مہدیؑ منتظر کے ظہور کا عقیدہ

Published by fawad on

(اہل سنت کی نگاہ میں)

سید حیدر نقوی
سید حیدر نقوی


امام مہدی کا تصور اسلام میں احادیث کی بنیادوں پر اُمت مسلمہ اور تمام دنیا کے نجات دہندہ کی حیثیت سے پایا جاتا ہے اور اہل سنت میں ان کے آخرت یا قرب قیامت کے نزدیک ظہور ہونے کے بارے میں ایک سے زیادہ روایات پائی جاتی ہیں ۔حضرت امام مہدی ؑ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات تمام مستند کتب مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہ میں ملتے ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں جن سے یہ تو ثابت ہے کہ وہ ان کو نبی پاک ﷺ اور اہل بیت علیہم السلام کی نسل سے مانتے ہیں اوراحادیث کے مطابق ان کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔ امام مہدی ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ قیامت کے نزدیک اسلامی حکومت قائم کرکے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں عقائد تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں ملتے ہیں جو آخرِ دنیا میں خدا کی سچی حکومت قائم کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں متعدد مذاہب میں پیشین گوئیاں ملتی ہیں اور الہامی کتب میں بھی یہ ذکر شامل ہے۔ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق یہ شخص امام مہدی ؑ ہوں گے اور ان کے ساتھ حضرت عیسیٰ ؑ کا ظہور بھی ہوگا اور یہ دونوں علیحدہ شخصیات ہیں۔ ان کی آمد اور ان کی نشانیوں کی حدیث میں تفصیل موجود ہے ۔


اہل سنت کے علماء کرام، فقھاء، محدثین، مورخین ،ادباء، مفکرین اور مفسرین بھی مہدی منتظر کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں اور مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے کہ مھدویت کا عقیدہ ضروریات دین اسلام میں سے ہے جس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔”المجلۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورہ” شمارہ نمبر ۲ ص ۱۴۴ میں لکھا ہے کہ امام مہدی عج کے ظہور کی تصدیق ایمان میں داخل ہے اورمھدی کے ظہور کی تصدیق یعنی رسول اکرم ﷺکے قول کی تصدیق ہے اور جو مھدی کے ظہور کا انکار کرے یعنی اس نے رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کو جھٹلایا ہے۔


اس مختصر سے مضمون میں ان میں سے بعض مشہور ترین علمائے اہل سنت کے اقتباسات ان کے اسمائے گرامی اور ان کے سال وفات کے ہمراہ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں:
محمد بن حسین بن ابراہیم آبری سجستانی (متوفی 363ہجری):
حضرت امام مہدی سے متعلق روایات متواتر ہیں اور راویوں کی اکثریت نے حضرت رسول خدا ﷺ سے یہ روایتیں نقل کی ہیں:وہ ظاہر ہوں گے اور وہ آپ ص کے اہل بیت (علیہم السلام) میں سے ہوں گے اور وہ زمین سے ظلم و ناانصافی کو ختم کرتے ہوئے ایک عادل حکومت کا قیام فرمائیں گے اور ان کے زمانے میں حضرت عیسیٰ ظاہر ہوں گے اور ان کا دور حضرت عیسیٰؑکی واپسی کا دور ہوگا اور حضرت عیسیٰ ؑآپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔(الصواعق المحرقہ، باب۱۱، کتاب۱، ص۲۵۴، ابوالحسین ، آبری، اہل سنت کے بزرگ مرتبہ عالم ہیں۔ ’’مناقب الشافعی‘‘ آپ کی مشہور کتاب ہے۔)
امام ابو نعیم ا صفہانی (متوفی 430ہجری):
رسول اللہ ص نے فرمایا:چاہے دنیا کا ایک دن بھی باقی ہو، اللہ تعالیٰ ایک مرد کو مبعوث کرے گا، جس کا نام میرا نام ہوگا، جس کا اخلاق میرا اخلاق ہوگا اور جس کی کنیت ابو عبداللہ ہوگی۔( علامہ جلال الدین سیوطی، العرف الوردی فی اخبار المھدی، حدیث 20)
شیخ محی الدین ابن عربیؒ (متوفی 638ہجری) :
جان لو کہ مہدی کا نکلنا حتمی اور ضروری ہے۔اور وہ اسی وقت خروج کریںگے جب دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی وہ اسکو عدل وانصاف سے بھر دیں گے ۔۔۔وہ پیغمبرکی عترت اوراولاد فاطمہ میں سے ہیں،انکے دادا حسین ابن علی ابن ابی طالب اور والد حسن عسکری ابن امام علی نقیؑ ہیں۔۔۔وہ رسول ؐکے ہمنام ہیں مسلمان ان کے ہاتھوں پر رکن و مقام کے درمیان بیعت کریں گے۔(الصوفی المشتھر بالشیخ الاکبر محی الدین ابن عربی محمد بن علی الحاتمی،الفتوحات المکیہ، باب 366، فی معرفۃ منزل وزراء المھدی، ج3 ، ص 327)
ابو نصر فارابی( متوفی650ہجری) :
افلاطون نے اپنی کتاب ’’ Republic‘‘ میں ریاست کا جو نقشہ کھینچا ہے اور فلسفی بادشاہ کی جو بات کی ہے۔ فارابی اس سے بہت متاثر تھا اور اپنی کتاب’’ المدینہ الفاضلہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ جو آئیڈیل ریاست اور فلسفی بادشاہ کی افلاطون نے بات کی ہے وہ مدینہ میں پیغمبر اسلامؐ نے قائم کی تھی اور مستقبل میں بھی اگرکبھی قائم ہوگی تو ایک صالح امام (امام مہدیؑ) کے ہاتھوں ہی قائم ہوگی۔(سقراط، باب4، ص 206)
کمال الدین محمد بن طلحہ الشافعی (متوفی 652ہجری):
امام مہدی، امام حسن عسکری کے فرزند ہیں ،سامرہ میں پیدا ہوئے۔کنیت ابوالقاسم اورلقب حجت،خلف صالح اوربقولے منتظر ہے۔ وہ اس وقت بقید حیات ہیں اور پردہ غیبت میں ہیں۔(مطالب السوول فی مناقب آل الرسول ،باب امام مہدی، ج۲، ص۱۵۲ و۱۵۳،باب۱۲)
محدث سبط ابن جوزیؒ (متوفی 654ہجری) :
آپؑ (مہدیؑ)کی کنیت ابو عبداللہ اور ابو القاسم ہے۔ آپؑ ہی خلف، حجت، صاحب الزمان، قائم اور منتظر ہیں، آپؑ پر امامت ختم ہے۔( سنن ابی دائود، کتاب المہدی، رقم الحدیث: 4283، ج4، ص 107،تذکرۃالخواص،ص377)
حافظ سعد منذری (متوفی 656ہجری):
ابودائود کی تلخیص میں ظہور مہدی کی کئی احادیث کے متعلق صحت کا حکم لگایا ہے۔ ان کے نزدیک بھی ظہور مہدی کی حدیثیں صحیح ہیں۔(شرح معالم السنن للخطابی، ص 154تا162، ج2)
حافظ محمد ابن یو سف علامہ گنجی شافعی (متوفی658ہجری):
چاہے دنیا کا ایک دن بھی باقی ہو، اللہ تعالیٰ ایک مرد کو مبعوث کرے گا، جس کا نام میرا نام ہوگا، جس کا اخلاق میرا اخلاق ہوگا اور جس کی کنیت ابو عبداللہ ہوگی۔لوگ اس کی رکن اور مقام کے مابین بیعت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے دین کو اس کے اصل مقام کی طرف پلٹائے گا، اسے فتوحات عطا کرے گا اور زمین پر کوئی شخص ایسا باقی نہیں رہے گا، جو لاالہ الااللہ کا اقرار نہیں کرے گا۔ اس موقع پر حضرت سلمان (فارسی) کھڑے ہوگئے اور عرض کی یارسول اللہ! وہ آپﷺ کے کس بیٹے کی اولاد میں سے ہوگا؟آپؐ نے امام حسین پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا کہ میرے اس بیٹے کی اولاد میں سے۔(البیان فی اخبار صاحب الزمان،ص 96حدیث 42)اورعلامہ مزید فرماتے ہیں: امام ابو محمد حسن عسکری نے ایک اولاد چھوڑی وہی امام منتظر ہیں۔(کفایۃالطالب، ص۳۱۲)
علامہ شمس الدین قاضی ابن خلکان شافعی (متوفی 681ہجری):
ابوالقاسم محمدا بن حسن عسکری ابن علی ابن محمد جوادبارہ امامی شیعوںکے نزدیک بارہویں امام اور حجت ہیں انکی ولادت جمعہ15شعبان255ہجری کو ہوئی، پدربزرگوار کی شہادت کے وقت آپ کی عمر پانچ سال تھی۔(وفیات الاعیان،ج۴،ص۱۷۶)
امام شمس الدین حافظ الذہبی (متوفی 748ہجری):
ظہور مہدی کے لیے جن احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے وہ صحیح ہیں۔ امام احمد ترمذی اور ابو داؤد وغیرہ نے نقل کیا ہے ان میں سے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت اُم سلمہؓ، حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت علیؓ کی روایتیں ہیں۔ (مختصر منہاج السنۃ ،ص۵۳۴)ایک اور جگہ لکھتے ہیں:محمدا بن حسن عسکری ا بن علی نقی ابن محمد الجوادا بن علی رضاا بن موسی کاظم ا بن جعفرصادق علوی حسینی ابوالقاسم جنکو رافضہ نے خلف حجت،مہدی،منتظراورصاحب الزمان کا لقب دیا ہے اور وہ بارہویں امام ہیں۔(العبر فی خبر من غبر،ج۱،ص۳۸۱)
علامہ ابن قیم جوزیہ حنبلی (متوفی 751ہجری):
اس بارے میں تواتر موجود ہے کہ مہدی رسول اللہ ص کے اہل بیت ؑمیں سے ہوں گے، عیسیٰ علیہ السلام ان کے ظہور کے وقت آئیں گے اور آپ ؑکے پیچھے نماز ادا کریں گے۔(المنار المنیف فی الصحیح والضعیف،فصل ۵۰)
اسماعیل بن کثیر دمشقی(متوفی 774ہجری):
مہدی علیہ السلام خلفائے راشدین اور آئمہ ہدی میں سے ایک ہیں جن کا ذکر نبی پاک ﷺ سے منقول احادیث میں آیا ہے اور ان کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے سے پہلے ہوگا، وہ رسول اللہﷺ اور حضرت فاطمہ (س) کی اولاد میں سے ہوں گے۔( النہایہ فی الفتن والملاحم ،فصل فی ذکر المہدی الذی یکون فی آخر الزمان)
مسعود بن عمر بن سعد الدین تفتازانی (متوفی 793ہجری):
اولاد فاطمہ میں سے ایک امام کے ظہور کے بارے میں صحیح روایات آئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ فاطمہؑ کی نسل سے ایک پیشوا ظہور کریں گے، وہ دنیا کو اس طرح سے عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ امام مہدی کا ظہور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔(شرح المقاصد، بحث امامت)
ابن خلدون مغربی (متوفی808ہجری):
تمام اہل اسلام کے نزدیک یہ بات ہرزمانے میں شہرت کی حامل رہی ہے کہ آخری زمانے میں ایک شخص کاظہور ضروری ہے جو آپﷺ کے اہل بیت علیہم السلام سے ہوگا،جو دین کے لیے ایک ستون کی مانند ہوگا، عدل و مساوات کو عام کرے گا، مسلمان اس کی پیروی کریں گے، وہ تمام اسلامی ممالک پر تسلط پائے گا اور اس کا نام مہدیؑ ہوگا۔(المقدمہ ابن خلدون،ص۷۶۳)
محمد بن محمد بن محمود البخاری معروف بہ خواجہ پارسا حنفی نقشبندی (متوفی 822 ہجری) :
رشید الدین دہلوی اپنی کتاب ایضاح لطافۃ المقال میں خواجہ پارساؒ (خلیفہ سالار نقشبندیہ بہاء الدین نقشبندؒ ) کا امام مہدیؑ سے متعلق موقف ان کی کتاب فصل الخطاب سے یوں بیان کرتے ہیں کہ خواجہ پارساؒ فرماتے ہیں کہ حدیث مقدسہ میں ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں رسول اکرمؐ نے فرمایا:
اگر دنیا میں سے صرف ایک دن ہی باقی بچا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو دراز فرمائے گا حتیٰ کہ میرے اہل بیتؑ میں سے ایک شخص کو بھیجے گا وہ میرا ہم نام ہوگا ان کے والد میرے والد کے ہم نام ہوں گے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے کہ وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔(سنن ابی دائود، کتاب المھدی،رقم الحدیث: 4282، ج 4، ص 106)
اس طرح بیان کیا ہے:’’ائمہ اہلبیت اطہار میں سے ابو محمد حسن عسکری ہیں۔۔۔انکی اولاد میںسے صرف ابوالقاسم محمد منتظرالمعروف قائم،حجت،مہدی،صاحب الزمان اورشیعوں کے نزدیک بارہ اماموں میں سے آخری ہیں۔ولادت 15شعبان 255ھ کو ہوئی۔ (المرقاۃفی شرح المشکاۃ،ج۱۰ص۳۳۶و۳۳۷)
علامہ محمد بن محمد بن یوسف سنوسی (متوفی 895ہجری):
’’وقیل یعنی الامام المھدی الاتی فی آخر الزمان ‘‘۔ یعنی مراداِمَامُکُمْ مِنْکُمْ (۱)اور فیقول امیرھم سے مہدی علیہ السلام ہیں جو آخری زمانے میں آئیں گے۔ (مکمل اکمال الاکمال ،ص 268،ج1)
۱) وَعَنْہُ اَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: ((کَیْفَ بِکُمْ اِذَا نَزَلَ فِیْکُمْ عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ (وَفِیْ لَفْظٍ) فَاَمَّکُمْ اَوْ قَالَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ)) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا: تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا، جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔(مسند احمد: ۷۶۶۶)
شیخ نور الدین علامہ عبدالرحمان جامی حنفی(متوفی 898ہجری):
امام مہدیؑ سامرہ میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کی ولادت پوشیدہ رکھی گئی ہے وہ امام حسن عسکریؑ کی موجودگی میں غائب ہو گئے ہیں۔ الذی یملأ الارض عدلًا و قسطًا۔۔۔وہ ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے بھریں گے۔(کتاب:شواھد النبوۃ، ص۴۰۴۔ ۴۰۸،مولف: علامہ عبدالرحمن جامی حنفی )
علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی 911ہجری):
علامہ سیوطی نے اپنی اس کتاب میں امام مہدی کے بارے میں اپنی تحقیقات سے مندرجہ ذیل چار نتائج اخذ کیے ہیں:(i)امام مہدی بارہ خلفاء میں سے ایک ہیںجن کا ذکر جابر بن سمرہ کی حدیث میں آیا ہے۔ (ii) مہدی ہرگز عباس عبدالمطلب کی اولاد میں سے نہیں ہو سکتے۔(iii) لا مہدی الا عیسی بن مریم یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کے مقابل میں وہ احادیث جو ظہور مہدی کے بارے میں ہیں اور آپ کو رسول اللہ ﷺکی اولاد میں سے قرار دیتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ تواتر کو پہنچتی ہیں اور یہ ضعیف حدیث ان سے متعارض ہے۔(iv)یہ جو نقل کیا گیا ہے کہ مہدی مغرب سے ظہور کریں گے بے بنیاد ہے اور اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔(العرف الوردی فی اخبار المہدی)
علامہ سمہودی (متوفی 911ہجری):
احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مہدی ؑ اولاد فاطمہ(س) میں سے ہیں۔ (فیض القدیر، ص ۲۷۹، ج۶)
سید جمال الدین امیر عطاء اللہؒ بن امیر فضل الله حسینی(متوفی 926ہجری):
آپ کا نام و کنیت وہی ہے جو خیر الانام حضرت محمد مصطفیؐ کی ہے، آپ کے القاب مہدی، منتظر، خلف صالح اور صاحب الزمان ہیں۔(ملا علی قاری صاحب مرقاۃ نے انھیں اپنے مشائخ میں ذکر کیا ہے۔ حسین بن حسن دیار بکری نے تاریخ خمیس میں، عبدالحق دہلوی نے مدارج النبوۃ میں اور شاہ ولی اللہ نے ازالۃ الخلفاء میں ان سے اقوال اور اخبار نقل کئے ہیں۔ ان کی اہم ترین کتاب روضۃ الاحباب فی سیر النبی و الآل و الاصحاب ہے۔ (آخری تاجدار امامت، ص 129، مطبوعہ: زہرا اکادمی، کراچی))
شیخ عارف عبدالوہاب شعرانیؒ حنفی(متوفی973ہجری):
امام مہدیؑ، امام حسن عسکری علیہ السلام کے بیٹے ہیں وہ 15شعبان 255ھ کو دنیا میں آئے اور آج تک زندہ و باقی ہیں۔ رسول اکرمﷺ سے ہم تک پہنچنے والی روایات کے مطابق جب وہ ظہور فرمائیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اُتریں گے اور آپؑ سے ملاقات کریں گے۔ تمام علامتیں جیسے ظہور مہدیؑ، خروج دجال، نزول عیسیٰؑ، خروج دابہ، سورج کا مغرب سے نکلنا، قرآن کا اٹھ جانا، سیدیاجوج کا کھل جانا، سب حق ہیں۔(الیواقیت والجواہر، ج2،ص127، الیواقیت، والجواھر، المبحث الخامس و الستون فی بیان جمیع اشراط الساعۃ، ج3، ص 145-142)
احمد ابن حجرھیتمی شافعی(متوفی974ہجری):
درست قول یہ ہے کہ امام مہدی کا خروج حضرت عیسیٰ کے ظہور سے پہلے ہوگا۔ امام مہدی کے ظہور کی روایات متواتر اور مستفیض ہیں کہ آپ اہل بیت پیغمبر میں سے ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور حضرت عیسیٰ آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ اگر امام مہدی کا انکار سنت کے انکار کے لیے ہوتو اس کے لیے کفر و ارتداد کا حکم جاری کیا جائے گا اور اس کے انکار کرنے والے کو قتل کیا جائے گااور حسن عسکریؑ کی سوائے ابوالقاسم محمد حجت کے کوئی اور اولاد نہیں تھی والد کے انتقال کے وقت انکی عمر پا نچ سال تھی لیکن خداوند عالم نے اسی پانچ سا ل میں انھیں علم و حکمت کی عطا کیااور انکو قائم منتظر کہاجا تا ہے۔ (صواعق المحرقہ،ص۲۰۸) ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ابو محمد الحسن الخالص جنہیں ابن فلکان نے عسکری کہا ہے 232ہجری کو پیدا ہوئے ۔۔۔سرمن رای میں وفات پائی اوراپنے باپ کو چچا کے پہلو میں دفن ہوئے آپ کی عمر ا ٹھائیس سال تھی اورکہا جاتا ہے کہ آپ کو بھی زہر دیا گیا تھا آپ کا فقط ایک بیٹا تھا ابوالقاسم محمد بن حج اوروالد کی وفات کی وقت اس کی عمر پانچ برس تھی۔لیکن اسی عمر میں اللہ تعالی نے اسے حکمت عطا کر رکھی تھی اوراسے قائم منتظر کہا جاتا ہے اورکہا جا تا ہے کہ یہ مدینہ میں غائب ہوئے اورنہیں معلوم کہاں گئے۔ (الاتحاف بحب الاشراف۶۸)
نور الدین ملا علی قاری ہروی حنفی مکی (متوفی 1014ہجری):
اپنی مشہور کتاب ،،المشرب الوردی فی مذہب المہدی،، میں حضرت ابوبکر پر حضرت مہدی علیہ السلام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:حضرت مہدی علیہ السلام کی افضلیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان کو ،،خلیفہ خدا،، کہا ہے جبکہ ابوبکر کو صرف ،،خلیفہ رسولؐ،، کہا جاتا ہے۔ مزید کہتے ہیں کہ یہ بارہ خلفا والی حدیث کی شرح کے ذیل میں لکھتے ہیں:’’بارہ امامی شیعہ ان کو پیغمبر کے اہل بیتؑ میں سے جانتے ہیں۔۔۔ان میں سے پہلے حضرت علیؑ۔۔۔اور آخری محمد مہدی ہیں رضوان اللہ علیھم اجمعین‘‘(المرقاۃفی شرح المشکاۃ،ج۱۰ص۳۳۶و۳۳۷)
علامہ محمد عبدالرؤوف مناوی (متوفی 1031ہجری):
یعنی ظہور مہدی کی احادیث بہت ہیں اور مشہور ہیں لوگوں نے اس پر مستقل تالیفات لکھی ہیں۔ (جامع صغیر ،شرح فیض القدیر ص۲۷۹،ج۶)
امام ربانی شیخ مجدد الف ثانیؒ (متوفی1034ہجری) :
امام ربانی شیخ مجدد الفاظ ثانیؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی احادیث میں آیا ہے:مہدیؑ ظاہر ہوں گے اور ان کی سر پر بادل کا ایک ٹکڑا ہو گا اور بادل میں ایک فرشتہ ہوگا جو آواز دے گا کہ یہ شخص (امام) مہدیؑ ہے اس کی پیروی کرو۔(الحافظ ابی نعیم الاصبہانی (المتوفی 430ھ) الاربعون حدیثاً فی المہدی، الحدیث السابع عشر، ص 73، مطبوعہ، موسسۃ آل البیت لاحیاء، التراث، بیروت، لبنان)
اعلامہ شیخ محقق عبدالحق محدث دہلویؒ (متوفی1052ہجری) :
امام مہدیؑ 15 شعبان سنہ 255 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں۔امام حسن عسکریؑ نے ان کے کان میں اذان و اقامت کہی ہے اور تھوڑا عرصہ کے بعد آپؑ نے فرمایا کہ وہ اس مالک کے سپرد ہو گئے جن کے پاس حضرت موسیٰ بچپنے میں تھے۔( مناقب الآئمہ ، مولف: علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ، اس کتاب کواحوال ائمہ اثنا عشراورفضائل ائمہ اثنا عشرکا نام بھی دیا گیا ہے۔)
علامہ نور الحق بن شیخ عبد الحق دہلوی (متوفی1073 ہجری):
صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں کہ: صحیح یہ ہے کہ مراد و امامکم منکم سے حضرت مہدی ہیں۔( تیسیر القاری فی شرح صحیح البخاری = شرح جامع الصحیح، ص ۳۴۶، ج۳)
مصری عالم الشیخ عبد اللہ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی(متوفی 1172ہجری):
امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند امام محمد الحجۃ ۔۔۔ 15شعبان 255ھ کی رات میں اپنے والد کی وفات سے پانچ سال پہلے پیدا ہوئے۔ آپؑ کے والد نے آپؑ کی ولادت کو پوشیدہ رکھا اور وقت کی سختیوں اور خلفاء وقت کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے پوشیدہ رکھنے کا حکم اپنے ساتھیوں کوبھی دیا کیونکہ اس وقت خلفاء ہاشمیوں کو تلاش کررہے تھے اور ان کو قید و قتل کررہے تھے اور ان کو سولی دینے کا ارادہ رکھتے تھے۔(اتحاف بحب الاشراف (شیخ عبد اللہ شبراوی شافعی): ۶۸)
ترک عالم قاضی بہلول بہجت افندی(متوفی1174ہجری):
بارھویں امام کی ولادت پندرہ شعبان 255ہجری کو ہوئی ؛ماںکانام نرجس ہے ۔انکے لئے دو غیبتیں ہیںایک صغری اور وسری کبری پھر انکے باقی رہنے کی تصریح کی ہے۔جب بھی خداوند عالم انکو اجزت دے گاوہ ظہور کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے۔(المحاکمۃ فی تاریخ آل محمد،ص۲۴۶)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (متوفی 1176ھ):
ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نص فرمائی ہے کہ امام مہدی قرب قیامت میں ظاہر ہوں گے اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک امام برحق ہیں اور وہ زمین کو عدل وانصاف کے ساتھ بھر دیں گے جیسا کہ ان سے پہلے ظلم اور بے انصافی کے ساتھ بھری ہوئی تھی۔۔۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد سے امام مہدی کے خلیفہ ہونے کی پیش گوئی فرمائی اور امام مہدی کی پیروی کرنا ان امور میں واجب ہوا جو خلیفہ سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ ان کی خلافت کا وقت آئے گا، لیکن یہ پیروی فی الحال نہیں بلکہ اس وقت ہوگی جبکہ امام مہدی کا ظہور ہوگا اور حجر اسود اور مقام ابراھیم کے درمیان ان کے ہاتھ پر بیعت ہوگی۔(شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ،ازالۃ الخفا )
محمد بن احمد سفارینی (متوفی 1188ہجری ):
خروج مہدی پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں، حتیٰ کہ وہ روایتیں تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہیں لہٰذا خروج مہدی پر ایمان واجب ہے جیسے کہ اہل علم کے نزدیک ثابت ہے اور عقائد کی کتابوں میں لکھا گیا ہے۔(شرح عقیدہ سفارینی ، ص ۸۰ ، ج۲)
و ما اتی فی النص من اشراط فکلّه حسن بلا شطاط
منها الامام الخاتم الفصیح محمد المهدی و المسیح
قیامت کی علامت کے بارے میں جو کچھ قرآن و حدیث میں آیا ہے وہ سب حق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ آخری امام محمد مہدیؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ بھی نازل ہوں گے۔(نظم ’’الدّر المضیتۂ فی عقیدۃ الفرقۃ المرضیۃ‘‘ )
حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلویؒ (متوفی 1233ہجری):
امام مہدیؑ حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوں گے کہ آدمیوں کی ایک جماعت آپؑ کو پہچان لے گی، اس سے قبل ماہ رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگ چکے ہوں گے۔(قیامت نامہ، ص 19)
علامہ عبد العزیز پرہاروی(متوفی 1239ہجری):
خروج مہدی کے بارے میں احادیث متواتر آچکی ہیں اس کے بعد پھر ان لوگوں کی تردید کی ہے جو محمد بن عبد اللہ المنصور عباسی یا عمر بن عبد العزیز یا محمد بن حنفیہ کو مہدی کہتے ہیں۔ (’’نبر اس ‘‘ شرح شرح عقائد ، ص524)
امام شوکانی (متوفی 1250ہجری):
مہدی ؑکی وہ احادیث جن پر واقف ہونا ان کے لیے ممکن ہوا پچاس مرفوع احادیث اور اٹھائیس آثار ہیں پھر انھوں نے ان سب احادیث کے سند وغیرہ پر کلام کے ساتھ نقل کیا ہے اور پھر فرمایا کہ جتنی احادیث ہم نے نقل کی ہیں یہ تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں جیسے کہ علم حدیث پر اطلاع رکھنے والوں سے مخفی نہیں۔ (الفتح الربانی ،ص 485، ج 6)
شیخ سلیمان قندوزی بلخی حنفی(متوفی1294ہجری) :
یہ روایت علماء اور اسلامی شخصیات کے نزدیک محقق و مسلم ہے کہ امام مہدی ؑکی ولادت 255ھ 15شعبان کو ہوئی اور وہ تاریخی شہر سامرا میں پیدا ہوئے۔(شواھد النبوۃ،ج۴۰۴۔۴۰۸)
قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (متوفی 1323ہجری):
صحابہؓ نے جب پیغمبر ﷺسے سوال کیا کہ آپؐ کے بعد کیا واقعات پیش آئیں گے تو نبی کریمؐ نے جواب میں حضرت مہدیؑ کا ذکرکیا۔ یعنی نبی کریمﷺ نے ان کے سوال کے جواب میں حضرت مہدیؑ کا ذکرکیا کہ مہدی کا ظہور ہوگا تو وہ لوگوں کو شرک و بدعت سے پاک کردیں گے۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کبھی بھی اُمت کو بغیر ہدایت کے نہیں چھوڑیں گے بلکہ مختلف صورتوں میں ان کی ہدایت کابندوبست ہوگا۔(الکوکب، الدری،ص 57، ج 2)
مولانا خلیل احمد سہارنپوری انبھٹوی (متوفی 1345ہجری):
احادیث مہدی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی مختلف نشانیوں کا ذکر کرتے ہیں اور بغیر کسی تردید کے پورے باب کی احادیث کی شرح کی ہے۔ ظہور مہدی کی احادیث سب کی سب ان کے نزدیک صحیح ہیں۔ (سنن ابوداؤد کی شرح بذل المجہور ، ص 190 تا200،ج 17)
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری(متوفی 1352ہجری):
تمام اہل اسلام متقدمین و متاخرین کے ہاں یہ مشہور ہے کہ آخری زمانے میں ایک آدمی کا ظہور ہوگا جو دین کی تائید کرے گا اور عدل ظاہر کرے گا اور تمام مسلمان اس کی تابعداری کریں گے اور تمام ممالک اسلامیہ پر اس کا غلبہ ہوگا، اس آدمی کو مہدی کہا جاتا ہے اور خروج و دجال اور دوسری قیامت کی نشانیاں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں وہ ان کے بعد ظہور پذیر ہوں گی اور حضرت عیسیٰعلیہ السلام بھی ان کے ظہور کے بعد اُتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام امام مہدیؑ کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔(تحفۃ الاحوذی،شرح جامع ترمذی، باب ماجاء فی المہدی ،ص484، ج 6)
حضرت شاہ انور شاہ کشمیری (متوفی 1352ہجری):
’’قولہ کیف انتم اذا انزل ابن مریم فیکم وامامکم المھدی‘‘ بخاری کی اس حدیث کی شرح میں حضرت لکھتے ہیں’’ المتبادر منہ الامام المھدی‘‘ یعنی وامامکم منکم سے ظاہر مراد حضرت مہدیؑ ہی ہیں۔( فیض الباری، ص 44، ج 4)
محمد بن احمد مالکی (ابن صباغ)(متوفی 1367ہجری):
ابو القاسم محمد حجت، حضرت حسن عسکری علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔ وہ شہر سامرا میں 15شعبان 255ھ کوپیدا ہوئے۔ (کتاب الفصول المہمہ، باب :12)
حضرت پیر مہر علی شاہ (متوفی1367ہجری) :
حضرت ظہور امام مہدیؑ سے قبل کے زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت قبلہ عالمؒ ( شیخ محی الدین ابن عربیؒ ) بعض اوقات آیت کریمہ ’’ظھر الفساد فی البروالبحر‘‘ پڑھ کر تبسم فرمایا کرتے تھے۔(مہر منیر، ص 429)
علامہ شبیر احمد عثمانی (متوفی 1369ہجری):
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے ان الفاظ پر کہ ’’امامکم منکم‘‘ پر بحث کرتے ہوئے حافظ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ:ابو الحسن الخعی نے مناقب شافعی میں ذکر کیا ہے کہ اس پر احادیث متواتر ہیں کہ مہدی اس اُمت سے ہوں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور اس کے بعد اس باب میں حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت کے ان الفاظ پر’فیقول امیرھم تعال ضل لنا، الخکہ امیرھم ھو امام المسلمین المھدی الموعود المسعود‘ یعنی حدیث کے الفاظ میں امیرھم سے مراد حضرت مہدی ہی ہیں۔ جو مسلمانوں کے امام ہوں گے جن کے آنے کا احادیث میں ذکر موجود ہے۔(فتح الملہم،باب نزول عیسیٰؑ، 302، ج1)
مفتی اعظم ہند حضرت مفتی کفایت اللہ (متوفی 1372ہجری):
قیامت سے پہلے دجال کا نکلنا، حضرت مسیح اور حضرت مہدی علیہما السلام کا تشریف لانا اور جن چیزوں کی خبر صحیح اور قابل استدلال احادیث سے ثابت ہوئی ہے ان کا واقع ہونا حق ہے۔ (رسالہ جواہر الایمان ،ص 8)
مولانا حسین احمد مدنیؒ(متوفی 1376ہجری):

یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/alkhalifa-tul-mahdi-as/


دارالعلوم دیوبند کے سابق سربراہ مولانا سید حسین احمد مدنی نے ایک کتاب ’’الخلیفۃ المہدی فی الاحدیث الصحیحہ‘‘ لکھی ہے۔ اس کے ابتدائیہ میں وہ لکھتے ہیں: ’’بعض مجالس علمیہ میں مہدئ موعود کا ذکر آیا تو کچھ ماہرین علم نے مہدئ موعود سے متعلق وارد حدیثوں کی صحت سے انکار کیا تو مجھے یہ بات اچھی لگی کہ اس موضوع سے متعلق مروی حسن و ضعیف روایتوں سے قطع نظر صحیح حدیثوں کو جمع کر دوں، تاکہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تبلیغ بھی ہوجائے۔ نیز ان حدیثوں کے جمع و تدوین سے ایک غرض یہ بھی ہے کہ بعض ان مصنفین کے کلام سے لوگ دھوکہ نہ کھا جائیں، جنھیں علم حدیث سے لگاؤ نہیں ہے، جیسے علامہ ابن خلدون وغیرہ یہ حضرات اگرچہ فن تاریخ میں معتمد و مستند ہیں، لیکن علم حدیث میں ان کے قول کا اعتبار نہیں ہے۔
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی(متوفی 1394ہجری ):
ظہور مہدی کی احادیث تواتر کو پہنچ چکی ہیں اور پوری اُمت ان احادیث کو قبول کر چکی ہے لہٰذا ظہور مہدی کا اعتقاد واجب ہے اور انکار کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ متکلمین نے اس کو ان عقائد میں ذکر کیا ہے جن کا اعتقاد ہر مسلمان پر واجب اور ضروری ہے۔(التعلیق الصبیح شرح مشکوۃ المصابیح ،ص 198، ج6)
الشیخ محمد ناصر الدین البانی (متوفی 1420ہجری):
حدیث رسول اکرمؐ:مہدی مجھ سے ہوں گے، روشن کشادہ پیشانی والے، اونچی ناک والے، وہ دنیا کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی، ان کی حکومت سات برس ہوگی۔(صحیح الجامع از شیخ البانی بحوالہ: سنن ابی دائود و مستدرک حاکم )
علماءاہل سنت کے بہت سے فاضل مصنف حضرت مہدیؑکے بارے میں لکھتے ہیں:
پس یہ مہدی(ع) جسے ترمذی، ابن ماجہ ، ابی داوود، ابن حجر ، ابن صباغ مالکی وصفدی وغیرہ نے ذکر کیا ہے یہ وہی مہدی موعود ہیں ۔وہ لوگ جو وجود مہدی(ع) کا انکار کرتے ہیں در حقیقت میں یہ لوگ اسلام اور رسول اکرم (ص)کا انکار کرتے ہیں ، کیوں کہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا :
من انکر خروج المہدی فقد کفر بما انزل علی محمد (ص)
یعنی جس نے مہدی(ع) کے وجود یاظہور کو جھٹلایا وہ محمد (ص) پر نازل ہونے والے دین کا کافر ہوگیا۔( ینابیع المودۃ، باب۴ ۹، ص ۷۴۵ ، عقد الدر فی اخبار المہدی المنتظر ، باب ۱۷فی شرفہ وعظیم منزلتہ ومقدمہ ابن خلدون ، ج۲، ص ۹۸۱، باب امر الفطمی ومایذہب الیہ الناس)۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے محبوب حضرت محمد ص کے دین برحق پر باقی رکھ اور اس مہدی ؑموعود جس کا وعدہ تو نے اور تیرے محبوب نے کیا ہے اس کو جلد پورا کر اور ہمیں ان کے ساتھیوں میں شمار کرتا کہ ہماری زندگی کا اختتام دین محمدیؐ پر ہو۔