حلال و حرام کا تعین کس کی ذمہ داری ہے

Published by fawad on

مفتی گلزار احمد نعیمی
پرنسپل جامعہ نعیمیہ ،اسلام آباد
تمام الہامی ادیان میں حلال اور حرا م کا تصور موجود رہا ہے ۔ کسی مذہب میں حلال و حرام کے حوالے سے بہت سختی تھی تو بعض میں قدرے نرمی کچھ زیادہ تھی۔ ہر امت میں حلال و حرام کے ضابطے مختلف رہے ہیں اور انکے معروضی حالات کے پیش نظر ان میں کمی و بیشی ہوتی رہی لیکن ایک بات مسلم ہے کہ کسی چیز کو حلال یا حرام کرنے کا تمام اختیار عوام کے پاس رہا نہ علماء کے پاس۔ حلت و حرمت کے تمام اختیارات اللہ جل شانہ اور صاحب شریعت رسل کے پاس رہے ہیں۔


دین اسلام میں بھی یہی ضابطہ کار فرما رہا ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے کلام مقدس میں حرام قرار دیا ہے وہ حرام اور جسے حلال فرمایا وہ حلال۔ جس چیز کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلا ل کہا وہ امت کیلئے حلال ہے اور جو چیز شارع علیہ السلام نے حرام قرار دی وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حرام ہے۔ سورئہ اعراف کلام مقدس کا ۷سورہ ہے اس میںجہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مناصب جلیلہ کا ذکر ہے وہاں حلال و حرام کے حوالے سے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک اتھارٹی قرار دیا گیا ۔ ارشاد خدا وندی ہے:
وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ(۱)
وہ (رسول )ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرے گا اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام کرے گا۔
اسی طرح زندگی کے تمام معاملات میں حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حوالے سے امت کو ہمہ وقت شارع علیہ السلام کے طرف متوجہ رہنے کا ارشاد ہو اہے۔ امت کیلئے لازمی قرار دیا گیا کہ زندگی کے تمام معاملات میں نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع رکھے اور جسے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلال فرمائیں وہ لے لے اور جسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حرام قرار دے کر ممنوع فرما دیں اس سے رک جائے۔ چنانچہ ارشاد ہو:
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا(۲)
اس کے علاوہ بھی قرآن مجید میں بہت سی آیات مذکورہ ہیں جن سے صراحتاً، اشارۃً اور اقتضائً مفہوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کے تمام اختیارات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بعد صرف اور صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حاصل ہیں ۔ حضرت مقدام بن معدی کرب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
: سنو مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اسکی ایک مثل(مراد حدیث)دی گئی ہے، سنو!عنقریب ایک شخص تحت پر سیر ہو کر بیٹھا ہو گا وہ یہ کہے گا کہ اس قرآن کو لازم رکھو ، اس میں جو تم حلال پائو اس کو حلال قرار دو اور اس میں جو حرام پائو اس کو حرام قرار دو اور بے شک جس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حرام قرار دیا وہ ایسا ہے جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حرام قرار دیا، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھا حلال نہیں ہے اور نہ ہی ہر کچلیوں سے شکار کرنے والا درندہ اور نہ ہی راستے میں گری پڑی ذمی کی ملکیتی چیز جس سے اس کا مالک مستغنی نہ ہو۔(۳)
اس حدیث میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پالتو گدھے کو حرام قرار دیا ہے اور پنجوں کے ناخنوں سے شکار کرنے والے درندے(شیر،گیدڑ اور بھیڑیا وغیرہ)کو حرام قرار دیا ہے جبکہ ان کی حرمت کا قرآن مجید میں تذکرہ نہیںہے۔
