۵ جون تہذیب ساز تبدیلی امت اسلامیہ اور حقیقی تبدیلی

Published by fawad on

تہذیب ساز تبدیلی امت اسلامیہ اور حقیقی تبدیلی

کرونا کی مشکلات کے سبب بہت سے ادارے آن لائن پروگراموں کا انعقاد کر رہے ہیں ، جامعہ المصطفی العالمی نے بھی برسی امام خمینی کے عنوان سے ایک سیمینار در بالا عنوان کے تحت منعقد کیا جس میں ملی یکجہتی کونسل کے صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابو الخیر زبیر ، علامہ امین شہیدی، مولانا شہنشاہ نقوی ، علامہ سید ثاقب اکبر اور ایرانی مہمان نے شرکت کی ۔

 اس پروگرام میں حاضرین نے امام خمینی کی تحریک اور اس کے معاشرے بالخصوص امت مسلمہ پر اثرات پر روشنی ڈالی ۔ یہ سیمینار کئی ایک مقامات سے لائیو نشر ہوا جسے بہت سے احباب نے لائیو دیکھا ۔سیمینار کی تفصیلی رپورٹ حسب ذیل ہے:

تہذیب ساز تبدیلی امت اسلامیہ اور حقیقی تبدیلی

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ پاکستان کے زیراہتمام امام خمینیؒ کی 32ویں برسی کی مناسبت سے ایک عظیم الشان آن لائن سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس سیمینار کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس کی سعادت جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ شعبہ برادران اسلام آباد کے طالب علم قاری علی احمد تمنا نے حاصل کی۔پروگرام کے میزبان کی حیثیت سے جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ شعبہ برادران اسلام آباد کے پرنسپل علامہ انیس الحسنین نے مقررین اور ناظرین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی ؒ فقیہ دین شناس تھے۔ آپ کے تمام کے تمام اقدمات کے منابع قرآن، پیغمبر اور اہلبیت کی نورانی تعلیمات تھیں۔ امام خمینیؒ نے انہی سے الہام لیتے ہوئے تاریخ کا معجزہ رونما کیا۔ لوگ اس قدر آپ کے پیرو تھے کہ شہید ہونے کے لیے عمر زیادہ کر رہے تھے، وہ دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ دشمن کو جانتے تھے اور زمانہ شناس تھے۔ دشمن کے ساتھ مقابلہ کو جانتے تھے۔ آپ نے کہا کہ فلسطین عربوں کا نہیں اسلام کا مسئلہ ہے۔ آپ کے اقدامات نے مسئلہ فلسطین کو نئی روح عطا کی۔ اسرائیل کا بدنما چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آچکا ہے، ان شاء اللہ جلد قدس آزاد ہوگا۔
جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ شعبہ برادران کراچی کے سربراہ علامہ ڈاکٹر سید نسیم حیدر زیدی نے کہا کہ بیت المقدس کی زمین انبیاء کی سرزمین ہے۔ انبیاء اس زمین پر پیغام اسلام و انسانیت کو پہنچانتے رہے۔ یہ مقدس سرزمین ہے، جس پر خاصان خدا نے سجدے کیے۔ یہاں سے معراج کا آغاز ہوا۔ عالمی برادری نے اسرائیلی مظالم پر  خاموشی اختیار کی ہے، جو انسانی حقوق کی علمبرادار کہلاتی ہے۔ امام خمینیؒ نے سب سے پہلے مستضعفین کی حمایت کا اعلان کیا، آپ نے عملی اقدامات کرکے دکھائے۔ پوری دنیا میں تحریک آزادی قدس کا تعارف کرایا۔ امام خمینیؒ نے فرمایا کہ ہم نے جو کچھ لیا ہے، کربلا سے لیا ہے، ہم نے استعماری قوتوں سے مقابلہ کا ہنر کربلا سے لیا۔
جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ شعبہ تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر محمد کاظم سلیم صاحب نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ اس صدی کے بڑے سیاستدان، بڑے عارف اور زندگی کے ہر زاویئے میں مکمل رہنماء تھے۔ لوگ مان چکے تھے کہ اب خدا و دین کے نام پر نظام قائم نہیں ہوگا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ دین لوگوں کے لیے افیون ہے، ایسے وقت میں امام خمینیؒ ایک تحریک کا آغاز کرتے ہیں، جس کا مطمع نظر اللہ کی حکومت کا قیام ہے۔ پوری دنیا نے راستہ روکا، امام خمینی ؒنے اسلام کی تبلیغ کی اور اسلام کے انسانی زندگی میں کردار کو بہترین انداز میں پیش کیا۔ فلسطین ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ تھا، مسلمان حکمرانوں کا کردار بڑا عجیب ہے، عالم اسلام کی طرف سے عملی طور پر کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ انور سادات نے  مسلمانوں کے ساتھ بڑی خیانت کی۔ او آئی سی، اقوام متحدہ اور عرب لیگ نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا۔ ایران نے اس وقت شاہ کی موجودگی میں کیمپ ڈیوڈ میں اس معاہدے کی حمایت کی۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد سب سے پہلا قدم  اسرائیل کو تسلیم کرنے والے فیصلے کو کوڑے دان میں پھینکنا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اسرائیل کو دنیا سے مٹ جانا  چاہیئے۔
ملی یکجہتی کونسل پاکستان گلگت بلتستان کے سربراہ علامہ مرزا علی نگری نے کہا کہ امام خمینی ؒ نے دور ِائمہ کے اسلام کی تبلیغ میں بڑا کردار ادا کیا۔ آپ انقلاب کے بانی ہیں، آپ ہمہ جہت  شخصیت ہیں۔ آپ کی انقلابی و سیاسی شخصیت تھی، آپ نے استکبار کے خلاف دنیا کو ایک رخ دیا۔ آپ نے غلبہ اسلام کی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اگر کسی کے سامنے جھکنا ہے تو وہ خدا ہے۔ آپ نے فرمایا نہ روس نہ امریکہ سپر پاور خدا ہے۔ آپ نے مشرق و مغرب کے سامنے جھکنے کی بجائے عالم اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا، وہی اب رہبر معظم سید علی خامنہ ای اور آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی پیش کر رہے ہیں۔ یہ ایک منور چہرہ ہے۔


ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ثاقب اکبر نے کہا کہ امام خمینی ؒکا ایک بہت بڑا کام عالم اسلام کے مسائل کی نشاندہی کرنا ہے، آپ نے قدس اور فلسطین کے مسئلہ کی وضاحت کی۔ آپ نے امریکہ اور برطانیہ کو عالم اسلام کا بڑا دشمن کا قرار دیا۔ اسے عالم اسلام کے دل میں خنجر قرار دیا۔ پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسرائیل کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، مذاکرات سے کچھ حاصل کیا جائے۔ یہ غلط ثابت ہوا کہ اسرائیل مذاکرات سے کچھ دے گا بلکہ اس نے مزید علاقے غصب کر لیے۔ ڈاکٹر چمران سمیت امام خمینیؒ کے قریبی لوگوں کے فلسطینیوں کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ علاقے کے مسلمان حکمرانوں نے جس طرح اس مسئلے کو نظر انداز کیا ہوا تھا، اس کی طرف متوجہ کیا۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ امریکہ نے بدمعاشوں کو خطے میں جمع کیا اور مسلمانوں کو ذلیل کر دیا۔ اللہ نے مسلمانوں کو سب کچھ دیا ہے، مگر ان کو حیثیت نہیں دی جاتی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ دنیا کی شہ رگ آپ کے پاس ہے۔ آپ نے حاشیہ بردار بننے سے منع فرمایا کہ روس و امریکہ کے ساتھ ہونا ضروری نہیں ہے۔ آپ نے انسانی شرف کی بات کی۔ خدا پر بھروسے کے ساتھ ساتھ  اسلحہ بھی ضروری ہے، اسی وجہ سے اسرائیل کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔
ملک عزیز پاکستان کے نامورہ خطیب علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام علیؑ نے اپنے فرزندان کو وصیت کی تھی کہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھی اور ظالم کے دشمن بن کر رہنا، امام خمینیؒ نے اس فرمان پر  عمل کرتے ہوئے اہل فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا۔ انقلاب اسلامی کا ایک بنیادی مقصد ہمیشہ مظلوم اور محکوموں کی مدد کرنا ہے۔ فلسطین کے مظلوم انسان امریکی اور اسرائیلی گٹھ جوڑ سے مظالم کا شکار ہیں۔ اہل فلسطین کی مقاومت کا سفر جاری ہے اور ان شاء اللہ ایک دن کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ امام خمینیؒ نے فرمایا تھا کہ اسرائیل سرطان کی مانند ہے، جتنا جلدی ہو، اس سرطان کو ختم ہو جانا چاہیئے۔
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری علامہ محمد افضل حیدری صاحب نے کہا کہ امام خمینی نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو جمعۃ الوداع قرار دیا، تاکہ یہ مسئلہ زندہ رہے اور کوئی طاقت اسے دفن نہ کرسکے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اتحاد و وحدت کی دعوت دی۔ بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول تک ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کیا، تاکہ مسلمانوں میں اتحاد و وحدت قائم ہے۔ امام خمینی  ؒنے فلسطینیوں کے احساس محرومی کو دور کیا۔ امام نے دنیا بھر میں اس مسئلے کو اجاگر کیا۔ آج اس ظلم کے خلاف پوری دنیا میں ردعمل ہوا ہے۔ یہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ اب اہل فلسطین میں جذبہ شہادت پیدا ہوچکا ہے، اس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی، یہ امام خمینیؒ کی بصیرت کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا۔
جماعت اسلامی پاکستان کے سینیئر مرکزی نائب صدر جناب اسد اللہ بھٹو نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ فلسطین نبیوں کا علاقہ ہے، بیت المقدس میں خاتم الانبیاء نے نبیوں کی امامت فرمائی۔ آج وہ سرزمین بڑی آزمائش میں ہے، صیہونیوں نے وہاں قبضہ کیا ہوا ہے، ان کو بسایا گیا ہے، صیہونی ریاست قائم کی گئی ہے۔ یہ امریکہ و مغرب کی پشت پناہی سے ہی ممکن ہو رہا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم کیے ہیں۔ دنیا خاموش ہے۔ حضرت امام خمینیؒ نے اعلان کیا کہ فلسطین فلسطنیوں کا ہے، اسرائیل کی ریاست ناجائز ریاست ہے، جب بھی فلسطین کا ذکر ہوگا تو امام خمینیؒ کا ذکر بھی ہوگا۔ فلسطین اور امام خمینیؒ کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل کے حامی صیہونی ہیں، بہت سے یہودی اسرائیل کے خلاف ہیں۔ امریکہ و یورپ کی حکومتوں نے اسرائیل کی حمایت کی، مگر یورپ و امریکہ میں عام انسانوں نے اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کیا۔ ایران کا کردار سب سے اچھا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر اہل فلسطین کی حمایت کی ہے اور آج بھی حکومت امام خمینیؒ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
ادارہ منہاج الحسین پاکستان کے سربراہ اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے  ممبر علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے کہا کہ پہلا یوم القدس اگست میں انقلاب  اسلامی ایران کے بعد منایا گیا اور امام خمینی ؒ نے اسے یوم اللہ قرار دیا۔ فروری میں انقلاب آیا اور اگست میں یوم قدس منایا گیا۔ ان ایام کو یاد رکھا جائے، جن میں قربانی  دی گئی۔ اس بار کرونا بھی تھا، اس کے باوجود قدس کے لیے دنیا بھر سے لوگ اٹھے اور عظیم الشان انداز میں اسے منایا۔ امام خمینیؒ کی کوششوں سے آج دنیا اس مسئلہ کی طرف متوجہ ہے۔ رہبر معظم کی طرف سے بھی بھرپور حمایت جاری رہی ہے۔ بار پہلی یہ بڑا عالمی مسئلہ بنا ہے اور آج حکمران بھی مجبور ہوئے ہیں کہ  فلسطین کے لیے آواز اٹھائیں۔ آج اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں قرار دادیں پیش اور منظور ہو رہی ہیں۔ آج یہ عالمی مسئلہ ہے، قبلہ اول آزاد ہوگا اور ہم اس میں نماز ادا کریں گے۔ غاصب کو ہر صورت میں فلسطین سے نکلنا ہوگا۔ اس طرح کے سیمینار ہوتے رہنے چاہیئں۔ امام خمینی کی رحلت ناقابل تلافی نقصان تھا۔
ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ امام خمینی ؒ کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ اس عظیم الشان سیمینار کے میزبان تھے۔ جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے تابعہ اداروں میں یہ سیمینار پروجیکٹر پر لائیو دکھایا گیا۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگوں نے اس پروگرام کو دیکھا۔