گلو بٹوں کی واپسی
گلو بٹ پاکستان کی دہشت گردانہ حکمرانی میں ایک خاص نمونے کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا کام دہشت گردی کے لیے پولیس کی قیادت کرنا ہے، اگرچہ اس کا پولیس سے کوئی تعلق نہ ہو۔ شاید ہم گلو بٹ کی وہ تعریف پیش نہ کرسکیں، جس کا وہ حق رکھتا ہے، لیکن پاکستان کے لوگ اس کے چشم دید گواہ ہیں، اس لیے انھیں اس کی تعریف کی کوئی ایسی ضرورت بھی نہیں۔ گلو بٹ 17 جون 2014ء کو لاہور میں ظاہر ہوا، جب وہ پاکستان مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں لاہور میں پولیس کی ’’جرأت مندانہ‘‘ قیادت کرتے ہوئے منہاج القرآن کی نہتی عورتوں، بچوں اور کارکنوں پر حملہ آور ہوا۔ اس کی اس ’’جرأت و شہامت‘‘ کو دیکھتے ہوئے پولیس میں بہت حوصلہ پیدا ہوگیا۔ وہ نہتے لوگوں کے میمنہ و میسرہ اور پھر قلب لشکر پر اکیلا ہی ٹوٹ پڑا۔ وہ ایسے لوگوں پر بھی حملے کر رہا تھا، جن کا منہاج القرآن سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ ہر کھڑی گاڑی پر ڈنڈے برسا رہا تھا اور ان کے شیشے توڑ رہا تھا، اگرچہ ان کا منہاج القرآن سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ اس سانحے کے نتیجے میں دو عورتوں سمیت 14 افراد مارے گئے۔ مقتول خواتین میں سے ایک حاملہ بھی تھی۔ 90 افراد زخمی ہوئے، یہ کارروائی 11 گھنٹے جاری رہی۔ ہمارے سمیت لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے ٹیلی ویژن کی سکرین پر یہ معرکہ لائیو دیکھا۔
بات صرف اتنی تھی کہ حکومت منہاج القرآن کے دفاتر اور منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش کے باہر سے رکاوٹوں کو ہٹانا چاہتی تھی۔ پولیس کے دستے کی قیادت ماڈل ٹائون کا ایس ایچ او شیخ عامر سلیم کر رہا تھا۔ اس موقع پر پولیس نے منہاج القرآن کے 53 سے زیادہ افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ گویا ’’وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا۔‘‘ جن پر حملہ ہوا، جن کی جانیں گئیں، انہی کے افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پنجاب میں اس وقت میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور رانا ثناء اللہ وزیر قانون تھے، جنھیں وزیراعلیٰ نے وزارت داخلہ کے اختیارات بھی سونپ رکھے تھے۔ شہباز شریف کو ڈاکٹر طاہر القادری سے طرح طرح کے گلے اور شکوے تھے۔ اس معاملے کی ایک تاریخ ہے، جسے آج کی نشست میں بیان نہیں کرتے۔
پھر ڈرامے کا سین بدل گیا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی صدارت میاں شہباز شریف کے ہاتھ آگئی اور مختلف ہتھکنڈوں سے وہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ انھوں نے اپنے پسندیدہ ساتھی رانا ثناء اللہ کو وزیر داخلہ بنا دیا۔ اب ان کے پاس اختیارات بھی زیادہ تھے اور ان کا ’’دشمن‘‘ بھی بڑا تھا، لیکن ان کا وزیر داخلہ بھی ایک سٹار کے بجائے اب تین ستارہ جنرل بن چکا تھا۔ اس کے حوصلے زیادہ تھے اور اس کے عزائم بڑے تھے۔ وہ ’’دشمنوں‘‘ کے خلاف لڑنے کے مسلسل دعوے کر رہا تھا۔ ہر بیان میں اس کے منہ سے جھاگ گر رہی تھی۔ ماضی کے تجربات اس کے پاس تھے۔ اس نے گلو بٹوں کی فوج کو نئے سرے سے منظم کیا، بعض گلو بٹوں کو وردی پہنائی اور بعض کو اپنی ’’جنگی حکمت عملی‘‘ کے تحت بے وردی رکھا۔
25 مئی کو ان گلوبٹوں نے پنجاب اور اسلام آباد کے محاذوں پر بہت ’’کامیاب‘‘ آپریشنز کیے اور دہشت گردی کی تاریخ میں اپنے نام جلی حروف میں لکھوا لیے۔ انھوں نے اس انداز سے نہتے مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے خلاف جنگ لڑی کہ یزید کی بدروح نے بھی انھیں آفرین کہی ہوگی۔ انھوں نے بزرگ عورتوں کو آدھی رات میں گھروں میں گھس کر دہشت زدہ کیا۔ انھوں نے بچیوں کو تھپڑ رسید کیے۔ وہ ایک پوری رات ملک کے مختلف شہروں میں دندناتے پھرے۔ کسی گھر میں سیڑھی کے ذریعے کوندے اور کسی کا گیٹ گاڑی کی ٹکر سے توڑ دیا۔ وہ لوگوں کی خواب گاہوں میں جا گھسے۔ انھوں نے معزز گھرانوں کا کچھ بھی پاس نہ رکھا۔ یہاں تک کہ حکیم الامت علامہ اقبال کی نہایت ہی محترم بہو جسٹس ناصرہ اقبال کا بھی احترام نہ کیا۔ رات بھر انھوں نے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ برطانوی استبداد کے زمانے کے قوانین ان لوگوں کے خلاف برتے جنھوں نے کوئی قانون شکنی نہ کی تھی۔
پھر گذشتہ روز گلوبٹوں نے جو قیامت ڈھائی، اس نے جور و استبداد کے نئے ہنر ظاہر کیے۔ بوڑھی خواتین پر تشدد کیا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد پر جس طرح سے وہ حملہ آور ہوئے، اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ گلو بٹوں کی ایک پوری پلٹون ان کی گاڑی پر ٹوٹ پڑی۔ اس کی سکرین اور باقی شیشے توڑ دیے۔ کینسر میں مبتلا اس معزز خاتون نے کرونا کے دور میں جس طرح سے عوام کی خدمت کی ہے، اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا، لیکن گلو بٹوں کی وحشی روحوں کو سکون ہی تب ملتا ہے، جب وہ ایسے افراد پر تشدد کریں اور اپنی مردانہ وجاہت ایسے کمزور بدن لوگوں کے خلاف آزمائیں۔ انھوں نے بچوں اور عورتوں پر حملے کیے، آنسو گیس کے خطرناک شیل لوگوں پر پھینکے، لاٹھی چارج کیا، سیاسی قائدین پر حملہ آور ہوئے اور عام شہریوں پر بھی ستم ڈھائے۔ ربڑ کی گولیاں چلائیں، یہاں تک کہ عام عورتوں پر آتشیں اسلحہ تان لیا، لیکن اب کے لوگوں نے خوب امتحان دیا، ستم سہے، ظلم برداشت کیے، شدید تپش میں پیش رفت کرتے رہے۔
عوام کا یہ نہتا لشکر ایسا نہ تھا کہ جس کے قائدین گھروں میں بیٹھ کر حکم چلا رہے ہوں بلکہ وہ ان ستم کاروں کے سب سے زیادہ قریب تھے۔ وہ سینہ سپر تھے، ان کے ان جذبوں اور محکم ارادوں کو دیکھ کر عوام کے اندر کچھ اور بھی اعتماد اور جوش پیدا ہوتا رہا۔ ہم نے 25 مئی کو پاکستان میں وہ کچھ دیکھا، جس کا شاید پہلے لوگ تصور بھی نہ کرتے ہوں۔ ہمارے لیے سب سے بڑی بات یہ تھی اور یہ ہے کہ لوگوں نے دیکھا کہ پاکستان کی حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے عالمی سامراج نے ’’عریاں مداخلت‘‘ (Blatant Interference) کی اور یہ وہ اصطلاح ہے، جو پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے اس مداخلت کے ردعمل میں استعمال کی ہے۔ لوگوں نے یہ قبول نہیں کیا کہ ہمارے ملک کی حکومت باہر سے کوئی طاقت تبدیل کرنے کا فیصلہ کرے۔ لوگوں کا غصہ اور ردعمل اسی پر تھا۔ وہ مراسلہ جو اس عریاں مداخلت کو ظاہر کر رہا تھا، اسی میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا ’’حکم‘‘ موجود تھا۔ اسی حکم کو عریاں مداخلت قرار دیا گیا۔
عوام کا غصہ تو بعد میں ظاہر ہوا، لیکن نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے اپنے غصے کے اظہار کے لیے پاکستان کی وزارت خارجہ سے کہا کہ وہ امریکہ کے خلاف پاکستان میں بھی احتجاج کرے اور واشنگٹن میں بھی۔ یہی احتجاج 25 مئی کو پاکستان کے عوام کر رہے تھے، جسے منظم یقینی طور پر تحریک انصاف پاکستان نے کیا تھا۔ ہم اسی مداخلت کے خلاف اس احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔ گلو بٹ رسوا ہوئے اور ایمانی جرأت کے ساتھ اس تشدد کو سہ کر پاکستان کے عوام سروخرو ہوئے۔ پاکستان میں یہ بہت بڑی تبدیلی تھی، جس کا مشاہدہ ہم نے 25 مئی اور پھر اس کے بعد آنے والی رات کو کیا۔ اگر اس جذبے کو زندہ رکھا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ جب پاکستان کی قسمت کے فیصلے واشنگٹن یا کہیں اور نہیں بلکہ اسلام آباد میں کیے جائیں گے۔ یہ ہماری زندہ اور بیدار روح کی آواز ہے۔ ہماری فطرت کی صدا ہے، ہم اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ ہماری اس آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائے رکھیں اور اسے آئندہ نسلوں تک پہنچائیں۔
بات صرف اتنی تھی کہ حکومت منہاج القرآن کے دفاتر اور منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش کے باہر سے رکاوٹوں کو ہٹانا چاہتی تھی۔ پولیس کے دستے کی قیادت ماڈل ٹائون کا ایس ایچ او شیخ عامر سلیم کر رہا تھا۔ اس موقع پر پولیس نے منہاج القرآن کے 53 سے زیادہ افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ گویا ’’وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا۔‘‘ جن پر حملہ ہوا، جن کی جانیں گئیں، انہی کے افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پنجاب میں اس وقت میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور رانا ثناء اللہ وزیر قانون تھے، جنھیں وزیراعلیٰ نے وزارت داخلہ کے اختیارات بھی سونپ رکھے تھے۔ شہباز شریف کو ڈاکٹر طاہر القادری سے طرح طرح کے گلے اور شکوے تھے۔ اس معاملے کی ایک تاریخ ہے، جسے آج کی نشست میں بیان نہیں کرتے۔
پھر ڈرامے کا سین بدل گیا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی صدارت میاں شہباز شریف کے ہاتھ آگئی اور مختلف ہتھکنڈوں سے وہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ انھوں نے اپنے پسندیدہ ساتھی رانا ثناء اللہ کو وزیر داخلہ بنا دیا۔ اب ان کے پاس اختیارات بھی زیادہ تھے اور ان کا ’’دشمن‘‘ بھی بڑا تھا، لیکن ان کا وزیر داخلہ بھی ایک سٹار کے بجائے اب تین ستارہ جنرل بن چکا تھا۔ اس کے حوصلے زیادہ تھے اور اس کے عزائم بڑے تھے۔ وہ ’’دشمنوں‘‘ کے خلاف لڑنے کے مسلسل دعوے کر رہا تھا۔ ہر بیان میں اس کے منہ سے جھاگ گر رہی تھی۔ ماضی کے تجربات اس کے پاس تھے۔ اس نے گلو بٹوں کی فوج کو نئے سرے سے منظم کیا، بعض گلو بٹوں کو وردی پہنائی اور بعض کو اپنی ’’جنگی حکمت عملی‘‘ کے تحت بے وردی رکھا۔
25 مئی کو ان گلوبٹوں نے پنجاب اور اسلام آباد کے محاذوں پر بہت ’’کامیاب‘‘ آپریشنز کیے اور دہشت گردی کی تاریخ میں اپنے نام جلی حروف میں لکھوا لیے۔ انھوں نے اس انداز سے نہتے مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے خلاف جنگ لڑی کہ یزید کی بدروح نے بھی انھیں آفرین کہی ہوگی۔ انھوں نے بزرگ عورتوں کو آدھی رات میں گھروں میں گھس کر دہشت زدہ کیا۔ انھوں نے بچیوں کو تھپڑ رسید کیے۔ وہ ایک پوری رات ملک کے مختلف شہروں میں دندناتے پھرے۔ کسی گھر میں سیڑھی کے ذریعے کوندے اور کسی کا گیٹ گاڑی کی ٹکر سے توڑ دیا۔ وہ لوگوں کی خواب گاہوں میں جا گھسے۔ انھوں نے معزز گھرانوں کا کچھ بھی پاس نہ رکھا۔ یہاں تک کہ حکیم الامت علامہ اقبال کی نہایت ہی محترم بہو جسٹس ناصرہ اقبال کا بھی احترام نہ کیا۔ رات بھر انھوں نے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ برطانوی استبداد کے زمانے کے قوانین ان لوگوں کے خلاف برتے جنھوں نے کوئی قانون شکنی نہ کی تھی۔
پھر گذشتہ روز گلوبٹوں نے جو قیامت ڈھائی، اس نے جور و استبداد کے نئے ہنر ظاہر کیے۔ بوڑھی خواتین پر تشدد کیا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد پر جس طرح سے وہ حملہ آور ہوئے، اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ گلو بٹوں کی ایک پوری پلٹون ان کی گاڑی پر ٹوٹ پڑی۔ اس کی سکرین اور باقی شیشے توڑ دیے۔ کینسر میں مبتلا اس معزز خاتون نے کرونا کے دور میں جس طرح سے عوام کی خدمت کی ہے، اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا، لیکن گلو بٹوں کی وحشی روحوں کو سکون ہی تب ملتا ہے، جب وہ ایسے افراد پر تشدد کریں اور اپنی مردانہ وجاہت ایسے کمزور بدن لوگوں کے خلاف آزمائیں۔ انھوں نے بچوں اور عورتوں پر حملے کیے، آنسو گیس کے خطرناک شیل لوگوں پر پھینکے، لاٹھی چارج کیا، سیاسی قائدین پر حملہ آور ہوئے اور عام شہریوں پر بھی ستم ڈھائے۔ ربڑ کی گولیاں چلائیں، یہاں تک کہ عام عورتوں پر آتشیں اسلحہ تان لیا، لیکن اب کے لوگوں نے خوب امتحان دیا، ستم سہے، ظلم برداشت کیے، شدید تپش میں پیش رفت کرتے رہے۔
عوام کا یہ نہتا لشکر ایسا نہ تھا کہ جس کے قائدین گھروں میں بیٹھ کر حکم چلا رہے ہوں بلکہ وہ ان ستم کاروں کے سب سے زیادہ قریب تھے۔ وہ سینہ سپر تھے، ان کے ان جذبوں اور محکم ارادوں کو دیکھ کر عوام کے اندر کچھ اور بھی اعتماد اور جوش پیدا ہوتا رہا۔ ہم نے 25 مئی کو پاکستان میں وہ کچھ دیکھا، جس کا شاید پہلے لوگ تصور بھی نہ کرتے ہوں۔ ہمارے لیے سب سے بڑی بات یہ تھی اور یہ ہے کہ لوگوں نے دیکھا کہ پاکستان کی حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے عالمی سامراج نے ’’عریاں مداخلت‘‘ (Blatant Interference) کی اور یہ وہ اصطلاح ہے، جو پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے اس مداخلت کے ردعمل میں استعمال کی ہے۔ لوگوں نے یہ قبول نہیں کیا کہ ہمارے ملک کی حکومت باہر سے کوئی طاقت تبدیل کرنے کا فیصلہ کرے۔ لوگوں کا غصہ اور ردعمل اسی پر تھا۔ وہ مراسلہ جو اس عریاں مداخلت کو ظاہر کر رہا تھا، اسی میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا ’’حکم‘‘ موجود تھا۔ اسی حکم کو عریاں مداخلت قرار دیا گیا۔
عوام کا غصہ تو بعد میں ظاہر ہوا، لیکن نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے اپنے غصے کے اظہار کے لیے پاکستان کی وزارت خارجہ سے کہا کہ وہ امریکہ کے خلاف پاکستان میں بھی احتجاج کرے اور واشنگٹن میں بھی۔ یہی احتجاج 25 مئی کو پاکستان کے عوام کر رہے تھے، جسے منظم یقینی طور پر تحریک انصاف پاکستان نے کیا تھا۔ ہم اسی مداخلت کے خلاف اس احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔ گلو بٹ رسوا ہوئے اور ایمانی جرأت کے ساتھ اس تشدد کو سہ کر پاکستان کے عوام سروخرو ہوئے۔ پاکستان میں یہ بہت بڑی تبدیلی تھی، جس کا مشاہدہ ہم نے 25 مئی اور پھر اس کے بعد آنے والی رات کو کیا۔ اگر اس جذبے کو زندہ رکھا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ جب پاکستان کی قسمت کے فیصلے واشنگٹن یا کہیں اور نہیں بلکہ اسلام آباد میں کیے جائیں گے۔ یہ ہماری زندہ اور بیدار روح کی آواز ہے۔ ہماری فطرت کی صدا ہے، ہم اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ ہماری اس آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائے رکھیں اور اسے آئندہ نسلوں تک پہنچائیں۔
بشکریه : اسلام ٹائمز