انسان کی منزل

Published by fawad on

تحریر: مرضیہ زہرا

رب کائنات نے جب اس کائنات کو تخلیق کیا تو ہر چیز میں اپنے رنگ بکھیرے۔ پہاڑ کو اپنے اسم "قہار” سے قہاریت عطا کی تو سمندر کو اپنے اسم "واسع” سے وسعت، پانی کو "حی” سے حیات بخش بنایا تو سورج کو اپنے "نور” سے روشنی بخشی۔ غرضیکہ کائنات کے ذرے ذرے میں اسماءالحسنی پوشیدہ ہیں۔ اسی رب ذوالجلال نے جب ایک شاہکار اپنے "منصبِ خلافت” کے لیے تخلیق کرنا چاہا تو اسے اپنے تمام اسماء کا مجموعہ بنا کر "انسان” کا نام دے دیا۔ اور پھر اپنے کلام میں اپنی اس مایہ ناز مخلوق پر یوں ناز کرتا ہے کہ:
وَ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ (التغابن:۳)
ترجمہ:”اور اس نے تمہاری صورت بنائی تو بہترین بنائی”

جب خالق نے اپنی اس مخلوق کو اتنی عظمت و فضیلت عطا کی اور اسکی سرشت و فطرت میں کمال حاصل کرنے کی خواہش رکھ دی تو یہ انسان بھی کمال کی جستجو میں لگ گیا اور یہی اس کو جچتا بھی تھا۔پس انسان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اس مقام کو پہچانے جیسے اقبالؒ فرماتے ہیں:

؂تا کجا خود را شماری ماء و طین
از گل خود شعلہ ی طور آفرین
(کب تک خود کو پانی و مٹی سمجھتا رہے گا
اٹھ اور اپنی خاک سے طور کا سا شعلہ پیدا کر)

ہم اب حضرت انسان کو دیکھتے ہیں کہ خالق کی اتنی مہربانیوں اور فضائل کے بعد وہ کس قدر کمال کی جستجو رکھتا ہے۔ اس دنیا میں نظر دوڑائیں تو ہر انسان دانستہ یا نادانستہ طور پر منزل کمال کا ہی خواہاں ہے فرق ہر ایک کے اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں نقطۂ نظر کا ہے۔ جیسے سب پرندے پرواز کرنا چاہتے ہیں اور سب کو یکساں وسیع آسمان میسر ہے مگر ہر پرندہ بلند پرواز نہیں کرتا۔ کیونکہ نہ ہر پرندہ توازن برقرار رکھ پاتا ہے نہ ہر اک کی نگاہ بلند اور وسیع ہوتی ہے۔ یہی معاملہ انسانوں کا ہے۔ اب انسان کی فطرت میں کمال کی خواہش تو موجود ہے مگر کمال کے بارے میں ہر اک کا نظریہ مختلف ہے۔
جس شخص کے سامنے فقط کائنات کی مادی تصویر ہوگی وہ دنیا میں مال و دولت کی فراوانی اور اقتدار و حکمرانی کو ہی منزل کمال سمجھے گا۔ اور اسکے لیے انسانی روح کی بلندی اور طاقت کوئی معنی نہ رکھتی ہوگی۔ نتیجہ ہٹلر و صدام کی صورت میں سامنے آتا ہے جو اقتدار کی خواہش میں انسانی جانیں لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
اسی طرح جس انسان کے سامنے اس دنیا کی فقط معنوی تفسیر ہوگی تو وہ روح کی بلندی کو منزل کمال سمجھے گا۔ وہ سمجھے گا کہ عالم ارواح ہی حقیقی ہے اور یہ دنیا بےہدف ہے۔ ہمارا یہاں آنے کا بھی ہدف نہیں اور اس مادی دنیا سے ہم نے کچھ نہیں لینا۔

یہ بھی پڑھیں: رسول اکرمؐ کا اسوۂ حسنہ اور آج کی انسانیت کے مسائل https://albasirah.com/urdu/rasool-akram-ka-uswa-hasna/


اب جس کے سامنے اس کائنات کی مادی و معنوی دونوں تفسیریں ہوں گی اور وہ انسان کی حقیقت کو بھی سمجھتا ہوگا اور کائنات کی حقیقت کو بھی تو وہی اصل منزل کمال کو پا سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا کہ انسان تمام اسمائے الہی کا مجموعہ ہے تو انسان کا کمال یہی ہے کہ وہ ان تمام اسماء کو بیک وقت خود میں تجلی کروائے۔ اور یہ کمال تعادل و توازن کے بغیر ممکن نہیں۔ انسان کو اپنے اندر موجود اسمائے الہی میں توازن برقرار رکھنا ہوگا تب ہی وہ کمال کی اعلی منازل طے کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک انسان انفرادی عبادات بھی بہترین بجا لاتا ہے اور خاندانی،معاشرتی و قومی فرائض بھی بطریق احسن پورے کرتا ہے۔ اپنی ارتقا کے لیے بھی کوشاں ہے اور معاشرے کی ارتقا سے بھی غافل نہیں اور بحیثیت انسان اپنی تمام ذمہ داریوں سے آشنا ہے۔ تو ایسا انسان اپنی خلقت کے مقصد تک پہنچ جاتا ہے اور ایسی پرواز کرتا ہے کہ پھر خالق بھی اسکو کہتا ہے:

یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ
ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً (الفجر:۲۷،۲۸)
میں تجھ سے راضی اور تو مجھ سے راضی۔۔۔
یہی مقام انسان کے لیے منزلِ کمال ہے اور جو انسان اس منزل کو پہچان لے پھر اسکے روز و شب منور ہو جاتے ہیں۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔
آہ اے رازِ عیاں کے نہ سمجھنے والے
حلقۂ دام تمنا میں الجھنے والے
تُو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے
نہ سیہ روز رہے، پھر نہ سیاہ کار رہے