عمران خان کا او آئی سی اجلاس میں بے مثال خطاب

Published by سید اسد عباس on

سید اسد عباس
قبرستان اپنی خاموشی کی وجہ سے معروف ہے، اسی لیے اسے شہر خموشاں بھی کہا جاتا ہے۔ اگر اس شہر خموشاں میں اچانک سے کوئی آواز آئے تو معجزہ ہی لگتا ہے۔ ایسی ہی کچھ صورتحال آج او آئی سی کے 48 ویں وزائے خارجہ اجلاس میں ہوئی۔ یہ اجلاس پاکستان کے 75 ویں یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے، جس میں او آئی سی کے ممبر ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ چینی وزیر خارجہ بھی پاکستان کی دعوت پر شریک ہیں۔ یہ وزرائے خارجہ کل یوم پاکستان کی پریڈ میں بھی شریک ہوں گے۔ اس اجلاس کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ آئندہ ایک برس کے لیے پاکستان کو اس فورم کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا ہے۔ او آئی سی کے اجلاس ایک عرصے سے کاغذی فیصلوں کے لیے معروف ہیں، جس کی وجہ مسلم ممالک کا مختلف بلاکوں میں ہونا اور باہمی اختلافات ہیں۔

آج اس شہر خموشاں میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک جان دار خطاب کیا۔ اس خطاب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی بیوروکریٹ کا تحریر کردہ نہیں تھا بلکہ عمران خان حسب روایت فی البدیہہ بول رہے تھے۔ اقوام متحدہ کا اجلاس ہو، او آئی سی کا اجلاس ہو، کوئی حکومتی تقریب ہو یا عوامی جلسہ عمران خان فی البدیہہ ہی بولتے ہیں اور اچھا بولتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی بات میں جان ہوتی ہے اور سامع کو بھی غور سے سننا پڑتا ہے۔ آج خان صاحب کی تقریر سن کر محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ ان کے بارے عدم اعتماد کی ایک درخواست اسمبلی میں پیش کی جاچکی ہے اور نمبر گیم میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے خان بالکل مطمئن ہے اور اسی خطاب کی عرصہ دراز سے تیاری کر رہا ہے۔
عمران خان

عمران خان نے اپنے خطاب کو کئی حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلے حصے میں انھوں نے تاریخ اسلام، اسلامی تعلیمات، رسالت ماب ؐ کی جدوجہدکو اپنا موضوع بحث بنایا۔ انھوں نے سامعین کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد کہا کہ میں آپ سب کو اسلامو فوبیا کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے پاس کیے جانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یاد رہے کہ اسلامو فوبیا کے حوالے سے یہ قرارداد پاکستان نے ہی پیش کی تھی، جسے اقوام عالم نے قبول کیا ہے۔ 15 مارچ وہ روز ہے، جب نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں ایک دہشتگرد نے داخل ہو کر وہاں موجود 50 نمازیوں کو بہیمانہ طور پر قتل کیا تھا۔ اسی روز کی یاد میں اقوام متحدہ نے طے کیا کہ آئندہ ہر برس 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے حوالے سے دن کے طور پر منایا جائے گا۔

ایک سابق سفیر کے مطابق اس قرارداد کے پاس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب کوئی بھی مسلمان ملک اسلام ستیزی پر مبنی کسی بھی ملک کے اقدام کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی حتیٰ کہ سلامتی کونسل میں لے جا سکتا ہے، جس سے یقیناً دنیا میں رواج پاتے اسلامو فوبیا میں کمی آئے گی۔ یہ نسل پرستی کی مانند ایک عنوان قرار پا چکا ہے، جس کے سدباب کے لیے اقدام کرنا اب اقوام عالم اور عالمی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔ عمران خان نے کہا کہ 9/11 کے بعد اسلامو فوبیا میں اضافہ ہوا۔ مغربی ممالک نے قدامت پسند اسلام کا نظریہ پیش کیا اور ان کا یہ بیانیہ ہماری جانب سے عدم توجہی یا مصلحت انگیزی کا شکار ہوا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے زندگی کا زیادہ عرصہ برطانیہ میں گزارا ہے اور میں نے اسلامو فوبیا کو مغربی ممالک میں پروان چڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

عمران نے کہا کہ کیسے کوئی مذہب دہشت گردی کی اجازت دے سکتا ہے۔ کیسے اسلام دہشت گردی کے مترادف ہوگیا۔ کوئی عام انسان کیسے فیصلہ کرسکتا ہے کہ فلاں مسلمان قدامت پسند ہے اور فلاں مسلمان جدت پسند۔ اسی لیے وہ مسجد میں گھستا ہے اور وہاں لوگوں کو قتل کرتا ہے، کیونکہ وہ سب کو دہشت گرد سمجھتا ہے۔ ہم مسلمانوں نے اس سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا اور کئی مسلم ممالک کے سربراہوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ہم جدت پسند ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ ہم جدت پسند مسلمان ہیں تو آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کی کوئی شدت پسند شکل بھی موجود ہے۔ ہمارے سربراہ نے اس وقت Enlightened Moderation کی اصطلاح استعمال کی، جس کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اس سے کیا مراد ہے۔

عمران خان نے کہا کہ فقط ایک اسلام ہے، نبی اکرم ؐ کا اسلام ۔ انھوں نے کہا کہ ہر انسانی معاشرے میں لبرل، جدت پسند، قدامت پسند ہوتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی مسجد میں گھسنے والا شخص واضح طور پر دماغی طور پر صحت مند شخص نہ تھا، لیکن کسی نے اس کی کمیونٹی کو کوئی نام نہیں دیا۔ ایسا کیوں ہے کہ ڈیڑھ ارب انسانوں کی ایک کمیونٹی کو ایسی اصطلاحات سے پکارا جاتا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ یہ مسلمان ممالک کی ایک بڑی غلطی ہے کہ انھوں نے اس کے خلاف ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ جب سلمان رشدی نے شیطانی آیات نامی کتاب لکھی تو اس وقت بھی ہم ایک پڑھا لکھا بیانیہ دینے سے قاصر رہے۔ ہم مغرب کو یہ نہیں سمجھا سکے کہ نبی اکرم ؐ کا مقام ہماری نظر میں کیا ہے، کیونکہ مغرب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس نظر سے نہیں دیکھتا، جس نظر سے ہم رسالت ماب ؐ کو دیکھتے ہیں، اس لیے ان کو موقع ملا کہ وہ اسلام کے بارے یہ پراپیگنڈہ کریں کہ مسلمانوں میں اظہار رائے کی آزادی کا احترام نہیں کیا جاتا۔ اسلامو فوبیا ایک مکروہ دائرہ تھا، جس میں توہین ہوتی تھی، پھر شدت پسندی پھر توہین۔ اس لیے مجھے خوشی ہے کہ اب ہم اس پر بات کرسکتے ہیں۔

عمران خان نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں کہا کہ انسانی تاریخ میں مدینہ کی ریاست جیسی کوئی بھی ایسی عادلانہ اور انسانیت پر مبنی ریاست نہیں ہے۔ رسالت ماب ؐ نے پندرہ سو برس پہلے ایک جدید ریاست کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے کہا کہ مغربی ممالک اور غیر مسلموں کو بھول جائیں، جب ہمیں خود ہی اندازہ نہیں ہے کہ نبی کریم ؐ نے کیسے ایسی ریاست کی بنیاد رکھی، جس نے اگلے چند صدیوں کے لیے ایک عظیم تہذیب کو وجود بخشا۔ یہ بنیاد کیا تھی، اس بات کو بھی اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ قرآن حکیم میں رسالت ماب کو رحمۃ اللعالمین کا لقب عطا ہوا ہے، وہ انسانیت کے لیے آئے تھے۔ وہ انسانوں کو توڑنے نہیں جوڑنے آئے تھے۔ مدینہ میں عیسائیوں، یہودیوں، سبائیوں اور کفار کے ساتھ معاہدے کیے گئے، ان کو مدنی ریاست کا حصہ بنایا گیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام تلوار اور فتوحات سے پھیلا، حالانکہ نبی کریم ؐ کی دس سالہ مدنی زندگی میں مشکل سے بارہ سو افراد جنگوں میں قتل ہوئے۔ اس عرصے میں اسلام پورے جزیرہ عرب میں پھیل گیا۔ یہ ایک نظریاتی انقلاب تھا۔ انھوں نے ایک نیا نظام تشکیل دیا، انھوں نے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا، انھوں نے کہا کہ اگر میری بیٹی بھی جرم کرے گی تو اسے سزا ملے گی، انھوں نے کہا کہ بہت سی نسلیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہاں قانونی مساوات نہ تھی۔
oic islamabad 22
وزیراعظم عمران خان نے کہا آپ دنیا کے غریب ممالک کو دیکھ لیں، ان سب میں ایک چیز یکساں ہے، وہ یہ کہ وہاں اشرافیہ کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا جاسکتا، قانون فقط چھوٹے مجرموں پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے، جس کے بارے میں رسالت مابؐ نے پندرہ سو برس پہلے پیشین گوئی کی تھی۔ عمران نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال غریب ممالک سے 1.6 ٹریلین ڈالر مغربی ممالک میں بھیجے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ اشرافیہ قانون سے بالاتر ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی ہی کی وجہ سے ہے کہ اسلام کے پہلے دو خلفاء کو عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑا اور اسلام کے ایک نامور اور مقدس شخص یعنی چوتھے خلیفہ یہودی کے مقابل اپنا مقدمہ ہار گئے، کیونکہ جج نے ان کے بیٹے کی گواہی کو قبول نہ کیا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ مدینہ کی ریاست میں قانون کی نظر میں ہر شخص برابر تھا، نیز یہ کہ ایک عام شہری خلیفہ کے مقابل مقدمہ جیت سکتا تھا، یعنی قانون کی حکمرانی تھی۔ یہ برطانیہ کے میگنا کارٹا سے 600برس پہلے کی بات ہے۔

عمران خان نے کہا کہ انسانی تاریخ کی پہلی فلاحی ریاست، ریاست مدینہ تھی۔ جہاں ہمدردی، انسانیت تھی۔ اس ریاست نے اپنے کمزور طبقے کی حفاظت کی۔ اس ریاست کا مقصد اللہ کی رضا تھا، ایسا وہ کمزوروں کی مدد کرکے کرتے تھے۔ آج جب میں سکینڈینیوا جاتا ہوں تو وہاں دیکھتا ہوں کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے بھی حقوق ہیں۔ سوئزرلینڈ میں قانون کی حکمرانی کا انڈیکس 99 فیصد ہے، پس ثابت ہوا کہ جو بھی مدینہ کی ریاست کے ماڈل کو اپنائے گا، جہاں بھی قانون کی حکمرانی ہوگی، وہ ملک خوشحال ہوگا۔ اس کے بعد تعلیم کے حصول کی تگ و دو۔ رسالت ماب ؐ نے فرمایا کہ اگر تمہیں تعلیم کے حصول کے لیے چین بھی جانا پڑے، یہ اس وقت جان جوکھوں کا کام تھا۔ امکان تھا کہ آپ واپس بھی نہ آئیں، تب بھی رسالت ماب ؐ نے یہ کہا۔ پھر کہا علم حاصل کرو، مھد سے لحد تک۔ آپ نے علم کی بنیاد پر ایسے انقلاب کی بنیاد رکھی، جس کے سبب صدیوں تک مسلمان سائنسدان پیدا ہوتے رہے۔ آج ہم اپنی حالت دیکھیں، ہم علم کے لیے کس قدر تگ و دو کرتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ اسلام نے خواتین کو وراثت کا حق دیا، یورپ میں سو سال پہلے عورت کو یہ حق دیا گیا۔ مغرب میں ثقافت کو دین سے خلط ملط کیا جاتا ہے۔ آج ہم نے پاکستان میں عورت کو پندرہ سو برس قبل دیا ہوا حق دینے کے لیے قانون سازی کی ہے۔ نبی اکرم ؐ نے کہا کہ بہتر ہے کہ غلاموں کو آزاد کرو، اگر ایسا نہیں کرسکتے تو ان کو اپنے گھر کے ایک فرد کی طرح رکھو۔ اسلامی ممالک میں غلام بادشاہ بنے۔ ہر وہ شخص جو رسالت ماب کے قریب ہوا، ایک قائد بنا۔ ہماری نسلیں ان باتوں کو نہیں سمجھتیں، ہم کسی کو کیا سمجھائیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ مسلمان بادشاہتوں اور نبی کریم ؐ کے دس سالہ زندگی کے بارے شبہ کا شکار نہ ہوں۔ نبی کریم ؐ کی تعلیمات یہ نہ تھیں، جو بعد کے ادوار میں ہوا۔ نبی کریم ؐ کا پورا انقلاب نظریاتی انقلاب تھا۔

عمران خان نے مسلمان ممالک کے وزرائے خارجہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اسلامی اقدار سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں۔ ہمارے ملک میں جنسی جرائم، بچوں کا جنسی استحصال سب سے بڑھتا ہوا جرم ہے، جس کی وجہ موبائل فون ہے۔ آج ہر بچے کی دسترس میں اخلاق سے عاری ویڈیوز ہیں، ایسا انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ اس اخلاق باختگی کے نتیجے میں معاشرے میں ایک بے چینی جنم لیتی ہے۔ والدین کو نہیں معلوم کہ ان کا بچہ اپنے کمرے میں موبائل پر کیا کر رہا ہے۔  ہمیں سوچنا ہے کہ ہم نے اس سے کیسے مقابلہ کرنا ہے۔ اسلام خاندانی نظام کی حفاظت کرتا ہے، لیکن جو ثقافت سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہے، اس میں ہمارے لیے اس نظام کو محفوظ کرنا مشکل ہے۔ ہم نے اسی سے لڑنے کے لیے رحمۃ للعالمین اتھارٹی تشکیل دی ہے۔

اپنے خطاب کے آخری حصے میں عمران خان نے کہا کہ ہم نے بحیثیت ملت فلسطینوں اور کشمیریوں کو ناکام کیا ہے۔ ہم پراگندہ ہیں، ہمارا دشمن جانتا ہے کہ ان کی ایک آواز نہیں ہے۔ ہم یہاں کسی ملک کا مقابلہ کرنے کی بات نہیں کر رہے، بلکہ ہم یہاں فلسطینیوں اور کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں ان کے حقوق کی توثیق کرتی ہیں، لیکن ان کو یہ حق حاصل نہیں ہیں، کیونکہ ہمارے دشمن پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ ہم فقط قراردادیں پاس کرتے ہیں اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ عمران نے کہا کہ میں آپ سے اپنی خارجہ پالیسی بدلنے کا نہیں کہہ رہا، میرا تقاضا فقط یہ ہے کہ فلسطین جہاں دن دھیاڑے ڈاکہ ڈل رہا ہے، کے حق میں آواز اٹھائیں۔ کشمیر جہاں جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کے لیے کچھ کریں۔ عمران نے کہا کہ اسرائیل اور ہندوستان جانتے ہیں کہ ہم موثر نہیں ہیں۔ یوکرین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ او آئی سی اور چین کو مل کر اس مسئلے میں ثالثی کرنی چاہیئے۔ عمران خان نے افغانستان کی مدد کرنے کی بھی ایک مرتبہ پھر اپیل کی۔

عمران خان کا خطاب کسی وضاحت اور تعریف کا محتاج نہیں ہے۔ اس خطاب میں عمران خان نے امت مسلمہ کو درپیش بہت سے چیلنجز کا احاطہ کیا ہے۔ بعض مسائل کے حوالے سے شاید انھوں نے جان بوجھ کر کلام نہیں کیا۔ جیسا کہ یمن، بحرین کے مسائل، اسلامی ممالک میں قائم آمرانہ حکومتیں، تاہم جتنا کچھ انھوں نے کہہ دیا ہے، اگر اس کو کھلے کانوں سے سنا جائے تو انسان کی اصلاح کے لیے کافی ہے۔ عمران خان کے اس خطاب پر یقیناً بہت سے تجزیات آئیں گے، تاہم میں دیکھ رہا ہوں کہ مغرب میں رہنے والا ایک مسلمان کھلاڑی حقیقی اسلام کی ترجمانی کر رہا ہے۔ وہ اس زبان میں بات کر رہا ہے، جو مغرب کو سمجھ آتی ہے۔ عمران نے اپنے اس خطاب میں ظاہر کیا کہ وہ فقط پاکستان کا نہیں بلکہ عالم اسلام کے قائد ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا یہ خطاب جہاں اربوں مسلمانوں کے دل کی آواز ہے، وہیں چند کانوں کے لیے یہ صدا فکر انگیز ہے، وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایسے نظریات کا حامل شخص زیادہ دیر برسر اقتدار رہے یا مزید تقاریر کرکے خواب غفلت کی شکار ملت کو جگا سکے۔ ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔ اللہ کریم عالم اسلام کے اس عظیم سرمائے کی حفاظت فرمائے، آمین۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز