آئی ایس او، تعمیر و تربیت کے پچاس برس

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

نصف صدی ایک بہت بڑا عرصہ ہے، خاص طور پر ایک طلبہ تنظیم کے لیے۔ ہمارے سامنے کئی طلبہ تنظیمیں ابھریں اور دم توڑ گئیں۔ ان میں کئی تو ایسی ہیں کہ تاریخ بھی جنھیں یاد نہ رکھ سکے گی، کیونکہ ان کے دامن میں ایسے کارنامے ہی نہیں کہ جو اوراق تاریخ کی زینت بن سکیں۔ طلبہ تنظیموں ہی کا کیا کہنا، کئی سیاسی جماعتیں ہمارے سامنے قائم ہوئیں، انھوں نے بڑا زور و شور برپا کیا، لیکن بقول خواجہ آتش:

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک دو طلبہ اور سیاسی تنظیمیں ایسی بھی ہیں، جو نصف صدی سے بھی زیادہ عمر رکھتی ہیں۔ ہمارے پیش نظر اس وقت امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہے۔ گفتگو کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ جب آئی ایس او کا قیام عمل میں آیا تو مذہبی عنوان سے جو طلبہ تنظیمیں سرگرم عمل تھیں، وہ جو بھی دعویٰ کریں، بہرحال مسلکی تھیں اور شیعہ طلبہ کے لیے ان کے ہاں فعالیت اور پذیرائی کی گنجائش بہت کم تھی۔ دوسری طرف نیشنلسٹ یا اشتراکی نظریات کی حامل تنظیمیں تھیں۔ ایسے میں شیعہ طلبہ کو دینی فکر اور دینی تربیت کے راستے پر باقی رکھنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ تھا کہ ان کی اپنی ایک ایسی تنظیم ہو، جو ان کی تعلیم و تربیت اور دیگر اجتماعی امور میں سرپرستی کرسکے۔ اسی پس منظر میں 1972ء میں لاہور میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی گئی۔

یہ تنظیم پہلے روز سے ہی خالص طلبہ تنظیم ہے۔ اسے جمہوری بنیادوں پر استوار رکھا گیا ہے۔ ہر سال اس کے تمام یونٹوں، ڈویژنوں اور مرکز میں انتخابات ہوتے ہیں اور عہدیداروں کا چنائو کثرت رائے کی بنیاد پر عمل میں آتا ہے۔ یہ امر قابل ذکر بھی ہے اور قابل قدر بھی کہ ان پچاس برسوں میں یہ سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ اس میں جنرل ضیاء الحق کا تاریک اور وحشت آفریں دور بھی شامل ہے، جب طلبہ تنظیموں پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا دستور 1972ء میں ہی بن گیا تھا۔ تنظیم نے ہمیشہ دستوری تقاضوں کے مطابق عمل کیا اور اسی کے مطابق ہمیشہ داخلی انتخابات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس تنظیم کو دینی و روحانی تربیت کے لیے علماء کی طرف سے راہنمائی ہمیشہ حاصل رہی، لیکن تنظیمی دائرہ کار میں علماء اور ماہرین نے کبھی مداخلت نہیں کی، یہ بات کہنا آسان ہے لیکن نصف صدی کی حقیقت یہی ہے اور یہی آئی ایس او کی بقاء کا راز بھی ہے۔

آئی ایس او کا داخلی طور پر ایک دینی تربیتی نظام شروع ہی میں قائم ہوگیا تھا۔ یہ نظام کسی دبائو اور جبر پر مبنی نہیں ہے بلکہ آزاد انتخاب اور فطری آرزو کے راستے پر قائم ہے۔ اس کے لیے رفتہ رفتہ ایک نصاب بھی بن گیا، جس کے مطابق تربیت و تدریس کا سلسلہ قائم ہے۔ تربیت کے سلسلے مرکزی کنونشن سے لے کر یونٹوں اور مختلف علاقوں میں دروس تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ اخلاق، ایثار، خدا دوستی، دین کا آفاقی تصور، اتحاد امت، قرآن، سنت رسولؐ اور سیرت اہل بیتؑ سے تمسک آئی ایس او کے نوجوان اسی تربیتی نظام سے سیکھتے ہیں۔ اہلیت، قابلیت اور فعالیت کی بنیاد پر عہدیداروں کا انتخاب اسی نظام کا نتیجہ ہے۔ انسانی مزاج کی افتاد اور اس کے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن ایسی ہر صورت حال سے خوش اسلوبی اور تیز رفتاری سے نکل آنا ایک ہمہ گیر تنظیمی و تربیتی نظام کا نتیجہ ہے۔

تقریباً سینتیس برس سے آئی ایس او شعبہ طالبات بھی قائم ہے۔ ملک گیر سطح پر اس کا ڈھانچہ بھی اسی طرح سے کام کر رہا ہے۔ اس کا بھی اپنا تربیتی نظام ہے اور اس کے بھی انتخابات اور اجتماعات اسی طرح منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ عملی طور پر طلبہ اور طالبات کے دونوں شعبے جدا جدا کام کر رہے ہوتے ہیں، تاہم نظارت کی سطح پر ایک ہم آہنگ تربیتی نظام کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کالج کی سطح سے پہلے یعنی میٹرک تک کے طلبہ بھی آئی ایس او سے وابستگی اختیار کرسکتے ہیں۔ اس سطح کے رکن کو محب کہتے ہیں۔ محبین پر مشتمل ملک بھر میں سینکڑوں یونٹس موجود ہیں اور آئی ایس او کے وسیع تر اور دینی تصورات کے مطابق فعالیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آئی ایس او کے دیگر شعبوں میں خدمت خلق اور نظم و ضبط کے اہتمام کا ایک اہم شعبہ امامیہ سکائوٹس کا ہے۔ ان شعبوں کی اپنی تفصیلات ہیں، جس کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں۔

ملک بھر میں لاکھوں گھرانے آئی ایس او کی وجہ سے ہی دین دار ہیں۔ انھیں پہلے روز سے ہی اتحاد امت اور وطن کی محبت کا سبق سکھایا جاتا ہے، کیونکہ یہ وطن ہمارے بزرگوں نے اسلامی اقدار و تعلیمات کے فروغ کے لیے بڑی قربانیاں دے کر قائم کیا تھا۔ اس لیے یہ کوئی عام ملک نہیں ہے بلکہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت ہے۔ اس کی بقاء، اس کا استحکام اور اسے اس کے نظریے پر استوار اور قائم رکھتے ہوئے ترقی کی راہ پر لگانے کی کوشش کرنا اس کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ معاشرے کے تمام طبقوں میں آئی ایس او کے فارغ التحصیلان موجود ہیں۔ یہی تربیت یافتگان جدھر بھی گئے ہیں، انھوں نے اعلیٰ اور ارفع مثالیں قائم کی ہیں۔ ان میں استاد، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، قاضی، علماء، ادیب، شاعر، صحافی، بیوروکریٹ، سیاستدان، لازمی فورسز میں جا کر ملک کی خدمت کرنے والے، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں مصروف عمل افراد شامل ہیں۔ آئی ایس او کے ایسے بہت سے عہدیداران ہیں، جنھوں نے جہاں ایک طرف تنظیمی امور میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، وہاں تعلیم میں بھی اعلیٰ کارکردگی کی مثالیں قائم کی ہیں۔ آئی ایس او کے بہت سے سابق عہدیدار گولڈ میڈلسٹ ہیں۔

پاکستان کو حقیقی معنی میں ایک آزاد، طاقتور اسلامی اور فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا آئی ایس او کا ہمیشہ ارمان رہا ہے۔ آئی ایس او اگرچہ ایک سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ طلبہ تنظیم ہے، لیکن اپنے اجتماعی شعور کے پیش نظر اس نے آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔ عالم اسلام میں اتحاد کے لیے بھی آئی ایس او کو ایک توانا آواز قرار دیا جاسکتا ہے۔ داخلی طور پر مسلمانوں کے مابین اتحاد کے لیے بھی آئی ایس او کی کوششیں قابل ذکر اور قابل احترام ہیں۔ آئی ایس او کے لٹریچر پر ایک نظر ڈالی جائے تو پچاس سالہ دور میں آپ کو اس کی پبلی کیشنز میں کوئی چیز فرقہ وارانہ دکھائی نہیں دے گی۔ ملک کے اندر آئی ایس او نے فرقہ پرست خطیبوں اور ذاکروں کی کبھی حمایت نہیں کی بلکہ ان کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ہے۔ آئی ایس او نے ہمیشہ عوام کی دینی تربیت کرنے والے اور اتحاد کا پیغام دینے والے علماء کا ساتھ دیا ہے اور انھیں تقویت پہنچائی ہے۔



عالم اسلام کے مسائل کے لیے بھی آئی ایس او نے ہمیشہ آواز بلند کی ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے ملک کے تمام دیگر طبقوں کی طرح آئی ایس او اپنی صدا بلند کرتی رہی ہے۔ پاک وطن کے لیے قربانی کا جذبہ آئی ایس او کے تمام جوانوں میں پورے شعور اور جوش و ولولہ سے موجود ہے۔ فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں آئی ایس او ہمیشہ متحرک رہی ہے۔ آئی ایس او ایک قانون پسند تنظیم ہے۔ اس ملک میں آئی ایس او دہشتگردی کا شکار تو ہوئی ہے، اس راستے کو اس نے نہ فقط اختیار نہیں کیا بلکہ دہشتگردی کو اسلام سے انحراف گردانا ہے۔ اس ملک میں آئی ایس او امن و سلامتی کی داعی اور پاسبان ہے۔ جوانوں کی ایسی پاکباز، اعلیٰ اقدار اور تعمیری روایات کی حامل اس تنظیم کو سینے سے لگانے کی ضرورت ہے، لیکن اس ضرورت کا احساس ابھی اس ملک کے ذمہ دار اداروں کو اس طرح سے نہیں ہوا، جس طرح سے ہونا چاہیے۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز