فلسطینی مہاجرین کی داستان اور نئی ہجرت

Published by fawad on

سید اسد عباس

تحریر: سید اسد عباس

فلسطین میں دو ریاستوں کے قیام کی پہلی تجویز 1937ء میں برطانیہ کے پیل کمیشن کی رپورٹ میں پیش کی گئی۔ اس وقت فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے زیر تسلط تھا اور یہودیوں کی کوئی قابل ذکر آبادی فلسطینی ریاست میں آباد نہ تھی۔ اس رپورٹ میں یہ تجویز کیا گیا کہ فلسطین کے کچھ ساحلی علاقے اور لبنان سے متصل علاقہ یہودیوں کو دے دیا جائے اور باقی کا علاقہ فلسطینیوں کے زیر قبضہ رہنے دیا جائے۔ اس رپورٹ میں یروشلم کو برطانوی مینڈیٹ میں رکھنے کا بھی عندیہ دیا گیا۔ عرب دنیا نے اس منصوبے کو مسترد کیا اور یہودی ریاست کے قیام کی بنیاد سے ہی مخالفت کی۔ پیل کمیشن کے بعد برطانیہ نے 1938ء میں ووڈ ہیڈ کمیشن قائم کیا، جس کا مقصد پیل کمیشن میں دی جانے والی تجویز کی امکانات پر غور تھا۔ ووڈ ہیڈ کمیشن نے پیل کمیشن کی تجویز کو یہ کہ کر رد کیا کہ اس کے لیے عرب آبادی کو بڑی سطح پر منتقل کرنا پڑے گا۔

ووڈ ہیڈ کمیشن میں فلسطینی ریاست کو تقسیم کرنے کے تین منصوبے یا پلان پیش کیے گئے۔ پلان اے پیل کمیشن کے منصوبے کا ہی تفصیلی پلان تھا، جس میں ایک ساحلی یہودی ریاست کے قیام اور باقی فلسطین کے دوسری عرب ریاست میں ادغام کی بات تھی۔ اس پلان کے مطابق متوقع عرب ریاست میں 7200 یہودیوں اور چار لاکھ پچاسی ہزار دو سو عربوں کو آباد کیا جانا تھا، جبکہ متوقع یہودی ریاست میں تین لاکھ چار ہزار نو سو یہودیوں اور دو لاکھ چرانوے ہزار سات سو عربوں کو سکونت دیئے جانے کا عندیہ دیا گیا۔ ووڈ ہیڈ کمیشن کے پلان بی میں یہودی ریاست کا رقبہ مزید کم کیا گیا اور برطانیہ کے زیر کنڑول علاقے کو وسعت دی گئی۔ پلان سی میں مقبوضہ فلسطین کو ایک نسبتاً چھوٹی ساحلی ریاست اور ایک بڑی فلسطینی ریاست میں تقسیم کیا گیا۔ ناجائز یہودی ریاست 1258 مربع کلومیٹر تجویز کی گئی۔ اس پلان کے مطابق عربوں کو 7393 مربع کلومیٹر کا علاقہ دیا جانا تھا۔ تین شہروں کو برطانوی کنڑول میں رکھنے کی بات کی گئی۔

یہ وہ وقت ہے، جب سلطنت عثمانیہ کے بہت سے علاقے بشمول ترکی، حجاز، مصر، امارات، اردن، لبنان، شام، عراق سامراجی قوتوں کے ہاتھ میں تھے اور ان علاقوں میں ان غیر ملکیوں کی بلواسطہ یا بلاواسطہ حکومتیں قائم تھیں۔ برطانوی پارلیمنٹ نے ایک پالیسی بیان کے ذریعے ووڈ ہیڈ رپورٹ کو کالعدم قرار دیا اور کہا کہ دو ریاستی حل میں اس قدر عظیم معاشی، انتظامی اور سیاسی مشکلات درپیش ہیں کہ اس پر کام نہیں کیا جاسکتا۔ یہودی ایجنسی نے بھی اس رپورٹ کو ناقابل عمل قرار دیا، جبکہ اس کے برعکس پیل رپورٹ کو صہیونی اداروں نے قبول کیا تھا۔ 1947ء میں ایک مرتبہ پھر تقسیم فلسطین کا منصوبہ اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا، جسے اقوام متحدہ میں موجود ممالک نے قرارداد نمبر 181 کے طور پر قبول کر لیا۔ اس منصوبے میں بھی فلسطین میں تین انتظامی علاقوں کے قیام کی بات کی گئی، جس میں ایک علاقہ یہودیوں کے زیر کنڑول ہوگا، دوسرا علاقہ فلسطینیوں کو دیا جائے گا، جبکہ یروشلم شہر کو عالمی ادارے کے زیرانتظام چلایا جائے گا۔

صیہونیوں نے اس قرارداد کو قبول کیا، جبکہ عرب قائدین اور فلسطینی عوام نے اس منصوبے کا بھی انکار کیا کہ یہ حل اقوام متحدہ کے قومی خود مختاری کے چارٹر کے خلاف ہے۔ عرب فلسطین میں کسی الگ صہیونی ریاست کے قیام کے حق میں نہیں تھے۔ یہ وہ دور ہے، جب ایک منظم منصوبے کے تحت جنگ عظیم دوئم کے بعد یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کو فلسطین میں لا کر بسایا گیا۔ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت نے جن منصوبوں کو وسائل کی کمی کے باعث ترک کر دیا تھا، صہیونی لابی نے اس کی مکمل منصوبہ بندی کی اور اس کے لیے وسائل مہیا کیے۔ یوں برطانوی حکومت، امریکی ریاست اور صہیونی لابی کے مابین طے پانے والے خفیہ معاہدے کے تحت فلسطینی علاقے سے عرب مسلمانوں کی نقل مکانی نیز یہودیوں کی آبادکاری کا عمل انجام پایا۔

اقوام متحدہ میں قرارداد نمبر 181 کے اختیار کیے جانے کے بعد فلسطین میں خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔ باہر سے لاکر آباد کردہ منظم یہودیوں اور مقامی عربوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یوں یہودی مزید عرب علاقوں پر قابض ہونا شروع ہوئے۔ فلسطینی ریاست میں جاری خانہ جنگی کے باعث مصر، اردن، لبنان، عراق اور شام نے 1948ء میں فلسطین میں فوجی مداخلت کی۔ صیہونی افواج نے تقریباً ایک سال جاری رہنے والی اس جنگ میں نہ صرف قرارداد نمبر 181 میں درج یہودی علاقے پر قبضہ برقرار رکھا بلکہ ساٹھ فیصد عرب علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس جنگ کے دوران میں قریباً سات لاکھ فلسطینی اپنی املاک چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں آباد ہونے پر مجبور ہوئے۔ انہی زیر قبضہ علاقوں میں بعد میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ پانچ عرب ریاستیں ایک چھوٹے سے صہیونی گروہ کے سامنے کیسے گھٹنے ٹیک گئیں، یہ صیہونی ریاست کی فوجی تاریخ کا ایک عظیم معرکہ ہے، تاہم یہ معرکہ صیہونی ریاست، مغربی ریاستوں اور افواج کی حمایت و آشیر باد کے بغیر نہیں لڑ سکتی تھی۔

1949ء میں عرب ریاستیں اسرائیلی افواج کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئیں، جس میں عارضی طور پر انھوں نے خطے میں ایک اسرائیلی ریاست کے وجود کو تسلیم کر لیا۔ عرب ریاستوں اور اسرائیل میں حالات بہتر نہ ہوئے، 1956ء میں اسرائیل نے مصر کے صحرائے سینا کے علاقوں پر قبضہ کر لیا، تاکہ خلیج طیران میں اسرائیلی جہازوں کی نقل و حمل کو یقینی بنایا جاسکے۔ سعودی جزیرے سفیران و طیران اسرائیلی قبضے میں آگئے اور کوئی عرب ریاست خاطر خواہ اقدام نہ کرسکی۔ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے مابین اگلی جنگ 1967ء میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں اسرائیلی افواج نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ جو بدستور قائم ہے۔ بقا کی جنگ قبضے کی جانب چل پڑی اور عرب ریاستیں ایک دوسرے کا منہ تک رہی تھیں۔

اسرائیل کے فلسطین پر تسلط کے مستحکم ہونے کے بعد اقوام متحدہ نے پینترہ بدلا اور ایک قرارداد میں اسرائیل کو اپنے جبری تسلط یعنی قرارداد نمبر 181 سے اضافی علاقوں سے نکل جانے کو کہا گیا۔ 1974ء میں اقوام متحدہ کو فلسطینیوں کی آزادی، مہاجرت اور حقوق کی خلاف ورزی نظر آنے لگ گئی۔ عرب دنیا ان تین جنگوں کے بعد بالکل مطمئن ہو کر اپنے کاموں میں مصروف عمل ہوگئی۔ اسرائیلی ریاست کے وجود کو تسلیم کر لیا گیا۔ حتیٰ کہ پی ایل او کو بھی 1947ء کا دو ریاستی حل یعنی قرارداد نمبر 181 ہی واحد حل نظر آنے لگا۔ یاسر عرفات کی سربراہی میں پی ایل او نے اسرائیل کے ہمراہ اوسلو معاہدہ پر دستخط کیے، جس کے تحت دو ریاستی حل کو باقاعدہ طور پر قبول کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی 1967ء کی قرارداد 242 اور 338 کو اس معاہدے کی بنیاد بنایا گیا۔ اس معاہدے کے تحت ایک فلسطینی ریاست کا سوال تو ایک جانب فلسطینیوں کے زیر قبضہ علاقے کو ہی ایک ایڈمنسڑیٹو اتھارٹی کا درجہ دے دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونروا کے مطابق فلسطینی مہاجرین ان افراد کو کہا جاتا ہے، جو یکم جون 1946ء سے پندرہ مئی 1948ء تک فلسطین کے علاقے میں رہتے تھے اور گھروں نیز زندگی کے وسائل کی تباہی کے سبب نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ 1950ء میں انروا کے پاس تقریباً سات لاکھ مہاجرین رجسٹر ہوئے، جن کی تعداد اب بڑھ کر 5.9 ملین ہوچکی ہے۔ تقریبا ڈیڑھ ملین فلسطینی مہاجرین انروا کے زیر انتظام کام کرنے والے 58 پناہ گزین کیمپوں جو کہ اردن، لبنان، شام، غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں رہ رہے ہیں۔ اکثر فلسطینی یورپی ممالک کی جانب بھی ہجرت کرچکے ہیں۔ انروا ان کیمپس میں ہسپتال، سکول، صحت کے مراکز اور فراہمی کے مراکز چلاتا ہے۔ 1967ء میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید دس کیمپس قائم کیے گئے، جس کے انتظامات اقوام متحدہ چلاتی ہے اور یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔

مسلمان ملکوں کے ہزاروں دعووں کے باوجود یہ اردن، لبنان اور شام میں بسنے والے مہاجرین ستر سے زائد برس گزرنے کے باوجود کبھی بھی اپنے علاقوں میں واپس نہ آئے اور اب 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر 1.5 ملین فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے زندگی کے وسائل ضائع کرچکے ہیں اور انروا کی چھتری کے نیچے چھپنے کے لیے مجبور ہیں۔ نئے مہاجر کیمپ تشکیل دیئے جا رہے ہیں، انروا کے مطابق پہلے سے موجود کیمپس میں مہاجرین کی تعداد تین گنا ہوچکی ہے۔ اسرائیل کے خان یونس اور جنوبی غزہ پر حملے اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ شمالی غزہ سے ہجرت کرکے جانے والے شہریوں کو جنوب میں آباد کیا جائے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ مصر، اردن، لبنان اور شام کی مانند اپنی سرحدیں ان پناہ گزینوں کے لیے کھولے، تاکہ یہ لوگ غزہ کی سرحد سے باہر نکل جائیں۔ ایسا وہ اس لیے چاہتا ہے کہ کیونکہ انروا کے زیرانتظام کام کرنے والے کیمپس میں سکیورٹی کی ذمہ داری میزبان ملک کی ہوتی ہے۔ اردن، شام اور لبنان میں قائم مہاجرین کیمپ ان ممالک کی حکومتوں کے تحت ہیں۔ سیاہ ستمبر کا واقعہ اردن کے مہاجر کیمپ میں ہونے والے ایک حادثہ کی نشاندہی کرتا ہے، اسی طرح صابرہ و شتیلہ کے واقعات لبنان میں ہونے والے فلسطینیوں کو کنٹرول کرنے کے واقعات کی کرب ناک یادگار ہیں۔

مجھے خوف ہے کہ جیسے 1948ء سے اب تک فلسطینی مہاجرین کو واپس فلسطین میں بسائے جانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا اور فلسطینی ہر برس یوم نکبہ منا کر اپنی ملکیت کی یاد تازہ کرتے ہیں، ایسے ہی آج غزہ سے غزہ میں ہی ہجرت کر جانے والے مہاجرین کو واپس نہیں لایا جائے گا اور شمالی غزہ اسرائیل کی چراگاہ بن جائے گا۔ خدا کرے کہ میری یہ بات غلط ثابت ہو، تاہم تاریخی شواہد اور اسرائیلی حملے کا حجم نیز مغربی قوتوں کی پشت پناہی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایسا ہونے والا ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی فورم پر گفت و شنید کا سلسلہ پہلے کی مانند جاری رہے گا۔ اب نہ مصر اس جنگ میں کودے گا، نہ اردن جنگ کا حصہ بنے گا، لبنان کی جانب سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہے گا، تاہم شاید یہ جھڑپیں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہجرت کو نہ روک سکیں۔ خداوند کریم فلسطینیوں کی مدد فرمائے اور ان کو ان کے ملکوں میں دوبارہ آباد فرمائے، آمین۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ سے اسرائیل کیا چاہتا ہے؟
https://albasirah.com/urdu/ghaza-jang-israel/

بشکریہ اسلام ٹائمز