قائداعظم۔ غیر فرقہ وارانہ ذہن کے راسخ العقیدہ مسلمان

Published by fawad on

qaid-e-azam

خواجہ شجاع عباس

مورخہ ۱۳ مارچ کو سعید صدیقی صاحب کا مضمون ’ قائداعظم محمدعلی جناح اور مولانااشرف علی تھانوی کے عنوان سے روزنامہ جنگ میں چھپا تھا۔ اس میں انھوں نے لکھا تھا کہ قائداعظم کی پیدائش خوجہ شیعہ اثنا عشریہ گھرانے میں ہوئی تھی مگر بعد میں وہ اپنے عقیدے میں تبدیلی لائے۔ مبینہ عقیدہ کی تبدیلی کو مصنف نے ہدایت سے تعبیر کیا تھا۔ بانی پاکستان سے متعلق مصنف کی دونوں باتیں خلاف حقیقت اورمن گھڑت ہیں۔ میں اس جوابی مضمون میں اس حوالے سے حقائق کو منظر عام پر لائوں گا۔ اصل موضوع پر لکھنے سے پہلے بطور تمہید چند باتوں کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔

۱۔ تحریک پاکستان مسلمانان برصغیر کی غیر فرقہ وارانہ جدوجہد تھی۔ اس میں ہر فرقے اور مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان شریک تھے۔ تحریک پاکستان مسلمانان برصغیر نے غیر فرقہ وارانہ مشترکہ سیاسی نصب العین کے طور پر برپا کی تھی۔ یہ تحریک فطری طور پر فرقہ وارانہ ذہنیت اور مسلمانوں کی داخلی گروہ بندی کی نفی کرتی ہے۔

۲۔ تحریک پاکستان کی اصل اوراولین منزل مراد مسلم اکثریتی شمال مغربی برصغیر یاپاکستان (سابقہ مغربی) تھا۔ یہی خطہ زمینی وسعت، معاشی امکانات، تہذیبی خدوخال اور محل وقوع کے اعتبار سے علیحدگی کی صورت میں دنیا کے عظیم، طاقت ور ترین اور بڑے ملکوں کی صف میں کھڑا ہونے کی قابلیت رکھتا تھا۔ اس خطے کی ان صلاحیتوں نے مسلمان اہل دانش کو برصغیر میں مسلمانوں کے الگ ملک یا وطن کے بارے میں سوچنے کی ہمت عطا کی۔ 1930 کے خطبہ الہ آباد میں مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے صرف شمال مغربی برصغیر پر مشتمل پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ مسلم بنگال (بنگلہ دیش،سابقہ مشرقی پاکستان) کا بعد میں ہندوانڈیا سے آزاد کرنے یا پاکستان میں شامل کرنے کے بارے میں سوچنا تصور پاکستان کا منطقی تقاضا تھا۔

۳۔ پاکستان(سابقہ مغربی) معرض وجود میں لانے کے لیے مسلمانوں کی وحدت اور خاص طور پر شیعہ سنی ہم آہنگی بنیادی ضرورت تھی۔ سندھ کے دارالحکومت اور اس خطے کی واحد بندرگاہ کراچی میں ہندوئوں کی اکثریت تھی۔ سند ھ میں مجموعی طور پر گو کہ مسلمانوں کو کم و بیش دو تہائی اکثریت حاصل تھی لیکن اگر شیعہ اورسنی کو الگ الگ کیا جاتا تو کسی فرقے کو جداگانہ طور پر اکثریت حاصل نہیں رہتی تھی۔ زمانہ قدیم سے صوبہ سندھ میں شیعوں کا تناسب برصغیر کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہاہے۔

نیز یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ کے درمیان بھارتی سرحد سے ملحق ریاست خیر پور کا حکمران خاندان شیعہ اثنا عشر ی تھا۔ فرقہ وارانہ تقسیم کی صورت میں نواب خیر پور اپنے ہم مسلکوں کا رویہ اپناتے۔ ثابت ہوا کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر سندھ کی پاکستان میں شمولیت ناممکن تھی اور سندھ کی شمولیت کے بغیر پاکستان کاوجود میں آنا ناممکن تھا۔

۴۔ اگر مسلمان شیعہ سنی بنیادوں پر تقسیم ہوتے تو غالب امکان تھا کہ پنجاب میں پاک بھارت سرحد دریائے چناب قرار پاتااورپاکستان لاہور، فیصل آباد، گجرانوالہ اور سیالکوٹ جیسے شہروں سے محروم ہوتا کیونکہ شیعہ سنی اختلاف کی صورت میں اس علاقے میں جدا گانہ طور پر کسی مسلمان فرقے کی اکثریت نہیں تھی۔ آبادی، زراعت اور صنعت و حرفت کے اس سب سے بڑے مرکز کے بغیر پاکستان کا وجود برقرار رہنا تقریباً ناممکن تھا۔

۵۔ گلگت بلتستان کی تزویراتی اوراقتصادی طور پر انتہائی اہمیت اور افادیت سے کوئی اہل نظر غافل نہیں رہ سکتا۔ اس علاقے میں شیعہ (نوربخشی،اسماعیلی، جعفری)کی تعداد کم و بیش 80%ہے۔ اس علاقے کو مقامی آبادی نے آزاد کرکے پاکستان کا حصہ بنا دیا۔ جنگ آزادی کی قیادت سابقہ ڈوگرہ ریاست کی فوج کے مقامی عہدہ دار کررہے تھے جو سب کے سب شیعہ تھے۔

ان باتوں کا تذکرہ اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دو قومی نظریے پر ہونے والی حصول پاکستان کی جدوجہد نظریاتی اورتزویراتی وجوہ کی بنا پر کسی طور پر بھی فرقہ واریت کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ 1857 کے بعد ہر مرحلے پر اجتماعی جدوجہد کی قیادت کرنے والے لوگ غیر فرقہ وارانہ ذہن کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ وحدت امت کے علمبردار بھی تھے۔ جسٹس امیر علی، سرسید احمد خان، سر سلطان آغا خان، محمدعلی جوہر، مصور پاکستان علامہ اقبال، بانی پاکستان محمد علی جناح، قائد ملت لیاقت علی خان،مولانا شبیر احمد عثمانی، نواب بہادریارجنگ، مولانا حسرت موہانی،نواب صاحب آف محمود آباد، عبدالرب نشتر وغیرہ اکابرین کی فہرست پر ایک نظر ہی ہماری بات کی درستی کی دلیل ہے۔

یہ بات اہل تحقیق کے نزدیک مسلمہ ہے کہ قائد اعظم ایسے مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جو مسلکاً اسماعیلی آغا خانی تھے۔ ان کے حالات زندگی پڑھنے کے بعد یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ ہمیشہ ہی راسخ العقیدہ مسلمان اوراپنے مذہب کے حوالے سے حساس اور غیور تھے۔ وہ اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلے پر مذہب بیزار نہیں تھے۔

قائداعظم کے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان میں فعال کردار ادا کرنے والے آغا ابو الحسن اصفہانی نے عدالت عالیہ سندھ میں قائداعظم کی وراثت سے متعلق مقدمے کی سماعت میں گواہی دیتے ہوئے بیان کیا ہے کہ قائداعظم نے خود ہی انھیں ایک بار کہا تھا کہ میں نے ولایت سے واپسی کے بعد آغا خانی اسماعیلی مذہب چھوڑ کر شیعہ اثنا عشری مسلک اختیار کیا اور اپنے خاندان والوں کو اس کی طرف دعوت دی۔

یہ بھی پڑھیں: علامہ اقبال ، قائداعظم اور کشمیر https://albasirah.com/urdu/iqbal-quaid-e-azam-kashmir/

قائداعظم کی پہلی شادی کم عمری میں ان کے والدین نے آغا خانی خاندان میں کرائی تھی۔ ان کی پہلی اہلیہ کا انتقال ان کے ولایت میں قیام کے دوران میں ہوا۔ قائداعظم کی دوسری شادی رتن بائی سے ان کے قبول اسلام کے بعد شیعہ اثنا عشری طریقے پر انجام پائی۔ نکاح نامے کی نقل قیام پاکستان کی طلائی سالگرہ پر سرکاری طور پر چھپنے والے قائد کی تصویروں کے البم میں موجود ہے۔قائداعظم کی اہلیہ کے انتقال کے بعد ان کی تدفین بمبئی کے خوجہ شیعہ اثنا عشری قبرستان میں کی گئی جہاں ان کی قبر اب بھی موجود ہے۔

قائداعظم کا باضابطہ اور رسمی نماز جنازہ محترمہ فاطمہ جناح کے کہنے پر گورنر جنرل ہائوس میں جناب مولانا سید انیس الحسنین نے پڑھائی تھی۔ دیگر دستاویزی شواہد کے علاوہ اس کا ذکر میں نے خُودایک نجی ٹی وی چینل پر سید انیس الحسنین کے فرزند سید حسن رضو ی سے بھی سنا ہے جو خودبھی اس نماز جنازہ میں شریک تھے۔اس نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جب جنازہ تدفین کے لیے لے جایا گیا تو عقیدت مندوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جو اپنے محبوب قائد اور عظیم محسن کا نماز جنازہ پڑھنا چاہتے تھے۔ وہاں پر موجود تحریک پاکستان کے اکابرین میں سے مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب سربرآوردہ مذہبی شخصیت ہونے کی وجہ سے آگے بڑھے اور دوسری نماز جنازہ پڑھا ئی۔
مصور پاکستان اور تحریک پاکستان کے دیگر اکابرین کی طرح قائداعظم فرقہ واریت سے کوسوں دور تھے۔ 15اگست1947 کو پہلی بار دارالحکومت کراچی میں باضابطہ طور پر پاکستان کا منظور شدہ قومی پرچم لہرانا تھا۔ روایت کے مدنظر یہ کام خود قائداعظم نے گورنر جنرل کے طور پر اپنے ہاتھوں انجام دینا تھا۔ انھوں نے دین حق کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کی پہلی پرچم کشائی کے لیے مذہب کی نمائندہ شخصیت کو اپنی ذات پر ترجیح دی۔ آپ نے تحریک پاکستان کے ممتاز راہنما اور عالم دین شبیر احمد عثمانی سے پرچم کشائی کرنے کی گزارش کی جو انھوں نے قبول کی۔ اس واقعے سے اس بات کا اندازہ لگانا آسان ہے کہ بانی پاکستان کے دل میں اپنے مذہب اسلام سے پرجوش وابستگی کا کیا عالم تھا۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک کسی خاص مسلک سے وابستگی کسی بھی حقیقی مسلمان کو امت کے وسیع تر مفاد اوراتحاد سے غافل نہیں کر سکتی۔

نوٹ: یہ مضمون 30مارچ 2012 کو شائع ہوا تھا۔