حضرت زہراؑ کی شاعری

Published by fawad on

سید ثاقب اکبر

حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے بہت سے اشعار تاریخ و روایات پر مبنی کتب میں نقل ہوئے ہیں۔ بعض اشعار حضرت علیؑ کے ساتھ ان کی زندگی کے مختلف واقعات کی حکایت کرتے ہیں۔ بعض اشعار میں حضرت علی ؑ سے اظہار محبت و عقیدت کیا گیا ہے۔ ایسے بھی اشعار ہیں جن میں حسنین کریمین سے محبت و الفت ظاہر ہوتی ہے اور ان کا عظیم مقام بھی آشکار ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ سے آپؑ کی محبت لازوال تھی اس کا اظہار آپؑ کی زندگی کے واقعات اور اشعار میں بخوبی ہوتا ہے۔ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد خاتون جنتؑ پر جو مشکل دور آیا اس سے متعلق آپؑ کے اشعار نے خاص شہرت حاصل کی۔ ہم ذیل میں ان میں سے اشعار کا ایک انتخاب قارئین کرام کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض اشعار کے مختلف متن اور الفاظ بھی منقول ہوئے ہیں۔ بہرحال ہم یہ اشعار ’’دیوان حضرت فاطمہؑ‘‘ کے نام سے شائع شدہ ایک کتابچے سے نقل کررہے ہیں۔ اس دیوان میں ہر نظم اور ہر شعر کے حوالہ جات اور ماخذ تفصیل سے ذکر کیے گئے ہیں اوراختلاف متون کو بھی بیان کیا گیا ہے جس کے ذکر کا یہ محل نہیں ہے۔یہاں یہ بات ملحوظ نظر رہے کہ شعر کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا اس لیے ہم نے مفہوم لکھنے پر اکتفا کیا ہے۔
رحلت رسولؐ اور اندوہ فاطمہ ؑ
رسول کریمؐ کی رحلت کے بعد دختر رسول حضرت فاطمہ زہراؑ مسجد نبوی میں تشریف لائیں۔ مسجد کے ایک ستون کے ساتھ کھڑی ہو گئیں اور پھر وہ مشہور خطبہ دیا جو تواریخ و احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ پھر انصار مہاجرین کے سامنے یہ دردناک اشعار پڑھے جو آپ کے دل کی کیفیت اور اس وقت کی صورتِ حال کی غمازی کرتے ہیں۔
قَد کانَ بَعْدَک أنْبائٌ و ھَنْبَشَۃٌ
لَوْ کنتَ شاھِدَ ھا لَم یکثُرِ الْخَطبُ
آپ کے بعد ایسی ایسی خبریں سامنے آئیں اور ایسے ایسے ناگوار حادثات پیش آئے کہ اگر آپ ہوتے تو ان میں سے اکثر کو رونما نہ ہونے دیتے
اِنّا فَقَدْناک فَقْدَ الْأَرْضِ وابلَھا
وَاخْتَلَّ قَوْمُک فَاَّشْٔھِدْھُم ولا تَغِبِ
ہم آپ سے یوں محروم ہو گئے جیسے زمین برسات سے محروم ہو جائے۔ آپ کی قوم خراب ہو گئی آپ خود ان کی حالت کو دیکھیں اور پنہاں نہ ہوں
فَلَیت قَبْلَک کانَ الْمَوْتُ صادَفَنا
لَمَّا نُعِیتَ وَحالَتْ دُونَک الْکتُبُ
اے کاش اس سے پہلے کہ آپ اپنی وفات کی خبر ہمیں دیتے اور وحی کا سلسلہ آپ (کے جانے) سے منقطع ہوتا موت ہمیں آلیتی ایسے مرد سامنے آئے کہ
سَیعْلَمُ الْمُتَوَلِّی ظُلْمَ حامِینَا
یوْمَ الْقِیامَۃِ أنّی کنْتُ اَّنْقَلِبُ
ہمارے حامیوں پر جو ظلم ہوا اس سے صاحب اقتدار اللہ آگاہ ہے اور قیامت کے روز اس ظلم کے خلاف میں (اس کی بارگاہ میں) کھڑی ہوں گی۔
وَکلُّ قَوْمٍ لَھُمْ قُرْبی و مَنْزِلَۃٌ
عِندَ الْاِ لہِ وَ لِلْأَ دْ نِینَ مُقْترَبُ
ہر گروہ کا بارگاہ الٰہی میں ایک مقام و مرتبہ ہے اور جو جتنا اس کے نزدیک ہے اتنا ہی صاحب قربت ہے۔

اس نوحے کے بعض اشعار ایسے ہیں جو بنت پیغمبرؐ نے آپ کی قبراطہر کے پاس کھڑے ہوکر کہے:
اِذَا اشْتَدَّ شَوْقی زُرْتُ قَبْرَک باکیاَ
أَنُوحُ و أَشْکو لا أَراک مُجاوِبِی
جب اشتیاق شدید ہوجاتا ہے تو میں اشک فشاں آپ کی قبر کی زیارت کو پہنچ جاتی ہوں۔(پھر آپ کی قبر کے کنارے) نوحہ و زاری اور شکوہ و شکایت کرتی ہوں لیکن آپ کو جواب دیتے نہیں پاتی
فیا ساکنَ الصَّحْرائِ عَلَّمْتَنی البکائَ
و ذِکرُک أَنسانی جَمِیعَ الْمَصائِبِ
اے خاک مقیم! آپ ہی نے مجھے گریہ کرنا سکھایا آپ کی یاد سب دکھوں کو بھلا دیتی ہے۔
فانْ کنتَ عَنّی فی التُّرابِ مُغَیباً
فَما کنْتَ عَنْ قَلْبی الْحَزینِ بِغائِبِ
اگرچہ آپ مجھ سے جدا ہوکر مٹی میں جا چھپے ہیں لیکن میرے قلبِ حزیں سے غائب نہیں ہیں۔
وَقد رُزِینا بِہ مَحْضاً خَلِیقَتُہ
صَافِی الضَّرائبِ والْأَ عْراقِ والنَّسَبِ
وہ ہستی کہ جو کردار، اصل اور نسب کے لحاظ سے پاک تھی، اس کی رحلت سے ہم مصیبت سے دوچار ہوگئے
وَکنتَ بَدْراً ونُوراً یسْتَضائُ بِہ
عَلَیک تَنْزِلُ مِنْ ذِی العِزَّۃِ الْکتُبُ
آپ ایسے ماہ کامل اور نور تھے کہ جس سے روشنی حاصل کی جاتی تھی اور آپ پر صاحبِ عزت خدا کی طرف سے کتاب نازل ہوئی
وَکانَ جَبْریلُ رُوحُ الْقُدْسِ زائِرَنا
فَغابَ عَنّا و کلُّ الْخَیرِ مُحتَجَبُ
وہ روح القدس جبریل جو ہماری زیارت کو آتا تھا چھپ گیا اور ہر خیر زیر حجاب ہوگئی۔
فَلیتَ قبلک کان الموتُ صادفنا
لَمّا مَضَیتَ و حالَت دُونَک الحُجُبُ
اے کاش آپ کے جانے سے پہلے ہی موت ہمیں آلیتی۔ آپ ہم سے جدا ہوگئے اور ہمارے اور آپ کے مابین پردے حائل ہوگئے۔
اِنّا رُزِینَا بما لَمْ یزْزَ ذوشَجَنٍ
مِنَ الْبَرِیۃِ لاعَجَمٌ ولا عَرَبُ
ہم پر ایسی مصیبت وارد ہوئی کہ عرب وعجم کا کوئی غم رسیدہ اس سے دوچار نہ ہوا۔
ضاقَتْ عَلَی بِلادٌ بَعْدَما رَجُبَتْ
وَسِیمَ سِبْطاک خَسْفاً فیہ لی نَصَبُ
شہر اپنی وسعتوں کے باوجود مجھ پر تنگ ہو گئے آپ کے نواسے خوار ہو گئے اور یہ میرے لیے بہت رنج آور ہے۔
فَاَنْتَ واللّٰہِ خَیرُ الْخَلْقِ کلَّھِمُ
وَأَصْدَقُ النّاسِ حَیثُ الصَّدَقُ والْکذِبُ
قسم بخدا آپ ساری مخلوق سے افضل ہیں۔ جب سچ اور جھوٹ کا تذکرہ ہو تو آپ سب سے بڑھ کر سچے ہیں۔
فَسَوْفَ نَبْکیک ما عِشْنا وماَ بقیتْ
مِنّا الْعُیونُ بِتَھْمالِ لَھَاسَکبُ
جب تک ہم زندہ ہیں اور ہماری آنکھوں میں آنسو ہیں ہم آپ پر آنسو بہاتے رہیں گے۔

کوچ
سیدہ خاتونِ جنتؑ کو آنحضرتؐ کی وفات کی خبر پہنچی تو بے قرار گھر سے نکلیں آپ کی زبان پر یہ شعر تھا:
نَعَتُ نَفْسَک الدُّنیا اِلیناوَأسْرَعَتْ
وَنادَتْ أَلاجَدَّ الرَّحِیلُ وَ وَدَّعَتْ
دنیا نے جلد ہی آپ کی وفات کی خبر ہمیں دے دی اوردنیا نے صدا دی کہ کوچ حتمی ہے اور اس نے پھر آپ کو الوداع کہا۔
غم بے پایاں
ایک روزحضرت زہرا سلام اللہ علیھا اپنے بابا کی قبر مبارک کے پاس کھڑی ہوئی اور آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد صورت حال اور اپنی کیفیت کو ان اشعار میں بیان کیا۔
قَّدْ کنْتَ لی جَبَلاّ أَلُوذُ بِظِلَّہِ
فَالْیوْمَ تُسَلَّمُنی لِأَجْرَدَ ضاحِ
آپ میرے لیے ایک ایسے پہاڑ کی طرح تھے جس کے سائے میں میں پناہ لیتی تھی لیکن اب آپ مجھے ایک تباہ حال اور ویران زمین پر چھوڑے جاتے ہیں۔
قَد کنْتَ جارَ حَمِیتی ما عِشْتَ لی
وَالْیومَ بَعْدَک مَنْ یرِیشُ جَناحِی
جب تک آپ زندہ تھے مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہ تھی اب کون میرا دست و بازو بنے اور میری حمایت کرے۔
وَاغُضُّ مِنْ طَرْفی و أَعْلَمُ أنَّہ
قَدْ ماتَ خَیرُ فَوارِسی و سِلاحی
میںنظر انداز کرتی ہوں اور جانتی ہوں کہ میرا بہترین مدافع اور حامی چل بسا ہے۔
حَضَرَتْ مَنِیتُہ فَاَسْلَمَنی الْعَزا
وَتَمَکنَتْ رَیبُ الْمَنُونٍ جِراحی
اُن کی موت آ پہنچی اورمجھے سپرد عزا کردیا اور زمانے کی سختیاں قوی تر ہو کر مجھے صدمے پہنچانے لگیں۔
نَشَر الْغُرابُ عَلَی رِیشَ جَناحِہِ
فَظَلَلْتُ بَینَ سُیوفہِ و رماحِ
غموں نے اپنے پر مجھ پر پھیلا دیے اور میں غم و اندوہ کی شمشیروں اور نیزوں کے سائے میں گھر گئی ہوں۔
انّی لَأَعْجَبُ مَنْ یزُوحُ ویغْتَدِی
وَالْمَوْتُ بَینَ بُکورِہ ورَواحِ
میں وہ عجیب ہوں کہ شب و روز موت سے مقابلہ کرتے ہوئے بتا دیتی ہوں۔
وَاذا بَکتْ قُمْریۃٌ شَجَناً لَھا
لَیلاً عَلی غُصْنٍ بَکیتُ صَبَاحی
اگر قمری رات کو اپنے آشیانے میں غم کے مارے آہیں بھرتی رہتی ہے تو میں دن بھر گریہ کناں رہتی ہوں ۔
یا عَینُ ابْکی عِنْدَ کلِّ صَباحِ
جُودی بِأَرْبَعۃٍ عَلَی الْجِراحِ
اے آنکھ ہر روزبرستی رہ اور میرے زخموں پر خوب اشکوں کی بارش کرتی رہ

ایک خاتون کی دلجوئی
یہ بھی آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد کے چند اشعار ہیں جو دختر رسولؐ نے ایک مسلمان خاتون کی دلجوئی کے لیے کہے جس کا کوئی قریبی عزیز چل بسا تھا۔
اِذا ماتَ قَرْمٌ قَلَّ وَاللّٰہِ ذِکرُہُ
وَذِکرُ أَبی مُذْ ماتَ وَاللِّٰہِ أَزیدُ
کوئی بھی بزرگ جب وفات پا جاتا ہے تو اس کی یاد رفتہ رفتہ کم ہوجاتی ہے لیکن میرے والد فوت ہوئے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی یاد فزوں تر ہوتی جاتی ہے۔
تَذَکرْتُ لَمّا فَرَّقَ الْمَوتُ بَینَنا
فَعَزَّیتُ نَفسِی بِالرَّسُولٍِ مُحَمَّدِ
جب موت نے آنحضرتؐ اور ہمارے درمیان جدائی ڈال دی تو میں نے نصیحت پائی
فَقُلْتُ لھا اِنّ المَمَاتَ سَبِیلُنا
وَمَن لَمْ یمُتْ فی یوْمِہِ ماتَ فی غَدِ
پس میں نے اپنے آپ سے کہا کہ موت ہی ہمارا راستہ(ہمیں اسی پر روانہ ہونا) ہے اور جو آج نہیں مرا اسے کل مر جانا ہے۔
آپ پر گریہ کناں ہوں
کنتَ السَّوادَ لِمُقْلَتی
یبکی عَلَیک النّاظِرُ
آپ ہی میری آنکھوں کا نور تھے اور آپ پر گریہ کناںہوں
مَنْ شائَ بَعْدَک فَلْیمُتُ
فَعَلَیک کنْتُ أُحاذِرُ
مجھے آپ کی موت کا خوف تھا اب جبکہ آپ جل بسے ہیں تو میرے جو بھی مر جائے کچھ فرق نہیں۔
دردِ بے کراں
اِغْبَرَّ آفاقُ السَّمائِ و کوَّرتْ
شَمسْ النَّھارِ و أظلمَ الْعَصْرانِ
آسمان کے آفاق تیرہ وتار ہو گئے اور خورشید بے نور ہوگیا اور زمانہ تاریک ہو گیا۔
فَالْاْرضُ مِنْ بَعْدِ الرَّسُولِ کئِیبَۃٌ
أَسَفاً عَلَیہ کثِیرَۃُ الرَّجْفانِ
رسول اللہ کے بعد زمین غمناک، افسردہ اورلرزہ براندام ہے۔
فَلْیبْکہِ شَرْقُ الْبِلادِ و غَزْبُھا
وَلْیبْکہِ مُضَرٌ و کلُّ یمانِی
ان پر مشرق و مغرب کی سرزمینوں کو گریہ و بکا کرنا چاہیے اور ان پر قبائل مضر اور یمن کے ہر فرد کو آنسو بہانے چاہئیں۔
وَلْیبْکہِ الطُّورُ الْمُعَظَّمُ جَوُّدُ
وَالْبَیتُ ذُوالْأَسْتارِ وَالْأَرکانِ
آپ پر عظیم کوہ طور کی فضا کو رونا چاہیے۔ پردوں والے بیت اللہ کو اور ارکان کعبہ کو آپ پرگریہ کرنا چاہیے۔
یا خاتمَ الرُّسُلِ الْمُبارَک ضَوْؤُہُ
صلّی عَلَیک مُنزَّلُ الْفُرْقانِ
اے خاتم الرسل! آپ کے وجود کی روشنی برکتوں والی ہے اور آپ پر قرآن نازل کرنے والی ذات درود بھیجتی ہے۔
نَفْسی فِداؤُک مَا لِرَأسِک مائلا
مَا وَسَّدُوک وِسادَۃَ الْوَسْنان
آپ پر میری جان قربان، آپ کا سر ٹیڑھا کیوں ہے اور کیوں آپ کا سر بالیں پر یوں رکھا گیا ہے جیسے سوجانے والوں کا سر ہوتا ہے۔
چند شعروں کا منظوم ترجمہ
راقم نے حضرت خاتون جنتؑ کے چند غمناک اور معروف اشعار کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان اشعار کو بھی اپنے باباؐ کے حضور جناب سیدہ ؑکا نوحہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ قبل ازیں بھی پیام کی ایک اشاعت میں نذر قارئین کر چکے ہیں لیکن یہاں موضوع کی مناسبت سے انھیں پھر پیش کررہے ہیں۔
ماذا علی من شمّ تربۃ احمد
ان لایشمّ مدی الزّمان غوالیا
بابا! جو مری جاں کو میسر نہ کبھی تھی
خوشبو وہ تری خاک سے اب کے میں نے سونگھی
قل للمغیب تحت اطباق الثرّی
ان کنت تسمع صرختی ندائیا
اے تو کہ تہِ خاک ہے چہرے کوچھپائے
کیا میری صدا نالہ و فریاد کی پہنچی؟
صبَّت علیَّ مصائب لوانَّھا
صبَّت علی الایَّام صرن لیا لیٰا
پڑ جائے دنوں پر تو سیہ رات میں بدلے
ہر ایسی مصیبت جو ترے بعد ہے دیکھی
قد کنت ذات رحمی بظلِّ محمَّد
لا اخش من ضیم و کان حمالیٰا
کل تک تو ترے سایۂ رحمت میں تھا جیون
کچھ خوف عدو تھا نہ عیاں کینہ،وری تھی
فا لیوم اخضع للذَّلیل واتقی
ضیمی، وادفع ظالمی بردائیٰا
پر آج میں درماندہ ہوں غم جھیل رہی ہوں
کم مایہ عدو، ظلم بہت، جان اکیلی
فاذا بکت قمریَّۃٌ فی لیلھا
شجنا علی غصنٍ بکیت صباحیاٰ
جب گریہ کناں رات کو ہوتے ہیں پرندے
تنہائی میں پھر چھپ کے فغاں کرتی ہوں میں بھی
فلاَ جْعلنّ الحزنَ بَعْدک مُونِسی
ولاَ جْعلنّ الدمعَ فیک و شاحیاٰ
غم تیرا ترے بعد کہ اب مونس جاں ہے
دامن میں سمیٹے ہوں، ترے سوگ میں بیٹھی

یہ بھی پڑھیں: حضرت فاطمہ زہراؑ امام خمینی ؒکی نظر میں
https://albasirah.com/urdu/hazrat-fatima-zahra/