×

زیدیہ: ایک تعارف

مفتی امجد عباس

زیدیہ: ایک تعارف


  زیدیہ معروف شیعہ فرقہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ "حضرت علی، امام حسن اور امام حسین اور "زید بن علی" کے بعد امامت کا عہدہ ہر اس فاطمی کے لیے ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلائے اور ظاہری طور پر عادل، عالم اور شجاع ہو اور لوگ اس کے ساتھ جہاد کے لیے تلوار کھینچنے کی شرط پر بیعت کریں"۔ "یہ فرقہ دوسری صدی ہجری کے ابتدائی برسوں/ آٹھویں صدی عیسوی میں تشیع سے جدا ہوا اور دوسرے شیعیان اہل بیت(ع) کے مقابلے میں اِس نے اپنی شناخت بنائی "۔ اس فرقے کی خصوصیات یہ ہیں کہ یہ "مسئلہ حسن و قبح" میں معتزلہ کی طرف مائل اور دوسرے شیعہ فرقوں کی نسبت اہل سنت سے زیادہ قریب ہے۔ آج یمن کی تقریبا 45 فیصد آبادی کا تعلق زیدی مذہب سے ہے۔جس کی سیاسی شاخ حوثی یا انصار اللہ کے عنوان سے جانی جاتی ہے ۔ البصیرہ کے شعبہ تحقیق کے ڈائریکڑجناب مفتی امجد عباس نے پیش نظر تحریر میں زیدیہ کی تاریخ ، عقائد و نظریات نیز امتیازات پر روشنی ڈالی ہے ۔امید ہے تحریر زیدیہ کو سمجھنے اور ان کی موجودہ سیاسی جدوجہد کو جاننے میں مفید ہوگی ۔(ادارہ)
    زیدی مسلک عالمِ اسلام کے معروف اور قدیمی مسالک میں سے ہے، طولِ تاریخ میں زیدیہ کا مناسب تعارف نھیں کروایا گیا۔ معاصر محقق سامی الغدیری لکھتے ہیں کہ زیدیہ بہت سے امور میں اہل سنت سے ہم آہنگی رکھتے ہیں خاص کر سلیمانیہ، صالحیہ اور بتریہ فرقے، ان کا خیال ہے کہ امامت شورائی ہے۔ ان کے نزدیک امام کا چنائو لوگ خود کریں گے، انھوں نے مفضول کو افضل پر مقدم کرنا جائز سمجھا ہے، ہاں بعض شرائط امامت میں ان کا اہل سنت سے اختلاف ہے جیسے زیدیہ کے مطابق امام کا فاطمی ہونا اور تلوار کے ذریعے دعویٔ امامت کرنا لازم ہے۔ جمہور اہل سنت کے نزدیک امام کا فاطمی یا قریشی ہونا لازم نہیں ہے نہ ہی تلوار اٹھانا لازم ہے بلکہ امام کا عادل ہونا بھی شرط نہیں، زیدیہ عقائد میں کسی قدر معتزلہ سے بھی ملتے ہیں جیسے منزلت بین المنزلتین اور انسانی ارادے کی آزادی کا مسئلہ۔

    زیدیہ بنیادی طور پر شیعی گروہ ہیں جو اہل بیتؑ کی امامت پر قائم ہیں، ان کے نظریۂ امامت میں اور شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کے نظریہ امامت میں تلوار کے ذریعے خروج کی شرط کے علاوہ خاص فرق نہیں ہے۔ شیعہ امامیہ اور زیدیہ میں کئی اشتراکات بھی ہیں۔

    امامیہ اثنا عشریہ شیعہ کے نزدیک نبی کریمؐ کے بعد امام علی ؑ خلیفۂ بلافصل ہیں، آپؑ کی امامت پر نص ہے اور آپؑ کو نبیؐ نے متعین کیا، یہی صورت حال باقی آئمہ اہل بیتؑ کی نسبت سے ہے۔ جب کہ زیدیہ کے جارودیہ فرقہ کا کہنا ہے کہ نبیؐ نے امام علیؑ کی امامت پر نص قائم کی لیکن صفات بیان کیں، نام نہیں لیا، قاسمیہ فرقہ کے نزدیک نبیؐ نے نام لے کر امام علی ؑ کو اپنا خلیفہ نامزد کیا تھا۔

    زیدیہ کے جارودیہ فرقہ کے نزدیک شیخین کی خلافت درست نہ تھی، جب کہ قاسمیہ فرقہ کے نزدیک حضرت علی ؑ سب سے افضل ہیں جارودیہ، حضرت عثمان کی خلافت کے منکر ہیں۔زیدیہ اور اثنا عشریہ امام علیؑ کے بعد از نبیؐ سب سے افضل ہونے پر متفق ہیں۔زیدیہ کے نزدیک ایک وقت میں دو مختلف علاقوں میں دو الگ الگ امام ہو سکتے ہیں، دونوں ناطق ہوں گے جب کہ اثنا عشریہ کے نزدیک ایک وقت میں ایک ہی امامِ ناطق ہوگا۔زیدیہ کے نزدیک ایک وقت میں دو مختلف علاقوں میں دو الگ الگ امام ہو سکتے ہیں، دونوں ناطق ہوں گے جب کہ اثنا عشریہ کے نزدیک ایک وقت میں ایک ہی امام ناطق ہوگا۔

    زیدیہ اور شیعہ اثنا عشریہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صفاتِ خداوندی، عین ذات ہیں۔

    دونوں گروہ قرآن کو حادث جانتے ہیں۔

    دونوں کے نزدیک دنیا و آخرت میں دیدار باری تعالیٰ محال ہے۔

    وعدہ اور وعید کے حوالے سے بھی دونوں کے نظریات ایک جیسے ہیں۔ (جزا و سزا کا وعدہ)

    دونوں کا اس بابت اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم ہے، اس نے بندوں کو اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے اور صرف قبیح اور برے کام پر ہی عذاب دے گا۔ 

    دونوں کے نزدیک امام کے ہاتھوں معجزے رونما ہوسکتے ہیں۔

    دونوں کے نزدیک باب اجتہاد کھلا ہے۔ 

    شیعہ اثنا عشریہ کی طرح جارودیہ بھی امام مہدیؑ کی آمد کے قائل ہیں اگرچہ امام منتظر کی تفصیلات میں اختلاف ہے۔

    جارودیہ ابتداء میں شیخین کی خلافت کو درست نہ جانتے تھے تاہم بعد میں اس اعتقاد کے باوجود کہ نبیؐ کے بعد امام، حضرت علیؑ ہیں، انھوں نے شیخین کی خلافت کے متعلق خاموشی اختیار کی اور کہا کہ حضرت علیؑ کے ہوتے ہوئے کسی اور کو خلیفہ بنانا خطا ہے اور یہ کہ امام علی ؑ کی خلافت پر نص ہے لیکن یہ نص جلی نہیں ہے۔

    دونوں گروہوں کے نزدیک اذان میں ’’حی علیٰ خیر العمل‘‘ اہل بیتؑ کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

    حضرت زید بن علی سے نقل کیا گیا ہے کہ ان کے والد گرامی قدر اپنی اذان میں ’’حی علیٰ خیر العمل‘‘ کہا کرتے تھے۔

    زیدیہ کے امام ہادی کہتے ہیں کہ یہ بات صحیح ہے کہ نبی کریمؐ کے زمانہ میں اذان میں ’’حی علیٰ خیر العمل‘‘ کہا جاتا تھا، اسے حضرت عمر کے زمانے میں ترک کیا گیا۔ حضرت عمر نے سوچا کہ لوگ نماز ہی کو اچھا عمل قرار دے کر باقی کاموں کو ترک نہ کریں اس لیے اسے اذان سے نکال دو۔ وہ کہتے ہیں کہ اذان، اللہ تعالیٰ نے شبِ معراج اپنے نبیؐ کو سکھائی، اس حوالے سے بعض جاہلوں کی یہ بات نادرست ہے کہ کسی انصار ی نے خواب میں اذان سنی، اس بات کو عقل بھی نہیں مانتی۔

    دونوں مسالک کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ نماز میں بسم اللہ با آواز بلند پڑھنا چاہیے۔ حضرت انس سے منقول ہے کہ ایک دفعہ معاویہ مدینہ آئے، نماز کی جماعت کرواتے ہوئے سورہ الحمد کے بعد دوسری سورہ کے شروع میں انھوں نے بسم اللہ نہ پڑھی۔ انصار اور مہاجرین نے نماز کے بعد اس سے پوچھا کہ اے معاویہ! تم نے بسم اللہ چوری کرلی یا تم بھول گئے؟

    دونوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز جنازہ کی پانچ تکبیریں ہیں۔ یہی اہل بیتؑ سے مروی ہے۔

    حضرت زید بن ارقم، ربیعہ، محمد بن حنیفہ اور ابن ابی لیلیٰ کا یہی نظریہ ہے۔ حضرت حذیفہ بن یمان کے متعلق نقل کیا جاتا ہے کہ انھوں نے جنازے پر پانچ تکبریں کہیں اور بعد میں فرمایا کہ نہ تو میں بھولا نہ مجھے وہم ہوا، نبیؐ ایسے ہی نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔ زیدی امام المتوکل علیٰ اللہ نے اپنی کتاب ’’أصول الأحکام‘‘ میں ایسی ہی روایت حضرت جابر بن عبداللہ حضرمی کے طریق سے نقل کی ہے۔

    حصین بن عامر سے منقول ہے کہ حضرت ابو ذر کی وصیت تھی کہ ان کے جنازے پر پانچ تکبیریں کہی جائیں۔

شیعہ اثنا عشریہ اور زیدیہ میں اختلاف

    شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک امام کے پاس دینی اور دنیوی رہبری ہوتی ہے۔ زیدیہ نے فرق کیا ہے، وہ امام کو دینی راہنما جانتے ہیں۔ زیدیہ کے نزدیک جو بندہ امام کی امامت پر ایمان نہیں لاتا وہ گمراہ ہے۔ اس کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔ 

    امامیہ کے نزدیک امامت صرف امام حسینؑ کی اولاد کے ساتھ خاص ہے جب کہ زیدیہ امام حسنؑ کی اولاد میں بھی اسے درست جانتے ہیں۔

    زیدیہ امام کے لیے تلوار اٹھانا لازم جانتے ہیں اور تقیہ کو نادرست سمجھتے ہیں۔

    شیعہ امامیہ اثنا عشریہ نبی کریمؑ اور آئمہ اہل بیتؑ کی شفاعت کے قائل ہیں جب کہ زیدیہ شفاعت صرف نبیؐ کا حق جانتے ہیں، نیز ان کے نزدیک شفاعت کا مطلب درجات کی بلندی ہے۔

    زیدیہ امام کی عصمت کے قائل نہیں ہیں۔

    شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک، انبیائؑ، صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں جب کہ زیدیہ سمجھتے ہیں کہ انبیاء محض کبیرہ گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں، ان سے صغیرہ گناہ سرزد ہونے کا امکان ہوتا ہے (نہ یہ کہ وہ ایسا کرتے ہیں)۔ ملاحظہ ہو: الزیدیۃ بین الامامیۃ و اھل السنۃ، صفحہ ۵۸۷ تا ۵۹۳، ناشر دار الکتب الاسلامی
زیدیہ کے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نھیں ہیں، ویکی شیعہ نامی دائرۃ المعارف سے قدرے تفصیلی تعارفی مضمون پیش ہے:

    زیدیہ معروف شیعہ فرقہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ "حضرت علی، امام حسن اور امام حسین اور "زید بن علی" کے بعد امامت کا عہدہ ہر اس فاطمی کے لیے ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلائے اور ظاہری طور پر عادل، عالم اور شجاع ہو اور لوگ اس کے ساتھ جہاد کے لیے تلوار کھینچنے کی شرط پر بیعت کریں"۔[1] "یہ فرقہ دوسری صدی ہجری کے ابتدائی برسوں/ آٹھویں صدی عیسوی میں تشیع سے جدا ہوا اور دوسرے شیعیان اہل بیت(ع) کے مقابلے میں اِس نے اپنی شناخت بنائی "۔[2] اس فرقے کی خصوصیات یہ ہیں کہ یہ "مسئلہ حسن و قبح" میں معتزلہ کی طرف مائل اور دوسرے شیعہ فرقوں کی نسبت اہل سنت سے زیادہ قریب ہے۔[3] آج یمن کی تقریبا 45 فیصد آبادی کا تعلق زیدی مذہب سے ہے۔[4]
زیدیہ کی شاخیں

    فرقہ شناسی کے منابع و مآخذ میں زیدیہ کے اندر معرض وجود میں آنے والی مختلف شاخوں، شعبوں اور ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[5] مطالعات کا عمومی نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے کہ زیدیہ کے دو ذیلی فرقے ہیں:

    متقدمین: یہ وہ لوگ ہیں جو رافضی سمجھے جاتے ہیں اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی امامت کے معترف ہیں۔

    متاخرین: یہ وہ لوگ ہیں جواِن کی امامت کو قبول نہیں کرتے۔

    آج یمن میں رائج زیدی مذہب کے پیروکار متقدمین کے مذہب سے قریب تر ہے۔[6] اس فرقے کے اہم ذیلی فرقے جارودیہ، بتریہ اور سلیمانیہ ہیں گوکہ اس فرقے میں مزید ذیلی فرقے بھی موجود ہیں حتی کہ نوبختی نے ان ذیلی فرقوں کی تعداد 17 تک بتائی ہے۔[7]

جارودیہ

    جارودیہ یا سرحوبیہ،  ابوالجارود زیاد بن ابی زیاد کے پیروکار ہیں۔ یہ فرقہ سب سے پہلا زیدی فرقہ یا زیدی فرقوں میں سب سے پہلا فرقہ ہے۔ امامیہ کے ساتھ ان کا نقطۂ اشتراک یہ ہے کہ وہ بھی رسول اللہ(ص) کے واسطے سے امام علی(ع) کے بحیثیت امام تعین پر تصریح کرتے ہیں۔ جارودیہ کے پیروکار، حضرت علی سے پہلے کے خلفاء کی طرف فسق کی نسبت دیتے ہیں اور آپؑ سے لڑنے والے صحابہ کی تکفیر کے قائل ہیں۔ جارودیہ کے ساتھ امامیہ کا ایک اختلاف اِس میں ہے کہ جارودیہ، امام علی(ع)، حسن(ع) اور حسین(ع) کے بعد، امامت کو شورائی سمجھتے ہیں۔ جارودیہ ائمہ(ع) کے سلسلہ میں کسی حد تک غلو سے دوچار تھے۔ وہ ائمہ(ع) کی رجعت کے قائل تھے۔[8]۔[9]۔[10]

صالحیہ یا بتریہ

    صالحیہ اور بتریہ، یہ لوگ حسن بن صالح بن حی ہمدانی اور ابو اسماعیل کثیر بن اسمٰعیل بن نافع نواء الملقب بہ "کثیر النواء و الابتر" کے پیروکار ہیں۔ زید کے ساتھ ان کا اختلاف حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی خلافت کے حوالے سے تھا اور ان کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے۔[11] صالحیہ کا عقیدہ ہے کہ امامت شورائی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ فاضل (افضل) کے باوجود مفضول کی امامت جائز ہے بشرطیکہ فاضل اس کی امامت پر راضی ہو۔[12] اس فرقے نے حضرت عثمان کے ایمان یا کفر کے بارے میں توقف کیا اور کوئی رائے قائم نہ کی۔ وہ امر بالمعروف کے قائل اور تقیہ کے مخالف تھے۔ صالحیہ فقہی احکام میں اہل سنت سے قریب تر ہیں۔[13]۔[14]۔[15]

سلیمانیہ یا جریریہ

    سلیمانیہ، سلیمان بن جریر رقی زیدی کے پیروکار ہیں۔ سلیمان بداء اور تقیہ کے خلاف تھا۔ اس جماعت کا عقیدہ تھا "گوکہ امامت کے لئے علی(ع) دوسروں سے افضل و برتر ہیں لیکن حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت اجتہادی خطا کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے اور قابل قبول ہے؛ اس کے باوجود وہ حضرت عثمان کو مسلمان نہ جانتے تھے۔ نیز وہ، حضرت علیؑ سے لڑنے والوں کو کافر سمجھتے تھے۔[16]۔[17]۔[18]۔[19]۔[20]

دوسری شاخیں

    قاسم رسی کے پیروکار "قاسمیہ"، یحیی بن حسین بن قاسم؛ الھادی الی الحق کے پیروکار "ہادویہ"، ناصر اطروش کے پیروکار "ناصریہ"، صباح بن قاسم مری یا مزنی کے پیروکار "صباحیہ"، عبداللہ بن محمد عقبی کے پیروکار "عقبیہ"، نعیم بن یمان کے پیروکار "نعیمیہ" اور یعقوب بن علی (یا عدی) کوفی کے پیروکار یعقوبیہ، دیگر زیدی فرقے ہیں۔
زیدیہ کے اعتقادات

    فقہی اعتقادات:زیدیہ کی قدیم ترین [فقہی] کتابیں مجموع الحدیث اور مجموع الفقہ ہیں۔ ان دونوں مجموعوں کو ملا کر مجموعی طور پر مجموع الکبیر کہا جاتا ہے۔[21] اذان میں حی علی خیر العمل کہنا[22]، جواز مسح علی الخفین، (جوتوں پر مسح کرنے کا جواز)، متعہ پر عدم اعتقاد اور اہل کتاب کا ذبیحہ کھانے کا جواز، زیدیہ کے فقہی معتقدات میں سے ہیں۔ وہ [دوسرے اسلامی مکاتب کی طرح] امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب سمجھتے ہیں اور اس عقیدے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ جس سرزمین میں گناہ کی نمائش ہوتی ہے (اور علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کیا جاتا ہے) وہاں سے ہجرت کرنا ، ایسی سرزمین کی طرف جہاں گناہ نہ ہو واجب ہے۔ زیدیوں کے آئمہ نے اس عقیدے کے احیاء پر اپنی جانیں قربان کردیں۔ زیدیہ بھی ابو حنیفہ کی طرح، فقہی احکام کے استنباط میں قیاس کو بروئے کار لاتے ہیں۔ یہ فرقہ علمائے اسلام کے اجماع کو شرعی آراء کی بنیاد سمجھتا ہے۔[23]۔[24]

    کلامی اعتقادات:زیدیہ حسن و قبح میں معتزلہ کی طرف مائل ہیں۔ 

    شہرستانی کا کہنا ہے کہ چونکہ امام زیدؑ معتزلہ کے بانی واصل بن عطا کے شاگرد تھے اسی وجہ سے زیدیہ حسن و قبح کے حوالے سے اعتزال کی طرف مائل ہیں۔

    وہ بداء اور رجعت کے قائل نہ تھے اور تقیہ کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔[25]

    ان کا عقیدہ ہے کہ ہر فاطمی، خواہ امام حسن(ع) کی اولاد سے ہو خواہ امام حسین(ع) کی اولاد سے اور جو عالم، زاہد، شجاع اور سخی ہو بشرطیکہ امامت کا دعوی کرے، اور خروج کرے وہ امام ہے۔

    زیدی عقیدے کے مطابق ایک ہی وقت دنیا کے دو گوشوں میں دو اماموں کا خروج جائز ہے اور دونوں واجب الاتباع ہیں۔

    امام زیدؑ فاضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے تھے۔ یہ عقیدہ ناصر اطروش کے زمانے تک زیدیہ میں پایا جاتا تھا اور اس کے بعد، زیدیوں نے یہ عقیدہ ترک کردیا۔ 

    زیدیہ کے عقیدے کے مطابق عصمت امامت کی شرط نہیں ہے۔

    امامت میں وہ مہدویت کے قائل ہیں اور اسی بنا پر محمد نفس زکیہ نے منصور عباسی کے ساتھ اپنے مکاتبات میں اپنے آپ کو مہدی قرار دیا۔

    زیدی منزلۃ بین المنزلتین کے قائل ہیں۔ اسی بنا پر ان کا کا کہنا ہے کہ کبائر کا مرتکب شخص کافر ہے اور نہ ہی مسلمان بلکہ فاسق ہے۔

    وہ کفر کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: "کفر جحود" اور "کفر نعمت" اور ان کا عقیدہ ہے کہ جو بھی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجائے اور اس کا یہ عمل اس عقیدے پر مبنی ہو کہ وہ حلال اور جائز ہے، وہ شخص کافر اور مرتد ہے اور جو شخص کسی حرام عمل کو حلال سمجھے بغیر، اندرونی اور نفسانی تحرک پر انجام دے وہ گنہگار اور فاسق ہے اور اگر توبہ کیے بغیر مر جائے تو اہل دوزخ بھی ہے۔[26] اشعری نے اپنی کتاب مقالات الاسلامیین کے صفحہ 70 سے 75 تک زیدیوں کے ساتھ اپنے اعتقادی اختلافات بیان کیے ہیں۔

زیدیہ کے زعماء

     محمد بن محمد بن یحیی زبارۃ الحسنی نے اپنی کتاب " تاریخ الائمۃ الزیدیۃ فی الیمن حتی العصر الحدیث" میں مختلف صدیوں کے دوران زیدی مجددین کی ایک فہرست درج کی ہے جو حسب ذیل ہے:

    پہلی صدی ہجری کے مجدد (پہلے زیدی امام) امام زیدؑ بن علیؑ (دعوت122 ہجری)۔

    دوسری صدی ہجری، قاسم رسی (دعوت246 ہجری)۔

    تیسری صدی ہجری، ناصر الدین حسن بن علی الملقب بہ "اطروش" (دعوت 304 ہجری)۔

    چوتھی صدی ہجری، سرزمیں دیلمان اور طبرستان، احمد بن یحییٰ بن حسین (دعوت 325 ہجری)۔

    پانچویں صدی ہجری، سرزمین یمن، یوسف بن یحییٰ بن احمد (دعوت 403ہجری)۔

    پانچویں صدی ہجری، سرزمین یمن احمد بن حسین بن ہارون (دعوت 411 ہجری)۔

    پانچویںصدی، سرزمین دیلمان، یحیی بن حسین بن ہارون الملقب بہ "ابو طالب کبیر" (دعوت 424 ہجری)۔

    پانچویںصدی، سرزمین دیلمان، یحیی بن حسین بن اسحٰق جرجانی (دعوت 499 ہجری)۔

    چھٹی صدی ہجری، سرزمین گرگان و رے، یحیی بن احمد بن ابی القاسم الملقب بہ "ابو طالب صغیر" (دعوت 520 ہجری)۔

    چھٹی صدی ہجری، سرزمین دیلمان، احمد بن سلیمان بن محمد المعروف بہ "متوکل" (دعوت 566ہجری)۔

    ساتویں صدی ہجری، سرزمین یمن، عبداللہ بن حمزہ بن سلیمان المعروف بہ المنصور باللہ (دعوت614 ہجری)۔

    آٹھویں صدی ہجری، محمد بن مطہر بن یحیی الملقب بہ المہدی لدین اللہ (دعوت 729 ہجری)۔

    نویں صدی ہجری، احمد بن یحیی بن مرتضی (دعوت 840 ہجری)۔

    نویں صدی ہجری، علی بن صلاح الدین (دعوت 840 ہجری)۔

    دسویں صدی ہجری، یحیی شرف الدین بن شمس الدین (دعوت 965 ہجری)۔

    گیارہویں صدی ہجری، المنصورباللہ قاسم بن محمد بن علی (دعوت 1029 ہجری)۔

    بارہویں صدی ہجری، محمد بن احمد بن حسن (دعوت 1130 ہجری)۔

بارہویں صدی ہجری، یوسف بن متوکل (دعوت 1140 ہجری)۔

بارہویں صدی ہجری، علی بن عباس بن حسین (دعوت 1189 ہجری)۔

تیرہویں صدی ہجری اسماعیل بن احمد بن عبد اللہ الکبس (دعوت 1250 ہجری)۔

چودہویں صدی ہجری، محمد بن یحیی بن محمد (دعوت 1322 ہجری)۔[27]۔[28]
زیدیہ کی تحریکیں

زیدیوں کی تحریکوں کی کثرت، بالخصوص عباسیوں کی حکمرانی کے آغاز میں، اس قدرہے کہ ایک محقق کے بقول، اس زمانے میں جو بھی حکومت کے خلاف قیام کرتا اسے "زیدی" کہا جاتا تھا۔[29]
ابن جوزی کی روایت کے مطابق، زیدؑ بن علیؑ کی شہادت کے بعد یحییٰ بن زیدؑ نے جوزجان میں ولید بن یزید کے خلاف قیام کیا، محمد بن عبداللہ بن حسن (محمد نفس زکیہ) نے مدینہ میں اور نفس زکیہ کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ نے بصرہ میں قیام کیا؛ حسین بن علی بن حسن بن حسن، (صاحب فخ) نے حرمین میں قیام کیا اور واقعۂ فخ میں شہید ہوگئے۔ یحییٰ بن عبداللہ بن حسن بن حسن نے بھی قیام کیا اور محمد بن جعفر بن یحییٰ بن حسن نے تاہرت میں قیام کیا؛ محمد بن ابراہیم بن اسمعیل بن ابراہیم الغمر نے مامون عباسی کے دور میں کوفہ میں قیام کیا؛ ابراہیم بن موسیٰ بن جعفر نے اسی دور میں یمن میں قیام کیا؛ ان کے بیٹے جعفر بن ابراہیم نے ان کے بعد قیام کیا؛ محمد بن قاسم بن علی بن عمر نے طالقان میں قیام کیا، حسن افطس بن علی اصغر بن امام سجاد نے مدینہ میں قیام کیا؛ حسن بن زید نے طبرستان میں قیام کیا؛ حسین بن احمد المعروف بہ کوکبی، نے بھی قیام کیا، مستعین عباسی کے زمانے میں یحییٰ بن عمر بن زید میں قیام کیا اور اس قسم کی دوسری کئی تحریکیں زیدیوں کی قیادت میں بپا ہوئی۔[30]۔[31]
امام زید بن علی بن الحسین علیھم السلام کی شہادت کے بعد حکومت وقت کے خلاف زیدیوں کی مشہور تحریکیں حسب ذیل ہیں:
یحییٰ بن زید کا قیام

    یحییٰ بن زید شہید یحیی بن زید، جو اپنے والد کی شہادت کے بعد مدائن اور وہاں سے رے اور پھر سرخس فرار ہوگئے تھے، نے خراسان میں تبلیغ اور دعوت کا آغاز کیا۔[32]۔[33]

    عراق میں امویوں کے کارگزار نصر بن سیار نے انہیں گرفتار کرکے قیدخانے میں بند کیا اور وہ ہشام بن عبدالملک کے انتقال کے بعد رہا ہوگئے اور نیشاپور کے اطراف میں چلے گئے۔ انھوں نے وہاں نصر بن سیار کے لشکر کو شکست دی لیکن جوزجان کے نواح میں لڑی والی جنگ میں جام شہادت نوش کرگئے۔ بعض راویوں کا کہنا ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے انہیں خط لکھ کر قیام سے منع کیا تھا۔[34] خراسان کے عوام نے ان کی شہادت پر سات دن تک عزاداری کی۔[35]

عبداللہ بن حسن اور ان کے فرزند

سنہ 145 ہجری (بمطابق 762 عیسوی) (منصور عباسی کے دور حکومت کے پہلے عشرے کے آخر میں) مدینہ اور بصرہ میں دو تحریکیں انجام پائیں ان دونوں تحریکوں کی قیادت محمد بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابو طالب (محمد نفس زکیہ) اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کے ہاتھ میں تھی۔[36] عبداللہ زید بن علی بن حسین کی حیات میں ان کے قیام کی طرف مائل نہ تھے لیکن ان کی شہادت کے بعد عبداللہ بن حسن کے افکار بھی ان کی طرف مائل ہوئے اور انھوں نے اپنے بیٹوں کی تحریکوں کی راہبری اور راہنمائی کی۔

نفس زکیہ کا قیام

نفس زکیہ، محمد بن عبداللہ بن حسن کا لقب ہے۔ کچھ لوگوں نے ان کو مہدی موعود گردانا ہے۔ منصور دوانیقی اور سفاح عباسی نے عباسی سلطنت کے قیام سے قبل نفس زکیہ کے ہاتھ پر بیعت کی، یہ آپ کے داعی تھے اور وہ اپنے آپ کو منصور سے زیادہ لائق خلافت سمجھتے تھے۔ انھوں نے سنہ 145ہجری میں مدینہ میں قیام کیا اور انہیں امیرالمؤمنین کا لقب دیا گیا۔ منصور نے ان کو خط لکھا، انہیں امان دی اور ساتھ ہی انہیں دھمکی بھی دی۔ محمد نے منصور کے خطوط کو اہمیت نہ دی اور آخر کار منصور نے عیسیٰ بن موسیٰ کی سرکردگی میں ایک لشکر مدینہ روانہ کیا اور اہلیان مدینہ اور منصور کی سپاہ کے درمیان جنگ میں محمد نفس زکیہ مارے گئے اور ان کا سر کوفہ میں پھرایا گیا اور پھر منصور کے پاس لے جایا گیا۔[37]۔[38]

ابراہیم بن عبداللہ کا قیام

    جس وقت کوفہ اور مدینہ میں زیدیوں کی تحریکیں ناکام ہوئیں اور محمد بن عبداللہ قتل کئے گئے، ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ نے بصرہ میں اپنا قیام آشکار کردیا۔ وہ سنہ 143 ہجری (بمطابق 760 عیسوی) کے لگ بھگ بصرہ میں آ بسے تھے۔ انھوں نے اس شہر میں عیسیٰ بن زید بن علی کی مدد سے تحریک کا انتظام کیا اور زیدیوں اور بغداد کے معتزلیوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کی حمایت کی اور فارس، اہواز اور دوسرے علاقوں کے عوام نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کیا۔

     ابراہیم کی سپاہ اور عباسی خلیفہ کی سپاہ کے درمیان علاقہ باخمری میں گھمسان کا رن پڑا اور ابراہیم سمیت 400 زیدی اس جنگ میں شہید ہوئے۔[39]۔[40]۔[41]

شہید فخ کا قیام

    حسین بن علی نے سنہ 169ہجری (بمطابق سنہ 785ہجری) میں قیام کیا ۔یہ قیام محمد بن سلیمان کے ہاتھوں کچل دیا گیا۔ حسین بن علی مکہ سے چھ میل کے فاصلے پر فخ کے مقام پر شہید ہوئے۔ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بے سر جسموں کو صحرا میں برہنہ کرکے دفن کیے بغیر چھوڑ دیا گیا۔[42]۔[43]۔[44] تفصیل یہ کہ حسین بن علی بن حسن بن حسن(ع) (شہید فخ) نے عباسیوں کے خلاف قیام کیا۔[45]۔[46]۔[47] شہید فخ کی تحریک کی خصوصیت یہ تھی کہ آئمہ اہل بیتؑ نے اس قیام یا تحریک کی پیشنگوئی کی تھی۔ رسول اللہ(ص) کے ان  کے مقام شہادت پر نماز پڑھنا اور رونا اور اپنے خاندان کے ایک فرد کی اس مقام پر شہادت کی خبر دینا[48]۔[49]۔[50] اور امام موسی کاظم(ع) [51] کا حسین بن علی کو صالح اور روزہ دار اور آمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر کے عنوان سے متعارف کرانا[52] اور امام جواد(ع) کے زبانی ان کی تعریف و تمجید اور ان کی شہادت کے واقعے کو واقعہ کربلا کے بعد اہل بیت(ع) کے لیے دوسرا بڑا واقعہ قرار دینا اس تحریک کی دیگر خصوصیات ہیں۔[53] یعقوبی کے بقول، حسین بن علی آل ابی طالب پر بڑھتے ہوئے عباسی دباؤ کے باعث اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ عباسیوں کے خلاف مکہ کے قریب فخ کے مقام پر نبردآزما ہوئے اور ان کے بیشتر ساتھی منتشر ہوئے اور وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوئے۔[54] عباسی ملوکیت نے بھی اموی ملوکیت کا سیاہ کارنامہ دہرایا اور 100 شہیدوں کے سرہائے بریدہ کو مکہ میں حجاج و زائرین کے سامنے پھرایا جبکہ حسین بن علی کا سر آگے آگے تھا۔[55]

یحییٰ بن عبداللہ کا قیام

    ہارون کے دور خلافت (170 تا 193 ہجری/786 تا 808 عیسوی)، میں شہید فخ حسین بن علی، کے ایک ساتھی جو فخ کی لڑائی میں زندہ رہ گئے تھے نے سرزمین دیلم پہنچ کر زیدیوں کی ایک جماعت کے ہمراہ قیامی کیا۔ وہ جو کسی وقت زیدیہ بتریہ کی حمایت سے بہرہ ور تھے، کچھ عرصہ بعد اس حمایت سے بے بہرہ ہوئے؛ چنانچہ انھوں نے حکومت وقت کے ساتھ مصالحت کرلی۔[56]

ادریس بن عبداللہ

    ادریس بن عبداللہ بن حسن مثنی بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی جنگ فخ سے بچ نکلنے والوں میں سے ایک تھے جو سنہ 172 ہجری (بمطابق 788عیسوی) میں مصر اور وہاں سے مغرب (مراکش) فرار ہوئے؛ اور وہاں کے لوگوں کو اہل بیت اور زیدیہ کی حمایت کی دعوت دی۔ ادریس کو مغرب میں پذیرائی ملی اور انھوں نے آل ادریس کی حکومت کی بنیاد رکھی۔[57]

ابو السرایا کا قیام

    اس قیام کے بانی "سری بن منصور شیبانی" المعروف بہ ابو السرایا ہیں جو اپنے آپ کو ہانی بن قبیصہ بن ہانی بن مسعود شیبانی کی اولاد سمجھتے تھے۔ انھوں نے سنہ 199 ہجری (بمطابق 815 عیسوی) میں کوفہ سے اپنے قیام کا آغاز کیا۔ اور محمد بن ابراہیم علوی المعروف بہ ابن طباطبا کے نام اور "خوشنودی آل محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ" کے نعرے کی مدد سے اس شہر میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اور دیگر علاقوں میں اپنے ایلچی روانہ کئے؛ یہاں تک کہ حسین بن افطس اور محمد بن سلیمان کو حجاز اور ابراہیم بن موسی بن جعفر کو یمن رمانہ کیا اور خود کوفہ کے بعد بصرہ پر قابض ہوئے۔ ابوالسرایا کا قیام سنہ 200ہجری/815 عیسوی میں کچل دیا گیا۔[58]۔[59]

زیدیہ کی حکومتیں

    زیدیہ نے یمن کے علاقے صعدہ اور ایران کے علاقے طبرستان میں مستقل حکومتیں قائم کیں۔

یمن میں

    زیدیہ کی فراز و نشیب سے بھرپور حکومت کا مرکز یمن کا علاقہ "صعدہ" تھا،[60] جس میں کبھی کبھی عدن اور صنعا کے علاقے بھی شامل ہوجایا کرتے تھے۔[61] زیدی مذہب کی باقاعدہ یمن منتقلی کا کام امام حسن(ع) کے ایک پڑپوتے یحییٰ بن حسین بن قاسم المعروف بہ الہادی الی الحق نے سرانجام دیا۔[62] اور یہ حکومت سنہ 1960 عیسوی تک زیدیہ کے سلسلہ آئمہ کی قیادت میں قائم رہی۔ سنہ 1960 عیسوی میں عبدالرحمن الاریانی نے جمال عبدالناصر کی تحریک پر امام یحییٰ کے خلاف فوجی بغاوت کردی اور یوں یہ حکومت زوال پذیر ہوئی۔[63]

ایران میں

    ایران میں زیدیہ کی حکومت طبرستان اور دیلمان میں تشکیل پائی۔ اس سرزمیں مستقل حکومت کی تشکیل کی نسبت حسن بن زید کو دی جاتی ہے۔[64] حسن بن زید بن اسماعیل بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب(ع) جو داعی کبیر کہلاتے تھے، نے طبرستان میں جس حکومت کی بنیاد رکھی وہ سنہ 316ہجری تک قائم رہی۔ [65]

افریقہ میں

    ادریس بن عبداللہ بن حسن مثنی بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی جنگ فخ سے بچ نکلنے والوں میں سے ایک تھے جو سنہ 172 ہجری (بمطابق 788عیسوی) میں مصر اور وہاں سے مغرب (مراکش) فرار ہوئے؛ اور وہاں کے لوگوں کو اہل بیت اور زیدیہ کی حمایت کی دعوت دی۔ ادریس کو مغرب میں پذیرائی ملی اور انھوں نے آل ادریس کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ بربر قوم کا قبیلہ "اوبہ" نیز "زناتہ"، "زراعہ" اور "کناسہ" نامی قبائل سمیت عوام کے مختلف طبقات نے ان کا ساتھ دیا اور ان کی حکومت قیروان سے لے کر مغربی سمت میں بحر اوقیانوس تک پھیلے ہوئے مراکشی قبائل تک پھیل گئی۔ جو حکومت ادریس بن عبداللہ نے اس انداز سے قائم کی تھی وہ سنہ 172 ہجری سے 375 ہجری (788 سے 985عیسوی) تک قائم رہی اور اس خاندان اور اغالبہ نیز خوارج کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔[66]

زیدیہ کا مسکن

    یمن کے علاقے صعدہ میں آئمہ رسی کی حکومت (280 سے 700ہجری تک) نیز ایران کے علاقے طبرستان میں علویوں کی حکومت (250 سے 316 ہجری تک) کا تعلق زیدیہ سے تھا۔ یمن کے عوام کا مذہب زیدی ہے اور جمہوریت سے قبل ان کے امام کا مسکن صنعا میں تھا۔[67] موجودہ زمانے میں زیدیوں کا اصل مسکن ملک یمن ہے جہاں کی 45 فیصد آبادی شیعیان اہل بیت(ع) پر مشتمل ہے۔[68]

زیدیہ ایران میں

    اس کے باوجود کہ آئمہ زیدیہ کی کئی متقدم اور ناکام تحریکیں سرزمین ایران میں انجام پائیں لیکن زیدیوں کا مسلک امام زید بن علی بن حسین علیھم السلام کی شہادت (بسال 122ہجری/740عیسوی) کے بعد 100 سال تک اس ملک میں راسخ نہ ہو سکا۔ [69] زیدی تعلیمات کی تدریس کو سب سے پہلے امام قاسم بن ابراہیم رسی حسنی، (متوفٰی 246ہجری/860عیسوی) کے بعض پیروکاروں نے اس کی ترویج کی۔مغربی طبرستان، سرزمین رویان، کلار اور چالوس ایران میں پہلے زیدی مراکز قرار پائے۔[70] طبرستان میں علوی زیدیوں کی فرمانروائی دوسری بار سنہ 301ہجری/914عیسوی میں حسن بن علی اطروش المعروف بہ الناصر للحق کے ہاتھوں قائم ہوئی۔ انھوں نے دوسرے زیدیوں سے فقہی اختلافات اور شیعہ امامیہ کے ساتھ قربت کی بنا پر زیدیوں کی الگ جماعت بنام الناصریہ کی بنیاد رکھی۔ یہ جماعت رویان اور مشرقی دیلمان میں رائج قاسم اور ہادی کے پیروکاروں کی جماعتوں سے مختلف تھی۔[71] زیدیہ کی عظمت ایران میں آل بویہ کی حکومت کے دور میں عروج تک پہنچی۔[72] بحر خزر کے ساحل کے ٓائمہ زیدیہ کے درمیان ناصر کے بعد مشہور ترین زیدی علماء دو بھائی احمد بن حسین المؤید باللہ (متوفٰی 411ہجری/1020عیسوی) اور ابو طالب یحییٰ الناطق بالحق تھے جن کا تعلق خاندان بطحانی سے تھا۔ یہ دونوں کسی زمانے میں رے میں آل بویہ کے وزیر "صاحب بن عباد" اور ان کے معتزلی قاضی القضات "عبد الجبار ہمدانی سے تعلق اور وابستگی رکھتے تھے۔[73] شہر بیہق، بحر خزر کی ساحلی صوبوں سے دور مشرقی ایران میں زیدی مذہب کی تعلیمات کا مرکز تھا۔ "ابن فندق" نے لکھا ہے کہ بیہق کے رئیس ابو القاسم علی بن محمد بن حسین بیہقی نے جمادی الاول سنہ 414ہجری/جولائی سنہ1023 سے کچھ عرصہ قبل چار گروہوں؛ حنفیوں، شافعیوں، کرامیوں اور سیدوں اور ان کے پیروکاروں، معتزلیوں (عدلیہ) اور زیدیوں کے لیے چار مدرسے تعمیر کیے۔[74] بیہقی کے انتقال کے بعد زیدی مذہب ایران اور عراق میں رو بہ زوال ہوگیا اور کچھ ہی عرصہ بعد رویان اور دیلمان اور گیلان میں اپنے دور دراز کے الگ تھلگ ٹھکانوں کے سوا باقی علاقوں سے یکبارگی سے غائب ہوا؛ جبکہ الگ تھلگ علاقوں میں بھی اسماعلیہ اور اہل سنت کی پیشقدمی کی وجہ سے کافی حد تک کمزور ہوگیا؛ تاہم زیدیوں کی دونوں شاخوں یعنی ناصریہ اور مؤیدیہ کی چھوٹی جماعتیں سلطنت صفویہ کے آغاز تک برقرار رہیں اور ان دو جماعتوں کے پیروکار اپنی محدود تعلیمات کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے؛ صفوی فرمانروا شاہ طہماسب کے زمانے میں سنہ 933ہجری/1526عیسوی میں بحر خزر کے ساحلوں میں باقی ماندہ زیدیوں کی اکثریت نے مسلک امامیہ اثناعشریہ اختیار کیا۔[75]

1.     مفید، اوائل المقالات، ص39۔

2.    صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص63۔

3.    نوبختی، فرق الشیع، ص90۔

4.      جعفریان، اطلس شیعہ، 465۔

5.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، صص95-93۔

6.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص95۔

7.    نوبختی، فرق الشیعہ ص93-91۔

8.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص97-95۔

9.    شہرستانی، کتاب الملل و النحل، صص142-140۔

10.    اشعری، مقالات الاسلامیین، صص67-66۔

11.    طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ص236، نمبر شمار:429?۔

12.    وہ امام علیؑ کے ہوتے ہوئے حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کی خلافت کے لیے اسی عقیدے سے جواز فراہم کرتے تھے۔

13.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، ص100۔

14.    شہرستانی،کتاب الملل و النحل ، ص142-140۔

15.    اشعری، مقالات الاسلامیین، صص69-68۔

16.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، ص102-101۔

17.    شہرستانی، کتاب الملل و النحل، ص142-140۔

18.    اشعری، مقالات الاسلامیین، ص68۔

19.    عمرجی، الحیاۃ السیاسیۃ و الفکریۃ للزیدیۃ فی المشرق الاسلامی، صص92-90??۔

20.    شامی، تاریخ زیدیۃ در قرن دوم و سوم ہجری، ص249-248?۔

21.    مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، ص217۔

22.    قاسم بن محمد الزیدی المتوفی عام 1029، الاعتصام بحبل اللّہ۔

23.    مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، ص218۔

24.    صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص89-80۔

25.    مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، ص218۔

26.    صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص84۔

27.    زبارۃ الحسنی، تاریخ الائمۃ الزیدیۃ فی الیمن، ص10 13۔

28.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص90۔

29.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص67۔

30.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص67۔

31.    ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک ج7، ص212۔

32.     عمرجی، الحیاۃ السیاسیۃ و الفکریۃ للزیدیۃ فی المشرق الاسلامی، ص76-82۔

33.    شامی، تاریخ زیدیۃ در قرن دوم و سوم ہجری، ص 97-106۔

34.    عمرجی، الحیاۃ السیاسیۃ و الفکریۃ للزیدیۃ فی المشرق الاسلامی، ص78۔

35.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص69۔

36.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص70۔

37.    صابری، تاریخ فِرَقِ اسلامی، ج2، ص72-70۔

38.    ابن جوزی، المنتظم، ج8، ص68-63۔

39.    صابری، تاریخ فِرَقِ اسلامی، ج2، ص72۔

40.    البدء و التاریخ، ج6، ص86۔

41.    یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، صص379-376۔

42.    صابری، تاریخ فِرَقِ اسلامی، ج2، ص73۔

43.    تاریخ الیعقوبی، ج2، ص405۔

44.    ابن جوزی، المنتظم، ج7، ص213۔

45.    ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج9 ص90۔۔

46.    طبری، تاریخ الامم والملوک، ج8 ص192۔۔

47.    مسعودی، مروج الذہب، ج3 ص339۔۔

48.    بحارالانوار، ج 48 ص 170۔

49.    اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، ص290۔

50.    مامقانی، تنقیح المقال ، ج1 ص337 ذیل لفظ "حسین"۔

51.    امام موسی کاظم(ع) اور قیام فخ۔

52.    مجلسی، بحارالانوار، ج48 ص165۔

53.    شہدائے فخ کی شہادت کا واقعہ۔

54.    یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2 ، صص404-405۔

55.    تاریخ طبری؛ ج 8 ص 197۔

56.    صابری، تاریخ فِرَقِ اسلامی، ج2، ص73۔

57.    صابری، وہی ماخذ، ص74-73۔

58.    یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص445۔

59.    صابری، وہی ماخذ، ص75-74۔

60.    ابن خلدون، المقدمۃ، ص47?۔

61.    شامی، تاریخ زیدیۃ در قرن دوم و سوم ہجری، ص233۔

62.    نشار، نشأۃ الفکر الفلسفی، ج2، ص186۔۔

63.    شامی، تاریخ زیدیہ در قرن دوم و سوم ہجری، ص236۔

64.    صابری، تاریخ فِرَقِ اسلامی، ج2، ص78۔

65.    شامی، وہی ماخذ، ص236۔

66.    صابری، وہی ماخذ، ص74-73۔

67.     نوبختی، فرق الشیعۃ، ص90۔

68.    ویکی پیڈیا، زیدیۃ

69.    میڈیلونگ (Wilferd Ferdinand Madelung)، فرقہ ہای اسلامی، (Religious school and sects in medieval Islam) ص141۔

70.    میڈیلونگ، وہی ماخذ، ص142۔

71.    میڈیلونگ، وہی ماخذ، ص143۔

72.    میڈیلونگ، وہی ماخذ، ص144۔

73.    میڈلونگ، وہی ماخذ، ص145۔

74.    میڈلونگ، وہی ماخذ۔

75.    میڈیلونگ، وہی ماخذ، صص8-147۔

 

Share this content: