×

مسجد الاقصیٰ پر قبضے کی وحشیانہ یہودی کوششیں

سید ثاقب اکبر

مسجد الاقصیٰ پر قبضے کی وحشیانہ یہودی کوششیں

غاصب صہیونی یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک مسلمان مسجد اقصیٰ سے ہاتھ نہیں اٹھا لیتے، جب تک مسجد اقصیٰ ان کے دلوں سے نہیں نکلتی، اس مسجد پر یہودیوں کا کامل تصرف اور قبضہ نہیں ہو جاتا، اس وقت تک صہیونی ریاست کی تشکیل کے مقاصد پورے نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس کو یہودی شہر بنانے اور مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں سے چھڑوانے کے لیے وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ گذشتہ کئی روز سے روزہ دار مسلمان نمازیوں پر مسجد کے اندر تشدد اور ظلم کے سلسلے جاری ہیں۔ صہیونی آباد کار جتھوں کی صورت میں مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور انھیں اسرائیلی پولیس کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ یہ صہیونی ظاہر کرتے ہیں کہ اس مسجد کے اندر انھیں اپنے طور طریقے کے مطابق عبادت کرنے کا حق ہے اور اس مسجد کی سرزمین بھی ان کا تاریخی ورثہ ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے مسلمانوں کو مسجد کے اندر یرغمال بنانا یا ان پر لاٹھی چارج کرنا، ان پر آنسو گیس پھینکنا اور طرح طرح سے ان پر تشدد کرنا، ان کا آئے روز کا وطیرہ بن چکا ہے۔ گذشتہ برس بھی اس مسجد پر کئی روز تک یلغار جاری رہی۔ بیت المقدس میں جو مسلمانوں کے محدود قدیمی محلے رہ گئے ہیں، ان سے بھی مسلمانوں کو نکالنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ وہ تمام دستاویزات جن میں خود اسرائیل بھی تسلیم کرچکا ہے کہ بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالخلافہ قرار پائے گا، انھیں وہ خود اپنے پائوں تلے روند رہا ہے۔ اسرائیل نے کئی ایک اقدامات کیے ہیں، تاکہ ناجائز صہیونی ریاست کا دارالحکومت تل ابیب کے بجائے بیت المقدس بن سکے۔ اس سلسلے میں اسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پوری سرپرستی حاصل ہے۔

دوسری طرف فلسطینی تمام تر مظالم سہہ کر بھی اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ غزہ کے فلسطینی ہی نہیں بلکہ مغربی کنارے کے فلسطینی بھی عملاً اب میدان میں آچکے ہیں۔ انھوں نے مارچ کے آخری ہفتے سے لے کر پندرہ اپریل تک مقبوضہ فلسطین کے اہم علاقوں میں صہیونیوں کے خلاف جو کارروائیاں کی ہیں، انھوں نے خود اسرائیل کے مستقبل کے لیے نئے سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ اسرائیل میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ مغربی کنارے پر تو ان کے حلیف محمود عباس کی حکومت ہے اور وہ اپنے علاقے کے فلسطینیوں کو قابو میں رکھ سکتے ہیں اور انھیں اسرائیل کے خلاف کسی کارروائی سے روک سکتے ہیں، لیکن ان حالیہ کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمود عباس کی گرفت اب مغربی کنارے کے فلسطینیوں پر خاصی کمزور ہوچکی ہے۔

گذشتہ برس بھی جب غزہ پر اسرائیل بمباری کر رہا تھا تو مغربی کنارے کے فلسطینی بھی ان کی حمایت میں متحرک نظر آنے لگے تھے۔ خاص طور پر بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ میں صہیونیوں کی کارروائیوں نے انھیں اٹھ کھڑا ہونے پر آمادہ کیا تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد اس علاقے کے فلسطینیوں نے اپنے آپ کو مختلف گروہوں میں منظم کرنے کا سلسلے شروع کر دیا تھا، جس کا نتیجہ حال ہی میں مقبوضہ فلسطین کے جنوب اور شمال میں چار مزاحمتی کارروائیوں کی صورت میں نکلا ہے، جن میں 14 صہیونی ہلاک ہوئے۔ نہایت مختصر وقت میں ان کارروائیوں کے جو نتائج نکلے ہیں، وہ فلسطین کی مزاحمتی تاریخ میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔ اتنے تھوڑے سے عرصے میں اتنے صہیونیوں کی ہلاکت نے صہیونی عوام کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ ان کارروائیوں میں حصہ لینے والے مجاہدین کا تعلق زیادہ تر مغربی کنارے سے ہے۔ بہرحال اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزاحمتی تحریک غزہ سے باہر بھی خاصی منظم ہوچکی ہے۔

بعید نہیں کہ مسجد الاقصیٰ کے نہتے نمازیوں پر ظلم کی تازہ لہر اور غزہ پر نئے حملے انہی مزاحمتی کارروائیوں کا نتیجہ ہوں اور اسرائیل اپنی رسوائی کا بدلہ ان نہتے روزہ داروں سے لے رہا ہو۔ یہ بات المناک ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے اسرائیل رمضان المبارک میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی نئی داستان رقم کرتا ہے۔ جہاں اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ بیت المقدس اور خاص طور پر مسجد اقصیٰ پر مکمل قبضہ اس کے منصوبوں کی تکمیل کرسکتا ہے، وہاں فلسطینی بالخصوص اور عالم اسلام بالعموم یہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کے موضوع کو زندہ رکھنے اور بالآخر فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلوانے نیز صہیونیوں سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ بیت المقدس کی عرب اور اسلامی حیثیت کو باقی رکھا جائے اور مسجدالاقصیٰ کو تمام تر قربانیاں دے کر آباد رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرح کا ظلم سہہ کر اور خوف کی ہر دیوار گرار کر مسلمان مسجد اقصیٰ میں پہنچتے ہیں اور اسے اپنے سجدوں سے آباد رکھتے ہیں۔

اس وقت پورے عالم اسلام میں جہاں عالمی یوم القدس منانے کی تیاریاں جاری ہیں اور اس کی مناسبت سے مختلف کانفرنسیں، سیمینار اور دیگر اجتماعات منعقد کیے جا رہے ہیں، وہاں مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کے خلاف صہیونی کارروائیوں کی مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی اور دیگر متعدد مذہبی جماعتوں نے آنے والے جمعہ کو فلسطینیوں سے یکجہتی اور اسرائیل کی مذمت کے لیے ریلیوں کا اعلان کر رکھا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مسجد اقصیٰ میں صہیونیوں کی جارحیت کے خلاف اپنا بیان ٹویٹر اکائونٹ پر ان الفاظ میں جاری کیا ہے: ’’ماہِ رمضان المبارک میں نمازِ جمعہ کے دوران مسجدِ اقصیٰ پر قابض اسرائیلی فوجیوں کے حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ مسجدِ اقصیٰ اہلِ اسلام کیلئے تیسرا مقدس ترین مقام ہے اور آج دنیا بھر کے مسلمان (اس حملے کا) درد اپنے سینوں میں محسوس کرتے ہیں۔‘‘

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر اس حوالے سے یہ بیان جاری کیا ہے: ’’مسجد اقصیٰ پر قابل مذمت حملہ اور اسرائیل کی طرف سے تشدد میں اضافہ انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ معصوم فلسطینیوں کی جانوں کے تحفظ اور بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو برقرار رکھے۔‘‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی گذشتہ روز مسجد اقصیٰ پر صہیونیوں کی یلغار کے نتیجے میں پیدا ہونے والے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس منعقد کیا ہے۔ درایں اثناء اردن کی پارلیمان کے 87 ارکان نے ایک قرار داد منظور کی ہے، جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عمان سے اسرائیلی سفیر کو واپس بھیجا جائے۔ اردن کی وزارت خارجہ نے بھی اس سلسلے میں اسرائیلی سفارتکاروں کو بلا کر احتجاج کیا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مسجد الاقصیٰ میں ناجائز صہیونی ریاست کے جرائم کو انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ فلسطین میں مقدس مقامات اور رمضان کے مقدس مہینے میں عبادت گزاروں پر صہیونیوں کی شرمناک جارحیت قابل مذمت ہے۔ فلسطین کی موجودہ تشویشناک صورت حال کے بارے میں بات کرتے ہوئے فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے سیکرٹری جنرل النخالہ نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ہمیں کسی بھی لمحے قابض ریاست کے ساتھ ایک مکمل تصادم کا انتظار کرنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انصاف پسند عالمی برادری اور خاص طور پر مسلمان مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے یکسو ہو جائیں اور باہمی تبادلہ خیال کے بعد کسی حکمت عملی پر اتفاق کر لیں۔

اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنا موقف واضح کر رکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مختلف ملکوں سے لا کر بسائے جانے والے یہودیوں کو ان کے گھروں میں واپس بھیجا جائے اور فلسطینی اپنے گھروں میں آباد ہوں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ ایک ہمہ گیر ریفرنڈم کے ذریعے کریں۔ اس ریفرنڈم میں وہ تمام مسلمان، مسیحی اور یہودی خاندان شریک ہوں، جو غاصب صہیونی ریاست سے پہلے کے سرزمین فلسطین کے باسی ہیں۔ ان فلسطینیوں کو اپنا مستقبل خود طے کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ ریفرنڈم کی نگرانی اقوام متحدہ کے سپرد کی جاسکتی ہے۔ جب تک یہ اصول تقسیم نہ کر لیا جائے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، باہر سے لا کر آباد کیے جانے والے افراد کا نہیں ہے، فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ دو ریاستی حل کا نظریہ ماضی میں بھی دھوکہ ہی ثابت ہوا ہے اور ویسے بھی یہ ظلم و ستم کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نظریہ فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی اور اپنے وطن پر ان کے حق ملکیت کی نفی پر استوار ہے۔ ہماری رائے میں ضروری ہے کہ آنے والے یوم القدس پر اس نظریے کو دنیا کے سامنے زیادہ وضاحت سے پیش کیا جائے۔

Share this content: