Skip to content

بے قرار دل تو کربلا میں ہیں

جوں جوں اربعین حسینی نزدیک آرہا ہے، ساری دنیا سے بے قرار دلوں کا رُخ کربلا کی طرف ہوگیا ہے۔ کرونا کی وبا کا یہ دوسرا برس ہے۔ اس وبا کے بعد سے پوری دنیا کے معاملات درہم برہم ہوچکے ہیں۔ بڑے بڑے طاقتور ملک اس آسمانی بلا کے سامنے بے بس ہوگئے ہیں۔ زمینی ٹریفک کبھی جام ہو جاتی ہے اور کبھی رینگنے لگتی ہے۔ آسمانی ٹریفک بھی کبھی پرواز کا ارادہ کرتی ہے اور کبھی اس کا حوصلۂ پرواز مدہم پڑ جاتا ہے، لیکن عشق کے معمولات وہی ہیں بلکہ جب غم ہجراں کی آنچ تیز ہوتی ہے تو بے قراری سِوا ہو جاتی ہے۔ دو سال پہلے تو نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ یوں لگتا تھا کہ سب راستے کربلا کو جاتے ہیں۔ کروڑوں انسان ہزاروں رکاوٹیں عبور کرکے کربلا جا پہنچے تھے۔ اربعین حسینی دنیا کے لیے ایک نیا عالم گیر عنوان بن کر ابھر آیا تھا۔ اربعین حسینی ویسے تو شہادت کبریٰ کے بعد سے خانوادہ نبوت کے مریدوں اور عاشقوں کے لیے ظلم یزیدی کے خلاف احتجاج و عزاء کا عنوان رہا ہے، لیکن رفتہ رفتہ یہ روز روز عاشورہ کی مانند دنیا بھر میں عزادارانِ حسینی کے لیے اظہار جذب و عشق کے باقاعدہ اور منظم عوامی سلسلوں کا ایک روز بن گیا۔ بے قرار دل تو کربلا میں ہیں

سفر اربعین کے ناقابل فراموش تجربات(1)

2016ء میں مجھے اربعین حسینی کے موقع پر کربلا جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ عراق گیا تو عشق امام حسین ؑ میں تھا، تاہم دل نجف میں ہار آیا۔ یہ ایک کیفیت ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ مجھے زیادہ عرصہ نجف اشرف ہی رہنے کا موقع ملا، تقریبا 9 روز روزانہ میرا یہ معمول تھا کہ میں اپنی اقامت گاہ سے پیدل حرم امیر المومنین علیہ السلام کی جانب چل پڑتا تھا، وہاں سارا دن بیٹھا رہتا۔ کبھی ایک ہال میں، کبھی دوسرے ہال میں، کبھی ایک صحن میں، کبھی دوسرے صحن میں۔ کبھی حرم مطہر کے باہر کی دنیا کو محسوس کرتا۔ واقعات کا ایک اژدہام تھا جو میرے اردگرد وقوع پذیر ہو رہا تھا اور میں اس سب کو جذب کرنے کی ناکام کوشش میں تھا۔ سفر اربعین کے ناقابل فراموش تجربات(1)

طالبان کی آمد اور بھارت کی گرم سرد پھونکیں

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے حوالے سے مختلف ملکوں، قوموں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف انداز سے تبصرے کر رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا تناظر ہے اور اپنے اپنے مفادات۔ خود طالبان نے بھی لوگوں کو اپنے بارے میں سوچنے پر لگا رکھا ہے۔ سب یہ تو سوچ ہی رہے ہیں کہ کیا یہ پہلے والے طالبان ہیں یا کچھ نئے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ انھوں نے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے، ہیں یہ پہلے والے ہی اور بعض کا خیال ہے کہ وہ بدلے بدلے سے ہیں، اب کے ان کے خیالات کچھ مختلف ہیں، کچھ کام بھی قدرے مختلف کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ سے بھی امید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لوٹ آئے گا اور اب کے ان کے ساتھ تعاون کرے گا۔ انھیں یہ بھی توقع ہے کہ اب ساری دنیا انھیں تسلیم کرے گی، کیونکہ بزعم خویش وہ تبدیل ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دوحہ میں مختلف طرح کے وعدے بھی کیے ہیں۔ طالبان کی آمد اور بھارت کی گرم سرد پھونکیں

افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(2)

طالبان نے افغانستان کے امور کو چلانے کے لیے اپنی 34 رکنی کابینہ کا اعلان کر دیا ہے، جس کا تعارف گذشتہ قسط میں پیش کیا گیا۔ اس کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے دنیا بھر میں جو اعتراض اٹھا، یہی تھا کہ اس کابینہ میں افغانستان کے تمام لسانی، علاقائی اور مذہبی گروہوں کو نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت عبوری دور کے لیے ہے۔ طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ ہم افغانستان میں ایسی حکومت تشکیل دیں گے، جس میں افغانستان کی تمام قومیتوں، مسالک اور گروہوں کی نمائندگی ہوگی۔ افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(2)

افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(1)

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے 23 دن بعد افغان طالبان کے ترجمان نے وزیراعظم اور ان کے دو معاونین سمیت طالبان کی 34 رکنی عبوری کابینہ اور حکومت کا اعلان کیا، جس میں 20 وزراء اور سات نائب وزراء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فوج اور افغان مرکزی بینک کے سربراہ سمیت حکومت کے ڈائریکٹر برائے انتظامی امور کا بھی تقرر کیا گیا ہے۔ ان 34 عہدوں میں تین افراد کے علاوہ تمام پشتون النسل مرد افغان ہیں اور کابینہ میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا۔ طالبان کی اس نئی حکومت اور کابینہ میں 15 افراد کا تعلق جنوبی افغانستان سے، 10 کا جنوب مشرقی، پانچ کا مشرقی اور تین کا شمالی افغانستان سے ہے۔ ملا ہبت اللہ اخونزادہ کو افغان حکومت میں رہبر یا امیر المومنین کی حیثیت حاصل ہے جبکہ ملا حسن اخوند افغانستان کے نئے وزیراعظم، ملا عبدالغنی برادر اور مولوی عبدالسلام حنفی کو نائب وزرائے اعظم مقرر کیا گیا ہے۔ افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(1)

9/11 کمیشن رپورٹ اور پاکستان

منگل گیارہ ستمبر 2001ء موجودہ صدی کا ایک اندوہناک دن تھا۔ ظاہراً تو اس روز دو امریکی عمارتیں جن کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، القاعدہ کے ایک فضائی حملے کے نتیجے میں زمین بوس ہوئیں، جس میں جاں بحق ہونے والوں کی کل تعداد 2996 تھی، تاہم اس حملے کے اثرات پوری دنیا میں دیکھنے کو ملے۔ عراق، افغانستان اور پاکستان تو آج بھی اس حملے سے اثرات سے گذر رہے ہیں، حالانکہ ان ممالک کا ایک بھی شہری ان حملوں میں ملوث نہ تھا۔ آج دنیا 9/11 کو یاد کرتی ہے، تاہم کسی کو 10/7 جب امریکی افواج 2001ء میں افغانستان میں داخل ہوئیں اور 3/20 جب امریکی فوجیں 2003ء میں عراق میں داخل ہوئیں، کسی کو یاد نہیں ہے۔ اگر جانی اور مالی نقصان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو عراق اور افغانستان میں ہونے والا نقصان امریکہ میں ہونے والے جانی و مالی نقصان سے بہت زیادہ ہے۔ اس حملے کے حوالے سے بہت سی تھیوریز اور حقائق سامنے آئے، جو وقت کے ساتھ ساتھ غائب ہوگئے یا غائب کر دیئے گئے۔ 9/11 کمیشن رپورٹ اور پاکستان

سید علی گیلانی آزادی و حریت کی ایک توانا آواز

سید علی گیلانی کی رحلت فقط مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام حریت پرست انسانیت کے لیے ایک سانحہ ہے، یہ ایک بہت بڑے شخص کا سانحہ ارتحال ہے۔ 92 برس کی زندگی میں سید علی گیلانی نے 14 برس کی باقاعدہ قید کاٹی اور 12 برس سید علی گیلانی گھر میں نظر بند رہے، جو ایک طرح کی قید ہی ہے۔ پس آزادی اور بڑے انسانی مقاصد کی خاطر قید رہنے والے افراد میں سید علی گیلانی کا ایک بڑا نام ہے۔:
سید علی گیلانی اپنے بڑے ہدف اور مقصد کی خاطر تقریباً 26 برس قید رہے۔
سید علی گیلانی آزادی و حریت کی ایک توانا آواز

افغانستان کا معمہ اور عربوں کی چپ

افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال، طالبان کا بدلا ہوا رویہ اور اسلامی ممالک بالخصوص عرب دنیا جو کہ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے اور امریکہ کے جہاد افغانستان میں فعال کردار کے وقت سے افغان امور میں دخیل تھی، اس کی خاموشی، ایسے امور ہیں، جس نے حالات حاضرہ اور بالخصوص خطے کے مسائل میں دلچسپی لینے والے اذہان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ تجزیہ کاروں کو اس وقت تک یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اچانک کیسے طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود عوامی حکومت کیسے ایک دم سے زمین بوس ہوگئی۔ امریکہ اور نیٹو کی تربیت یافتہ فوج اپنے جدید ترین ہتھیار زمین پر رکھ کر چلتی بنی اور طالبان نے دنوں میں پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ آیا یہ طالبان کا خوف ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور چند دیگر ممالک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تربیت یافتہ افواج کسی کرپٹ نظام کے لیے نہیں لڑ سکتی تھیں۔ لہذا افغانستان طالبان کے سامنے لمحوں میں زیر ہوگیا۔ افغانستان کا معمہ اور عربوں کی چپ

اپ ڈیٹڈ طالبان، ایرانی پریس اور بی بی سی کا تجزیہ

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا کہنا ہے کہ ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ اور اکثر جرائد، رسائل اور ٹی وی چینلز پر طالبان کی ایک معتدل تصویر پیش کی جا رہی ہے۔ ان کے خیال میں نشر و اشاعت کے کئی ادارے تو طالبان کو ایرانی عوام کو اپنا حامی بنانے اور اپنی صفائیاں پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ طالبان حکام ایرانی نشریاتی اداروں کو مسلسل انٹرویوز دے رہے ہیں اور کم از کم دو مواقع پر طالبان کے رہنماؤں کے انٹرویو براہ راست نشر کیے گئے ہیں، جن میں وہ ایران کے عوام کو اس بات پر قائل کرتے نظر آئے کہ انھوں نے ماضی کی اپنی روش کو ترک کر دیا ہے۔ کیہان اور پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے اخبار جوان کے بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ دونوں ادارے اِس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں۔ اپ ڈیٹڈ طالبان، ایرانی پریس اور بی بی سی کا تجزیہ

افغانستان عالمی طاقتوں کا قبرستان کیوں ہے؟

دنیا کی کوئی بھی طاقت افغانستان میں امن و استحکام نہیں لا سکتی، جو کہ تاریخ میں عالمی قوتوں کے قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ الفاظ ہیں عالمی طاقت امریکہ کے صدر کے، جن کی ریاست بیس برس افغانستان میں خرچ کرکے یہاں سے چلتی بنی ہے۔ پاکستان کے لکھاری عدنان خان کاکٹر اس نظریئے کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ تاریخ انسانی کی پہلی بڑی سلطنت ایرانی بادشاہ سائرس (کوروش اعظم) کی تھی۔ اڑھائی ہزار سال پہلے وہ پہلا بادشاہ تھا، جس نے شہنشاہ کا لقب اختیار کیا یعنی شاہوں کا شاہ۔ افغانستان سائرس کی ہخامنشی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ اسی طرح سکندر اور اس کے بعد اس کے مشرقی جانشین سلیوکس اور دیگر یونانی بادشاہوں نے طویل عرصے تک افغانستان پر حکومت کی۔ چندر گپت موریہ اور اس کے جانشین موجودہ افغانستان ٹیکسلا اور پاٹلی پتر کے موریہ پر حاکم تھے۔ ساسانی بادشاہ بھی افغانستان پر قابض رہے۔ اموی دور حکومت میں افغانستان کا علاقہ خراسان میں شامل تھا۔ سمرقند اور بخارا کے سامانی بادشاہ افغانستان پر قابض رہے، ان کا ترک گورنر الپتگین اس وقت غزنی کا حاکم تھا، جو خود مختاری کا اعلان کر دیتا ہے۔ یوں غزنوی سلطنت قائم ہوئی۔ افغانستان عالمی طاقتوں کا قبرستان کیوں ہے؟

saqib akhbar

افغانستان، امریکہ کی تربیت یافتہ ایک اور فوج کا عبرتناک انجام

یکم جون 2021ء کو افغانستان میں طالبان نے اپنی نئی معرکہ آرائی کا آغاز کیا۔ 8 جون کو اسلام ٹائمز پر شائع شدہ اپنے ایک کالم ’’طالبان کی مسلسل پیش قدمی اور افغانستان کا مستقبل‘‘ میں ہم نے لکھا تھا: ’’گذشتہ چند دنوں میں افغانستان میں طالبان نے پے در پے فتوحات حاصل کی ہیں۔ انھوں نے بہت سے چھوٹے بڑے قصبوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سرکاری فوجیں پسپا ہو رہی ہیں۔ کابل میں ایک تشویش و اضطراب کا عالم ہے۔ برسراقتدار سیاستدان اپنے حامیوں میں اسلحہ تقسیم کر رہے ہیں۔ انھیں کسی بھی وقت توقع ہے کہ طالبان کابل کا محاصرہ کر لیں گے۔ اگرچہ طالبان نے ابھی تک بڑے شہروں میں سے کسی پر قبضہ نہیں کیا، لیکن سرکاری فوجوں کی جو نفسیاتی کیفیت سامنے آرہی ہے، اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بڑی جنگ کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ وہ حکومتی عہدیدار جو پشتون قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔‘‘ افغانستان، امریکہ کی تربیت یافتہ ایک اور فوج کا عبرتناک انجام