بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اور ہم

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

انسانی ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حوالے سے قوانین، قراردادوں، اداروں اور پابندیوں کے سلسلے کے باوجود کیا دنیا سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا خاتمہ ہوسکے گا یا نہیں۔؟ اس سوال کا سادہ ترین جواب ہے کہ نہیں۔ دنیا ہتھیاروں کو کوستی بھی رہے گی، ان پر پچھتاتی بھی رہے گی، اس کے بارے میں قوانین بھی بناتی رہے گی، تاہم اس وقت تک ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتی، جب تک ان کے ذہنوں سے تسلط، عدم اعتماد اور سبقت لے جانے کی فکر محو نہیں ہوتی۔ ابھی حال ہی میں روس نے ایک سیٹلائیٹ شکن میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ اس میزائل نے خلا میں 420 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنی ہی ایک ناکارہ سیٹلائیٹ کوسموس کو نشانہ بنایا۔ اس دھماکے کی وجہ سے سیٹلائیٹ کے 1500 کے قریب ٹکڑے پوری خلا میں پھیل گئے، جس کے سبب عالمی خلائی مشن آئی ایس ایس خطرے سے دوچار ہوگیا اور اس پر موجود خلابازوں، جن میں دو روسی خلا باز بھی تھے، کو حفاظتی کیپسول میں جانا پڑا۔

اس واقعہ پر ردعمل دیتے ہوئے ناسا کے منتظم بل نیلسن نے کہا کہ روس کی انسانوں کی خلائی پروازوں کی طویل تاریخ کے پس منظر میں یہ انتہائی حیران کن ہے کہ روس نہ صرف امریکی بلکہ اپنے خلا بازوں کو بھی خطرے میں ڈالے گا یا چین کے خلائی سٹیشن میں موجود عملے کو خطرے میں ڈالے گا۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بریفنگ میں کہا کہ آج روسی فیڈریشن نے لاپرواہی کے ساتھ ایک براہِ راست اینٹی سیٹلائٹ میزائل کا ٹیسٹ کیا اور اپنے ہی ایک سیٹلائٹ کو تباہ کیا۔ اس ٹیسٹ سے اب تک 1500 ٹکرے مدار میں آچکے ہیں جو کہ تمام ممالک کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔ امریکی ترجمان کا کہنا تھا کہ روسی اقدامات یہ واضح کرتے ہیں کہ خلا کو ہتھیاروں سے پاک رکھنے کے روسی دعوے منافقانہ اور غیر سنجیدہ ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس غیر ذمہ دارانہ اقدام کا جواب دے گا۔ برطانیہ کے وزیرِ دفاع بن والس نے کہا ہے کہ یہ ٹیسٹ خلا میں سکیورٹی، تحفظ اور استحکام کے سلسلے میں عدم احساس کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس ٹیسٹ سے تباہ شدہ ٹکرے کئی برسوں تک مدار میں رہیں گے اور سیٹلائٹس اور انسانوں کے خلا میں سفر کے لیے خطرہ رہیں گے۔

روس کسی بھی سیٹلائیٹ کو تباہ کرنے والا پہلا ملک نہیں ہے، اس سے قبل چین 2007ء میں اور امریکہ 2008ء میں ایسے ہی میزائل تجربے انجام دے چکے ہیں۔ لہذا جس منافقت کا ذکر امریکی ترجمان آج کر رہے ہیں، اس کا ارتکاب خود امریکی 2008ء میں کرچکے ہیں۔ دنیا کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی توسیع اور ان کے استعمال کے حوالے سے امریکہ کی تاریخ کچھ اتنی اچھی نہیں ہے۔ دنیا میں انسانوں پر کیا جانے والا پہلا ایٹمی دھماکہ امریکہ نے ہی کیا، اسی طرح انسانوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی امریکہ کے ہی کھاتے میں آتا ہے۔ الجزیرہ پر شائع ہونے والے ایک انفوگرافکس کے مطابق دنیا میں اس وقت 32 ممالک نیوکلئیر ٹیکنالوجی کو مختلف مصارف کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جس میں سے 9 کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں۔ یہ خبریں پڑھ کر انسان کو حیرت ہوتی ہے کہ انسان کس جانب ترقی کر رہا ہے۔

مدر آف بمبز، فادر آف بمبز، نیوکلیئر بمب، ہائیڈروجن بمب، فاسفورس بمب، کیمیائی بمب، بلاسٹک میزائل، ڈائنامائیٹ، اورنج ایجنٹ نیز نہ جانے کیسے کیسے مہلک ہتھیار انسان تخلیق کر رہا ہے، جس کا مقصد دوسرے انسانوں کو معدوم کرنا ہے۔ ابھی نہیں معلوم کہ اور کیسے کیسے ہتھیار سامنے آنے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہماری دنیا کے سائنس دان بھی عجیب معمے کا شکار ہیں، ان کی تخلیقی صلاحیت ان کو نئی ایجاد کی جانب مائل کرتی ہے اور ان کی تباہ کن ایجادات کا استعمال ان کو پچھتاوے کی گہری وادیوں میں لے جاتا ہے۔ پہلا ایٹم بمب بنانے والے سائنسدان رابرٹ اوپین ہائمر زندگی بھر اپنی ایجاد پر پچھتاتے رہے، وہ ہائیڈروجن بمب، ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے مخالف رہے، تاہم جب ان کا بنایا ہوا ایٹم بمب ہیروشیما اور ناگا ساکی پر پھینکا گیا تو وہ امریکی اٹامک کمیشن کے سربراہ تھے۔

روس کی معروف بندوق کلاشنکوف جس نے شاید ایٹم بمب سے بھی زیادہ انسانوں کی جان لی ہے، کا موجد میخائل کلاشنکوف اپنی آخری خط میں لکھتا کہ وہ اپنے آپ کو اس بندوق سے ہونے والی لاکھوں اموات کا ذمہ دار سمجھتا ہے، آرتھرگیلسٹن جس نے جڑی بوٹیاں تلف کرنے کے لیے اورینج ایجنٹ کو دریافت کیا، نہ جانتا تھا کہ یہ ایجنٹ انسانوں کے خلاف استعمال ہوگا، جس سے بانچھ پن، کینسر اور اعصابی کمزوری جیسے مسائل جنم لیں گے، ایسے ہی نوبل پرائز کا بانی الفریڈ نوبل ڈائنامائٹ کا موجد تھا، اسے اپنی اس ایجاد کا اتنا کلک تھا کہ اس نے اپنی ساری دولت ہی سائنسی ترقی کے لیے وقف کر دی اور بھی کئی ایسے سائنسدان ہیں، جو ایسے ہی پچھتاوں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے، تاہم کئی ایسے ہوں گے، جن کو اپنی تباہ کن ایجادات کا نہ کوئی دکھ ہے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو ان کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کو فقط تعلیم نہیں بلکہ تربیت کی بھی ضرورت ہے، اگر انسان میں انسانیت نہ ہو تو وہ ایسا درندہ ہے، جو اپنے ہی ہم نسلوں کو چیر پھاڑ کھاتا ہے۔ حب الوطنی، ریاستی بالادستی، ملکوں کے مابین ہتھیاروں اور طاقت کا توازن ایسے سراب ہیں، جن کے پیچھے بھاگتے بھاگتے انسان اپنی انسانیت کی حدوں کو ہی عبور کر جاتا ہے۔ اس سب کے لیے روپیہ اور پیسہ نہیں بلکہ انسانی شرف اور اس کا خون ایک ایندھن ہیں۔ جتنا سرمایہ درج بالا چیزوں کی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اگر اس کا آدھا بھی انسانوں کی بہتری اور فلاح و بہبود پر لگے تو دنیا کے بہت سے مسائل خود ہی دم توڑ جائیں۔

بشکریہ: اسلام ٹائمز