ملک میں جاری سیاسی گرما گرمی

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
جب سے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے، وہ مسلسل عوام کے درمیان ہیں۔ گذشتہ دنوں منعقد ہونے والے پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ان کی جماعت ایک واضح اکثریت سے جیتی، جس کے سبب پنجاب اسمبلی میں ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کی حکومت تشکیل دے دی گئی۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے مطابق ان انتخابات میں حکومتی مشینری کو بے دریغ استعمال کیا گیا اور دھاندلی کے ذریعے ان کی جماعت کو ہرانے کی کوشش کی گئی، تاہم انتخابات میں ووٹر ٹرن آوٹ کی وجہ سے حکومت کی ساری کوششیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ختم کیا گیا۔ آئین پاکستان کے مطابق، کسی بھی حکومت کو آئینی طور پر ختم کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اس کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ عمران خان حکومت کے اتحادی اور کچھ دیگر پارٹی اراکین اچانک عمران حکومت کے خلاف ہوگئے۔ پارلیمنٹ میں موجود مختلف نظریاتی گروہوں نے باہمی طور پر اتحاد کیا، یوں عمران خان کی اکثریت اقلیت میں بدل گئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر نے عمران خان کے خلاف پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ مذکورہ بالا جماعتوں کو باہم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا بھی کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ یہ تمام جماعتیں ملکی انتخابات میں ایک دوسرے کے مخالف لڑتی رہی ہیں اور ان جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے پر طرح طرح کے الزامات دھرتے آئے ہیں۔اس سب کے باوجود عمران خان کے خلاف یہ سب باہم شیر و شکر ہوگئے اور اب تک ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت کے خاتمے کے پیچھے امریکی سازش ہے، جس کی تحقیق کا وہ مسلسل مطالبہ کرتے ہیں۔ ظاہری وجہ آپ بھی جانتے ہیں کہ عمران نے روس کا دورہ کیوں کیا اور امریکہ کو فضائی اڈے دینے کے حوالے سے انکار کیوں کیا۔ یعنی اگر عمران خان روس کا دورہ نہ کرتا اور یوکرائن جنگ کے حوالے سے امریکہ اور یورپ کی خوشنودی کا حامل بیان دے دیتا نیز افغانستان پر حملوں کے لیے امریکہ کو اڈے فراہم کر دیتا تو امریکا کو پاکستان سے کوئی مشکل نہ تھی۔

امریکا ہم سے خوش ہے یا یورپ ناراض، اس کا ہماری اندرونی سیاست اور حکومت سازی سے کیا تعلق ہے۔؟ دنیا میں کتنے ہی ایسے ممالک ہیں، جو پاکستان سے خوش نہیں ہوں گے۔ ہندوستان تو ہمارے وجود کا ہی دشمن ہے، لیکن کیا اس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ پاکستان میں حکومت کو بدلنے کے لیے کچھ کرسکے۔ تیسری دنیا  کے اکثر ممالک کے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ جس سے ناراض ہو جائیں، اس کی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسلم دنیا میں شاہ فیصل، صدام حسین، کرنل قذافی، حسنی مبارک، علی عبد اللہ صالح، علی زین العابدین امریکی ناراضگی کے اثرات کی شاہکار مثالیں ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ امریکہ کو ہمیشہ ہی کامیابی ملے، ایران اور شام میں امریکا کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم ان ممالک کو مشکلات سے بہرحال دوچار ہونا پڑا۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ امریکا ہر معاملے میں براہ راست مداخلت کرے، دنیا کے ممالک میں اس نے اپنے نیٹ ورک کو اس انداز سے پھیلایا ہوا ہے کہ جہاں اور جب اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے، تانے بانے ہلا کر اپنی غیر پسندیدہ شخصیات کو ایک طرف کر دیتا ہے۔ عراق اور لیبیا میں سربراہان مملکت کا ریاستی مشینری پر کنڑول چونکہ مضبوط تھا، اس لیے امریکا کو براہ راست مداخلت کرنی پڑی، تاہم بہت سے ایسے ممالک ہیں، جہاں اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی ’’پیسہ پھینک، تماشا دیکھ۔‘‘ اگر کوئی کہے کہ عمران خان کی حکومت فقط اندرونی مسائل اور مشکلات کی وجہ سے ختم ہوگئی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ معاشی اور اقتصادی مسائل اس وقت عمران حکومت سے زیادہ ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس وقت ملک میں جاری صورتحال کا حل کیا ہے۔ ظاہراً اس کا حل نہایت سادہ ہے کہ عادلانہ اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں، جو بھی جماعت ملک میں اکثریت حاصل کرلے، اسے حکومت بنانے کی دعوت دی جائے، تاہم یہ سادہ سا حل جتنا آسان دکھائی دیتا ہے، اتنا ہے نہیں۔ وہ قوتیں جنھوں نے عمران حکومت کا خاتمہ کیا، وہ نہیں چاہیں گی کہ اقتدار کسی ایسے فرد کے پاس چلا جائے، جس پر ہمارا اختیار نہ ہو، لیکن اس وقت ان کی مشکل عمران خان کی عوامی مقبولیت ہے۔ عوامی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے تقریباً ہر حربہ آزمایا جارہا ہے، جس میں آخری حربہ شاید عمران خان کی گرفتاری اور تحریک انصاف پر پابندی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل تحریک لبیک کے ساتھ کیا گیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ غیر دانشمندانہ فیصلہ ہوگا، وطن عزیز پاکستان کسی بھی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہے۔ ایک مقبول عوامی پارٹی کے راہنماء کے خلاف اس طرح کا کوئی بھی اقدام یا اس کی جان پر حملہ ملک کو ایک مرتبہ پھر اسّی کی دہائی کی جانب دھکیل دے گا، جو وطن عزیز کے ساتھ ظلم ہوگا اور اس کے کرداروں کو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک میں جمہوریت معطل ہے اور اس کا واحد حل منصفانہ عام انتخابات کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ہر وہ ذمہ دار جو کسی بھی دباؤ کے سبب یہ دانشمندانہ فیصلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اسے فی الفور اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیئے، تاکہ ملک درست سمت میں سفر کرسکے اور ملکی اداروں کی توقیر بھی بحال رہے۔