تحریک لبیک کا مطالبہ اور بوسیدہ ریاستی مشینری

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

تحریک لبیک پاکستان ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت تحریک لبیک کیساتھ ہونیوالے معاہدے پر عمل کرے۔ حکومت پاکستان اور تحریک لبیک کے مابین ہونیوالےمعاہدے کا اہم ترین مطالبہ یہ ہے کہ حکومت فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجے اور فرانسیسی سفارتخانے کو بند کرے، یہ مطالبات اس وقت سامنے آئے جب فرانسیسی جریدے چارلی ہبڈو نے رسالت ماب ؐ کا نعوذباللہ استہزاء کرنے کی غرض سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا اور فرانسیسی صدر نے اس اشاعت کا سیاسی آزادی کے نام پر دفاع کیا۔

ان کے دیگر مطالبات میں تحریک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی، مقدمات کا خاتمہ، فورتھ شیڈول میں موجود اراکین کو فورتھ شیڈول سے نکالنا اور تنظیم کو کالعدم تحریکوں کی فہرست سے نکالنا شامل ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تحریک لبیک نے معاہدے پر حکومت کی جانب سے عملدرآمد نہ کروانے کے سبب اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کال دی ہے۔

جب تحریک لبیک کا کاروان لاہور سے نکلا تو ریاستی اداروں نے انھیں روکنے کی کوشش کی جس کے بعد تحریک کے کارکنان اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وزیر اعظم عمران خان جو اس وقت سعودیہ کے دورے پر تھے، نے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کو تحریک لبیک سے مذاکرات کیلئے بھیجا۔ وزیر داخلہ نے تحریک کی شوری سے دو روز کی مہلت مانگی اور دو روز بعد وزیر داخلہ نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ہمارے لیے فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنا، سفارتخانہ بند کرنا یا اس حوالے سے قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کرنا ممکن نہیں، جبکہ باقی مطالبات پر پیشرفت کیلئے حکومت آمادہ ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ فرانس یورپی یونین کا اہم رکن ہے اور اس کیخلاف کوئی اقدام پاکستانی معیشت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یورپی یونین پاکستان کے ساتھ اپنے تمام تر تجارتی معاہدے ختم کر دے جس کیلئے پاکستان کی کمزور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے۔ معاشی نقصان کی بات انتہائی منطقی ہے، شاید اسی لیے دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک نے یہ انتہائی قدم نہیں اٹھایا اور فقط سفارتی احتجاج پر ہی اکتفاء کیا، لیکن یہ دو جمع دو کی منطق ان لوگوں کو سمجھائی جا سکتی ہے جو اس طرح کے حساب کتاب سے تعلق رکھتے ہیں۔

جن لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، تربیت و تعلیم ہی فقط لبیک یا رسول اللہ ؐ ہو اور اپنے رسول ؐ کی ناموس کو وہ اپنی جانوں سے مقدم سمجھتے ہوں نیز اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے ہوں کیلئے یہ دو جمع دو کی منطق ایمان کے ضعف کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ رسالت مابؐ کی شان میں مغربی جرائد اور اخبارات کی گستاخی کا مسئلہ پوری امت کا مسئلہ ہے، جس پر امت میں کہیں اتنا شدید ردعمل دیکھنے میں نہیں آتا جتنا پاکستان میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس ردعمل کی ایک وجہ پاکستانی قوم کا مزاج اور رسول اللہ ؐ سے ان کی والہانہ محبت ہے۔ پاکستان میں متعدد مکاتب فکر آباد ہیں جن میں اہلسنت والجماعت بالخصوص بریلوی مکتب فکر کے علماء اور عوام سب سے زیادہ عشق رسول ؐ کے دعویدار ہیں۔ اسی سبب اس مکتب کیلئے رسالت ماب ؐ کی شان میں گستاخی ایک ریڈ لائن ہے۔ یہ گستاخی کوئی فرد کرے یا ملک، بریلوی مکتب کے لوگ مرنے مارنے کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے علم میں ہے کہ صوبہ پنجاب کے گورنر اسی گستاخی کے الزام کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور ان کا قاتل جو ایک سرکاری ملازم بھی تھا، عدالت سے سزا پانے کے باوجود اس وقت غازی کے درجے پر فائز ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ گستاخی رسول ؐ کے الزام کے حوالے سے پاکستان میں اکثر و بیشتر بحث کا سلسلہ چلتا ہے اور روشن فکر لوگوں کی جانب سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کی جانی چاہیے تاکہ کو ئی بے گناہ فرد اس کا نشانہ نہ بنے جبکہ تحفظ ناموس رسالت کا نعرہ لگانے والے ناموس رسالت کے قانون کے بارے بات کرنیوالوں کی کوئی بات سننے کیلئے آمادہ نہیں اور اسے عالمی سازش گردانتے ہیں۔

درج بالا حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ موجودہ مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ سے زیادہ ایک نظری، سماجی اور معاشرتی مسئلہ ہے، اور ہماری ریاست اسے عجیب و غریب انداز سے حل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ ریاستی ادارے تحریک لبیک کیخلاف وہ تمام حربے استعمال کر رہے ہیں جو عموما دیگر تنظیموں کیخلاف کسی حد تک کامیاب رہتے ہیں، جیسا کہ تنظیم کو کالعدم قرار دینا، تنظیم کے اثاثوں کو منجمد کرنا، دفاتر کو سیل کرنا، تنظیم کے اراکین اور قائدین کو فورتھ شیڈول میں ڈالنا، مقدمات قائم کرنا وغیرہ لیکن شاید ان اداروں کو اندازہ نہیں کہ قومیں کوئی جانوروں کا ریوڑ نہیں ہوتی ہیں کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں فرقہ واریت کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت نے اسی فورتھ شیڈول، مقدمات، اثاثوں کے انجماد اور دفاتر کے سیل کرنے کا سلسلہ شروع کیا، مرنے والوں اور مارنے والوں دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آج ملت تشیع پاکستان کے بہت سے جید علماء جن کا شاید سیاست سے تعلق بھی نہ تھا، سیاسی شخصیات اور کارکنان اسی فورتھ شیڈول کا شکار ہیں، حالیہ محرم الحرام اور صفر المظفر میں مذہبی رسومات پر غیر آئینی قدغن لگائی گئی اور مجالس سید الشہداء اور مشی (یعنی پیدل چل کر جلوس عزا تک جانا) کے آئینی حق کیخلاف سینکڑوں لوگوں کیخلاف مقدمات قائم کیے گئے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ریاستی مشینری کا امور کو چلانے کا یہ انداز بوسیدہ بھی ہے اور خطرناک بھی، اس انداز سے کبھی بھی معاملات بہتر نہیں ہو سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں کالعدم ہونیوالی جماعتیں نئے ناموں کیساتھ کام کر رہی ہیں۔ فورتھ شیڈول کی فہرستوں میں آج وہ نام بھی ہیں جو اب زندگی کی سرحدوں سے باہر جا چکے ہیں، اس وقت کے قائم کردہ مقدمات اب تک چل رہے ہیں اس کے باوجود فرقہ واریت کا بازار آج بھی گرم ہے اور بالخصوص محرم الحرام کے ماہ میں خطرہ ہوتا ہے کہ ایک ہلکی سی چنگاری اچانک ملک کو لپیٹ میں لے لے گی۔ یہ ریاستی مشینری کے نظام کی بوسیدگی کی علامت ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آج جب تحریک لبیک کیخلاف استعمال کیے جانیوالے تمام حربے ناکام ہو چکے اور عوامی دباؤ میں اضافہ ہوا تو ریاستی مشینری اپنے تمام تر فیصلے کالعدم کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ فورتھ شیڈول، مقدمات، گرفتاریاں، کالعدم کا دھبہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، جو نوے کی دہائی سے اب تک اس سب کا شکار ہونے والوں کیلئے واضح پیغام ہے کہ آپ بھی ایسا ہی دباؤ لائیں تو ہی حکومت اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے گی۔

خود قرآن نے ان کو "قَوْمًا لُّدًّا” کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جس کے معنی جھگڑالو قوم کے ہیں اور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا ہے کہ "لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ” (اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کر ڈالتے جب بھی ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ نہیں سکتے تھے)۔‘‘ امین اصلاحی صاحب کے مطابق رسول اکرم ؐ نے فقط 23 برس کے عرصے میں اسے غیر منظم، بے شعور قوم کو منظم اور باشعور قوم بنا دیا۔ امین اصلاحی اپنے مقالے میں مزید تحریر کرتے ہیں: ’’اس تنظیم و تالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانی تنظیم تھی۔ اس کے پیدا کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے نہ تو قومی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام لیا، نہ دنیوی مفادات کا کوئی لالچ دلایا، نہ کسی دشمن کے ہوّے سے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے بڑے مدبر اور سیاست دان گزرے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انہی محرکات سے کام لیا ہے۔

اگر ریاستی مشینری کے نظام کی بوسیدگی کو بروقت ٹھیک نہ کیا گیا تو وطن عزیز کسی بھی خطرناک صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اس وقت ایک خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اگر حکومت وقت جیسا کہ اطلاعات ہیں رینجرز کے ذریعے تحریک لبیک کے کارکنوں کیخلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے تو یہ آگ پورے ملک کو لپیٹ میں لے لی گی۔ موجودہ صورتحال کا واحد حل مذاکرات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حکومت تحریک لبیک کے کارکنان کو یقین دہانی کروا سکتی ہے کہ ہم فرانس کا مسئلہ عالمی عدالت انصاف میں لے کر جائیں گے، یا اس کو کسی ایسے مناسب فورم پر اٹھائیں گے جہاں حکومت فرانس کو اپنے کیے پر معافی مانگنی پڑے۔ عدم اعتماد کی فضا کو بہتر بنانے کیلئے ان میں سے افراد کو اس کام پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے حل ہو سکتے ہیں جن پر تحریک لبیک کو آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر بے دریغ طاقت کا استعمال نہ ملک کے فائدے میں ہے نہ ہی حکومت کے۔ لہذا دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا جائے اور بوسیدہ مشینری کے بجائے ذہین دماغوں کو جو سماج اور اس کی کیفیات سے آگاہ ہوں کو استعمال کرتے ہوئے اس ڈیڈ لاک کا حل تلاش کیا جائے۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز