سو سنار کی ایک لوہار کی، طوفان الاقصیٰ

Published by fawad on

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

یہ قدیم محاورہ ایسے حالات کے بارے میں بولا جاتا ہے، جب کوئی شخص یک لخت بازی پلٹ دے۔ اگر دیکھا جائے تو سنار اور لوہار دو الگ دھاتوں کے ہنر مند ہیں اور دونوں کی چوٹیں اپنی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر سونے پر لوہار اپنی چوٹ مارے گا تو اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے اور وہی سونا باقی بچے گا جو ہتھوڑے کے ساتھ لگا رہ جائے گا، اسی طرح اگر سنار کی چوٹ لوہے پر ماری جائے گی تو اس لوہے کو گرم ہونے کے باوجود اثر نہیں ہوگا اور اس سے مطلوبہ چیز نہیں بنائی جا سکتی۔ کل یعنی سات اکتوبر 2023ء کو حماس، جہاد اسلامی اور فلسطینی مقاومتی گروہوں نے اسرائیل پر ایک بڑا حملہ کیا، جسے طوفان الاقصیٰ کا نام دیا گیا۔ اس حملے کو لوہار کی چوٹ کہا جاسکتا ہے۔ جس میں اسرائیلی افواج کے مطابق تقریباً تین ہزار راکٹ فائر کیے گئے۔ دو سو سے زائد صہیونی قتل ہوئے، ہزار کے قریب زخمی ہیں اور درجنوں صہیونیوں کو حماس کے لوگ قیدی بنا کر لے گئے۔

صہیونی افواج اس اچانک حملے سے ہڑبڑا گئیں، یہ یہودیوں کی چھٹی کا دن تھا، اس حملے کے خلاف ردعمل کا آغاز تقریباً دن بارہ بجے کے قریب شروع ہوا۔ صہیونی افواج کے مطابق فلسطینیوں نے بائیس صہیونی کمیونٹیز پر حملہ کیا ہے۔ فلسطینی مجاہدین نے غزہ اور اسرائیل کے مابین لگی ہوئی باڑیں کاٹ دیں، دیواریں گرا دیں اور سرحدی چوکیوں پر قبضے کرتے ہوئے اسرائیل کے شہروں تک پہنچ گئے۔ یہ ویڈیوز اس وقت سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ فلسطینی مجاہدین کے حملوں کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر فضائی بمباری کا سلسلہ شروع کیا، جو کل دن بارہ بجے سے اب تک جاری ہے۔ فلسطین میں کام کرنے والے امدادی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریباً 322 فلسطینی شہری شہید اور ہزار سے اوپر زخمی ہوچکے ہیں۔ ادھر دوسری جانب لبنان سے حزب اللہ نے بھی اسرائیل کی تین سرحدی چوکیوں پر حملہ کیا ہے، فلسطین میں بعض سرحدی چوکیوں کا کنڑول لینے کے لیے اب بھی جھڑپیں جاری ہیں۔ اکثر فلسطینی مجاہدین طوفان الاقصیٰ برپا کرکے واپس غزہ میں چلے گئے۔

اگر فوجی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک بہت منظم کارروائی تھی، جس میں زمین، سمندر اور فضاء سے بیک وقت حملہ کیا گیا۔ یقیناً اس حملے کی تیاری چند ماہ سے کی جا رہی ہوگی، اسرائیلی افواج اور ان کے انٹیلیجنس ادارے اس حملے کے بارے میں پیشین گوئی کرنے میں ناکام رہے، ان کی سرحدی افواج اپنی مقبوضہ سرحدوں کی حفاظت نہ کرسکیں۔ خواہ یوم سبت کی چھٹی تھی، تاہم اسرائیل جیسے ملک کی فوج یہ بہانہ نہیں کرسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے فوجی فرار کر گئے اور مجاہدین با آسانی اسرائیلی شہروں تک پہنچ گئے۔ اس وقت اسرائیلی حکومت اور عہدیدار عوام کے حوصلوں کو بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ غزہ کے باسیوں کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ہم غزہ کو ویران کر دیں گے۔ انھوں نے غزہ میں رہنے والے عام شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی اور ملک میں چلے جائیں، کیونکہ غزہ میں اسرائیلی افواج کو داخل کرنے کا وقت ہوچکا ہے۔

اسی طرح اسرائیلی جرنیل دھمکا رہے ہیں کہ غزہ نے یہ حملہ کرکے اپنے لیے جہنم کا دروازہ کھول دیا ہے۔ ملک میں فوجی نقل و حمل میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، افواج کے یونٹ سرحدوں کی جانب گامزن ہیں۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیل واقعی ایک بڑا حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔؟ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کی ریگولر فورسز کے علاوہ عام شہریوں کو بھی فوجی تربیت دی جاتی ہے اور دو یا تین برس فوج میں خدمات سرانجام دینے کے بعد یا تو باقاعدہ فوج کا حصہ بنا لیا جاتا ہے یا ان کو ریزروز کا عنوان دیا جاتا ہے۔ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے تقریباً 45 لاکھ شہری فوجی خدمات کے اہل ہیں۔ تربیتی عمل کے دوران میں زیر تربیت افراد کو باقاعدہ فوج سے کم تنخواہ ملتی ہے۔ یہ زیر تربیت لوگ یونیورسٹیوں کے طلبہ اور مختلف اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد ہوتے ہیں، جو بہرحال باقاعدہ فوج جتنے تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اسرائیل دنیا کے بہترین جنگی ہتھیاروں کی تیاری کا مرکز ہے اور پوری دنیا میں اسرائیلی ہتھیار ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے فوراً بعد عرب ممالک سے تین جنگیں لڑیں، جس میں مختلف صہیونی تنظیموں کے مسلح جتھوں نے حصہ لیا، ان جتھوں نے عرب ممالک کی باقاعدہ تربیت یافتہ افواج کو شکست دی۔ لہذا یہ کہنا کہ یہ جتھے کسی باقاعدہ فوج سے کم تھے، درست نہیں ہے۔ اب اسرائیلی ریزروز اور فورسز کی کیا حالت ہے، اس کا حال طوفان الاقصیٰ سے واضح ہے۔ طوفان الاقصیٰ نے اسرائیلی فوج کی برتری کا بھرم توڑ دیا۔ اس سے قبل اگرچہ حزب اللہ لبنان نے بھی اسرائیلی افواج کو ناکوں چنے چبوائے تھے، تاہم حزب اللہ چونکہ حملوں کا بڑا تجربہ رکھتی ہے اور ایک منظم گروہ ہے، لہذا کہا جاسکتا ہے کہ ان کی فتح اسی نظم و تربیت کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ تاہم طوفان الاقصیٰ کی فوٹیجز سے اندازہ ہوتا ہے کہ القسام کے منظم گروہوں کے ساتھ ساتھ عام غیر مسلح فلسطینیوں نے بھی ان حملوں میں حصہ لیا اور صہیونی فوجی کہیں دکھائی نہ دیتے تھے۔

طوفان الاقصیٰ میں اسرائیل کا جانی اور مالی نقصان تو اتنا نہیں ہوا، لیکن اسے اندرونی اور بیرونی طور پر جو ساکھ کا نقصان ہوا ہے، وہ ناقابل تلافی ہے۔ ناقابل شکست، تربیت یافتہ، اسلحہ سے لیس، بہترین انٹیلیجنس کا حامل اسرائیل چند ابابیلوں کے سامنے پاش پاش ہوگیا۔ نہ موساد کو اندازہ ہوا کہ طوفان الاقصیٰ تیار ہو رہا ہے، نہ جدید ہتھیار اور آلات بتا سکے کہ کیا ہونے والا ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ فوج ان ابابیلوں کو روک سکی۔ فلسطینی ابابیل آزادی سے اڑتے ہوئے اسرائیلی شہروں تک پہنچے، اپنا دانہ چنا اور واپس اپنے نشیمن کو لوٹ گئے۔ اسرائیل اس ساکھ کو بحال کرنے کی حتی المقدور کوشش کرے گا، کیونکہ جن صہیونیوں کو انھوں نے امن کی تسلیاں دے کر ملک میں رکھا ہوا ہے، ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ ابابیل کسی بھی وقت نازل ہوسکتے ہیں اور اسرائیلی افواج ہمیں نہیں بچا پائیں گی۔ عالمی سطح پر بھی یہ پیغام گیا ہے کہ جو ملک اپنی سرحد کی حفاظت کے قابل نہیں ہے، وہ ہماری کیا حفاظت کرے گا اور ہمیں کونسی انٹیلیجنس مہیا کرے گا۔ اسرائیل کی تقریباً ستر سے زائد برس کی محنت ضائع ہوچکی ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ جس اسرائیل کو میں جانتا ہوں، وہ سنار والی چوٹیں مارنے کا عادی ہے اور کبھی بھی لوہار والی چوٹ نہیں مارے گا۔ ہوسکتا ہے کہ پہلی چوٹ زیادہ شدت سے مارے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سنار والی چوٹوں پر ہی اکتفا کرے، فوجی نقل و حرکت فقط اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ہو۔ اسرائیل کی سنار والی چوٹیں اس کی نظر میں زیادہ مفید ہیں۔ وہ امریکہ سے فوجی امداد کی مد میں 3.3 بلین ڈالر امداد لے رہا ہے، پورا یورپ اس کا حامی ہے، مصر، اردن، ترکیہ سے اس کے روابط پہلے ہی بحال تھے، حال ہی میں اس نے امارات، بحرین کے ساتھ بھی اپنے روابط کو بحال کر لیا ہے۔ اس کا اگلا ہدف سعودیہ ہے۔ یہ اسرائیل کی سنار والی چوٹوں کا ہی اثر ہے کہ ایران کے علاوہ کسی بھی حکومت نے کھل کر طوفان الاقصیٰ کی حمایت نہیں کی بلکہ اکثر مسلم ممالک امن کی بحالی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حل کی بات کر رہے ہیں۔

مسلم ممالک کے عوام فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں، یمن، ترکیہ، عراق، اردن، پاکستان، کویت اور ایران میں طوفان الاقصی اور ابابیلوں کی کامیابی کا جشن منایا گیا۔ سوشل میڈیا پر عوام اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، تاہم مسئلہ سنار کی چوٹوں کو سمجھنے کا ہے۔ یہ بھی یقینی ہے کہ اسرائیل اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا، اس موقع پر ضروری تھا کہ مسلم امہ اتحاد کا مظاہرہ کرتی اور فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی۔ کل کی ویڈیوز میں اسرائیلی ایک نیم برہنہ مردہ لڑکی کی ویڈیو، گھروں پر حملے، سویلین کے قتل، لڑکیوں کو اغواء کرنے کے واقعات کو عام کر رہے ہیں۔ جبکہ ایسی ویڈیوز بھی موجود ہیں، جس میں القسام کے مجاہدین خواتین کو نہ مارنے، بچوں کی ماں اور بوڑھی عورت کو تحفظ دینے کی بات کر رہے ہیں۔

میری تحقیق کے مطابق یہ نیم برہنہ لڑکی اسرائیلی شہری نہیں ہے بلکہ جرمنی کی یہودی سیاح "شانی لوک” ہے، جو مصر کے بعد اسرائیل آئی اور غزہ کے پاس منعقدہ ایک میوزک فیسٹیول میں شریک تھی۔ بچوں والی خواتین اور بوڑھی عورتوں کو کچھ نہ کہنے والے فلسطینیوں نے بھلا اس سیاح کو کیوں مارنا تھا اور برہنہ کیوں کرنا تھا۔ یہ خاتون اپنے ہوٹل میں برہنہ مردہ حالت میں ملی، جسے مجاہدین اسرائیلی سمجھ کر اٹھا لائے، یہ واقعہ موساد کی کارروائی ہوسکتا ہے، تاکہ فلسطینی مجاہدین کے خلاف پراپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال کیا جائے، اسی طرح ایک برطانوی سیاح جیک مارلو بھی لاپتہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کیا طوفان الاقصیٰ کی ہمہ جہت منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ https://albasirah.com/urdu/tofan-alaqsa-mansoba-bandi/