امام خمینی سے متعلق عاشق امام کی ایک منفرد تالیف

Published by سید اسد عباس on

سید اسد عباس

گذشتہ دنوں ایک انوکھی اور اچھوتی کتاب پڑھنے کا موقع ملا، انوکھی اور اچھوتی یوں کہ امام خمینی کے بارے میں لکھی جانے والی اکثر کتب ان کے ثقیل نظریات اور تحریک سے متعلق ہوتی ہیں۔ یہ ہلکی پھلکی کتاب امام کی شخصیت کے بارے تھی۔ کتاب کا نام اس کے مولف نے ’’یادوں کے اجالے (خمین سے بہشت زھراء تک)” تجویز کیا۔ کتاب کے مولف ڈاکٹر راشد عباس نقوی ہیں، جو اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:

 “یہ ان دنوں کی بات ہے جب محترمہ ڈاکٹر فاطمہ طباطبائی کی کتاب “اقلیم خاطرات” کی ایران میں بہت زیادہ مقبولیت تھی۔ یہ کتاب ایران کی اس سال کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب قرار پائی تھی۔ ایک ملاقات میں محترمہ طباطبائی نے اس کتاب کے اردو ترجمے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے اس وقت تک کتاب کا مطالعہ نہیں کیا تھا، لہذا کتاب کے مطالعہ کے بعد جواب دینے کا کہا۔ امام خمینیؒ سے میری عقیدت اور کتاب کے دلچسپ واقعات اس بات کا باعث بنے کہ میں نے دو دنوں میں نہ صرف پانچ سو صفحات سے زائد کتاب کو پڑھ لیا بلکہ ڈاکٹر فاطمہ طباطبائی کو کتاب سے متعلق اپنی رائے بھی دے دی۔ انکے لیے حیران کن بات تھی کہ میں نے اتنی جلدی کتاب کیسے ختم کر لی اور اس پر اپنی تنقیدی نگاہ بھی بیان کردی ۔۔ ۔۔۔ کتاب میں موجود امام خمینیؒ سے متعلق واقعات تاریخی، مستند، دلچسپ اور سبق آموز تھے، جسے اردو دان حلقے تک پہنچنا سود مند تھا، لہذا میں نے ان واقعات میں سے کچھ واقعات انتخاب کرکے نیز اس میں مزید اضافہ کرکے ایک نئی کتاب کی صورت میں پیش کرنے کا ارادہ کیا۔”

ڈاکٹر راشد عباس کے انتخاب کردہ واقعات پر مشتمل تالیف تقریبا 160 صفحات پر مشتمل ہے، امید ہے کہ یہ کتاب جلد شائع ہو کر قارئین تک پہنچے گی۔ اس کتاب کی خوبی جیسا کہ مولف نے بیان کی، ڈاکٹر فاطمہ یعنی ایک بیٹی اور بہو کی امام خمینی کے حوالے سے یاداشتیں ہیں، کتاب کے واقعات تاریخی اہمیت کے حامل ہیں اور عموماً ایسے واقعات دیگر کتابوں میں ذکر نہیں ہوتے۔ واقعات مستند بھی ہیں اور دلچسپ بھی، جن کو پڑھ کر رہبر انقلاب کی شخصیت کی نجی زندگی کے مختلف گوشے کھل کر انسان کے سامنے آتے ہیں۔ ڈاکٹر راشد نے اپنی گوناں گوں مصروفیات کے باوجود اس کتاب کو مرتب کیا اور اردو قارئین تک پہنچانے کے لیے سعی کی، جو بذات خود ان کی امام خمینی کی شخصیت سے محبت و عقیدت کی علامت ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب عرصہ دراز سے کوشاں ہیں، امید ہے کہ جلد وہ اس کاوش میں بھی کامیاب و کامران ہوں گے۔ اس کتاب میں مذکور چند دلچسپ واقعات جو میرے مطالعہ میں آئے، قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، تاکہ اس تحریر کو پانے کی تڑپ عاشقوں میں تیز تر ہو جائے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گھر کے ایک فرد کی جانب سے روایت ہونے والے واقعات کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ امام خمینی خدا پر توکل کا مجسم نمونہ تھے۔ بیٹے کی شہادت پر آپ کا ردعمل، گریہ نہ کرنا، اپنے معمولات کو جاری رکھنا اور پھر شہادت شہزادہ علی اکبر پر پھوٹ پھوٹ کر رونا عجیب کیفیات کو بیان کرتا ہے۔ اس کتاب میں امام خمینی کی زوجہ کے وہ واقعات بھی شامل ہیں، جو امام سے عقد کے وقت انھیں پیش آئے۔ اپنے مسلسل خوابوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خانم خدیجہ کہتی ہیں: “جس زمانے میں امام خمینیؒ میرے رشتے کے لئے آقا لواسانی کو بھیجتے رہے اور ہمارا جواب منفی میں رہا تو ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت گلی میں کہیں جا رہی تھی، میں نے اس سے پوچھا کہاں جا رہی ہو اس نے کہا حضرت زہراء (س) سے ملنے جا رہی ہوں۔ میں نے کہا مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ، اس نے کہا اٹھو چلیں، ہم اکٹھی چل پڑیں اور ایک باغ میں داخل ہوگئیں۔ باغ میں ایک قالین بچھا ہوا تھا، جس پر ایک رعب و جلال والی خاتون براجمان تھیں، جن کی آغوش میں ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا، اس خاتون نے میری تواضع میں بچے کو گہوارے میں ڈال دیا۔ بچے نے رونا شروع کر دیا۔ میں اٹھی اور بچے کو گود میں لے کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو بچہ خاموش ہوگیا۔ اس خاتون نے شربت کا ایک جام میرے سامنے رکھا، میں نے وہ جام بوڑھی خاتون کو پیش کیا مگر اس بوڑھی خاتون نے کہا نہیں یہ تمہارے لئے لایا گیا ہے۔ پس اس نے بچہ میری گود سے لے لیا اور بیٹھ گئی، اسی دوران میں خواب سے بیدار ہوگئی۔ میں نے یہ خواب اسی وقت اپنے ایک جاننے والی کو سنایا تو اس نے کہا کہ حضرت زہراء (س) نے تجھے شادی کے لئے قبول کیا ہے، تمہارا شوہر سید ہوگا اور پہلا بچہ بیٹا ہوگا۔”

کتاب کے واقعات تو دلچسپ ہیں ہی، واقعات کے عنوانات کو بھی دلچسپ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب مطالعہ کرکے یقیناً کئی لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ نوجوان ان واقعات کو پڑھ کر حیات امام سے راہنمائی اخذ کریں گے۔ یقیناً بہت سے ایسے واقعات ہیں، جن کو پڑھ کر بچے اور بچیاں نہ فقط لطف اندوز ہوں گے بلکہ سبق بھی حاصل کریں گے۔ کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس کا مطالعہ طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ ایک واقعہ پڑھ لو تو اگلا واقعہ پڑھنے کی خواہش خود بخود جنم لیتی ہے۔ اس کتاب میں بہت سے ایسے واقعات بھی شامل ہیں، جو ہم نے سن تو رکھے ہوں گے، لیکن ان کی سند ہمارے پاس موجود نہیں۔ یہ کتاب ان واقعات کی ایک سند ہے۔ مختصر یہ کہ کتاب واقعی لائق مطالعہ ہے، اس کاوش پر ڈاکٹر راشد مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اس تحریر کو یہیں ختم کرتا ہوں وگرنہ واقعات ایسے ہیں کہ ایک ایک واقعہ کا تذکرہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کتاب کی تیاری میں ڈاکٹر صاحب کو عشق کے کئی امتحانات سے گزرنا پڑا، ان میں سے ایک امتحان تالیف کے بعد کے مراحل تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش رہی ہوگی کہ یہ کتاب جلد از جلد شائع ہو اور عشاق تک پہنچے، تاہم بقول شاعر
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

بہرحال یہ ڈاکٹر صاحب کی بڑائی ہے کہ جب ایک طویل انتظار کے بعد کتاب ان کو لوٹائی گئی تو انھوں نے منیر نیازی کی پوری نظم بھیج کر اپنے قرب کا اظہار کیا۔ جس کا پہلا شعر کچھ یوں ہے:
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

امید کرتا ہوں کہ اگلے مراحل میں ڈاکٹر صاحب کو مزید امتحانات سے نہیں گزرنا پڑے گا اور کتاب جلد شائع ہوکر قارئین تک پہنچے گی۔