ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران میں پاکستان میں آزادی کا نام لینے والوں پر کوڑے برسائے جاتے تھے اور ان سے زندانوں کو آباد کیا جاتا تھا۔ ظلم اور وحشت کی فضا تھی۔ بولنے والوں کے لیے عتاب کے سوا کچھ نہیں تھا بلکہ گاہے بولے بغیر بھی عتاب نازل ہو جاتا تھا۔ شاید اسی پس منظر میں فیض نے کہا ہو:
ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا خطائے نظر سے پہلے عتاب جرمِ سخن سے پہلے
وہ عریاں اور آشکار مارشل لاء کا دور تھا۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ مارشل لاء کبھی ظاہر ہو جاتا تھا اور کبھی پس پردہ چلا جاتا تھا۔ جب سے سیاسی شعور میں قدم رکھا ہے، پاکستان میں ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ایوب خاں سے قائداعظم نفرت کرتے تھے اور اقتدار پر اس کی للچائی ہوئی نظروں کو دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے کہہ رکھا تھا کہ یہ میرے سامنے نہ آئے۔ پھر بانیٔ پاکستان کے بعد وہی ایوب خاں پاکستان کے مدارالمہام ہوگئے اور بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ کو ایوب خاں نے غدار اور ہندوستان کی ایجنٹ قرار دے دیا۔
ایوب خاں کو خطرہ لاحق ہوا تو اس نے یحییٰ خاں کو اس قوم پر مسلط کر دیا، جس نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اقتدار سونپنے کے بجائے اس پر فوجی یلغار کر دی۔ نتیجہ پاکستان کے دو ٹکڑوں کی صورت میں برآمد ہوا۔ یہ سارا دور امریکہ کی قربت کا زمانہ کہلاتا ہے، جب اس نے پاکستان میں فوجی اڈے بھی حاصل کیے۔ پاکستان امریکی قیادت میں بعض فوجی معاہدوں کا حصہ بھی بن گیا اور پاکستان کو سوویت یونین کے مقابل لا کھڑا کیا گیا۔ بعدازاں مغربی پاکستان میں منتخب ہونے والی بڑی پارٹی کو اقتدار سونپے بغیر چارہ نہ تھا، لیکن جب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کا نعرہ بلند کیا تو ان کے اقتدار کا تختہ پلٹ دیا گیا اور ضیاء الحق نے پاکستان میں مارشل لاء لگا دیا۔ پھر امریکی اس ملک میں دندناتے پھرتے تھے۔ اس سرزمین کو عالمی سامراج کے لیے کھلے عام میدان کارزار بنا دیا گیا۔ سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو اسے نکالنے کے امریکی منصوبے کا پاکستان حصہ بن گیا بلکہ فرنٹ لائن سٹیٹ قرار پایا۔ ضیاء الحق نے عوام کے مقبول راہنماء ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مشکوک مقدمے میں پھانسی پر چڑھا دیا۔
اس کے بعد بظاہر جمہوری دور شروع ہوا، لیکن جلد ہی معلوم ہوگیا کہ یہ ایسے مفاد پرست ٹولے کا اقتدار ہے، جس کی باگیں عالمی سامراج کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہاتھوں میں ہیں۔ اس دوران میں اسٹیبلشمینٹ اور برسراقتدار خاندانوں کی ظاہری چشمک ابھی پاکستان کے سیاسی امور پر نظر رکھنے والے لوگوں کے حافظوں میں تازہ ہے۔ دو خاندانوں کی بدل بدل کر باریاں اس وقت ختم ہوئیں، جب جنرل پرویز مشرف نے عریاں مارشل لاء لگا دیا۔ اگرچہ اس نے اپنی فوجی حکومت کو مارشل لاء کا نام نہیں دیا۔ ضیاء الحق کے دور میں اگر ہیروئن اور کلاشنکوف کا کلچر عام ہوا اور فرقہ واریت کو فروغ حاصل ہوا تو پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کو پوری طرح امریکی فوجیوں، سیاست کاروں، خفیہ اداروں اور صلاح کاروں کی چراگاہ بنا دیا گیا۔ اپنے آپ کو کمانڈو کہنے والا ایک امریکی فون کال پر ڈھیر ہوگیا اور ایک آبرومند جوہری ریاست کو بے آبرو کر گیا۔ اس کے جانے کے بعد پھر وہی امریکی مفادات کے رکھوالے خاندان پاکستان پر قابض ہوگئے اور باری باری لوٹ مار کرتے رہے، ایک دوسرے کو چور اور ڈاکو بھی قرار دیتے رہے اور پس پردہ اس ملک کو کنگال بھی کرتے رہے۔ یہ پاکستان کی غمناک کہانی ہے۔
پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی، کنگال ہو جانے والے پاکستان کو جب بھنور سے نکال کر ملک کی کشتی کو کنارے کے قریب لانے کی منزل آئی تو خفیہ ہاتھوں نے بیرونی سازش کے ایماء پر کارروائی شروع کی۔ سر عام بولیاں لگیں۔ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے پاکستان کے تمام اداروں میں موجود بیرونی اور خفیہ آقائوں کے اشاروں پر کام کرنے والوں کے درمیان ہم آہنگی ہوگئی اور آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنے کی آرزو کرنے والے وزیراعظم کو ایوان اقتدار سے نکال کر سڑکوں پر آوارہ کر دیا گیا۔
مرے دل مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
اس کے بعد سے اب تک خوف، وحشت، دھمکی، دھاندلی اور ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔ بولنے والوں کو دھمکایا جا رہا ہے، اختلاف کرنے والوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے، آواز اٹھانے والوں پر مقدمے قائم کیے جا رہے ہیں۔ قتل کی دھمکیاں عام ہیں۔ مختلف عناوین کے تحت ایف آئی آرز درج ہو رہی ہیں۔ سابق وزیراعظم کو بھی غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ صحافیوں پر بھی قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ جو پیسے سے مان جائے، اس پر نوازشیں ہیں، جو پیسہ قبول کرنے سے انکار کرے اور رجیم چینج آپریشن کو پاکستان سے غداری قرار دے، اس کے لیے خطرات ہی خطرات ہیں۔ حکمران خاندانوں کی لوٹ مار کو جاننے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ کئی ایک افراد نامعلوم حالات میں مردہ پائے گئے ہیں۔ کئی ایک کی حرکت قلب بند ہوگئی ہے۔ کئی ایک ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کئی ایک خوف کے مارے چپ کر گئے ہیں اور بہت سے نوازشات کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اصل طاقت اس ملک میں کس ہاتھ میں ہے، لیکن اس کی طرف اشارہ کرنے والے کیسے آزاد رہ سکتے ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ میں موجود کئی سیاستدانوں کی باتیں اب منظر عام پر آچکی ہیں کہ اگر ہم نامعلوم نمبروں سے آنے والی فون کالز میں دیے گئے حکم پر عمل نہ کریں گے تو ہم کیسے زندہ رہ سکتے ہیں۔
گذشتہ شب معروف صحافی اور رجیم چینج آپریشن کے خلاف جرأت مندی سے بولنے والے یوٹیوبر عمران ریاض خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ حالات کیا پلٹا کھاتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد تو اس جرأت مند آواز کو روکنا ہے، لیکن دوسری طرف بولنے والوں کو پیغام دینا ہے کہ ہماری مرضی کے خلاف بولنے والوں کا یہ انجام ہوگا۔ سابق وزیراعظم کے گھر میں ریکارڈنگ کے لیے خفیہ ڈیوائس لگانے کی ایک کوشش آشکار ہوچکی ہے۔ وہ خود کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ مجھے قتل کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ عوام ان کے ساتھ ہیں اور ان کی کال پر پورے ملک میں نکلتے بھی ہیں، لیکن کیا مقتدر حلقے اس سب کے باوجود امریکی خواہشوں پر لائی جانے والی تبدیلیوں کے حوالے سے کچھ پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں اور کیا ان کا سینہ ایک آزاد وطن کی آرزو سے بالکل خالی ہوچکا ہے؟ مخالفین کے خلاف مسلسل یلغار اور سیاسی عمل میں دھونس اور دھاندلی کی ہوش ربا شکایتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ اپنے ارادوں پر قائم ہیں۔
ضیاء الحق کے زمانے میں راقم نے اس وقت کے حالات کی روشنی میں ایک نظم کہی تھی جو آج کے حالات میں یاد آرہی ہے، قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
زندانوں کو آباد رکھو
فریاد پہ کوڑے برسائو
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
ہو جنبشِ لب تو جلدی سے
ہونٹوں پر میرے ہاتھ رکھو
جو میرے گناہوں کو لکھیں
وہ فرشتے میرے ساتھ رکھو
جو کچھ وہ لکھیں اُسے سچ سمجھو
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
برسوں سے ستم پہ ستم سہ کر
دِل زخمی، شکستہ پہلو ہے
اس عالم میں جب اشک بہیں
کہہ دو کہ خوشی کے آنسو ہیں
اور خون کو رنگِ حنا کہہ لو
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
تَن پر جو پھٹے کپڑے دیکھو
کہہ دو دیوانہ، پاگل ہے
آنکھوں کے گرد سیاہی کو
کہو: کتنا اچھا کاجَل ہے
بولوں تو کہو: خاموش رہو!
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
تاریک قفس سے مت گزریں
تم تازہ ہوائوں سے کہہ دو
خوشبو کو گزرنے سے روکو
اور پہرے دار کو حکم کرو:
زنداں کا ڈسپلن ٹھیک رکھو
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
تجھے امنِ وطن محبوب رہے
ترا لاء اینڈ آرڈر خوب رہے
قانون کی بالا دستی ہو
قانون شکن معتوب رہے
چاہے قانون یزید کا ہو
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا خطائے نظر سے پہلے عتاب جرمِ سخن سے پہلے
وہ عریاں اور آشکار مارشل لاء کا دور تھا۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ مارشل لاء کبھی ظاہر ہو جاتا تھا اور کبھی پس پردہ چلا جاتا تھا۔ جب سے سیاسی شعور میں قدم رکھا ہے، پاکستان میں ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ایوب خاں سے قائداعظم نفرت کرتے تھے اور اقتدار پر اس کی للچائی ہوئی نظروں کو دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے کہہ رکھا تھا کہ یہ میرے سامنے نہ آئے۔ پھر بانیٔ پاکستان کے بعد وہی ایوب خاں پاکستان کے مدارالمہام ہوگئے اور بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ کو ایوب خاں نے غدار اور ہندوستان کی ایجنٹ قرار دے دیا۔
ایوب خاں کو خطرہ لاحق ہوا تو اس نے یحییٰ خاں کو اس قوم پر مسلط کر دیا، جس نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اقتدار سونپنے کے بجائے اس پر فوجی یلغار کر دی۔ نتیجہ پاکستان کے دو ٹکڑوں کی صورت میں برآمد ہوا۔ یہ سارا دور امریکہ کی قربت کا زمانہ کہلاتا ہے، جب اس نے پاکستان میں فوجی اڈے بھی حاصل کیے۔ پاکستان امریکی قیادت میں بعض فوجی معاہدوں کا حصہ بھی بن گیا اور پاکستان کو سوویت یونین کے مقابل لا کھڑا کیا گیا۔ بعدازاں مغربی پاکستان میں منتخب ہونے والی بڑی پارٹی کو اقتدار سونپے بغیر چارہ نہ تھا، لیکن جب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کا نعرہ بلند کیا تو ان کے اقتدار کا تختہ پلٹ دیا گیا اور ضیاء الحق نے پاکستان میں مارشل لاء لگا دیا۔ پھر امریکی اس ملک میں دندناتے پھرتے تھے۔ اس سرزمین کو عالمی سامراج کے لیے کھلے عام میدان کارزار بنا دیا گیا۔ سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو اسے نکالنے کے امریکی منصوبے کا پاکستان حصہ بن گیا بلکہ فرنٹ لائن سٹیٹ قرار پایا۔ ضیاء الحق نے عوام کے مقبول راہنماء ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مشکوک مقدمے میں پھانسی پر چڑھا دیا۔
اس کے بعد بظاہر جمہوری دور شروع ہوا، لیکن جلد ہی معلوم ہوگیا کہ یہ ایسے مفاد پرست ٹولے کا اقتدار ہے، جس کی باگیں عالمی سامراج کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہاتھوں میں ہیں۔ اس دوران میں اسٹیبلشمینٹ اور برسراقتدار خاندانوں کی ظاہری چشمک ابھی پاکستان کے سیاسی امور پر نظر رکھنے والے لوگوں کے حافظوں میں تازہ ہے۔ دو خاندانوں کی بدل بدل کر باریاں اس وقت ختم ہوئیں، جب جنرل پرویز مشرف نے عریاں مارشل لاء لگا دیا۔ اگرچہ اس نے اپنی فوجی حکومت کو مارشل لاء کا نام نہیں دیا۔ ضیاء الحق کے دور میں اگر ہیروئن اور کلاشنکوف کا کلچر عام ہوا اور فرقہ واریت کو فروغ حاصل ہوا تو پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کو پوری طرح امریکی فوجیوں، سیاست کاروں، خفیہ اداروں اور صلاح کاروں کی چراگاہ بنا دیا گیا۔ اپنے آپ کو کمانڈو کہنے والا ایک امریکی فون کال پر ڈھیر ہوگیا اور ایک آبرومند جوہری ریاست کو بے آبرو کر گیا۔ اس کے جانے کے بعد پھر وہی امریکی مفادات کے رکھوالے خاندان پاکستان پر قابض ہوگئے اور باری باری لوٹ مار کرتے رہے، ایک دوسرے کو چور اور ڈاکو بھی قرار دیتے رہے اور پس پردہ اس ملک کو کنگال بھی کرتے رہے۔ یہ پاکستان کی غمناک کہانی ہے۔
پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی، کنگال ہو جانے والے پاکستان کو جب بھنور سے نکال کر ملک کی کشتی کو کنارے کے قریب لانے کی منزل آئی تو خفیہ ہاتھوں نے بیرونی سازش کے ایماء پر کارروائی شروع کی۔ سر عام بولیاں لگیں۔ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے پاکستان کے تمام اداروں میں موجود بیرونی اور خفیہ آقائوں کے اشاروں پر کام کرنے والوں کے درمیان ہم آہنگی ہوگئی اور آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنے کی آرزو کرنے والے وزیراعظم کو ایوان اقتدار سے نکال کر سڑکوں پر آوارہ کر دیا گیا۔
مرے دل مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
اس کے بعد سے اب تک خوف، وحشت، دھمکی، دھاندلی اور ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔ بولنے والوں کو دھمکایا جا رہا ہے، اختلاف کرنے والوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے، آواز اٹھانے والوں پر مقدمے قائم کیے جا رہے ہیں۔ قتل کی دھمکیاں عام ہیں۔ مختلف عناوین کے تحت ایف آئی آرز درج ہو رہی ہیں۔ سابق وزیراعظم کو بھی غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ صحافیوں پر بھی قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ جو پیسے سے مان جائے، اس پر نوازشیں ہیں، جو پیسہ قبول کرنے سے انکار کرے اور رجیم چینج آپریشن کو پاکستان سے غداری قرار دے، اس کے لیے خطرات ہی خطرات ہیں۔ حکمران خاندانوں کی لوٹ مار کو جاننے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ کئی ایک افراد نامعلوم حالات میں مردہ پائے گئے ہیں۔ کئی ایک کی حرکت قلب بند ہوگئی ہے۔ کئی ایک ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کئی ایک خوف کے مارے چپ کر گئے ہیں اور بہت سے نوازشات کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اصل طاقت اس ملک میں کس ہاتھ میں ہے، لیکن اس کی طرف اشارہ کرنے والے کیسے آزاد رہ سکتے ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ میں موجود کئی سیاستدانوں کی باتیں اب منظر عام پر آچکی ہیں کہ اگر ہم نامعلوم نمبروں سے آنے والی فون کالز میں دیے گئے حکم پر عمل نہ کریں گے تو ہم کیسے زندہ رہ سکتے ہیں۔
گذشتہ شب معروف صحافی اور رجیم چینج آپریشن کے خلاف جرأت مندی سے بولنے والے یوٹیوبر عمران ریاض خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ حالات کیا پلٹا کھاتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد تو اس جرأت مند آواز کو روکنا ہے، لیکن دوسری طرف بولنے والوں کو پیغام دینا ہے کہ ہماری مرضی کے خلاف بولنے والوں کا یہ انجام ہوگا۔ سابق وزیراعظم کے گھر میں ریکارڈنگ کے لیے خفیہ ڈیوائس لگانے کی ایک کوشش آشکار ہوچکی ہے۔ وہ خود کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ مجھے قتل کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ عوام ان کے ساتھ ہیں اور ان کی کال پر پورے ملک میں نکلتے بھی ہیں، لیکن کیا مقتدر حلقے اس سب کے باوجود امریکی خواہشوں پر لائی جانے والی تبدیلیوں کے حوالے سے کچھ پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں اور کیا ان کا سینہ ایک آزاد وطن کی آرزو سے بالکل خالی ہوچکا ہے؟ مخالفین کے خلاف مسلسل یلغار اور سیاسی عمل میں دھونس اور دھاندلی کی ہوش ربا شکایتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ اپنے ارادوں پر قائم ہیں۔
ضیاء الحق کے زمانے میں راقم نے اس وقت کے حالات کی روشنی میں ایک نظم کہی تھی جو آج کے حالات میں یاد آرہی ہے، قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
زندانوں کو آباد رکھو
فریاد پہ کوڑے برسائو
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
ہو جنبشِ لب تو جلدی سے
ہونٹوں پر میرے ہاتھ رکھو
جو میرے گناہوں کو لکھیں
وہ فرشتے میرے ساتھ رکھو
جو کچھ وہ لکھیں اُسے سچ سمجھو
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
برسوں سے ستم پہ ستم سہ کر
دِل زخمی، شکستہ پہلو ہے
اس عالم میں جب اشک بہیں
کہہ دو کہ خوشی کے آنسو ہیں
اور خون کو رنگِ حنا کہہ لو
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
تَن پر جو پھٹے کپڑے دیکھو
کہہ دو دیوانہ، پاگل ہے
آنکھوں کے گرد سیاہی کو
کہو: کتنا اچھا کاجَل ہے
بولوں تو کہو: خاموش رہو!
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
تاریک قفس سے مت گزریں
تم تازہ ہوائوں سے کہہ دو
خوشبو کو گزرنے سے روکو
اور پہرے دار کو حکم کرو:
زنداں کا ڈسپلن ٹھیک رکھو
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
تجھے امنِ وطن محبوب رہے
ترا لاء اینڈ آرڈر خوب رہے
قانون کی بالا دستی ہو
قانون شکن معتوب رہے
چاہے قانون یزید کا ہو
ہرگز نہ مجھے آزاد کرو
ہاں پھر بھی مجھے آزاد کہو
بشکریہ : اسلام ٹائمز