غزہ میں عارضی فائر بندی، آئندہ کیا متوقع ہے؟

Published by سید اسد عباس تقوی on

syed asad abbas


تحریر: سید اسد عباس

جو کچھ غزہ میں گذشہ سات ہفتے سے جاری ہے، اسے جنگ نہیں کہا جاسکتا، جنگ دو افواج کے مابین ہوتی ہے۔ یہ یکطرفہ حملے ہیں اور ان کے مقابل کچھ دفاعی سرگرمیاں۔ سات اکتوبر کے بعد شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً پندرہ ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جو کہ ایک تخمینہ کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں کے مقتولین سے زیادہ تعداد ہے۔ کیگل ڈیٹا سیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2000ء سے ستمبر 2023ء تک فلسطین اور اسرائیل میں قتل ہونے والوں کی کل تعداد گیارہ ہزار کے قریب تھی، جن میں نو ہزار کے قریب فلسطینی شہری قتل ہوئے۔ موجودہ حملوں میں تقریباً 36 ہزار فلسطین زخمی ہوئے، 6 ہزار بچے، 4 ہزار خواتین لقمہ اجل بنیں۔

یہ اعداد و شمار فقط غزہ کے ہیں، مغربی کنارے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 229 جبکہ حماس کے حملے میں مرنے والے اسرائیلیوں کی تعداد 1200 ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں جانی نقصان کے علاوہ بے پناہ مالی نقصان بھی ہوا۔تقریباً تین لاکھ رہائشی مکانات تباہ یا متاثر ہوئے، 311 تدریسی عمارتیں تباہ یا متاثر ہوئیں، 35 میں سے 26 ہسپتال مکمل طور پر غیر فعال ہیں، 167 مساجد اور مذہبی مراکز تباہ ہوئے۔ شمالی غزہ کے 1.7 ملین شہری اس وقت جنوبی غزہ کی جانب ہجرت کرچکے ہیں۔ شمالی غزہ میں پانی، بجلی، نیٹ کی سہولیات 7 اکتوبر سے بند ہیں۔ غزہ میں 6000 کے قریب افراد کا کچھ پتہ نہیں جبکہ 200 سے کچھ زائد اسرائیلی حماس کی قید میں ہیں، جن کو 7 اکتوبر کے حملے میں قیدی بنایا گیا۔

آج بروز جمعہ یعنی 24 نومبر 2023ء کو قطر اور مصر کی ثالثی کے نتیجے میں حماس اور اسرائیل کے مایبن عارضی فائر بندی ہوئی، جو چار روز تک جاری رہے گی۔ اس فائر بندی میں یہ طے پایا ہے کہ اسرائیل شمالی غزہ میں مزید پیشرفت نہیں کرے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت اسرائیلی افواج شمالی غزہ کے شمالی، جنوبی، مشرقی اور مغربی حصے کا مکمل محاصرہ کرچکے ہیں، یعنی اس وقت شمالی غزہ سے نکلنا یا یہاں داخل ہونا اسرائیلی افواج کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اسرائیلی افواج نے غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کیا۔ اسرائیلی انٹیلیجنس اطلاعات کے مطابق حماس اور دیگر جہادی گروہوں کے مراکز زیادہ تر شمالی غزہ میں موجود ہیں۔

لہذا اسرائیل نے صلاح الدین روڈ سے غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا، اس وقت اسرائیل کی مکمل توجہ شمالی غزہ پر ہے۔ جنوبی غزہ کے بعض علاقوں پر بمباری کی گئی، تاہم شمالی غزہ کے تمام علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں ہسپتال بھی شامل ہیں، جبکہ اسرائیل کا دوسرا محاذ لبنان کی سرحد پر کھلا ہوا ہے، جہاں حزب اللہ مسلسل اسرائیلی تنصیبات پر حملہ آور ہے اور اسرائیلی بھی سرحدی دیہاتوں پر حملے کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کی ان کارروائیوں نے اسرائیل کی فوجی قوت کو عملاً دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، اگر حزب اللہ یہ حملے نہ کرتی تو اسرائیلی افواج کی مکمل توجہ غزہ پر ہوتی اور اس یکسوئی کے نتائج کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

بہرحال قطر اور مصر کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی جو درحقیقت یکطرفہ سیز فائر ہے، میں طے پایا ہے کہ فلسطینی 50 قیدیوں جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، کو گروپوں کی صورت میں رہا کریں گے، جبکہ اس کے مقابل اسرائیلی جیلوں سے 150 فلسطینی قیدیوں کو بھی گروپوں کی صورت میں رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل نے حماس کو مزید یرغمالیوں کی رہائی کی ترغیب دیتے ہوئے جنگ بندی کی مدت میں اضافے کی پیشکش بھی کی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے جنگ بندی کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ وقفہ عارضی ہے۔ فوجی ترجمان نے غزہ کے شہریوں کو کہا کہ شمالی غزہ ایک خطرناک علاقہ ہے اور شمال کی جانب سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق جنوبی غزہ سے واپس شمال کی جانب سفر کرنے والے لوگوں کو شمالی غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی اور انھیں واپس جنوب کی طرف بھیج دیا گیا ہے۔

اسرائیلوں کا کہنا ہے کہ تمام قیدیوں کی وطن واپسی تک جنگ جاری رکھی جائے گی، حماس کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مستقبل میں غزہ سے اسرائیلی ریاست کو کوئی نیا خطرہ لاحق نہ ہو۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جنگ میں عارضی وقفہ، چار روز کے لیے روزانہ صبح 10:00 شام چار بجے تک کے درمیان ہوگا۔ ان چار روز میں اسرائیلی فوج اور ان کے ٹینک غزہ کے اندر اپنی پوزیشنوں پر موجود رہیں گے۔ حماس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نہ تو کسی پر حملہ کرسکیں گی اور نہ ہی کسی کو گرفتار۔ اس جنگ بندی کے دوران میں 200 ٹرکوں کو رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔

اس عارضی جنگ بندی کے حوالے سے حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ اس معاہدے کا مقصد اپنے لوگوں کی خدمت کرنا اور جارحیت کے مقابلے میں ان کی ثابت قدمی کو مضبوط بنانا ہے۔ ساتھ ساتھ حماس نے خبردار کیا ہے کہ ہماری انگلیاں (بندوق کے) گھوڑے پر ہیں اور ہمارے فاتح جنگجو اپنے لوگوں کے دفاع اور (اسرائیلی) جارحیت کو شکست دینے کے لیے تیار رہیں گے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ دوحہ میں آپریشنز روم براہ راست اسرائیل، حماس کے سیاسی دفتر اور ہلال احمر کے ساتھ رابطے میں رہے گا، جس دوران معاہدے میں کسی بھی خلاف ورزی پر دونوں فریقین سے فوراً بات چیت ہوگی، تاکہ عملدرآمد دوبارہ یقینی بنایا جاسکے۔ امریکی صدر بائیڈن سمیت بہت سے ممالک نے اس عارضی وقفہ کو خوش آئند قرار دیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ عارضی وقفہ مستقل حل کی جانب ایک اہم پیشرفت ہوگا۔

جنگ کی صورتحال اور اسرائیلی افواج کی غزہ میں پیشرفت نیز نیتن یاہو کے 7 اکتوبر کے بعد کے بیانات کو مدنظر رکھا جائے تو شاید اس وقت اسرائیلی جنگ بندی کے لیے بالکل آمادہ نہ تھے، تاہم عالمی دباؤ، بالخصوص امریکی اور یورپی دباؤ، داخلی طور پر اسرائیلی قیدیوں کے خانوادوں کا دباؤ اس بات کا باعث بنا کہ بادل نخواستہ نیتن یاہو نے اس عارضی سیز فائر کو قبول کیا، تاہم ساتھ ہی اسرائیلی افواج اور حکومت نے واضح پیغام دیا کہ ہم یرغمالیوں کی واپسی نیز حماس اور مستقبل کے کسی خطرے کے خاتمے تک جنگ ختم نہیں کریں گے۔

مصر کے حاکم جنرل سیسی نے اپنے ایک بیان میں غیر مسلح فلسطین کی بات کی ہے، شاید اسرائیل یہی چاہتا ہے کہ اس کے مغرب میں واقع غزہ میں کوئی فوجی قوت موجود نہ ہو، مغربی کنارے کی مانند غزہ میں بھی ایک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے، جس کے پاس دفاع کی صلاحیت نہ ہو۔میرے خیال میں یہ عارضی جنگ بندی مزید کچھ دن آگے بڑھ جائے گی، تاہم یہ غزہ میں جاری موجودہ صورتحال کا کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ کشت و خون میں وقتی تعطل اگرچہ سکون بخش ہے اور اس میں آئندہ کے امن کے لیے کوشش کرنے کے امکانات موجود ہیں، تاہم حماس کو اس عارضی تعطل سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہییں۔ اسرائیل کی موجودہ جارحیت آزاد فلسطین کے خلاف فیصلہ کن جارحیت ہے۔

اسرائیل کی خواہش تھی کہ حماس کو عالمی دہشت گرد قرار دیا جائے اور یورپی یا کم از کم امریکی عملاً اس جنگ کا حصہ بنیں، لیکن اسے اس کوشش میں کامیابی نہ ہوئی، تاہم اسرائیل ابتداء سے کہتا رہا ہے کہ اسے یہ جنگ تنہاء بھی لڑنی پڑے تو وہ ضرور لڑے گا۔ اسرائیل جانتا ہے کہ حماس آزاد فلسطین کی دفاعی لائن ہے، جسے وہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کو غیر عسکری، اتھارٹی کے تحت زندہ رہنے والے فلسطینیوں سے کوئی شکایت نہیں، اس کا مسئلہ حماس کے حملے اور اس کے راکٹ ہیں اور طوفان الاقصیٰ آپریشن کو سامنے رکھ کر وہ چاہتا ہے کہ ان راکٹ حملوں کا ہمیشہ کے لیے سدباب کرے۔ اس جنگ کے ابھی اور بھی کئی عسکری، نیم عسکری اور غیر عسکری مراحل ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک ہیں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
https://albasirah.com/urdu/aik-hain-muslim-haram/

بشکریہ اسلام ٹائمز
طوفان الاقصیٰ آپریشن کو سامنے رکھ کر وہ چاہتا ہے کہ ان راکٹ حملوں کا ہمیشہ کیلئے سدباب کرے۔ اس جنگ کے ابھی اور بھی کئی عسکری، نیم عسکری اور غیر عسکری مراحل ہیں، جو وقت کیساتھ ساتھ سامنے آئیں گے۔