اس کے علاوہ اگر کسی چیز کی حلت پر اجماع امت ہو جائے تو وہ حلال ہے اور کسی چیز کی حرمت پر اجماع ہو جائے تو وہ حرام ہے۔ لیکن اجماع امت کو حلت و حرمت کا اختیار رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہی عطا فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی کچھ یوں روایت کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
ماراہ المئو منون حسناً فھو عنداللہ حسن و ماراٰہ المئومنون قبیحا فھو عنداللہ قبیح
جسے مئومنین اچھا جانیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہے اور جسے مسلما ن قبیح جانیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی ناپسندیدہ ہے۔(۴)
اس طرح اجماع امت بھی حلت وحرمت پر اتھارٹی ہے لیکن اجماع سے کسی ایک خطے یا شہر یا ملک کے صاحبان دانش و بینش کا اتفاق مراد نہیں ہے بلکہ شرق و غرب کے تمام مسلمان کسی ایک زیر بحث چیز کی حلت یا حرمت کے حکم پر متفق ہونگے تو اسے اجماع امت قرار دیا جائے گا۔ محض چند علماء یا کسی ایک خطے یا شہر کے علماء کسی چیز کو پوری امت کیلئے حلال یا حرام نہیں قرار دے سکتے۔ اس بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے کے قابل ہو گئے ہیں کہ اشیاء کی حلت و حرمت کا فتوی دینا نہایت ہی اہم کام ہے اور اسکا اختیار صرف اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ اجماع امت کو بحیثیت ادارہ حاصل ہے۔
آج کل ہمارے علماء بہت عجلت میں کسی چیز کو حلال و حرام قرار دے دیتے ہیں ۔ یہ رویہ اور طرز عمل نہایت افسوس ناک ہے اور بہت نقصان دہ بھی۔ اس غیر علمی طرز عمل نے امت کو کئی گروہوں میں تقسیم کر کے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ آج امت باہم دست و گریباں ہے ، خون ناحق گلی کوچوں کو رنگیں کر رہا ہے۔ مذہبی جنونی حلال و حرام کے ان فتووں کو بنیاد بنا کر کسی مسلمان کلمہ گو کے خون کو حلال سمجھتے ہیں اور اسے بے دردی سے بہا دیتے ہیں۔ ان ہی فتنوں نے فرقہ واریت کو جنم دیا ہے۔ فرقہ واریت کی کوکھ سے انتہا پسندی اور انتہا پسندی کے بطن سے دہشت گردی اور خون ریزی نے جنم لیا ہے۔ پچھلے دنوں میں میرے مکتب فکر کے 50مفتیوں نے نیٹو سپلائی کی بحالی کوغیر شرعی ، غیر اسلامی اور ناجائز و حرام قرار دیا ہے۔ مجھے اس سے بھی بڑھ کر افسوس ہوا کہ اس میںایک مفتی صاحب ہماری ایسوسی ایشن (جس کا میں خود بھی حصہ ہوں)کے ایک اہم عہدہ دار بھی اس فتوی بازی میں شامل تھے۔مجھے اس سلسلے میں اپنے ان محترم دوستوں کی خدمت میں یہ عرض کرنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیٹو فورسزنے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے بلکہ جنوبی ایشیا پر ہی کیا بس ہے انھوں نے پورے عالم اسلام پر مختلف حیلوں بہانوں سے وحشیانہ یلغار کی ہوئی ہے۔ خدا جانے کتنی مزید قیمتی جانیں ان خون خوار درندوں کے ہاتھوں لقمۂ اجل بنیں گی۔ابھی ان کے ہاتھوں خدا معلوم کتنا معاشی نقصان پاکستان کو اٹھانا ہے اور اہل پاکستان نے ذلت و رسوائی کی کتنی مہیب گھاٹیوں کی خاک چاٹنی ہے لیکن یہاں مجھے جس مسئلہ پر اظہار خیال کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں شرعی اصطلاحات کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔حلال وحرام شریعت کی اصطلاحات ہیں۔
ہمارے تمام مکاتب فکر کے علماء نے بہت سے مواقع پر محض ظن و تخمین سے کام لیا یا محض اپنے مزاج کے خلاف کسی چیز کو حرام اور مزاج کے مطابق کسی چیز کو جائز اور حلال قرار دیا۔مثلاً بہت سے ہیں جنھوں نے طالبان کو اسلام کا نمائندہ قرار دیا اور ایک کثیر جمعیت نے طالبان کو ظالمان قرار دیا۔ بہت سے پاکستانی علماء ہیں جنھوں نے اسامہ بن لادن سے مالی فوائد اٹھانے کی خاطر اسے اسلام کا ہیرو اور امریکہ کو’’شیطان اعظم‘‘قرار دیا۔ وہ بھی پردہ نشیں ہیں جنھوں نے اسامہ کی القاعدہ اور تحریک طالبان کا مقابلہ کرنے کے نام پر چند ہزار ڈالر وں کی خاطر اپنے ایمان اور سلف صالحین کے شاندار ماضی کو امریکہ کی اسلام آباد ایمبیسی میں جا کر بیچ دیا(اف لکم)یہ اسلام نہیں ہے ۔ یہ فتوی بازی دال روٹی کمانے کا ذریعہ۔ بقول انجم رومانی :
ع فقیہ شہر کی باتوں سے در گزر بہتر
بشر ہے اور غم آب و دانہ رکھتا ہے
اپنے موضوع کی طرف پلٹتے ہوئے گزارش ہے کہ علماء کو حلال و حرام کے بارے میں فتوی دیتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ محض ظن و تخمین اور مزاج سے حلت و حرمت ثابت نہیں ہوتی ، حتی کہ کسی چیز کی حلت و حرمت احادیث ضعیفہ یا مجرد نص سے بھی ثابت نہیں ہوتی۔ حلت و حرمت کے ثبوت کیلئے نص صریح یا معتبر اجماع کا ہونا ضروری ہے۔ اما م مالک ؒ فرماتے تھے کہ جو مسائل مجھ سے پوچھے جاتے ہیں ان میں میرے نزدیک سخت ترین مسئلہ حلال و حرام کا ہوتا ہے۔ اما م شافعی ؒ نے قاضی ابو یوسف ؓ (امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد) سے روایت کیا ہے امام قاضی ابو یوسفؓ فرماتے تھے کہ میں نے اپنے مشائخ کو حلال و حرام کے حوالے سے بہت محتاط پایا،سوائے ان چیزوں کے جو کتاب اللہ یا سنت میں موجود ہیں۔ خلفائے راشدین کے سامنے جب مسائل پیش کیے جاتے تو و ہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اکھٹاکر کے انکی آرا ء کی روشنی میں فیصلے صادر فرماتے تھے۔ مسلمان فقہاء کی فقہی مجالس فتاوی صادر کرتی تھیں ۔ آج اس دور میںایک عالم دین اپنی رائے کو صائب اور درست خیال کرتا ہے اور اس کی دانست باقی سب غلط ہیں۔’’رائے تو رائے ہوتی ہے چاہے وہ کسی کی بھی ہو‘‘مفتی کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ’’یہ حلال ہے ‘‘یا’’وہ حرام ہے‘‘ بلکہ اسے یہ کہنا چاہیے کہ ’’میں اسے پسند کرتا ہوں‘‘یا’’میری رائے یہ ہے‘‘کسی چیز کو اپنی رائے سے حلال یا حرام قرار دینا یہ افتری علی اللہ (اللہ پر جھوٹ باندھنے)کے مترادف ہے۔ اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا:
قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّ حَلٰلًا قُلْ آٰللّٰہُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اللّٰہِ تَفْتَرُوْنَ (۵)
آپ فرمائیے بھلا بتائو تو جو رزق اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اتارا ، پس بنا لیا تم نے اس سے بعض کر حرام اور بعض کو حلال ۔ پوچھیئے کیا (اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کی)تمہیں اجازت دی ہے۔ یا تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔
عہد جہالت میں لوگ اپنی من پسند کو حلال اور ناپسند کو حرام قرار دیتے چلے آرہے تھے۔ قادر مطلق نے انکی سرزنش فرمائی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ارشاد فرمایا کہ ان سے پوچھیے کہ رب ذوالجلال نے تمہیں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے یا تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہو؟۔ معزز علماء کرام و محترم مفتیان عظام کو اس آیت پر غور فکر کی دعوت دینے کی جسارت کر رہا ہوں اور دعوت فکر دیتاہوںکہ کیا ہم عہد جہالت کی طرف نہیں لوٹ رہے ؟ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ ۔(۶)
رہی بات نیٹو فورسز کے مظالم کے خلاف اور جدوجہد کی تو خون جگر چاہیے اس دہکتی آگ کو بجھانے کیلئے۔ شہید پاکستان ؒ کا سا عزم اور جہد مسلسل چاہیے مغربی قوتوں کے عزائم کو تہ خاک دفنانے کیلئے۔ حکمرانوں کے تیور دیکھتے ہوئے اس امر کا واضح امکان دکھائی دے رہا ہے کہ چند دنوں کے بعد نیٹو سپلائی بحال ہو جائے گی اور آپ کو ایک اور فتوی جاری کرنا پڑ جائے گا۔فتویٰ بازی کی سیاست سے نکل کر سنجیدہ کوششوں کی طرف آنے کی ضرورت ہے اس کے لیے ہم اپنے دوستوں کی طرف دست تعاون بڑھاتے ہیں۔
حواشی
۱۔ ۷۔الاعراف:۱۵۷
۲۔ ۵۹۔الحشر:۷
۳۔ مشکوۃ المصابیح، رقم الحدیث:۱۵۵، مکتبہ رحمانیہ ، اردو بازار لاہور، سنن ابن ماجہ ، رقم الحدیث:۲۲، سنن دارمی رقم الحدیث:۵۸۲۔
۴۔ مئو طا امام محمد، ص۱۴۴،باب قیام شھر رمضان و ما فیہ من الفضل، مکتبہ رحمانیہ لاہور۔
۵۔ ۱۰۔یونس:۵۹
۶۔ ۵۹۔حشر:۲

یہ بھی پڑھیں: قرآن اور عقل https://albasirah.com/urdu/quran-aur-aqal/