیں۔ ہم اگر چاہیں تو اس تباہی کو ایک موقع میں بھی بدل سکتے ہیں اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کے بجائے انفراسٹکرکچر کی بہتر تعمیر کرسکتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے احساس پروگرام کی چیئرپرس ثانیہ نشتر کی سربراہی میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جو کہ خوش آئیند ہے۔ امید ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے بہن بھائیوں کی بہتر بحالی میں کامیاب ہوں گے اور گذشتہ مثالوں کو دوبارہ نہیں دہرایا جائے گا۔