فلسطینی کیا کرتے ،تازہ صورتحال؟

Published by fawad on

ڈاکٹر سید علی عباس

ڈاکٹر سید علی عباس نقوی صدر نشین البصیرہ

اسرائیل پر طوفان الاقصی نام سے جاری حملوں کے بارے میں بہت سے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔ آج فلسطینی جدوجہد اپنی بقا کی جنگ ہے۔ جو لوگ آج یہ سوال کر رہے ہیں کہ جاری جنگ کس نے شروع کی ہے۔ وہ اسرائیل کی تاریخ سے آگاہ نہیں ہیں بلکہ وہ تاریخ کو کھرچ کر غائب کر دینا چاہتے ہیں۔غاصب اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔

فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انھیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کردیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔جب 2006 میں حماس نے الیکشن جیت لیا تو اسرائیل نے ناجائز طور پر غزہ کا محاصرہ کر لیا۔ سترہ سال سےجاری اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے 23 لاکھ لوگ بنیادی اشیائے ضرورت سے محروم ہیں۔

غزہ کے اس لمبے محاصرے کی وجہ سے غزہ میں صحت کے بھی غیر معمولی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ مریض علاج کے لیے بھی غزہ سے باہر نہیں جا سکتے ، نہ ان کے لیے ادویات کی فراہمی ممکن ہوتی ہے۔اسرائیل کی طرف سے زیر محاصرہ غزہ پر ۲۰۰۷ کے بعد سےبار بار جنگ مسلط کی گئی۔ بمباری کی گئی اور ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ جبکہ دسیوں ہزار مکانات تباہ کیے۔غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کردیا ہے۔

وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کردیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جوکہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سےاب تک پانچ ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے ۔ اسی طرح خواتین بھی بڑی تعداد میں شہید ہوئیں ۔

پندرہ ہزار کے قریب افراد زخمی ہیں دس لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔طوفان الاقصی ہمارے قومی غصے کا اظہار ہے اور ہمارے جنگجو اسی سبب اب پھٹ پڑے ہیں یعنی تنگ آمد بجنگ آمد کی صورتحال ہے۔ ان حالات میں سوال کرنے والے فلسطینیوں سے کیا توقع رکھتے ہیں،یہی کہ فلسطینی اسرائیلی محاصرے اور مسلط کردہ موت کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ تاکہ یہودی آباد کارانھی ںاچ زندہ جلا دیں یا اسرائیلی مسجد اقصی کو ہی شہید کر دیں۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ سے اسرائیل کیا چاہتا ہے؟
https://albasirah.com/urdu/ghaza-jang-israel/