حزب اللہ کے ابابیل ’’حسان‘‘ کی اعصاب شکن پرواز
دنیا کا بہترین ائیر ڈیفنس سسٹم جسے ہم آئرن ڈوم اور اس کے پر پرزوں کے نام سے جانتے ہیں، ایک ابابیل کے سامنے بے بس ہوگیا۔ ایک ابابیل کو گرانے کے لیے ہاتھی والوں نے کئی ایف 16 اور اپاچی ہیلی کاپٹر اڑا دیئے۔ یہ ابابیل دشمن کے زیر قبضہ سرزمین پر 70 کلومیٹر تک گیا اور اس نے چالیس منٹ مقبوضہ علاقوں پر محفوظ پرواز کی۔ یہ ابابیل جس کا نام ’’حسان‘‘ ہے، حزب اللہ لبنان نے اسرائیل بھیجا تھا۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ حزب اللہ کی اسرائیل پر برتری کی ایک اور مثال ہے۔ اگر ان ابابیلوں کی چونچ میں ’’حجر‘‘ بھی آجائے، یعنی یہ ابابیل ہتھیاروں سے لیس ہو جائیں تو پھر اسرائیلیوں کی نیندیں حرام کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اسرائیلیوں کی نیندیں تو اسی ’’حسان‘‘ نامی پرندے نے اڑا دی ہیں۔
کالکاسٹ اخبار جو معیشت کے بارے لکھتا ہے، اس نے ’’حسان ‘‘ کی مقبوضہ علاقوں میں اڑان اور بحفاظت واپسی کو دفاعی اور معاشی ناکامی قرار دیا ہے۔ جب حسان کے بارے اسرائیلی فضائی دفاعی نظام کو اطلاع ہوئی تو اس کو مار گرانے کے لیے ایف سولہ طیارے، اپاچی ہیلی کاپٹر اور آئرن ڈوم کو فعال کیا گیا، جو سب کے سب حسان کو گرانے میں ناکام رہے اور یہ ابابیل ہاتھی والوں کا منہ چڑاتا ہوا اپنے گھونسلے میں لوٹ گیا۔ اخبار کے مطابق ہر ایف سولہ جہاز کو اڑانے میں 22 ہزار امریکی ڈالر فی گھنٹہ درکار ہوتے ہیں، اسی طرح اپاچی ہیلی کاپٹر کی پرواز اندازاً 4000 ڈالر کی متقاضی ہے اور آئرن ڈوم کا ایک میزائل پچاس ہزار ڈالر کا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق آئندہ کی غزہ یا لبنان کی لڑائی کے معاشی اخراجات کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے، جس کے مقابلے میں ڈرون چند ہزار ڈالر کا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے شہداء کی برسی کے موقع پر ان ڈرونز کے بارے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایران سے ڈرون منگوانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم اس ٹیکنالوجی پر عماد مغنیہ کی شہادت کے وقت سے کام کر رہے تھے۔ حسان ڈرون جس وقت مقبوضہ سرزمین پر داخل ہوا تو اسرائیلی راڈار سسٹم نے اس کو درک کر لیا اور 11:51 منٹ پر پہلا الارم بجا، دوسرا الارم 11:59 پر بجا، تاہم اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود یہ دفاعی نظام ڈرون کو گرانے میں ناکام رہا۔ لبنانی دفاعی تجزیہ نگار امین نے کہا کہ حزب اللہ نے تین کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پہلی کامیابی ڈرون کی تیاری، دوسری کامیابی یہ کہ حزب اللہ کے پاس اب یہ صلاحیت ہے کہ دشمن کے علاقے میں اپنے مشن کو بآسانی انجام دے سکتی ہے اور تیسری کامیابی اس ڈرون کا بخیریت واپس آنا ہے۔ اس سے دشمن کو یہ خوف لاحق ہوچکا ہے کہ وہ مسلسل حزب اللہ کی نظروں میں ہے اور اس کے ذریعے حزب اللہ اب روازنہ کی بنیاد پر اپنے اہداف کا تعین کرسکتی ہے۔
امین کے مطابق اس ڈرون پر اسرائیلی حملے اور اس کی بحفاظت واپسی نے اسرائیلی دفاعی نظام کی خامیوں کو طشت از بام کر دیا ہے۔ اسرائیلی اخبارات کے مطابق اس ڈرون کی بحفاظت واپسی نے اسرائیل میں بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اخبار کے مطابق باخبر فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی لبنانی فضا میں معلومات کی جمع آوری کا عمل متاثر ہوا ہے۔ اسرائیلی اخبار ماریو کے مطابق حزب اللہ نے روشن دن میں ڈرون اڑا کر اسرائیلی دفاعی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری جانب حزب اللہ کے پارلیمانی بلاک کے ممبر محمد رعد نے کہا کہ وہ ڈرون جو مقبوضہ فلسطین میں اڑا، حزب اللہ کی استعداد کی ایک جھلک ہے۔ حزب اللہ کی مرکزی کونسل کے رکن شیخ نبیل نے کہا کہ کوئی مقاومت کے وجود کے لیے خطرہ نہیں بن سکتا۔ مقاومت کسی ایک لبنانی علاقے کی نہیں بلکہ پورے لبنان کی محافظ ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج صیہونی خوفزدہ ہیں، کیونکہ ان کی فوج ان کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہے۔ حسان نے اسرائیلی صلاحیتوں کو متحیر اور شرمندہ کر دیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہے ہی، لیکن اس کا نفسیاتی اثر بہت زیادہ ہے۔ حزب اللہ اور مقاومتی گروہ خطے میں اسرائیل کے حقیقی دشمن ہیں، جو باتوں سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعے اسرائیل کے وجود کو چیلنج کرتے ہیں۔ حزب اللہ کے پاس اس ٹیکنالوجی کا مطلب حماس، جہاد فلسطین کی دسترس میں اس ٹیکنالوجی کا آجانا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی یقیناً یمن بھی جائے گی۔ ایسی صورت میں اگر واقعی ایسے ڈرون بنا لیے جاتے ہیں، جن کے منہ میں ایک ہی پتھر ہو تو یہ ڈرون خطے میں عسکری مہم جوئیوں کو روکنے کے لیے کافی ہوں گے، یعنی اگر غزہ کے مجاہدین کے پاس چند ’’حسان‘‘ پہنچ جائیں اور ان میں حملہ کرنے کی صلاحیت ہو تو غزہ کے علاقوں پر غرانے والے اسرائیلی طیارے جو عمارات کو اندھا دھند مسمار کرتے ہیں، انتہائی سوچ سمجھ کر پرواز بھریں گے۔
اسرائیل کو بخوبی سمجھ آچکی ہے کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی اس جنگ کو سیاسی اور سفارتی سطح پر لڑنا ہے، اسی لیے اس نے خطے کے ممالک میں اپنے اتحادیوں پر انحصار پر زیادہ توجہ مبذول کر لی ہے۔ بہرحال حزب اللہ کو اس عظیم کامیابی پر مبارکباد دینی چاہیئے، جنہوں نے کم ترین وسائل کے ساتھ صیہونیت کے اعصاب پر ایسا حملہ کیا ہے، جس نے صہیونیت کے ناقابل تسخیر ہونے کا شبہ دور کر دیا ہے۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے شعر میں کچھ ترمیم کے ساتھ:
حسان تیری پرواز سے ڈرتا ہے زمانہ
تو قوت بازو سے اسے اور ڈرا دے
کالکاسٹ اخبار جو معیشت کے بارے لکھتا ہے، اس نے ’’حسان ‘‘ کی مقبوضہ علاقوں میں اڑان اور بحفاظت واپسی کو دفاعی اور معاشی ناکامی قرار دیا ہے۔ جب حسان کے بارے اسرائیلی فضائی دفاعی نظام کو اطلاع ہوئی تو اس کو مار گرانے کے لیے ایف سولہ طیارے، اپاچی ہیلی کاپٹر اور آئرن ڈوم کو فعال کیا گیا، جو سب کے سب حسان کو گرانے میں ناکام رہے اور یہ ابابیل ہاتھی والوں کا منہ چڑاتا ہوا اپنے گھونسلے میں لوٹ گیا۔ اخبار کے مطابق ہر ایف سولہ جہاز کو اڑانے میں 22 ہزار امریکی ڈالر فی گھنٹہ درکار ہوتے ہیں، اسی طرح اپاچی ہیلی کاپٹر کی پرواز اندازاً 4000 ڈالر کی متقاضی ہے اور آئرن ڈوم کا ایک میزائل پچاس ہزار ڈالر کا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق آئندہ کی غزہ یا لبنان کی لڑائی کے معاشی اخراجات کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے، جس کے مقابلے میں ڈرون چند ہزار ڈالر کا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے شہداء کی برسی کے موقع پر ان ڈرونز کے بارے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایران سے ڈرون منگوانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم اس ٹیکنالوجی پر عماد مغنیہ کی شہادت کے وقت سے کام کر رہے تھے۔ حسان ڈرون جس وقت مقبوضہ سرزمین پر داخل ہوا تو اسرائیلی راڈار سسٹم نے اس کو درک کر لیا اور 11:51 منٹ پر پہلا الارم بجا، دوسرا الارم 11:59 پر بجا، تاہم اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود یہ دفاعی نظام ڈرون کو گرانے میں ناکام رہا۔ لبنانی دفاعی تجزیہ نگار امین نے کہا کہ حزب اللہ نے تین کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پہلی کامیابی ڈرون کی تیاری، دوسری کامیابی یہ کہ حزب اللہ کے پاس اب یہ صلاحیت ہے کہ دشمن کے علاقے میں اپنے مشن کو بآسانی انجام دے سکتی ہے اور تیسری کامیابی اس ڈرون کا بخیریت واپس آنا ہے۔ اس سے دشمن کو یہ خوف لاحق ہوچکا ہے کہ وہ مسلسل حزب اللہ کی نظروں میں ہے اور اس کے ذریعے حزب اللہ اب روازنہ کی بنیاد پر اپنے اہداف کا تعین کرسکتی ہے۔
امین کے مطابق اس ڈرون پر اسرائیلی حملے اور اس کی بحفاظت واپسی نے اسرائیلی دفاعی نظام کی خامیوں کو طشت از بام کر دیا ہے۔ اسرائیلی اخبارات کے مطابق اس ڈرون کی بحفاظت واپسی نے اسرائیل میں بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اخبار کے مطابق باخبر فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی لبنانی فضا میں معلومات کی جمع آوری کا عمل متاثر ہوا ہے۔ اسرائیلی اخبار ماریو کے مطابق حزب اللہ نے روشن دن میں ڈرون اڑا کر اسرائیلی دفاعی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری جانب حزب اللہ کے پارلیمانی بلاک کے ممبر محمد رعد نے کہا کہ وہ ڈرون جو مقبوضہ فلسطین میں اڑا، حزب اللہ کی استعداد کی ایک جھلک ہے۔ حزب اللہ کی مرکزی کونسل کے رکن شیخ نبیل نے کہا کہ کوئی مقاومت کے وجود کے لیے خطرہ نہیں بن سکتا۔ مقاومت کسی ایک لبنانی علاقے کی نہیں بلکہ پورے لبنان کی محافظ ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج صیہونی خوفزدہ ہیں، کیونکہ ان کی فوج ان کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہے۔ حسان نے اسرائیلی صلاحیتوں کو متحیر اور شرمندہ کر دیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہے ہی، لیکن اس کا نفسیاتی اثر بہت زیادہ ہے۔ حزب اللہ اور مقاومتی گروہ خطے میں اسرائیل کے حقیقی دشمن ہیں، جو باتوں سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعے اسرائیل کے وجود کو چیلنج کرتے ہیں۔ حزب اللہ کے پاس اس ٹیکنالوجی کا مطلب حماس، جہاد فلسطین کی دسترس میں اس ٹیکنالوجی کا آجانا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی یقیناً یمن بھی جائے گی۔ ایسی صورت میں اگر واقعی ایسے ڈرون بنا لیے جاتے ہیں، جن کے منہ میں ایک ہی پتھر ہو تو یہ ڈرون خطے میں عسکری مہم جوئیوں کو روکنے کے لیے کافی ہوں گے، یعنی اگر غزہ کے مجاہدین کے پاس چند ’’حسان‘‘ پہنچ جائیں اور ان میں حملہ کرنے کی صلاحیت ہو تو غزہ کے علاقوں پر غرانے والے اسرائیلی طیارے جو عمارات کو اندھا دھند مسمار کرتے ہیں، انتہائی سوچ سمجھ کر پرواز بھریں گے۔
اسرائیل کو بخوبی سمجھ آچکی ہے کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی اس جنگ کو سیاسی اور سفارتی سطح پر لڑنا ہے، اسی لیے اس نے خطے کے ممالک میں اپنے اتحادیوں پر انحصار پر زیادہ توجہ مبذول کر لی ہے۔ بہرحال حزب اللہ کو اس عظیم کامیابی پر مبارکباد دینی چاہیئے، جنہوں نے کم ترین وسائل کے ساتھ صیہونیت کے اعصاب پر ایسا حملہ کیا ہے، جس نے صہیونیت کے ناقابل تسخیر ہونے کا شبہ دور کر دیا ہے۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے شعر میں کچھ ترمیم کے ساتھ:
حسان تیری پرواز سے ڈرتا ہے زمانہ
تو قوت بازو سے اسے اور ڈرا دے
بشکریہ : اسلام ٹائمز