ہجرت حبشہ

Published by fawad on

naeem ul hasan

مسلم اقلیتی معاشروں کے لیے اسوہ


سید نعیم الحسن نقوی

ہجرت کی حقیقت اور ہمہ گیریت
اسلام نے انسانی تمدن کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے ہجرت کا باب کھولا۔ اسلامی معاشروں کی تشکیل، اسلامی ثقافت کا قیام اور ہدایت انسانی کے آسمانی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہجرت کی تدبیر اور حکمت عملی سے کام لیا گیا۔ کسی بھی انسانی معاشرے پر حاکم فسق و فجور یا ظلم و استبداد کی فضا میں انسانی واخلاقی جوہر نہیں کھلتے۔ایسے میں انسان روحانی و معنوی کمالات کے ساتھ ساتھ امن و امان اور آرام و سکون سے محروم ہو جاتا ہے۔ گھٹن والے ماحول سے نکل کر کسی کھلی فضا میں آنا انسان کی فطری خواہش ہے، ایسے ماحول میں آنا جہاں وہ اپنی استعداد کے مطابق اپنے جوہر نکھار سکے۔


ہجر کے معانی ایک چیز کا کسی دوسری چیز سے جدا ہونا، جدائی، دوری یا ترک کرنا ہے۔ قرآن مہجور ہے یعنی قرآن متروک ہو گیا ہے، اسے ترک کردیا گیا ہے یا اس سے دوری اختیار کرلی گئی ہے۔ ہجرت بھی اسی معنیٰ میں وطن سے دوری اختیار کرنا یا اسے ترک کرنا ہے۔ اصطلاحی طورپر مسلمانوں کا اطاعت الٰہی، ابلاغ دین اور ظلم و ستم سے نجات کے لیے وطن سے دوری اختیار کرنا ہجرت کہلاتا ہے۔


ہجرت کائنات میں موجود اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں معمول کا ایک عادی و فطری عمل ہے۔مہاجر پرندے، جانور، حشرات اور انسانی معاشروں میں خانہ بدوش افراد کا اپنی ضروریات زندگی اور مایحتاج کی فراہمی کے لیے قریہ بہ قریہ، کو بہ کو عازم سفر رہنا ہجرت ہی کی ایک قسم ہے۔ انھیں جہاں فطری ماحول سازگار ہو گا وہاں رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ قرآن نے اسی معمول کو برقرار رکھتے ہوئے انسانی معاشروں اور مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے کہ جہاں قانون الٰہی کے مطابق فطرت سلیم کے تابع زندگی گزارنا ممکن ہو وہاں کوچ کر جائیں۔


ہجرت کی اقسام میں علمائے کرام چار اہم عنوان بیان کرتے ہیں۔
۱۔ حصول علم کے لیے ہجرت
۲۔ دین کی حفاظت کے لیے ہجرت
۳۔ ظالموں کے ظلم سے نجات کے لیے ہجرت(سرزمین ظلم سے سرزمین عدل کی طرف ہجرت)
۴۔ دارِ کفر سے دارِ ایمان یا اسلام کی طرف ہجرت
۵۔ ذلت و رسوائی سے عزت و استقامت اور پائیداری کی طرف ہجرت
۶۔ گناہ سے ہجرت(الٰہی فرائض اور دستورات پر عمل پیرا ہونے اور ان کے اجراء کے لیے ہجرت)
حصول علم کے لیے ہجرت کی ترغیب میں بہترین مشہور و معروف یہ حدیث پیش کی جاسکتی ہے۔
اطلبو العلم و لوکان بالصین(علم حاصل کرو چاہے تمھیں اس کے لیے چین ہی جانا پڑا۔)
دین کی حفاظت کے لیے اپنی قوم و قبیلہ ، عشیرہ و خاندان اور وطن کو چھوڑنا اجر جزیل کا باعث قرار دیا گیا ہے۔
من فر بدینہ من أرض الی أرض وأن کان ۔۔۔۔من الارض استو جب الجنۃ
جو شخص بھی دین اسلام کی حفاظت کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتا ہے تو خداوند اسے ہر ہر قدم پر ایک جنت عطا کرتا ہے۔
اگر کوئی عذر تراشی کرے کہ میں اپنے دین کی حفاظت نہیں کر سکا کیوں کہ میں کمزور تھا تو قرآن نے اس عذر کو رد کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع تھی تم نے ایسی جگہ سے ہجرت کیوں نہ کی۔
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا(نساء:۹۷)
اگر کسی محفل میں اللہ کے دین کا مذاق اڑایا جارہا ہو تو اس محفل کو ترک کردیا جائے اور اس میں قطعاً شرکت نہ کی جائے ترک وطن یاترک محفل ہجرت ہی کے حکم میں ہے۔
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(انعام:۶۸)
ظلم و ستم کا شکار ہونے والے مسلمانوں کو امن و امان کی جگہ ہجرت کا حکم دیا گیا ہے اور ان کے لیے اجر آخرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔
وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّھُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ (نحل:۴۱)
مکانی ہجرت سے پہلے معنوی اور باطنی ہجرت ضروری ہے جو مکانی و ظاہری ہجرت کا مقدمہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ ذَرُوْا ظَاھِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہٗ (انعام:۱۲۰)
اور گناہ کے ظاہر کو بھی چھوڑ دو اور اس کے باطن کو بھی۔
امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:
یقول الرجل ھاجرت ولم یھاجر انما المھاجرون الذین یھجرون السئیات ولم یأتوا بھا۔
جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے ہجرت کی حقیقتاً اس نے کوئی ہجرت نہیں کی۔ حقیقی مہاجر وہ ہے جس نے گناہ سے ہجرت کی اور پھر اس کی طرف لوٹنے کا کبھی گمان بھی نہیں کیا۔ (بحار الانوار ج۶۸، ص ۲۳۲ اور سفینۃ البحارج۸،ص ۶۲۸)
یعنی آپ کے نزدیک کسی کا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ میں نے ہجرت کی ہے جب تک وہ گناہوں سے اور برائیوں سے دوری اختیار نہیں کرتا اور ترک گناہ کے بعد پھر کبھی دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کرتا کیونکہ اطاعت الٰہی کے لیے نافرمانی سے دوری اور برائیوں سے ہجرت لازمی ہے۔

متذکرہ بالا اقسام میں حج و عمرہ کو بھی ایک طرح کی ہجرت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حج بمعنی ارادہ کرنا، قصد کرنا، اللہ کے حضور حاضری اور لبیک اللھم لبیک کا شعار بلند کرنا، پختہ ارادے سے اللہ کے حضور تجدید میثاق کرناہے، مہاجرالی اللہ ہونا ہی درحقیقت روح ہجرت ہے۔الغرض وطن سے کوچ کرنا، دارکفر سے دارالاسلام یا دارالایمان کی طرف جانا، سرزمین ظلم سے سرزمین عدل کی طرف دین کی حفاظت کے لیے سفر کرنا، فرائض الٰہی یا دستورات الٰہی پر عمل پیرا ہونے اوران کے اجراء کے لیے رخت سفر باندھنا،ذلت و رسوائی سے عزت ، استقامت اورپائیداری کی جانب بڑھنا سب ہجرت ہی کے عنوان کے تحت آتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے صدر اسلام میں دو اہم ہجرتیں ہوئیں ایک ہجرت حبشہ اور دوسری ہجرت مدینہ۔بعثت نبویؐ کے پانچویں سال ماہ رجب المرجب ۶۱۵عیسوی میں رسول اکرمؐ کے حکم پر ۱۲سے ۱۷افراد نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ بعض کے نزدیک اس پہلی ہجرت میں گیارہ مرد اور چار خواتین شامل تھیں جب کہ دوسری ہجرت میں ۸۳افراد شامل تھے۔
حبشہ براعظم افریقہ کے مشرق میں موجود ایتھوپیا، اریٹیریا، جیبوتی اور صومالیہ پر مشتمل ایک قدیم سرزمین تھی۔ حضرت عیسیٰ کی ولادت سے پہلے مصری اور حمیری یہاں حکومت کرتے تھے۔ ۳۴۱ عیسوی میں اس ملک کا سرکاری دین مسیحیت قرار پایا۔ ہجرت مدینہ سے پہلے مسلمانوں کا حبشہ آنا جانا رہتا تھا۔ عرب سرزمین کے جنوب میں آباد قوم کو حبش کہا جاتا تھا۔ (کایران،ص۲۳)
حبشہ کی طرف ہجرت کے مختلف اسباب بیان ہوئے ہیں جن میں چاراہم درج ذیل ہیں:
۱۔ مشرکین کے بہیمانہ اور ظالمانہ شکنجوں سے نجات۔
۲۔ سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور قبائلی دبائو کی وجہ سے جاہلیت کی طرف لوٹ جانے کا خطرہ۔
۳۔ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان خونریز جنگ کا خطرہ۔
۴۔ ابلاغ دین۔
حضرت جعفر بن ابی طالب نے نجاشی کے سامنے ہجرت کے اسباب میںسے ایک ایذارسانی اور ناحق شکنجوں سے نجات بیان کیا ہے۔ ابن اسحاق کے بقول اس بات کا خوف تھا کہ دائرہ اسلام میں نووارد مسلمان ایذارسانی کے سبب کہیں دوبارہ جاہلیت کی طرف نہ پلٹ جائیں۔

ہجرت کے برکات و ثمرات
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اپنی مشہور تفسیر قرآن میں فرماتے ہیں:
آئین اسلام کی حفاظت کے لیے ہجرت ایک تربیتی و تبلیغی، سیاسی و معاشرتی امر ہے۔ (تفسیر نمونہ ج۴،ص۹۰)
ہجرت کے ابتدائی ایام ہی میں 40سے 50حبشی افراد نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ (خطبات بہاولپور، ص ۲۰۸)
ہجرت کی اہمیت کے پیش نظر اس موضوع کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے مبداء تاریخ قرار دیا گیا ہے۔ یہ سیرت کا انتہائی اہم پہلو ہے جو رہتی دنیا تک تمام انسانی نسلوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ہجرت تاریخ اسلام کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی ہے۔ قرآن نے ہجرت کو آرام و آسائش اور سکون و امن کا باعث قرار دیا ہے۔
وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّھُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً(نحل:۴۱)
ہجرت سے مندرجہ ذیل برکات و ثمرات حاصل ہوئے:
٭ دین اور اسلامی ثقافت کا فروغ
٭ عبادت و ریاضت کی آزادی
٭ ظلم و استحصال سے نجات
٭ اسلامی معاشرے میں تحول و تبدل
٭ زندگی کے تمام شعبوں میں ارتقاء
٭ معاشرتی ترقی کے وسیع امکانات کا حصول
٭ اصلاحات کے مختلف راستے پیدا ہونا
٭ سیاسی تعلقات میں اضافہ و استحکام
٭ تجارت اور معاشی سرگرمیوں میں وسعت
٭ عسکری قوت میں اضافہ
٭ قبائل کے مسلمان ہونے سے افرادی قوت کا بڑھنا
ہجرت مشکلات سے فرار نہیںہے اور نہ ہی استقامت اور ثابت قدمی کے خلاف ہے بلکہ یہ اجتماعی زندگی میں اطاعت الٰہی اور ابلاغ دین کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کا نام ہے۔ ہجرت ایک قسم کی مشکلات سے نکل کر نت نئی مشکلات کا شکار ہونا نہیں ہے۔ عصر حاضر میں مادی آسائشوں کے حصول کے لیے یورپ کی طرف ہجرت انسانی عزت و وقار کے منافی ہے، جب کہ اللہ کے راستے میں ہجرت کرنا درحقیقت، معصیت سے فرار اور گناہ و نافرمانی کی دلدل سے نکل کر اطاعت الٰہی کی طرف ہجرت ہے، ذلت سے نکل کر انسانی عزت کی طرف آنا ہجرت ہے۔ ہجرت کے حکم کی اطاعت ہی میں عزت و کرامت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ (منافقون:۸)
اور عزت اللہ کے لیے ہے، اس کے رسول کے لیے اور مومنین کے لیے۔
کم و بیش ۱۰قبائل سے چند افراد نے ہجرت کی۔ ان مہاجرین کے عزیزواقارب کو قریش مکہ کے سامنے جوابدہی مشکل ہوگئی۔ اگرچہ یہ ہجرت خود سرداران مکہ کے لیے بھی شرمساری اورہزیمت کا باعث تھی لیکن انھوں نے اس خفت کو مٹانے کے لیے مہاجرین کو واپس لانے اور مشکلات میں اضافے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ اس کٹھن مرحلے اور مشکل کو رسولؐ اللہ نے اپنی الٰہی بصیرت سے بطور أحسن استقامت و پائیداری کی تلقین سے حل فرمایا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے اور ہجرت حبشہ مدینہ کی طرف ہجرت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔


پہلی ہجرت
بعض مورخین کے نزدیک ہجرت مدینہ سے پہلے دو اہم ہجرتیں حبشہ کی طرف ہوئی ہیں۔ پہلا گروہ بعث نبویؐ کے پانچویں سال اور دوسرا ہجرت مدینہ سے کچھ پہلے حبشہ روانہ ہوا جس کی تاریخ مشخص نہیں۔ یہ مہاجرین تقریباً پندرہ سال تک حبشہ میں مقیم رہے اور ہجرت مدینہ کے ساتویں سال نبی پاکؐ کے حکم پر واپس بیضۂ اسلام مدینہ منورہ میںتشریف لائے۔ اس وقت نبی پاکؐ خیبر کے معرکے میں مصروف تھے لہٰذا مہاجرین کی ایک تعداد زیارت و دیدار کے وفورِ شوق سے سیدھے آپؐ کے حضور پہنچ گئے۔ بعثت کے پانچویں سال رسول پاکؐ کے حکم پر حضرت جعفر ابن ابی طالب کی سربراہی میں ہجرت ہوئی۔ دوسری ہجرت مدینہ ہجرت کرنے سے کچھ عرصہ پہلے ۸۳ مرد اور ۱۱ قریشی خواتین اور ۷ غیر قریش افراد نے کی۔
( (۱) ابن ہشام، حصہ۲، ص۳۸۹) (۲) ابن سعد،ج۱، ص ۲۰۳) (۳) یعقوبی، ج۲،ص۲۹)
پہلی ہجرت حبشہ کے مہاجرین کے نام
مختلف سوانح نگاروں اور محدثین نے ہجرت حبشہ میں شریک جن خواتین و حضرات کا ذکر کیا ہے ان کے نام ہم ذیل میں درج کرتے ہیں:
۱۔ عثمان بن عفان ازقبیلہ بنی امیہ
۲۔ رقیہ بنت محمدؐ(زوجہ عثمان بن عفان) ازقبیلہ بنی ہاشم(ایک قول کے مطابق)
۳۔ عبدالرحمن بن عوف قبیلہ بنی زہرہ سے تھے اور عربوں کے ثروت مند افراد میں شمار ہوتے تھے۔
۴۔ زبیر بن عوام ازقبیلہ بنی اسد بن عبدالعزیٰ۔ باپ کی طرف سے حضرت خدیجہ کے بھتیجے تھے اور ماں کی طرف سے رسول پاکؐ کے پھوپھی زاد تھے۔ ان کی والدہ کا نام صفیہ بنت عبدالمطلب تھا۔
۵۔ ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ ازقبیلہ بنی عبدالشمس۔
۶۔ سہلہ بنت سہیل بن عمرو(زوجہ ابو حذیفہ بن عتبہ) ازقبیلہ بنی عامر، اس کا بیٹا محمد بن ابی حذیفہ حبشہ میں پیدا ہوا۔
۷۔ مصعب بن عمیر ازقبیلہ بنی عبدالدار
۸۔ ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی ازقبیلہ بنی مخزوم
۹۔ ام سلمہ (زوجہ ابو سلمہ بن عبدالاسد)از قبیلہ بنی مخزوم ، ان کی بیٹی زینب حبشہ میں پیدا ہوئی۔
۱۰۔ عثمان بن مظعون از قبیلہ بن جمح
۱۱۔ عامر بن ربیعہ ازقبیلہ بنی عدی
۱۲۔ لیلی بنت ابی حثمہ بن غانم (زوجہ عامر بن ربیعہ)
۱۳۔ سہیل بن بیضاء
۱۴۔ ابو سیرہ بن ابی رہم(ابی رہب) عامری ازقبیلہ بنی عامر(بعض کے بقول ان کا نام ابی رہب یا ابوطالب ابن عمرو ہے)
۱۵۔ ام کلثوم بنت سہل ابن عمر(زوجہ ابو سیرہ بن ابی وہب عامری)
۱۶۔ صہیب بن وہب بن ربیعہ ازقبیلہ بنی حارث
(سیرۃ النبی،ابن ہشام، ج۱، ص ۳۵۶)، (فتح الباری،ج۷،ص۱۴۳)،(سیرۃ النبی ابن ہشام،ج۱،ص ۲۱۳)،(سیرۃ رسولؐ خدا ، رسول جعفریان، ص۳۴۳)
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ ہجرت کے چند ماہ بعد ہی واقعہ غرانیق کی افواہ سن کربعض مہاجرین حبشہ نے یقین کر لیا کہ مشرکین اور قریش مکہ کے ساتھ آپؐ کی صلح ہو گئی ہے لہٰذا وہ مکہ مکرمہ واپس آگئے۔ یہاں پہنچ کر انھیں معلوم ہوا کہ اس بات کی کوئی حقیقت نہ تھی حالات کی سختی و سنگینی میں ابھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ بنا بریں کچھ مسلمان مکہ میں رک گئے اور بعض واپس چلے گئے۔ البتہ اسی افسانہ غرانیق کو دلیل بناتے ہوئے علامہ سید مرتضیٰ عسکری اس بات کے قائل ہیں کہ یہ پہلی ہجرت حبشہ نہیں ہوئی اور حضرت جعفر طیار کی سربراہی میں جانے والے گروہ کی ہجرت ہی حبشہ کی طرف پہلی ہجرت ہے چونکہ سب مسلمان ہجرت کے لیے اکٹھے روانہ نہیں ہوئے بلکہ چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں حبشہ کی طرف جاتے رہے اس وجہ سے د و ہجرتوں کا گمان ہوا۔ (نقش آئمہ در احیاء دین،ج۱،درس ۹)

یہ بھی پڑھیں: حلال و حرام کا تعین کس کی ذمہ داری ہے https://albasirah.com/urdu/halal-o-haram-tayun/


دوسری ہجرت حبشہ
اگر پہلی ہجرت حبشہ والی بات کو درست مان لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسری ہجرت کی تاریخ مشخص نہیں ہے۔ البتہ اس ہجرت میں شریک جو افراد بیان کیے جاتے ہیں ان میں سے چند ایک کے اسماء درج ذیل ہیں:
۱۔ جعفر بن ابی طالب قبیلہ بنی ہاشم، ان کی عمر اس وقت ۲۴ سال تھی ان کی بیوی اسماء بنت عمیس ازقبیلہ خثعم بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ ان کے بیٹے عبداللہ بن جعفر حبشہ ہی میں پیدا ہوئے،انہی سے بعد ازاں حضرت زینب بنت علی ؑکا نکاح ہوا۔
۲۔ ابو موسیٰ اشعری عبداللہ بن قیس ازقبیلہ بنی عبدالشمس
۳۔ عتبہ بن غزوان از قبیلہ بنی نوفل
۴۔ اسود بن نوفل بن خویلد ازقبیلہ بنی اسد بن عبدالعزیٰ
۵۔ عامر بن ابی وقاص بن زہرہ
۶۔ عبداللہ بن مسعوداز قبیلہ بنی ہذیل (معروف صحابی وقاری قرآن)
۷۔ عتبہ بن مسعود (عبداللہ بن مسعود کا بھائی)
۸۔ سائب بن مظعون ازقبیلہ بنی جمح
۹۔ قدامہ بن مظعون
۱۰۔ عبداللہ بن مظعون
۱۱۔ ہشام بن عاص بن وائل قبیلہ بنی سہم (عاص بن وائل رسول اسلام کا سخت دشمن تھا اسی کی بیہودہ باتوں کے جواب میں سورہ کوثر نازل ہوئی)
۱۲۔ ابو عبیدہ جراح بن عامر بن عبداللہ قبیلہ بنی حارث
۱۳۔ ام حبیبہ بنت ابو سفیان زوجہ عبیداللہ بن جحش

نجاشی کے نام خط
حبشہ کے بادشاہ کو نجاشی کہتے تھے جیسے روم کے بادشاہ کو قیصر اور ایرانی بادشاہ کو کسریٰ کہا جاتا تھا۔نجاشی کا نام ’’اصحمہ‘‘ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے حبشہ کے فرمانروا نجاشی کے نام دو خط بھیجے گئے۔ایک خط میں اسلام کی دعوت دی گئی، توحید و نبوت کا پیغام پہنچایا گیا جس کے نتیجے میں نجاشی مسلمان ہو گیا اور دوسرے خط میں مہاجرین کی مدینہ واپسی کا حکم دیا گیا۔
نجاشی کے دربار میںحضرت جعفر طیار نے جو تقریر کی اس میں رسول پاکؐ کی تعلیمات کہ چند اہم نکات بیان کیے۔
توحید نبوت قیامت
نماز قائم کرنا روزہ رکھنا شرک و بت پرستی سے پرہیز
زکوۃ دینا صدق و سچائی
ایمانداری یتیم کا مال ناحق کھانے سے پرہیز،
خواتین پر تہمت لگانے سے گریز ہمسایوں کا خیال رکھنا اور صلہ رحمی وغیرہ

حضرت ام سلمیٰ فرماتی ہیں کہ حضرت جعفر طیار نے جب سورہ کھیعص کی چند آیات تلاوت فرمائیں تو نجاشی سمیت دربار میں موجود تمام مسیحی علماء نے بہت زیادہ گریہ کیا۔ حضرت جعفر طیار کی تقریر نے سب کے دل جیت لیے اور بہت موثر رہی۔
اعلام الوریٰ کے ص۱۸ پر نقل ہوا ہے کہ حضرت ابو طالبؑ نے رسول پاکؐ کی شان اور نجاشی کی حوصلہ افزائی کے لیے جو چند اشعار کہے وہ نجاشی کے دربار میں بھیج دیے۔

مہاجر مسلمانوں کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب مسلمانوں میں عبیداللہ ابن جحش (ام المومنین بی بی ام حبیبہ کے سابق شوہر) نے اسلام چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیا۔ ان کے ارتداد سے مسلمانوں کی دعوت تبلیغ پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور ارتداد کی حالت میںاس کا انتقال ہو گیا۔ (المواہب الدنیہ،ج۲، ص ۸۵)
ان کی بیوہ ام حبیبہ جو سردار مکہ ابو سفیان کی بیٹی تھی، رسول پاکؐ نے نکاح کا پیغام بھیجا اور نجاشی نے ۷ ہجری مںی رسول پاکؐ کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ (الطبقات الکبریٰ،ج۱،ص۲۰۷)
حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ نجاشی نے کہا اگر میرے اوپرملک کی ذمہ داریاں نہ ہوتیں قومیں رسول پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان کی جوتیاں اٹھاتا۔ (مسند احمد ابن حنبل، حدیث نمبر۴۴۰۰، ج۴، ص ۲۴۶)

حبشہ میں مسلمان چھوٹا موٹا کاروبار کرتے، محنت مزدوری کرکے اپنی روزی کماتے جب تک حبشہ میں رہے اس ملک کے خیر خواہ رہے اور ملک کے خلاف کسی قسم کی سازش میں شریک نہ ہوئے۔ نجاشی کے خلاف اور ان کے لیے دعائے خیر کی۔

(اعلام الوریٰ، ص ۳۰، البدایہ والنھایہ، ج۳،ص ۸۳،تاریخ طبری، ج۲، ص ۲۹۴۔ سیرہ حلبیہ، ج۳، ص ۲۷۹، اعیان الشیعہ، ج۲، ص ۶۰۷)
تحقیق طلب چند پہلو
ہجرت حبشہ کے پس منظر میںمزید تحقیق کے لیے چند تشنہ پہلو درج ذیل ہیں:
۱۔ کم و بیش ۱۰ قبائل سے مہاجرین کا ہجرت کرنا قریش اور کفار مکہ کے لیے کس ہزیمت کا باعث بنا۔ ان قبائل پر سیاسی و معاشرتی دبائو میںکس قدر اضافہ ہوا۔
رسول اکرمؐ نے کسی خوبی و تدبیر سے ان مسائل کو حل کیا۔
۲۔ حبشہ میں تقریباً پندرہ سال کے قیام کے دوران اوراس کے بعد بھی مرکز اسلام کے ساتھ مہاجرین اور مقامی نئے حبشی مسلمانوں کا رابطہ کیسا رہا؟
۳۔ مختلف غزوات، سرایا اور معرکوں میں حبشہ میں مقیم مسلمانوں یا حکومت حبشہ کی طرف سے مکہ و مدینہ کے مسلمانوں کے لیے سیاسی و اقتصادی یاعسکری تعاون
کی صورت کیا رہی؟
۴۔ حبشہ کے عیسائی معاشرے میں نووارد مسلمانوں نے کیا انمٹ نقوش ثبت کیے؟
۵۔ حضرت سودہ کے شوہر سکران اور ام حبیبہ کے شوہر عبیداللہ بن جحش کے عیسائی ہونے سے مہاجر مسلمانوں کی تبلیغ و ارشاد میں کیا مشکلات حائل ہوئیں۔
۶۔ مہاجر مسلمانوں نے مقامی لوگوں کی تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں میں کیا کردار ادا کیا۔

مسلم اقلیتی معاشروں کے لیے اسوہ
۱۔ رہبرکی اطاعت کرنا
۲۔ ہدایت و ارشادکی ذمہ داری ادا کرنا
۳۔ مقامی بغاوت پر اپنے محسن کا ساتھ دینا
۴۔ مرکز سے مضبوط رابطہ رکھنا
۵۔ عبادت ، ایثار اور اخلاق کے اعلیٰ نمونے ثبت کرنا
۶۔ تجارتی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا
۷۔ فسق وفجور سے پرہیزکرنا
۸۔ علم و منطق کا اسلحہ استعمال کرنا
۹۔ مقامی عیسائی حکومت کے قوانین کا احترام کرنا
۱۰۔ فرقہ واریت سے اجتناب کرنا
۱۱۔ اتحاد و یگانگت

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہجرت انسان کے گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور اسے ایمان کی معراج عطا کرتی ہے۔
الاسلام یہدم ماکان قبلہ والھجرۃ تہدم ماکان قبلھا حدیث
یعنی اگر اسلام نے (ایمان) سے پہلے کے گناہ ختم کیے ہیں تو ہجرت نے ایمان کے بعد کے گناہ مٹا دیے ہیں۔
حبشہ کی طرف ہجرت ۶۱۵ عیسوی میں ہوئی۔ عیسائی قومی معاشرے میں مسلمان اقلیت نے پندرہ سال تک قیام کیا۔بعدازاں ایک تعداد وہیں مقیم رہی اور باقی مسلمان واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ آخری وفد حضرت جعفر طیار کا تھا جو ۷ ہجری میں واپس آئے۔ سیرت نگار اور محدثین نے ہجرت حبشہ جو کہ ہجرت مدینہ کا مقدمہ تھی اس پر کم توجہ دی ہے۔ رسول پاکؐ نے جب خطوط ارسال فرمائے تو اس وقت مختصر ذکر آیا یا پھر ابتدائی اسلامی تحریک کے بیان میں ہجرت کا موضوع چھیڑا گیا۔آج افریقہ میں اسلام کی اشاعت میں بنیادی کردار انہی ابتدائی مسلمان مہاجرین کا ہے۔
حبشہ میں مقیم مسلمانوں نے استقامت، صبر، پائیداری، پابندیٔ شریعت، اخلاق حسنہ، قانون کی عملداری، ابلاغ دین اور اپنے کردار و سیرت کے ذریعہ قرآنی پیغام عام کیا ۔ دعوت و ارشاد کا کام حکمت و تدبیر وموعظہ حسنہ کے ساتھ انجام دیا۔
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ(نحل:۱۲۵)
ہجرت حبشہ کو مزید غوروفکر اور تحقیق کے بعد مسلم اقلیتی معاشروں کے لیے اسوہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ قرآن وسنت کی تعلیمات کے ذریعے مسلم اقلیتی معاشرے کو امن وامان کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے جومقامی غیر مسلم معاشروں کے لیے تعلیم و تربیت کا مینارہ نور ثابت ہو۔

یہ بھی دیکھیں: روزہ کیا ہے؟ روزہ کیوں رکھا جاتا ہے؟ https://www.youtube.com/watch?v=CBUEbLhESBo