مکتب سلیمانی(مصنف: حسن رضا نقوی)
اگر کوئی اسے غلو نہ سمجھے تو مجھے یوں لگتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حفاظت اور اسلامی مزاحمت کی معجزانہ پیشرفت میں تین افراد کا کردار بنیادی ہے۔ ایک سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دوسرے حضرت ابو الفضل العباسؑ اور تیسرے ان کے مرید خاص اور عاشق جانباز قاسم سلیمانی، جو مکتبِ خمینیؒ میں پروان چڑھے اور عصر حاضر میں اس کا ایک کامل نمونہ بن گئے اور خمینیؒ وہی ہیں، جس کے بارے میں شہید آیت اللہ باقر الصدر ؒنے فرمایا تھا: “امام خمینی ؒ نے ثابت کر دیا ہے کہ علیؑ کوئی شخص نہ تھے، جو تاریخ میں آئے اور چلے گئے بلکہ ایک شخصیت تھے، جو آج بھی زندہ ہے۔” ’’مکتب سلیمانی‘‘ اسی مکتب علوی کا تسلسل ہے، شہید قاسم سلیمانی کے بارے میں ہمارے نہایت عزیز اور ہمیں نہایت عزیز سید حسن رضا نقوی نے ’’مکتب سلیمانی‘‘ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے، اسے ہم اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
بڑے بڑے قد آور لوگوں کے مابین سرو قد کھڑا ہونا اور پھر ان بڑے قد آور لوگوں سے خراج تحسین وصول کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ شہید قاسم سلیمانی نے یہ مشکل کام کر دکھایا۔ عصر حاضر میں اسلام کے جذبہ جہاد اور مجاہدانہ معنویت اور تدبیر مزاحمت کے لیے قاسم سلیمانی کی عبقری شخصیت اور ان کے کمالات کا مطالعہ ضروری ہے۔ کیسے اس مکتبِ اسلام کے عاشق دلباختہ نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ مختلف محاذوں پر اس انداز سے طاغوتی سازشوں کے جال کو چھید چھید کر دیا اور طاغوت کی مکارانہ سازشوں کو ناکام بنا دیا، اس کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ قاسم سلیمانی کے بارے میں راقم نے متعدد کتابیں پڑھ رکھی ہیں، بعض کتابیں واقعی مفید ہیں اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو عمدگی سے بیان کرتی ہیں، لیکن ’’مکتب سلیمانی‘‘ اس حوالے سے آج تک سامنے آنے والی سردار قاسم سلیمانی کی سوانح اور خدمات پر ایک جامع تصنیف ہے۔
حسن رضا نقوی تہران یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ پاکستان میں وہ ہمارے نزدیک ایسے ہونہار اور متدین جوانوں میں سے تھے، جو بعض انفرادی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں شعر و ادب اور مطالعہ سیرت و تاریخ کے ذوق کا سراغ ہم نے اِنھیں ایام میں لگا لیا تھا۔ آج ’’مکتب سلیمانی‘‘ کی صورت میں ان کا یہ ذوق زیادہ جامعیت سے سامنے آیا ہے اور وہ ایک سوانح نگار اور محقق کی صورت میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ ان کی یہ کتاب فقط جنرل قاسم سلیمانی کی شخصیت اور سوانح کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ ایران عراق جنگ کے نہایت اہم پہلوؤں، اسلامی جمہوریہ ایران کی داخلی مشکلات کو فرو کرنے کی تدابیر اور پھر ایران کی سرحدوں کے اس پار مقاومت کے سارے محاذوں کو منظم اور مربوط طور پر بیان کرتی ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان، لبنان، فلسطین، شام اور عراق میں شہید سردار قاسم سلیمانی کی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے استعماری طاقتوں اور ان کے پروردہ خون آشام تکفیری گروہوں سے مزاحمت کی تاریخ کا اجمالی جائزہ بھی پیش کرتی ہے۔
لہذا بیک وقت یہ کتاب شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت، ایران میں نظام ولایت فقیہ کی اثر انگیزی اور پھر مقاومت کے ظہور اور مختلف محاذوں پر اس کی معرکہ آرائیوں، پیش رفت، مشکلات اور کامیابیوں کو ہمارے سامنے واضح کرتی ہے۔ عزیزم حسن رضا نقوی نے حوالوں، دلائل، مشاہدات، بیانات اور انٹرویوز کے ذریعے اپنی بات کو مستند طریقے سے پیش کیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک کمرے میں بند ہو کر نہیں لکھی گئی بلکہ اس کے لیے انھوں نے مشکل مسافتوں کو طے کیا ہے۔ ہر محاذ کی اہم ترین شخصیات سے ملاقات کی ہے۔ چشم دید گواہیاں اکٹھی کی ہیں اور ضروری لٹریچر کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ وہ چونکہ خود معنویت و روحانیت کی رمزوں کو جانتے ہیں، لہذا انھوں نے ’’مکتب سلیمانی‘‘ سے مربوط سرداران جہاد اور مجاہدین کے روحانی ولولوں کی خوبصورتی سے عکاسی کی ہے اور اسی کو کامیابی کی بنیادی دلیل قرار دیا ہے اور اس دلیل کے لیے مجاہدین فی سبیل اللہ کے کردار و گفتار کا حوالہ پیش کیا ہے۔
یہی کتاب فارسی میں بھی موجود ہے اور راقم کی معلومات کے مطابق اس کا انگریزی ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ ایران میں اس کی نہایت اعلیٰ سطح پر پذیرائی ہوئی ہے اور پاکستان میں بھی شہید قاسم سلیمانی کی زندگی اور مزاحمتی جدوجہد پر اسے اب تک کی ایک بہترین کتاب قرار دیا جا رہا ہے۔ ’’مکتب سلیمانی‘‘ فکشن ہاؤس نے جنوری 2022ء میں شائع کی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں دستیاب ہے۔ لاہور میں فکشن ہاؤس بک سٹریٹ مزنگ روڈ سے حاصل کی جاسکتی ہے، جس کا فون نمبر 042-36307550-1 ہے۔ یہ کتاب، رواں اور رسا اردو میں لکھی گئی ہے، کہیں کہیں احساس ہوتا ہے کہ اس کے مصنف ایران میں رہتے ہیں۔ اگلی اشاعت سے پہلے اس کی عبارات اور پروف پر ایک اور نظر ڈال لی جائے تو چھوٹی چھوٹی فروگذاشتوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ سید حسن رضا نقوی ہماری طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں، لیکن ان کی محنت اور عظیم کام کے سامنے تحسین و ستائش کے الفاظ مدھم پڑ گئے ہیں۔ اللہ ان کو مزید کامیابیوں سے نوازے۔
آخر میں ان کی کتاب سے ’’وصیت نامہ شہید قاسم سلیمانی‘‘ سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں۔ یہ اقتباس ہمیں شہید سردار کے سینے میں موجزن عشق الہیٰ کی طوفانی اور بے قرار لہروں سے آشنا کرتا ہے: “اے میرے خالق، میرے محبوب، میرے عشق! میں نے ہمیشہ تم سے چاہا ہے کہ میرے وجود کو اپنے عشق میں ڈبو دو، اپنے فراق میں مجھے جلا دو اور مار ڈالو۔ اے میرے مہربان! میں پیچھے رہ جانے کی بے قراری اور رسوائی کی وجہ سے سڑکوں پر آوارہ ہوگیا ہوں۔ میں گرمیوں، سردیوں میں ایک موہوم امید لیے ہوئے اس شہر سے اس شہر، اِس صحرا سے اس صحرا میں دربدر پھر رہا ہوں۔ اے کریم، حبیب! تیرے کرم سے امید لگا رکھی ہے، تو خود جانتا ہے کہ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں، اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں چاہتا، مجھے اپنا وصل عطا فرما۔ اے میرے خدا! وحشت نے میرے پورے وجود کو گھیر لیا ہے، میں اپنے نفس پر قابو پانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ مجھے رسوا نہ کر، ان ہستیوں کی حرمت کے صدقے میں، جن کی حرمت کو تم نے اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے، اس حرمت کے پامال ہونے سے پہلے، کہ جو ان کے حرم پر خدشہ وارد کرے، مجھے اس قافلے سے ملا دے، جو تیری طرف بڑھ چکا ہے۔ میرے معبود، میرے عشق، میرے معشوق، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے کئی دفعہ تمہاری جھلک دیکھی اور تجھے محسوس کیا۔ میں تجھ سے الگ نہیں رہ سکتا، بہت ہوگئی، بس مجھے قبول کر لے، لیکن اس طرح کہ تیرے لائق ہو جاؤں۔”
بڑے بڑے قد آور لوگوں کے مابین سرو قد کھڑا ہونا اور پھر ان بڑے قد آور لوگوں سے خراج تحسین وصول کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ شہید قاسم سلیمانی نے یہ مشکل کام کر دکھایا۔ عصر حاضر میں اسلام کے جذبہ جہاد اور مجاہدانہ معنویت اور تدبیر مزاحمت کے لیے قاسم سلیمانی کی عبقری شخصیت اور ان کے کمالات کا مطالعہ ضروری ہے۔ کیسے اس مکتبِ اسلام کے عاشق دلباختہ نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ مختلف محاذوں پر اس انداز سے طاغوتی سازشوں کے جال کو چھید چھید کر دیا اور طاغوت کی مکارانہ سازشوں کو ناکام بنا دیا، اس کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ قاسم سلیمانی کے بارے میں راقم نے متعدد کتابیں پڑھ رکھی ہیں، بعض کتابیں واقعی مفید ہیں اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو عمدگی سے بیان کرتی ہیں، لیکن ’’مکتب سلیمانی‘‘ اس حوالے سے آج تک سامنے آنے والی سردار قاسم سلیمانی کی سوانح اور خدمات پر ایک جامع تصنیف ہے۔
حسن رضا نقوی تہران یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ پاکستان میں وہ ہمارے نزدیک ایسے ہونہار اور متدین جوانوں میں سے تھے، جو بعض انفرادی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں شعر و ادب اور مطالعہ سیرت و تاریخ کے ذوق کا سراغ ہم نے اِنھیں ایام میں لگا لیا تھا۔ آج ’’مکتب سلیمانی‘‘ کی صورت میں ان کا یہ ذوق زیادہ جامعیت سے سامنے آیا ہے اور وہ ایک سوانح نگار اور محقق کی صورت میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ ان کی یہ کتاب فقط جنرل قاسم سلیمانی کی شخصیت اور سوانح کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ ایران عراق جنگ کے نہایت اہم پہلوؤں، اسلامی جمہوریہ ایران کی داخلی مشکلات کو فرو کرنے کی تدابیر اور پھر ایران کی سرحدوں کے اس پار مقاومت کے سارے محاذوں کو منظم اور مربوط طور پر بیان کرتی ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان، لبنان، فلسطین، شام اور عراق میں شہید سردار قاسم سلیمانی کی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے استعماری طاقتوں اور ان کے پروردہ خون آشام تکفیری گروہوں سے مزاحمت کی تاریخ کا اجمالی جائزہ بھی پیش کرتی ہے۔
لہذا بیک وقت یہ کتاب شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت، ایران میں نظام ولایت فقیہ کی اثر انگیزی اور پھر مقاومت کے ظہور اور مختلف محاذوں پر اس کی معرکہ آرائیوں، پیش رفت، مشکلات اور کامیابیوں کو ہمارے سامنے واضح کرتی ہے۔ عزیزم حسن رضا نقوی نے حوالوں، دلائل، مشاہدات، بیانات اور انٹرویوز کے ذریعے اپنی بات کو مستند طریقے سے پیش کیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک کمرے میں بند ہو کر نہیں لکھی گئی بلکہ اس کے لیے انھوں نے مشکل مسافتوں کو طے کیا ہے۔ ہر محاذ کی اہم ترین شخصیات سے ملاقات کی ہے۔ چشم دید گواہیاں اکٹھی کی ہیں اور ضروری لٹریچر کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ وہ چونکہ خود معنویت و روحانیت کی رمزوں کو جانتے ہیں، لہذا انھوں نے ’’مکتب سلیمانی‘‘ سے مربوط سرداران جہاد اور مجاہدین کے روحانی ولولوں کی خوبصورتی سے عکاسی کی ہے اور اسی کو کامیابی کی بنیادی دلیل قرار دیا ہے اور اس دلیل کے لیے مجاہدین فی سبیل اللہ کے کردار و گفتار کا حوالہ پیش کیا ہے۔
یہی کتاب فارسی میں بھی موجود ہے اور راقم کی معلومات کے مطابق اس کا انگریزی ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ ایران میں اس کی نہایت اعلیٰ سطح پر پذیرائی ہوئی ہے اور پاکستان میں بھی شہید قاسم سلیمانی کی زندگی اور مزاحمتی جدوجہد پر اسے اب تک کی ایک بہترین کتاب قرار دیا جا رہا ہے۔ ’’مکتب سلیمانی‘‘ فکشن ہاؤس نے جنوری 2022ء میں شائع کی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں دستیاب ہے۔ لاہور میں فکشن ہاؤس بک سٹریٹ مزنگ روڈ سے حاصل کی جاسکتی ہے، جس کا فون نمبر 042-36307550-1 ہے۔ یہ کتاب، رواں اور رسا اردو میں لکھی گئی ہے، کہیں کہیں احساس ہوتا ہے کہ اس کے مصنف ایران میں رہتے ہیں۔ اگلی اشاعت سے پہلے اس کی عبارات اور پروف پر ایک اور نظر ڈال لی جائے تو چھوٹی چھوٹی فروگذاشتوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ سید حسن رضا نقوی ہماری طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں، لیکن ان کی محنت اور عظیم کام کے سامنے تحسین و ستائش کے الفاظ مدھم پڑ گئے ہیں۔ اللہ ان کو مزید کامیابیوں سے نوازے۔
آخر میں ان کی کتاب سے ’’وصیت نامہ شہید قاسم سلیمانی‘‘ سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں۔ یہ اقتباس ہمیں شہید سردار کے سینے میں موجزن عشق الہیٰ کی طوفانی اور بے قرار لہروں سے آشنا کرتا ہے: “اے میرے خالق، میرے محبوب، میرے عشق! میں نے ہمیشہ تم سے چاہا ہے کہ میرے وجود کو اپنے عشق میں ڈبو دو، اپنے فراق میں مجھے جلا دو اور مار ڈالو۔ اے میرے مہربان! میں پیچھے رہ جانے کی بے قراری اور رسوائی کی وجہ سے سڑکوں پر آوارہ ہوگیا ہوں۔ میں گرمیوں، سردیوں میں ایک موہوم امید لیے ہوئے اس شہر سے اس شہر، اِس صحرا سے اس صحرا میں دربدر پھر رہا ہوں۔ اے کریم، حبیب! تیرے کرم سے امید لگا رکھی ہے، تو خود جانتا ہے کہ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں، اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں چاہتا، مجھے اپنا وصل عطا فرما۔ اے میرے خدا! وحشت نے میرے پورے وجود کو گھیر لیا ہے، میں اپنے نفس پر قابو پانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ مجھے رسوا نہ کر، ان ہستیوں کی حرمت کے صدقے میں، جن کی حرمت کو تم نے اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے، اس حرمت کے پامال ہونے سے پہلے، کہ جو ان کے حرم پر خدشہ وارد کرے، مجھے اس قافلے سے ملا دے، جو تیری طرف بڑھ چکا ہے۔ میرے معبود، میرے عشق، میرے معشوق، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے کئی دفعہ تمہاری جھلک دیکھی اور تجھے محسوس کیا۔ میں تجھ سے الگ نہیں رہ سکتا، بہت ہوگئی، بس مجھے قبول کر لے، لیکن اس طرح کہ تیرے لائق ہو جاؤں۔”
بشکریه : اسلام ٹائمز
Share this content: