رسول اکرمؐ کا اسوۂ حسنہ اور آج کی انسانیت کے مسائل

Published by fawad on

saqib akbar

سید ثاقب اکبر
تلخیص: پیغمبراکرمؐ تشریف لائے تو یہ امر اُسی وقت واضح اورآشکارا طور پر سامنے آگیا تھا کہ اب آپؐ کے بعد کسی نبی کو نہیں آنا اوردوسرے یہ کہ آپؐ کا پیغام ساری انسانیت کے لیے ہے۔خود قرآن حکیم ساری انسانیت کو بار بار بالواسطہ یا بلا واسطہ مخاطب قرار دیتا ہے۔ آپؐ کی تعلیمات سارے انبیاء کی تعلیمات کا تسلسل اور حاصل ہیں۔آپؐ کی تعلیمات کا خلاصہ اورروح اللہ کی معرفت اورخدا کی وحدانیت پر ایمان سے عبارت ہیں اور سارے انسانوں کو خدا سے ملاتی ہیںاور بندوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ تاریخ کے بڑے بڑے انسانوں کی سیرت پر موجودکتب یا ریکارڈکوجب ہم دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سب سے زیادہ محفوظ سیرت آپؐ کی ہے ۔آپؐ کے اسوہ کے اہم ترین پہلو قرآن حکیم نے خود محفوظ کردیے ہیں۔ جبکہ قرآن نبی کریم ؐ سے نہایت حفاظت کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے ۔ رہ گیا مسئلہ احادیث کا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور میں ہمارے علما نے احادیث کے بارے میںبہت وقیع کام کیا ہے۔جب ہم کسی شخصیت سے ہٹ کر سب سے پہلے اصولی طور پر اس کا تجزیہ کرلیں گے کہ کیسا انسان انسانیت کے لیے اسوہ قرار پا سکتا ہے تو ہماری مشکل آسان ہوجائے گی۔ یقینی طور پر نگاہیں حضرت محمد مصطفیؐ کی ذاتِ گرامی پر جا ٹھہریں گی کیونکہ آپ کی ذات میں جو صفات اور کمالات موجود ہیں اُن کی بنا پر ہر دور میں آپؐ کو انسانیت کے لیے ایک اسوہ کاملہ کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔البتہ نبی کریمؐ کا نام لینے والی امت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں ۔ ہمیں خود امت وسط یعنی ایسی امت جو اعتدال کے نقطے پر قائم ہے، جو انسانیت تک اللہ کا پیغام لے کر جانے والی ہے،وہ بن کر دکھانا ہے۔ خود مسلمانوں کو آپس میں سلامتی کا پیغام ملحوظ خاطر رکھناہے۔ جب ہم اپنی عالمی اورآفاقی حیثیت کا ادراک کر لیں گے تو ہمارے باہمی مناقشات اوررنگ ونسل کی تفریق کی بنیاد پر جاری تمام نبردآزمائیاں ختم ہوجائیں گی۔ اس حیثیت کی شناخت سے ہی رجعت پسندی،تشدد پسندی اوراورفرقہ واریت کا خاتمہ ممکن ہے۔اسی امت وسط نے دیگر پس ماندہ قوموں اورامتوں کو پس ماندگی اوراستضعاف سے نجات دلانا ہے۔
____________

پیش نظر موضوع کے حوالے سے ہمیں سب سے پہلے رسول اکرمؐ اور آج کے زمانے کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گویا اس سوال کا جواب معلوم کیا جانا ضروری ہے کہ ہم پیغمبراکرمؐ کو عصر حاضرکے مسائل میں ایک رہنما، ایک قائد، ایک رہبر اور ایک ہادی کے طور پر کیوںقبول کریں۔ اس سلسلے میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ درحقیقت پیغمبراکرمؐ تشریف لائے تو یہ امر اُسی وقت واضح اورآشکارا طور پر سامنے آگیا تھا کہ اب آپؐ کے بعد کسی نبی کو نہیں آنا اوردوسرے یہ کہ آپؐ کا پیغام ساری انسانیت کے لیے ہے۔ آپؐ کی حیثیت ساری بشریت کے لیے ایک مصلح کی ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد رب العزت ہے:
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۱)
ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ پیغامِ رحمت ہیں اورآپؐ کا اسوہ سارے عالمین کے لیے رحمت ہے ۔قرآن کریم نے سورہ سبا کی آیت ۲۸میں بھی اس مسئلے کو بہت ہی واضح طور پر ارشاد فرمایاہے۔ آپؐ کو ’’ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ‘‘ کہ کر واضح کردیا گیا کہ آپؐ کا پیغام ساری انسانیت کے لیے ہے اور چونکہ آپؐ کے بعد کسی نبی کو بھی نہیں آنا تھا اس لیے آپؐ ہی کا اسوۂ مبارکہ ہے جو سارے نبیوںکی بھی ترجمانی کرتا ہے اوراللہ کے منشاء کی بھی ترجمانی کرتا ہے ۔قرآن حکیم میں سورۃ احزاب کی آیت نمبر۴۰ میں اس سلسلے کو بھی واضح کردیا گیا ہے۔
دوسری بات جوبڑی اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم قرآن حکیم کے طرز کلام اوراُس کے اندازِ بیان کو دیکھیں تو ہمیں صاف صاف نظر آتا ہے کہ خود قرآن حکیم ساری انسانیت کو بار بار بالواسطہ یا بلا واسطہ مخاطب قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہا گیا ہے :
اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(۲)
اللہ سارے انسانوں سے محبت کرنے والا اوران پر مہربان ہے۔
اس کی وجہ واضح ہے اور وہ یہ کہ وہ سارے انسانوں کا رب ہے لہٰذا وہ سارے انسانوں کے لیے رؤف بھی ہے اوررحیم بھی ۔
اسی طرح بہت ساری جگہوں پر بلاواسطہ انسانوں سے خطاب فرمایا گیاہے جیسا کہ سورۃ نساء میں ہے :
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ (۳)
اے انسانو! تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے تم سب کے لیے حق کے ساتھ رسول آیا ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پروردگار نے تمام انسانوں کو خطاب فرمایا ہے اورجو پیغام رسول اکرمؐ لے کر آئے اُس کے بارے میں بھی قرآن حکیم نے بار بارارشاد فرمایا ہے کہ یہ ساری انسانیت کے لیے ہدایت ہے، جیسا کہ سورۃ بقرہ میں ہے:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ(۴)
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں یہ قرآن نازل ہوا ہے اس میں ساری انسانیت کے لیے ہدایت کا پیغام موجود ہے اوراس میں ہدایت کی روشن نشانیاں ہیں نیز یہ حق وباطل میں تمیز کرنے والا ہے ۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جو بھی تعلیمات آپؐ لے کے آئے ہیں وہ سارے انبیاء کی تعلیمات کا تسلسل اور حاصل ہیں اوران کی تمام ایسی چیزیں جو آئندہ انسانیت کو پہنچانا ہیں وہ ان میں موجود ہیں۔جیسا کہ روزوں کے بارے میںارشاد فرمایا گیا کہ یہ حکم پہلی امتوں کے لیے بھی تھا۔(۵)
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کے نہضت، آپؐ کی تحریک اورآپؐ کی جدوجہد جس کا آپؐ کوامین بنا کر بھیجا گیا تھا وہ سارے انبیاء کی ہی تحریک تھی اورسارے انبیاء کی تعلیمات کا خلاصہ تھی۔ اسی طرح خانہ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے مرکزبنایا تو یہ واضح طور پر ارشاد فرمایا:
جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ(۶)
اللہ نے کعبہ کو محترم گھر بنایا ہے انسانوں کے اٹھ کھڑا ہونے کے لیے۔

اسے مرکز بنایا گیاہے قِیٰمًا لِّلنَّاسِ یعنی انسان یہاں سے قیام کریں، انسان اس مرکز سے اٹھ کھڑے ہوں، اللہ کی عبادت کے لیے اورانسانیت کو اللہ کی عبادت اوراللہ کی وحدانیت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ۔اس سلسلے میں سورہ بقرہ کی آیت ۱۲۵بھی قابل غور ہے۔اس میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے البیت کو سارے انسانوں کے لیے مرکز بنایا ہے اورجب پکارا گیا تو بھی ساری انسانیت کو پکارا گیا کہ جو بھی مستطیع ہواور استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کی طرف آئے۔ تو گویا جو پیغام بھی رسول اکرمؐ لے کر آئے اگر اُس کا خلاصہ دیکھیں، اس کی تعلیمات کی روح کو دیکھیں تو وہ اللہ کی معرفت اورخدا کی وحدانیت سے شروع ہوتی ہے اور سارے انسانوں کو خدا سے ملاتی ہے۔ بندوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔ قرآن حکیم اور سیرت نبوی میں نماز اور عبادت کا جوتصور ہے وہ بھی سارے انسانوں کو خدا کی طرف اجتماعی طور پر ملانے کا مقصد لیے ہوئے ہے ۔ ہم نماز کے اندر جو آیات پڑھتے ہیں اور رکوع وسجود اورتشہد میںجو کچھ پڑھتے ہیں اورسلام میں جو کچھ کہتے ہیں اس سب پر آپ غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں کوئی امتیاز یاDiscriminationنہیں ہے۔ یہ سب کچھ نہ کسی ایک عہد کے لوگوں کے لیے ہے اورنہ کسی ایک علاقے والوں کے لیے ۔اسی طرح یہ سب کچھ نہ ایک زبان بولنے والوں کے لیے ہے اور نہ ایک ثقافت رکھنے والوں کے لیے۔اسی طرح سے آپ دیگراسلامی تعلیمات کو دیکھیں ،خاص طور پر اس کی اخلاقی تعلیمات کو دیکھیں تو انھیں کسی طور پر بھی زمان ومکان یا رنگ ونسل میں محدود نہیں کیا جاسکتا۔مثلاً اسلام سچائی کی دعوت دیتا ہے، پرہیزگاری کی دعوت دیتا ہے، عدل اورانصاف کی دعوت دیتا ہے اوردوسرے انسانوں کے ساتھ عادلانہ برتائو کی دعوت دیتا ہے، سارے انسانوں کے ساتھ اچھا تکلم اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ یہاں تک کہتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمھیں ا س بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم عدل وانصاف سے ہی منہ موڑ لو۔ گویا دشمنی میں بھی جب عدل وانصاف کو ملحوظ رکھنے کی دعوت دیتا ہے تو یہاں سے ہم سمجھتے ہیں کہ اُس کا پیغام جو نبی کریمؐ لے کر آئے ہیں وہ ساری انسانیت کے لیے ہے۔

مجھے قرآن کریم میں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ تقریباً 207مرتبہ انسان یعنی ’’الناس‘‘ کا لفظ آیا ہے اوراسی طرح بہت ساری جگہوں پر ’’بشر‘‘ کا لفظ آیا ہے اوراس کی تعلیمات میں اگر آپ دیکھیں تو ساری انسانیت کو مخاطب قرار دیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے ہی دن سے پروردگار کا یہ فیصلہ ہے اورقرآن کے ماننے والے یہ بات سمجھتے تھے کہ نبی کریمؐ یہ قرآن ساری انسانیت کے لیے لے کرآئے ہیں اورخود آپؐ کا اسوہ بھی ساری انسانیت کے لیے۔جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیاہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ(۷)
تمھارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
یہ بہترین نمونہ ہر دور کے لیے ہے اور ہر علاقے کے لیے ہے اور ساری دنیا کے انسان ہمیشہ آپ کی سیرت کو ایک اسوہ کے طور پراختیارکر سکتے ہیں۔

اس کے لیے ضروری تھا کہ آپؐ کی سیرت محفوظ بھی رہتی۔ تاریخ کے بڑے بڑے انسانوں کی سیرت پر موجودکتب یا Record کوجب ہم دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سب سے زیادہ محفوظ سیرت آپؐ کی ہے ۔ جس کی زندگی کے تمام گوشے پوری حفاظت کے ساتھ انسانیت تک پہنچتے ہیں وہ سوائے پیغمبر اکرمؐ کی ذات کے علاوہ کوئی اور نہیں۔دنیا کے بڑے بڑے لوگوں کی تاریخ پر آپ نظر ڈالیں کس قدر دھندلکوں میں پڑی ہے۔مثلاً آپ ہندوئوں کے بڑے بڑے رہنمائوں کی تاریخ کو دیکھیں ان کی کتابوں اور شخصیت کے بارے میں ہزاروں سالوں کے فاصلوں کا اختلاف موجود ہے ۔ ہم باقی انبیا کاتاریخی ریکارڈ یا ان کی سیرت پر موجودکتب کی چھان پھٹک کرتے ہیں تو ایسی ہی حیرت کا شکار ہوتے ہیں ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضرت موسیٰؑ،حضرت عیسیٰؑ،حضرت ابراہیمؑ یا حضرت یوسفؑ،سلیمانؑ اور حضرت دائودؑجیسے جو بڑے بڑے پیغمبر گزرے ہیں ان کی بھی سیرت کے بھی وہی حصے زیادہ محفوظ ہیں جو قرآن حکیم کے ذریعے سے محفوظ رہ گئے ہیں۔

بڑی بڑی شخصیتوں کے بارے میں ایسی عجیب و غریب چیزیں نظر آتی ہیں کہ جنھیں دیکھ کر شاید انسان ان کی بشریت کو اسوہ کے طور پر قبول کرنے پر تیار نہ ہو لیکن قرآن حکیم میں رسول اللہ پر جو وحی نازل ہوئی اس میں انبیاء کی سیرت کے جو پہلو محفوظ ہیں ان میں ان کی عظمت آشکار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم جب آپؐ کی سیرت کو دیکھتے ہیںتو آپؐ کی سیرت کے بہترین گوشے محفوظ طریقے سے ہمارے ہاتھوں تک آ پہنچے ہیں۔

آپؐ کی سیرت کی بنیادی چیزیں اورآپ کے اسوہ کے اہم ترین پہلو قرآن حکیم نے خود محفوظ کردیے ہیں۔ آپؐ کے اخلاق کو بیان کردیا گیا ہے۔ بہت ساری جنگوںمیں آپؐ کے طرز عمل کو بیان کردیا گیاہے ۔آپؐ اپنے صحابہ کے ساتھ کیسے تھے اسے بیان کردیا گیا ہے۔ آپؐ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کیساسلوک تھا بیان کردیا گیا ہے اسی طرح بہت سے دیگر پہلو۔ گویا قرآن حکیم نے آپؐ کی سیرت کے بنیادی اوراصولی پہلوئوں کو محفوظ کر دیا ہے۔

جبکہ قرآن حکیم کی حفاظت اورمصونیت پر مسلمانوں نے سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں جن میںیہ ثابت کردیا گیا ہے کہ قرآن نبی کریم ؐ سے نہایت حفاظت کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے ۔یہ بات اب علمی حلقوں میں قابل بحث نہیں رہی کہ قرآن حکیم تاریخ کا محتاج نہیں ہے اس لیے کہ صدیوں سے انسان اسے ہر دور میں تواترکی بہترین صورت میں ہم تک پہنچا ہے ،اسے نسلوں نے نسلوں کے حوالے کیا ہے۔یہ نہیں کہ دس ،بارہ،چودہ افراد نے ایک کے بعد دوسرے دورمیں بارہ چودہ افراد سے بیان کیا ہے۔اگرچہ اس طرح سے بھی کوئی چیز بیان ہوتی رہے تو ہم اسے متواتر کہتے ہیں جس کا انسان انکار نہیں کرسکتا۔ اس کی سچائی کے بارے میں شک وشبہ نہیں کر سکتا۔ لیکن نبی کریمؐ جو کتاب لے کر آئے چونکہ اسے آپؐ کی نبوت کے ساتھ ساتھ رہتی دنیا تک باقی رہنا تھا اس لیے اس کی حفاظت کا پروردگار نے نہایت ہی واضح اور قابل قبول اہتمام کیا۔گویا آپؐ کی نبوت کے ساتھ آپؐ کی لائی ہوئی تعلیمات کی بنیادی دستاویز کو بھی باقی رکھنے کا اانتظام کیا گیا ۔قرآن حکیم نسلوں نے نسلوں کے سپرد کیااس طرح سے کہ اس اُمت کے تسلسل میں بھی کوئی فرق نہیں پڑا اورامت کے وسیع علاقوں میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا۔ قبائل، قوموںاور لاکھوں انسانوں نے آپؐ کی زندگی میں اسے حفظ کیا اوراس کے بعد اسی طرح حفظ ہوتا چلا آیا اورنمازوں کے دوران میں اور باقی مواقع پر اسے پڑھا جاتا رہا اور یہ محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچ گیا۔ اس کی حفاظت کے ذریعے نبی کریمؐ کی سیرت انسانیت تک محفوظ طریقے سے پہنچتی رہی ۔ان امور کو اگر ہم پیش نظر رکھیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپؐ کی ذات کا اسوہ وہ ہے جو انسانیت تک محفوظ ہو کر پہنچا ہے اورآپؐ کی تعلیمات بھی انسانیت تک محفوظ ہو کر پہنچی ہیں۔

رہ گیا مسئلہ احادیث کا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور میں ہمارے علماء نے احادیث کے بارے میںبہت وقیع کام کیا ہے۔ انھوں نے ان کے رجال کو دیکھا ہے ،راویوں کی پرکھ کی ہے،احادیث کے متن پر غوروخوض کیا ہے اوراس سلسلے میں ریسرچ کر کے بہت سا علمی ذخیرہ انسانیت کے حوالے کر دیا ہے ۔ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن اس سارے ذخیرے پر ناظرکی حیثیت رکھتا ہے چونکہ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ حدیث کی پرکھ کے لیے قرآن کسوٹی کی حیثیت رکھتا ہے ۔

جب ہم کسی شخصیت سے ہٹ کر سب سے پہلے اصولی طور پر اس کا تجزیہ کرلیں گے کہ کیسا انسان انسانیت کے لیے اسوہ قرار پا سکتا ہے تو ہماری مشکل آسان ہوجائے گی۔ اگر ہم غور کریں تویہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ایک ایسا انسان جواندر اورباہر سے ایک جیسا ہو،جس کا قول اور فعل ایک جیسا ہوجو مشکلات میں گھبرانے والا نہ ہو،ایسا انسان جوسچا اور سُچا ہو ، جو خود پرہیزگار ہو، خود اپنی تعلیمات کی سچائی پر جس کا ایمان ہو،جو اپنی تعلیمات پر خود عامل ہو ،جو قوم،وطن،زبان،بیان،رنگ اورنسل سے اوپراٹھ کرانسانیت کو پیغام دیتا ہو،جو انسان کے شرف کا قائل ہو، جو انسان کی عظمت کا قائل ہو ،جو انسان کی صلاحیتوںکوپروان چڑھانے کا پیغام دیتا ہو اورجو انسان کی عقل و فطرت کو اپیل کرتا ہووہی ساری بشریت کے لیے حقیقی اوردائمی اسوہ کہلا سکتا ہے ۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ اگر آپ اس بنیاد پر تجزیہ کریں اورسوچیں کہ کیساانسان انسانیت کا رہبر اور ہادی ہو سکتا ہے تواس کے بعد آپ ایسے انسان کی تلاش کریں گے تو پھر یقینی طور پر آپ کی نگاہیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر جا ٹھہریں گی کیونکہ آپ کی ذات میں جو صفات اور کمالات موجود ہیں اُن کی بنا پر ہر دور میںاورآج کے دور میں بھی آپ کو انسانیت کے لیے ایک اسوہ اور رول ماڈل کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔

البتہ یہاں پرایک اور مسئلہ پیش آتا ہے اور وہ یہ کہ نبی کریمؐ کا نام لینے والی امت کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں ۔مسلمانوں کو سب سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ وہ مسلمان کیوں ہیں؟ کیا ماں باپ کی وجہ سے تو مسلمان نہیں ہیں؟ معاشرے کی وجہ سے تو مسلمان نہیں ہیں؟ یا کسی اوروجہ سے تو مسلمان نہیں؟ کیا واقعی انھوںنے رسول اللہؐ کی ذات گرامی کو اس طرح سے دیکھا ہے جس طرح سے سطور گزشتہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔اگر مسلمان آنحضرتؐ کے کردار پراور آپؐ کی تعلیمات پرپورے شعور سے ایمان لائے ہوں تو پھرکوئی مسئلہ نہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عام طور پرمسلمانوںنے پیغمبر اکرمؐ کی ذات پر گہرا غوروفکر نہیں کیا اور نہ آپ کی سیرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے ۔ اگر ہم مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ کس قدر تیز رفتاری سے ان کروڑوں، اربوں انسانوں میں تبدیلی رونما ہوجائے گی ۔اگر یہ تبدیلی خود ہمارے اندر آجائے تو پھر ہم وہ کام کر سکتے ہیں جو ایک امت کے سپرد کیا گیا ہے۔ ہمیں کیا کرنا ہے وہی بات جو قرآن حکیم میں مسلمانوں کے لیے کہی گئی ہے۔ قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے :
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(۸)
اور اس طرح اللہ نے تمھیں امتِ وسط بنایا ہے تاکہ تم انسانوں پر گواہ ہوجائو ۔

آپ اگر امت وسط کا ترجمہ اعتدال پر قائم امت کریں تب بھی ٹھیک ہے اور اگر اس کا معنی واسطہ کریں،یعنی حضرت محمد مصطفیؐ اوران کی تعلیمات اورباقی انسانیت کے درمیان واسطہ تب بھی درست ہے۔ ہمیں اپنے اس منصب پربحال ہونا ہے، ہمیںامین وواسطہ بننا ہے۔ اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ اور باقی انسانیت کے درمیان ہمیں خود رول ماڈل بننا ہے۔ ہمیں خود امت وسط یعنی ایسی امت جو اعتدال کے نقطے پر قائم ہے، جو انسانیت تک اللہ کا پیغام لے کر جانے والی ہے،وہ بن کر دکھانا ہے۔ ظاہر ہے جب ختم نبوت کا دورہے اور پھر کسی نئے نبی کو نہیں آنا تو نبیؐ کا کام امت کوہی کرنا ہے۔ اگر امت اپنے اس رول کواختیار کرے تو پھر نبی کریمؐ کے رول ماڈل کو ہم انسانیت کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

دوسری بات یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج انسانیت کے مسائل کیا ہیں اور انسانیت کا آج بنیادی مسئلہ کیا ہے؟مغرب کن مسائل کا شکار ہے؟ مشرق کی مشکلات کیا ہیں؟ پہلے یہ سمجھا گیا تھا کہ سائنس کے عروج اورارتقاء نے انسان کو نئے مسائل سے روشناس کیا ہے۔ جب انسان نے ماوی کائنات کی تسخیر کی طرف سفر شروع کیا تو سوال پیدا ہواکہ جب یہ ترقی اورکائنات شناسی کا راستہ ہے تو پھر آج کے انسان کے لیے مذہب کی ضرورت بھی باقی رہی ہے یا نہیں ؟ اسی طرح دوسرا سوال یہ ہے کہ عقل وخرد کے سوتوں کے پھوٹنے سے اورعقل انسان کے ارتقاء سے بہت سی انسانی گتھیاں جب انسان کی عقل خود حل کرنے لگی ہے توپھربھی کیا وحی کی ضرورت باقی رہ گئی ہے اور اگراس کی ضرورت کماکان باقی ہے تو پھر وحی اور عقل کا آپس میں کیا تعلق ہے ۔

آج کے انسان کا تیسرااہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ اقوام میں بٹا ہوا ہے، انسانیت اوطان میںبٹی ہوئی ہے ۔اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفیؐ کا پیغام ساری انسانیت کے لیے ہے تو آج جب انسان اقوام اوراوطان میں بٹ چکا ہے تو ایسی انسانیت کے لیے آپ کا پیغام کیا ہے؟ اور ہم انسانیت تک آنحضرتؐ کا کیا پیغام لے کرجائیں۔

یہ بھی پڑھیں: عظمت رسول ؐ قرآن کی روشنی میں https://albasirah.com/urdu/azmat-e-rasool-pbuh-quran-ki-rosni-main/

اسی طریقے سے ایک اور سوال آج کے دور میں پیدا ہوا ہے کہ ایک طرف وہ انسان ہیں جن کا تعلق مستضعف اقوام سے ہے، جو محروم اقوام سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے اوردوسری طرف مستکبر قومیں ہیں جو استعماری کردار ادا کررہی ہیں یا بہتر الفاظ میں کہا جائے تو دوسری طرف ایسی اقوام ہیں جن کا نظام استعماری گروہوں اوراداروں کے ہاتھ میں ہے ۔ایسے میں حضرت محمد مصطفیؐ کے ماننے والی امت کو کیا کردارادا کرنا ہے؟

میں یہ سمجھتا ہوں کہ علامہ اقبالؒ اوربہت سے مفکرین نے ان موضوعات پر غور وفکر کرکے آج کے انسانوں کی مشکلات کو رسول اللہؐ کے اسوہ ٔحسنہ کی روشنی سے حل کرنے کی کوشش کی ہے تو انھوں نے تاریکی اورپستیوں میں گھری ہوئی انسانیت کی نجات کے لیے آنحضرتؐ کے اسوۂ حسنہ سے راہنمائی لینے کا پیغام دیا ہے ۔علامہ اقبالؒ کس زور اورشکوہ ایمان سے کہتے ہیں :
ع قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے(۹)

گویا ان کے نزدیک عشقِ محمدؐ سے انسانیت کے دروبام اجلے ہوسکتے ہیں اوروہاں نور پہنچ سکتا ہے۔اسی لیے جب اقوام کی تقسیم شروع ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ غلط ہوگیا ۔ آپ حیران ہوں گے قرآن حکیم کہیں بھی اقوام کے عنوان سے انسانوں کو مخاطب نہیںکرتا۔ وہ یا تو مسلمان اورکافر میں انسان کو تقسیم کرتا ہے اور یا مستضعفین ومستکبرین میںیعنی مظلوم اور ظالم میں تقسیم کرتاہے۔ یا پھر وہ انسان کوبحیثیت انسان مخاطب کرتا ہے۔علامہ اقبال کے الفاظ میں اسلام جمعیت اقوام کا نہیں جمعیت آدم کا قائل ہے۔ خانہ کعبہ کو آپ دیکھیں کہ وہاں کالا بھی ہے گورا بھی ہے، کسی بھی زبان کا بولنے والا اُس اللہ کے گھر کے اردگرد ایک مساوی طریقے سے اور ایک ہی لباس پہن کر طواف کررہا ہوتا ہے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ انسان کو ایک مرکز کے گرد جمع کرنے کاپیغام لے کر آئے ۔بات بہت گہری ہے اورسوالات بہت اہم ہیںان پر اس مقالے میں سیر حاصل گفتگو نہیں ہوسکتی اور نہ ہم آج اس گفتگو کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں،اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے اس مسئلے کوعلامہ اقبالؒ کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تقریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم
مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم(۱۰)

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پیغمبراکرمؐ پوری آدمیت کے لیے رول ماڈل ہیں تو اقوام اور اوطان کی موجودہ صورت کی نفی ہوجاتی ہے۔البتہ قرآن اوررسول اکرمؐ انسانوں کی قبائل اوراقوام کی ایسی تقسیم کی نفی نہیں کرتے کہ جن کا مقصد ایک دوسرے کی پہچان ہو۔یہی پیغام لے کر ہمیں پوری انسانیت تک پہنچنا ہے۔

اسلام کہ جو سلامتی کا دین ہے، ایمان کہ جو انسان کو امن وامان دیتا ہے اور خانہ کعبہ کہ جو امن کا گھر ہے اسے ماننے والی قوم کو پوری انسانیت کے لیے سلامتی کا پیغام لے کر جانا ہے۔ خود مسلمانوں کو آپس میں سلامتی کا پیغام ملحوظ خاطر رکھناہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔لہٰذا مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے لیے سلامتی کا پیامبر بننا ہے ۔اسی طرح ساری انسانیت کے لیے بھی سلامتی کا پیامبر بن کے اورامت وسط بن کے اٹھنا ہے۔ تبھی مسلمان نبی کریمؐ کو پوری انسانیت کے لیے ایک رول ماڈل اور اسوۂ حسنہ کے طور پر پیش کرنے کی اصل ذمہ داری پوری کر سکتے ہیں۔

جب ہم اپنی اس عالمی اورآفاقی حیثیت کا ادراک کر لیں گے تو ہمارے باہمی مناقشات اوررنگ ونسل کی تفریق کی بنیاد پر جاری تمام نبردآزمائیاں ختم ہوجائیں گی۔ اس حیثیت کی شناخت سے رجعت پسندی،تشدد پسندی اوراورفرقہ واریت کا خاتمہ ممکن ہے۔جب قوموں اورامتوں میں وسعت نظر پیدا ہوجاتی ہے اوران کے مقاصد واہداف بلند ہوجاتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے اورعلاقائی وگروہی جھگڑوں نیز پس ماندگی وبدحالی کا خاتمہ پھر دُور کی بات نہیں رہتی۔امت وسط اورامتِ اعتدال کا نظریہ اپنے دامن میں ایسی ہی وسعتوں اوربلندیوں کا حامل ہے۔ اسی امت وسط نے دیگر پس ماندہ قوموں اورامتوں کو پس ماندگی اوراستضعاف سے نجات دلانا ہے۔ اس امت کو مظلوم انسانیت کی مدد کو اٹھنا ہے۔ مظلوم اورپسے ہوئے انسانوں میں امید کی کرن روشن کرنے کے لیے اسے خود منارۂ نور بننا ہے۔ آج انسان کے وسائل جس طرح سے لوٹے جارہے ہیں اور دنیا میں جس بے عدالتی کا دور دورہ ہے اس پر رنجوروغمزدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے انبیاء کے پرسوز سینوں کا وارث وامین بننا ہوگا۔نبی کریمؐ کا اسوہ ہمیں یہی پیغام دیتا ہے اورآپ کی چھوڑی ہوئی کتاب کا یہی درس گم گشتہ ہے۔

حوالہ جات
۱) الانبیاء:۲۱۔۱۰۷
۲) حج:۲۲۔ ۶۵
۳) النساء:۴۔۱۷۰
۴) البقرہ:۲۔۱۸۵
۵) البقرہ:۲۔۱۸۳
۶) المائدہ:۵۔۹۷
۷) الاحزاب:۳۳۔۲۱
۸) البقرہ:۲۔۱۴۳
۹) اقبال ،محمد:بانگ درا،کلید کلیات اقبال(لاہور،ادارہ اہل قلم ،علامہ اقبال ٹائون،۲۰۰۵ء)ص۲۳۶
۱۰) اقبال ،محمد:ضرب کلیم،کلید کلیات اقبال(لاہور،ادارہ اہل قلم ،علامہ اقبال ٹائون،۲۰۰۵ء)ص۵۷۰۔۵۷۰