کچھ خبریں ایران کی

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

26 جون کی ایک تحریر میں راقم نے ایران کی ایک ہفتے کی خبروں کا احوال لکھا۔ اب چونکہ ہفتے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لہذا عنوان بھی بدل دیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایران میں 26 جون کے بعد کون سے اہم سیاسی، اقتصادی اور سماجی واقعات رونما ہوئے۔ جی! تو 27 جون کو پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا نے ایران کا دورہ کیا، جہاں انھوں نے ایران کے چیف آف جوائنٹ سٹاف جنرل باقری سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین سکیورٹی معاملات زیر بحث آئے۔ ان میں فوجی روابط میں اضافہ، مشترکہ تربیت اور امن کے لیے ہم آہنگی شامل ہیں۔ جنرل ندیم نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی سے بھی ملاقات کی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہی ایام میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودیہ کے دورہ پر تھے اور وہاں ان کو سعودی حکومت کی جانب سے اعلیٰ اعزاز سے نوازا گیا۔ دو برادر اسلامی ملکوں میں پاکستان کے اہم فوجی عہدیداروں کا جانا نہایت خوش آئند بات ہے، تاہم مجھے بیلنس پالیسی کا تاثر نمایاں نظر آیا۔ قارئین رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں۔

28 تاریخ کو مصر کے فوجی سربراہ جنرل سیسی نے عمان کے ذریعے ایرانی حکومت تک ایک پیغام پہنچایا کہ مصر اسرائیل کی ایماء میں بننے والے خلیج فارس کے ائیر  ڈیفنس سسٹم کا حصہ نہیں بنے گا۔ راقم قبل ازیں اس عنوان سے ایک تفصیلی آرٹیکل تحریر کرچکا ہے کہ اسرائیل کیسے خلیج فارس کے ممالک کو ساتھ ملا کر ایران کے خلاف ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کی خواہش رکھتا ہے۔ 28 تاریخ کو ہی برطانوی حکومت کے ایک اہم عہدیدار نے اعلان کیا کہ خلیج فارس میں قائم کیا جانے والا فضائی دفاع کا اتحاد ایران کے خلاف نہیں ہے۔ 28 جولائی کو ایران کے ایٹمی مذاکرات کار باقری کنی دوحہ پہنچے، جہاں ان کی اہم قطری عہدیداروں سے ملاقات ہوئی۔ ایران اور امریکا کے مابین براہ راست مذاکرات جس کی میزبانی قطر نے کی اور سہولت کاری کی ذمہ داری یورپ کی تھی، دو روز کے بعد اختتام پذیر ہوگئے۔ دونوں اطراف سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی خاص اعلان نہ کیا گیا، بعد میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان آیا کہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے۔

امریکی مذاکرات کار کا کہنا تھا کہ ایران JCPOA سے باہر کے مطالبات کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران کو مزید ان مذاکرات میں دلچسپی نہیں ہے۔ یورپ کے امور خارجہ کے مسئول جوزف بورل نے بھی کہا کہ اگر ہم برجام معاہدے کو بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی فیصلہ لینا ہوگا، ورنہ سیاسی حالات برجام معاہدے کے لیے سازگار نہیں رہیں گے۔ آج یعنی 6 جولائی کو ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللھیان نے قطری ہم منصب سے ملاقات کے دوران پریس کانفرنس میں اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کوئی بھی مطالبہ برجام سے باہر نہیں تھا۔ ایران فقط اقتصادی حوالے سے امریکہ سے ضمانتیں چاہتا ہے، جو اسے فراہم کرنی چاہییں۔ اس وقت قطری وزیر خارجہ محمد بن عبد الرحمن آل ثانی ایران کے دورے پر ہیں اور ان کے اس دورے کا مقصد برجام مذاکرات کی میز پر سب کو واپس لانا ہے۔ قطری وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم خلیج فارس کے ممالک کے براہ راست مذاکرات کے بھی حامی ہیں۔ میری نظر میں اگر قطر اس حوالے سے اقدام کرتا ہے تو یہ خطے کے لیے بہت اہم ہوگا اور اسرائیل کو اس علاقے میں زیادہ کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملے گا۔

ایران کی موجودہ حکومت اپنے ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کی پالیسی پر گامزن ہے، جس کے سبب ان کی اقتصادیات معاشی پابندیوں کے اثرات سے کافی حد تک محفوظ ہوچکی ہے۔ 5 جولائی کی ایک خبر کے مطابق دریائے کارون کے قرب میں موجود آئل فیلڈ جس سے 190 ہزار بیرل یومیہ تیل نکالا جاتا تھا، اب اسی فیلڈ سے 570 ہزار بیرل تیل نکالا جا رہا ہے۔ یہ تیل ایران چین، ہندوستان، شام، وینیزویلا اور دیگر ہمسایہ ممالک کو فروخت کر رہا ہے۔ تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات کی ایکسپورٹ بھی روز افزوں ترقی کر رہی ہے۔ 2 جولائی کو ایران کےشہر ہرمزگان میں 6.3 شدت کے متعدد زلزلے آئے، جس سے اگرچہ جانی نقصان تو زیادہ نہیں ہوا، تاہم املاک کو بے پناہ نقصان ہوا۔ دیہاتوں کے دیہات زمین بوس ہوگئے۔ ملک کے فلاحی اور امدادی ادارے ہرمزگان کے متاثرین کی مدد کے لیے سرگرم عمل ہیں، جس میں سپاہ پاسداران بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

29 جون کو ایران کے صدر رئیسی بحیرہ خزر کے ممالک کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کے لیے ترکمانستان گئے۔ اس اجلاس روس، ترکمانستان، ایران کے علاوہ آذربائیجان کے صدر علی اووف نے بھی شرکت کی۔ صدر رئیسی نے علی اووف سے ملاقات میں خطے کے امن کو یقینی بنانے کے لیے ہمسایہ ممالک میں بہتر روابط پر زور دیا۔ صدر رئیسی نے کہا کہ صہیونیوں کی خطے میں مداخلت ہمارے امن کے لیے نقصان دہ ہے۔ یاد رہے کہ آذربائیجان کے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ایران اور آذربائیجان کے تعلقات زیادہ دوستانہ نہیں ہیں۔ گذشتہ دنوں بھی ایک اسرائیلی وفد آذربائیجان کے دورے پر تھا، جس نے اسرائیلیوں کی آذربائیجان میں آمد کو آسان بنانے کے لیے حوالے سے معاہدہ کیا۔ آذربائیجان اپنے دفاعی معاملات میں بھی اسرائیل سے مدد لیتا ہے۔ بحیرہ خزر کے ممالک کی اس کانفرنس کے دوران ہونے والی اس ملاقات کے بعد آذربائیجان کے وزیر خارجہ ایران آئے اور صدر آذربائیجان کی ایران آمد نیز اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے حوالے سے امور پر غور کیا گیا۔

خبریں تو اگرچہ بہت ہیں، تاہم چند چیدہ چیدہ خبریں حالات حاضرہ کے عنوان سے آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں۔ گذشتہ ماہ ایران نے برکس پلس کی رکنیت کے لیے درخواست دے دی ہے۔ ایران کے ساتھ ساتھ ارجنٹائنا نے بھی یہ درخواست دی ہے، جسے چین اور روس نے خوش آمدید کہا ہے۔ ایران کے اقتصادی اعداد و شمار اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی ایران پر اقتصادی پابندیاں غیر موثر ہوچکی ہیں۔ بعض تحقیقی اور طبی شعبوں میں ان پابندیوں کی وجہ سے مشکلات ہیں، تاہم اس کا حل بھی یقیناً چین یا اپنی قوت بازو سے تلاش کر لیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے ایران کو اب برجام کی بحالی میں اس قدر دلچسپی نہیں ہوگی، جتنی اسے 2015ء میں اس کی ضرورت تھی۔

سفارتکاری تو بہرحال چلتی رہتی ہے، ممالک کبھی بھی اپنے ملکی مفادات کو نہیں چھوڑتے۔ ایران بھی اگر برجام میں اس کے مطالبات منظور ہوتے ہیں کہ تو اسے قبول کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ ایران کو اس وقت چین میں روسی تیل سے مقابلے کا سامنا ہے، اسی لیے ایران نے چین میں تیل کے نرخ کم کیے ہیں۔ یہ سیاسی اشتراکات کے باوجود اقتصادی شعبے میں دو ملکوں کے اختلاف کی واضح مثال ہے۔ ایک چیز جو میں محسوس کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ایران میں برسر اقتدار عوام ملکی فائدے اور عوامی فلاح کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے جبکہ ہمارے ملک میں حکمران طبقے میں اس جذبے کا بے پناہ فقدان پایا جاتا ہے۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز