محرم الحرام کیلئے ملی یکجہتی کونسل کا پیغام

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

ملی یکجہتی کونسل کی سپریم کونسل کا اجلاس 5 اگست 2021ء کو جامع امام صادق علیہ السلام، اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت کونسل کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے کی۔ اس اجلاس کی میزبان مجلس وحدت مسلمین تھی۔ اجلاس میں تین سال کے لیے صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کو کونسل کا صدر اور جناب لیاقت بلوچ کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ اس اجلاس میں کونسل کی 22 رکن جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی، جن میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس، کونسل کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ، تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈا پور، امیر ہدیۃ الہادی پاکستان پیر ہارون علی گیلانی  سیکریٹری جنرل اسلامی تحریک پاکستان علامہ عارف حسین واحدی، سربراہ اسلامی جمہوری محاذ مولانا حافظ زبیر احمد ظہیر، جمعیت علمائے اسلام (سینئر)کے امیر پیر عبد الرحیم نقشبندی، تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ، جماعت اہل حدیث کے امیر حافظ عبد الغفار روپڑی۔

سربراہ متحدہ جمعیت اہل حدیث سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، تحریک اویسیہ کے سربراہ پیر غلام رسول اویسی، تحریک حرمت رسولؐ کے مرکزی راہنماء قاری یعقوب شیخ، تحریک جوانان پاکستان کے چیئرمین عبد اللہ حمید گل، امیر جماعت اہل حرم مفتی گلزار احمد نعیمی، چیئرمین علماء و مشائخ رابطہ کونسل خواجہ معین الدین کوریجہ، فلسطین فائونڈیشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم، جمعیت اتحاد العلماء کے امیر مولانا عبد المالک، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کے سیکرٹری جنرل پیر سید محمد صفدر گیلانی، مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی، امامیہ آرگنائزیشن کے نمائندہ خصوصی حمید الحسن رضوی، وفاق المدارس شیعہ کے راہنماء ڈاکٹر سید محمد نجفی، مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی اور دیگر راہنمائوں نے شرکت کی۔

راقم اجلاس میں کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے شریک ہوا۔ اجلاس کے آخر میں ملکی اور عالمی حالات کے تناظر میں ایک جامع اعلامیہ جاری کیا گیا۔ محرم الحرام کی آمد کے موقع پر اعلامیہ میں امام حسین علیہ السلام کے قیام اور ان کے پیغام کے حوالے سے بھی تمام دینی جماعتوں اور تمام مسالک کے بلند پایہ نمائندوں کا موقف ان الفاظ میں شامل کیا گیا: پوری ملتِ اسلامیہ ماہِ محرم الحرام میں احترام اور امن کو یقینی بنائے، کربلا کے شہداء خانوادہ رسولﷺ نے اسلامی اصولوں کی حفاظت کے لیے عظیم قربانیاں دیں۔ میدانِ کربلا میں حق اور باطل کا معرکہ، اہل ایمان کی مشترکہ طاقت ہے۔ حسینیت قرآن و سنت کا راستہ اور یزیدیت قرآن و سنت سے انحراف ہی انحراف ہے۔ ملی یکجہتی کونسل ماہِ محرم الحرام میں امن، وحدت اور یکجہتی کو یقینی بنائے گی۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ماہ محرم الحرام میں امن، باہمی احترام کو یقینی بنایا جائے گا اور فلسفہ شہادت حسینؑ کو عام کیا جائے گا۔ اعلامیہ کے آخر میں اسلامی تعلیمات کے احیاء کی جدوجہد اور عقائد کے بیان کے حوالے سے کونسل کی مجموعی حکمت عملی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، برداشت، اخلاقی قدروں کے احیاء، منبر و محراب کے انقلابی اور تبلیغِ دین کے جوہری کردار کے احیاء، شعائر اسلام کی حفاظت اور نظام مصطفٰیؐ کے نفاذ کی جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔ اتحاد امت کے لیے کونسل ضروری سمجھتی ہے کہ قرآن و سنت کی بالادستی، مودت اہل بیتؑ اور احترام صحابہؓ و امہات المومنینؓ کی بنیاد پر جدوجہد جاری رکھی جائے۔

یاد رہے کہ ملی یکجہتی کونسل، جس میں ایک طرف جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی جیسی جماعتیں شامل ہیں، وہاں دوسری طرف مختلف مسالک کی نمائندہ جماعتیں بھی موجود ہیں، جن میں بریلوی، شیعہ، دیوبندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کی جماعتیں شامل ہیں۔ مندرجہ بالا موقف ان سب کے نقطہ نظر کی نمائندگی کرتا ہے اور مذکورہ اجلاس میں بھی سب قائدین نے متفقہ طور پر اس اعلامیے کی منظوری دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امت کے پاس اتحاد کے حوالے سے کتنی اہم اور وسیع بنیادیں موجود ہیں۔ امام حسینؑ اور کربلا کے حوالے سے مذکورہ بالا عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسینؑ سے محبت کسی ایک مسلک کی میراث نہیں ہے بلکہ وہ ہر مسلمان کو محبوب ہیں، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو۔ علاوہ ازیں امام حسینؑ اور خانوادہ رسولؐ کی قربانیوں کا مقصد اسلامی اصولوں کی حفاظت قرار دیا گیا ہے۔ امام حسینؑ کو حق کا نمائندہ جب کہ یزید کو باطل کا نمائندہ قرار دیا گیا ہے۔ اعلامیہ کا یہ جملہ بھی بہت ایمان افروز ہے کہ حسینیت قرآن و سنت کا راستہ اور یزیدیت قرآن و سنت سے انحراف ہی انحراف ہے۔

ان حقائق کے واضح ہونے کے بعد اب اہل منبر کی ذمہ داری ہے کہ وہ امام حسینؑ کا تعارف مسلکی انداز سے نہ کروائیں۔ امام حسینؑ رحمۃ للعالمین اور خاتم النبیینؐ کے فرزند ہیں، ان کا کردار ساری انسانیت کے لیے حق کی حمایت کا پیغام رکھتا ہے۔ آپؑ نے باطل کو ٹھکرا دیا، اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ اپنے عزیز ترین اہل خاندان اور انصار کی قربانی پیش کر دی، لیکن ظلم اور استبداد کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ امام حسینؑ نے خود فرمایا کہ ظالموں نے مجھے دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے کہ یا میں یزید کی بیعت کروں اور یا اپنی جان قربان کر دوں، لیکن میں حق کا راستہ اختیار کروں گا اور قتل ہونا پسند کروں گا، ظلم کے سامنے سر نہیں جھکائوں گا کیونکہ یزید کی بیعت سراسر ذلت ہے اور ذلت ہم سے دور ہے۔ شعر کی زبان میں:کہنے لگے حسینؑ کہ اے ربِ دو سرا
دو راہے پر ہے ظالموں نے لا کھڑا کیا
ذلت کروں قبول یا پھر سرخ رو قضا
لیکن ترے حسینؑ کا بس اِک ہے فیصلہ
بیعت کا ہاتھ دوں گا نہ ہرگز یزید کو
تیری گواہی دینا ہے تیرے شہید کو


اعلامیہ میں امام حسینؑ کے قیام کے مقاصد کو قرآن و سنت کے مقاصد کا احیاء قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات خود امام حسینؑ کے بیان کیے ہوئے اہداف ہی سے ماخوذ ہے، ہم یہاں پر صرف ایک عبارت نقل کرکے قارئین سے اجازت چاہتے ہیں۔ امام حسینؑ نے اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کے نام اپنے قیام کے مقاصد بیان کرتے ہوئے لکھا: أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي  أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. "میں طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد اور ظلم کے لیے نہیں نکلا، میں فقط اور فقط اپنے نانا کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا اور اپنے والد علی ابن ابی طالب کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔”