اسماعیلیہ؛ ایک اجمالی تعارف (1)
اسماعیلی، شیعہ اثنا عشری کے پہلے چھ اماموں کی امامت کے قائل ہیں؛ بعد ازاں وہ امام جعفر صادق کے بعد اُن کے بڑے بیٹے اسماعیل یا اسماعیل کے بیٹے محمد کی امامت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اِس طرح وہ سات اماموں کی امامت کے قائل ہیں۔ یہ عقیدہ تمام اسماعیلی فرقوں میں مشترک ہے اور اسی لیے اسماعیلیہ کو سبعہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نام کی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی ہے کہ اسماعیلیہ، شیعہ اثنا عشریہ سے ساتویں امام پر اختلاف کرتے ہیں۔درج ذیل تحقیق مقالے میں البصیرہ کے محقق جناب مفتی امجد عباس نے اسماعیلیہ کے عقائد، نظریات، فرقوں ، دیگر مسلمانوں سے اختلافات اور امتیازات، بنی فاطمہ کی مصر میں حکومت اور اسی طرح کے موضوعات کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا ہے ۔مفتی امجد عباس اس سے قبل زیدیہ ، اباضیہ کے حوالے سے بھی ایسے ہی مضامین تحریر کر چکے ہیں ۔ یہ مضامین ان فرقوں کو جاننے کے لیے ایک اہم تعارفی منبع ہیں۔ (ادارہ)
اسماعیلیہ؛ قدیم زمانے سے اسلامی معاشرے کا حصہ چلے آرہے ہیں۔ یہ مکتبِ فکر، امام جعفر صادق کے بیٹے حضرت اسماعیل بن جعفر کی نسبت سے اسماعیلی کہلاتا ہے۔ پاکستان میں اس مسلک سے وابستہ دو گروہ آباد ہیں؛ ایک آغا خانی کہلاتا تو دوسرا بوہرہ کہلاتا ہے۔
اسماعیلی عام طور پر باطنی گروہ کے نام سے معروف ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں تاویل کے بارے میں اسماعیلیہ کے تمام گروہوں کا خاص مشرب ہے۔(1)
اسماعیلی، شیعہ اثنا عشری کے پہلے چھ اماموں کی امامت کے قائل ہیں؛ بعد ازاں وہ امام جعفر صادق کے بعد اُن کے بڑے بیٹے اسماعیل یا اسماعیل کے بیٹے محمد کی امامت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اِس طرح وہ سات اماموں کی امامت کے قائل ہیں۔ یہ عقیدہ تمام اسماعیلی فرقوں میں مشترک ہے اور اسی لیے اسماعیلیہ کو سبعہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نام کی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی ہے کہ اسماعیلیہ، شیعہ اثنا عشریہ سے ساتویں امام پر اختلاف کرتے ہیں۔(2)
ڈاکٹر زاہد علی لکھتے ہیں کہ فرقہ اسماعیلیہ حضرت امام جعفر صادق کے بعد اُن کے بڑے فرزند اسماعیل کو امام مانتے ہے۔ امام جعفر صادق کے سات فرزند تھے، جن کے نام اُن کی ترتیبِ عمر کے لحاظ سے یہ ہیں:
1: اسماعیل
2: عبد اللہ افطح
3: موسیٰ کاظم
4: محمد معروف بہ دیباج
5: اسحاق
6: عباس
7: علی عریضی
اِن میں سے پہلے چار فرزندوں نے امامت کا دعویٰ کیا، جس کی وجہ سے متعدد فرقے پیدا ہوگئے۔ اِن میں مشہور اور اہم فرقہ اسماعیلیہ اور فرقہ موسویہ (اثنا عشریہ) ہیں۔ امام اسماعیل اور امام موسیٰ کاظم کی امامت کے متعلق جو اختلاف واقع ہوا، اُس کی کیفیت شہرستانی نے اِس طرح بیان کی ہے:-
” ہم نے ذکر کیا ہے کہ فرقہ اسماعیلیہ، فرقہ موسویہ (اثنا عشریہ) سے علیحدہ ہے۔ کیونکہ وہ اسماعیل بن جعفر کی امامت کا قائل ہے۔ جعفر کے بڑے بیٹے اسماعیل ہیں، جن پر جعفر نے شروع میں نص کی تھی۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جعفر صادق نے اسماعیل کی والدہ کی موجودگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نہیں کیا اور نہ کوئی لونڈی خریدی، جس طرح رسول اللہؐ کا خدیجہؓ کی موجودگی میں اور علیؓ کا فاطمہؓ کی زندگی میں عمل رہا۔ اسماعیل کی موت کے متعلق اِن میں اختلاف ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسماعیل بے شک (جعفر صادق کی زندگی میں) انتقال کر گئے۔ مگر فائدہ اُن پر نص ہونے کا یہ ہوا کہ امامت ان کی اولاد میں منتقل ہوئی جس طرح موسیٰؑ نے ہارونؑ پر نص کی تھی۔ اس کے بعد ہارونؑ کا موسیٰؑ کی زندگی ہی میں انتقال ہو گیا۔ مگر فائدہ اُن کے منصوص ہونے کا یہ ہوا کہ امامت اُن کی ذریت میں منتقل ہوئی۔ کیونکہ نص اُلٹی واپس نہیں ہو سکتی اور بداء علیٰ اللہ محال ہے اور ایک امام دوسرے امام پر نص نہیں کرتا جب تک وہ کہ وہ اپنے منصوص کے متعلق اپنے آبا سے نہ سُن لے اور تعیین میں ابہام و جہالت کو کوئی دخل نہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسماعیل کا انتقال ہی نہیں ہوا، انھوں نے تقیہ کر کے اپنی موت مشہور کروائی تاکہ قتل سے بچ جائیں”۔
علامہ مجلسی نے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادقؓ نے اسماعیل کو اپنا جانشین بنایا تھا؛ لیکن ایک موقع پر وہ خلافِ شرع عمل کے مرتکب ہوئے۔ یہ دیکھ کر اُن کے والد برا فروختہ ہوئے اور امامت کا عہدہ موسیٰ کاظمؓ کی طرف منتقل کردیا۔ فرقہ اسماعیلیہ نے اسے نہ مانا۔
بہرحال فرقہ اسماعیلیہ کا یہ دعویٰ ہے کہ اسماعیل نے جن کی وفات 133 ہجری میں ہوئی، اپنے انتقال کے وقت اپنے بیٹے محمد پر نص کی جو اُس وقت موجود تھے اور جن کی عمر چھبیس سال کی تھی اور امامت کا سلسلہ اسماعیل کی اولاد میں جاری رہا۔ غرض امام جعفر صادق کے بعد شیعوں میں دو گروہ پیدا ہوگئے۔ ایک گروہ نے اسماعیل کی پیروی کی اور اسماعیلیہ کہلانے لگا۔ یہی گروہ آگے چل کر دولت فاطمیہ کا بانی ہوا۔ دوسرے گروہ نے جو پہلے گروہ سے تعداد میں بہت زیادہ تھا، موسیٰ کاظم کی پیروی کی اور موسویہ یا اثنا عشریہ کے نام سے مشہور ہوا۔(3)
تاریخ میں اسماعیلیہ کو مختلف ناموں مختلف القاب سے یاد کیا جاتا ہے؛ جیسے باطنیہ ، قرامطہ،تعلیمیہ،فاطمیہ ، سبعیہ، ملاحدہ ، حشیشیہ ، نزاریہ اور مستعلویہ۔
حضرت اسماعیل بن جعفر کی پیروی کرنے کی وجہ سے انھیں اسماعیلیہ کہا جاتا ہے اور چونکہ یہ کہتے تھے کہ قرآن وسنت کی ہر چیز میں ظاہر و باطن ہے اورظاہر بمنزلہ کھال اور باطن بمنزلہ مغز ہے اس لیے انھیں باطنیہ کہتے ہیں۔
ان میں سے بعض گروہ حمدان قرامطی کی پیروی کرتے تھے اس لیے انھیں قرامطہ کہا جاتا تھا۔
تعلیمیہ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حقیقی تعلیم کو فقط وقت کے امام سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
اِنھیں اِس مناسبت سے فاطمی کہا جاتا ہے کہ ان کے تمام ائمہ، فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اولاد سے ہیں۔
انھیں سبعیہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ائمہ کو شمار کرنے میں یہ سات ادوار کے قائل تھے اور ساتویں امام کو آخری دور سمجھتے تھے ۔
ظاہرِ شریعت کو ترک کرنے کی وجہ سے انھیں بعض نے ملاحدہ کا لقب دیا تھا۔ ملاحدہ، ملحد کی جمع ہے ، اس کے معنی بے دین کے ہیں ۔
انھیں حشیشیہ اس لیے کہتے ہیں کہ حسن صباح اور اس کے جانشین ، اسماعیلیوں کو حشیش کھلا کر اپنے مخالفین کو قتل کرنے پر مجبور کرتے تھے۔
اسماعیلیوں کا ایک گروہ مستنصر فاطمی کے بڑے بیٹے نزار کی امامت کا طرفدار ہو گیا؛ چنانچہ اُس گروہ کو نزاریہ کہا جانے لگا۔
اُس کے مقابل، اسماعیلیوں کا ایک گروہ مستنصر فاطمی کے چھوٹے بیٹے مستعلی کی امامت کا قائل ہوا، وہ مستعلیہ کہلائے۔
اسماعیلیہ کی ابتدائی تاریخ:
سید ثاقب اکبر لکھتے ہیں کہ شیعہ اسماعیلیہ کی ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بوہرہ دانشور ظ انصاری لکھتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کے دو بڑے فرقے ہیں،سنی اورشیعہ ۔شیعہ فرقے کی ایک شاخ اسماعیلی ہیں۔
شیعہ حضرت علی علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی جانشین اوران کا وصی مانتے ہیں۔ رسول کے بعد امام کو اپنی دین ودنیا کا رہنما سمجھتے ہیں۔ شیعوں کے عقیدے میں رسول خود اپنا نائب یا جانشین مقرر کرتا ہے اور وہی ان کا خلیفہ ہوتا ہے۔ نبوت رسول اللہ پر ختم ہوگئی۔ حضرت علی وصی رسول تھے، ان کے بعد حضرت حسن ہوئے ۔ پھر حضرت امام حسین،امام زین العابدین ،امام محمد الباقر اورپھر امام جعفر الصادق۔ یہاں تک تمام شیعہ متفق ہیں۔اس کے بعد اختلاف ہوا کہ امام جعفر صادق کا جانشین کون ہے ۔
امام جعفر الصادق کے بڑے صاحبزادے مولانا اسماعیل تھے اور چھوٹے حضرت موسیٰ کاظم،جنھوں نے امام کے چھوٹے بیٹے کو ،جو اپنے بڑے بھائی کے انتقال کے بعد زندہ رہے ،امام مانا اور اس سلسلے میں بارھویں امام حضرت مہدی تک گئے وہ اثنا عشری کہلاتے ہیں اورجو لوگ امام کے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل کی امامت کے قائل ہوئے وہ اس نسبت سے اسماعیلی شیعہ کہلانے لگے۔
اس تاریخی پس منظر میں اسماعیلیہ کے موجودہ دو گروہوں اسماعیلیہ نزاریہ اور مستعلیہ میں اس سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے نزاریہ حضرت امام علی کو پہلا امام اور حضرت امام حسین کو دوسرا امام تصور کرتے ہیں ان کے نزدیک امام حسن کی تکریم و تعظیم لازمی ہے اور وہ پنجتن پاک میں بھی شامل ہیں لیکن آپ امام (مستقر) نہیں ہیںجبکہ مستعلیہ امام حسن کو پہلا امام مانتے ہیں حضرت علی کو پہلا امام نہیں بلکہ ائمہ کا مبدا، اساس اور باب الابواب مانتے ہیں۔ چونکہ مذہب اسماعیلیہ (نزاریہ ومستعلیہ دونوں) سات مستقر ائمہ کے قائل ہیں اور حضرت محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق کی امامت پر متفق بھی ہیں، چونکہ حضرت محمد بن اسماعیل حضرت علی کی پشت میں آٹھویں نمبر پر آتے ہیں البتہ مندرجہ بالا نظریہ کے مطابق حضرت محمد بن اسماعیل ساتویں امام مستقر قرار پاتے ہیں۔حضرت علی کے بعد امام حسین کے امام ہونے کے بارے میں آغا خانی دانشور شیخ دیدار علی رقم طراز ہیں :
حضرت علی کی شہادت کے بعد ۲۱، رمضان ۴۰ھ/۲۸جنوری ۶۶۱ کو حضرت امام حسین مسند امامت پر جلوہ افروز ہوئے اس وقت کہ آپ کی عمر ۳۶ سال تھی۔
آخری امام کے مستور ہوجانے کے بارے میں بوہرہ دانشور ظ انصاری اپنا نظریہ یوں بیان کرتے ہیں:
اسماعیلی اورغیر اسماعیلی دونوں سلسلوں کے شیعوں کا اتفاق ہے کہ آخری امام مستور ہوگئے یا منظر عام سے ہٹ گئے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ اثنا عشری عقیدے کے بارھویں امام مہدی مستور ہوئے،وہ آج تک زندہ ہیں، آخر میں وہی ظاہرہوں گے اوردنیا کو شر سے پاک کریں گے۔ اسماعیلی عقیدہ اس کے برخلاف یہ کہتا ہے کہ امام اسماعیل کے فرزند امام محمد المکتوم کی نسل سے پشت درپشت امام پیدا ہوتے رہے۔ یہ” ائمہ فاطمیین“ کا سلسلہ کہلاتا ہے اور آج بھی جاری ہے وہ ہماری نظروں کے سامنے نہیں ہیں اورمحمد المکتوم کے بعد تین امام مستوررہے ، گیارھویں امام عبداللہ المہدی دور ستر سے باہر آئے اور سن ۲۹۶ھ(۹۰۹۔ ۹۱۰ء) میں سامنے آکر انتظام سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی۔ انھوں نے اوران کے جانشینوں نے دین اوردنیا کی سیاست میں ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ ان کی حکومت کم وبیش ڈھائی سو سال تک قائم رہی اور تاریخ میں‘‘فاطمیّین کی حکومت’’کے نام سے مشہور ہوئی۔ (4)
اسماعیلی فرقے اور اُن کی مختصر تاریخ
امام جعفر صادقؑ کی 148ھ میں شہادت کے بعد کچھ لوگوں نے اسمعیل کی وفات کا انکار کر دیا اور کہا کہ وہ امام غائب اور امام قائم ہیں اور امام جعفر صادق کی اسماعیل کی نماز جنازہ پڑھانے کی یہ تاویل کی کہ وہ اپنے بیٹے کی جان کی حفاظت کرنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے اسماعیل کی موت کا اعلان کیا تھا۔ نوبختی نے ان لوگوں کو ”اسماعیلیہ خالصہ“ کے نام سے یاد کیا ہے۔
یہ گروہ بہت جلد ختم ہو گیا۔
دوسرے گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے اپنی زندگی میں اسماعیل کو امام مقرر کیا تھا مگر وہ اپنے والد کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے اس لیے انھوں نے اسماعیل کے بیٹے محمد کو امام مقرر کردیا اور وہ امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ اس گروہ کو ”مُبَارکہ“ کہا جاتا ہے کیونکہ اس گروہ کے راہنما کا نام مبارک تھا۔
ایک عرصے کے بعد اس فرقے سے مزید دو فرقوں نے جنم لیا۔ کچھ لوگوں نے محمد کی امات کو تسلیم کیا اور منصب امامت کو ان کی اولاد کے ساتھ مخصوص سمجھا جب کہ دوسرے فرقے نے محمد کی وفات سے ہی انکار کر دیا اور ان کی غیبت کا عقیدہ اپنا کر انھیں امام قائم کا لقب دیا۔ ان لوگوں کو ‘‘قرامطہ’’ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا پیشوا “قرمطویہ” تھا۔
فاطمیین بھی اسماعیلیہ کا حصہ ہیں۔ وہ محمد بن اسماعیل کی نسل میں امامت کا سلسلہ جاری رہنے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ ائمہ کو ظاہر اور مستور اماموں میں تقسیم کرتے ہیں۔ سات ائمہ یعنی شیعہ اثنا عشریہ کے پہلے چھ ائمہ اور محمد بن اسماعیل کے بعد مستور اماموں کی امامت کو مانتے ہیں۔ یہ امام مستور طور پر لوگوں کو اسماعیلیہ کے احکام اور عقائد کی دعوت دیتے تھے۔ ان کے مستور ائمہ کے متعلق ہمارے پاس مستند معلومات نہیں ہیں۔ اس مرحلے کا آخری امام عبداللہ یا عبیداللہ تھا اور اس کا لقب مہدی باللہ تھا۔ اس نے 322ھ میں وفات پائی۔ وہ 286ھ میں اسماعیلیوں کا امام بنا تو اُس نے اپنی امامت اور دعوت کو ظاہر کیا۔ اس طرح ظاہری اماموں کا دور شروع ہوا۔
المہدی نے 297ھ میں مراکش میں فاطمی حکومت کی بنیاد رکھی۔ پھر 356ھ میں فاطمی حکومت مصر اور شام سمیت دنیائے اسلام کے ایک حصے پر تسلط کے ذریعے مزید وسیع ہو گئی اور 567ھ تک یہ حکومت پوری آب تاب کے ساتھ قائم رہی۔ پھر جب 487ھ میں ظاہری سلسلے کے آٹھویں امام مستنصر باللہ کی وفات ہوئی تو ان کے طاقتور وزیر افضل نے مستنصر کے ولی عہد نزار کو خلافت سے محروم کردیا اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے اس کے جوان بھائی مستعلی کو ان کی جگہ مقرر کیا تو اسماعیلیہ کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور وہ نزاریہ اور مستعلیہ فرقوںمیں تقسیم ہو گئے۔ مصر کی اسماعیلی جماعت کی اکثریت، یمن اور گجرات کی پوری اسماعیلی برادری شامل کے اسماعیلیوں کی ایک جماعت نے مستعلی کی امامت کو تسلیم کر لیا لیکن شام کی اسماعیلی جماعت کے بڑے گروہ اور عراق و ایران کے سارے اسماعیلیوں اور بدخشاں اور ماوراءالنہر کے اسماعیلیوں نے نزار کو ہی ان کے والد کا حقیقی جانشین تسلیم کیا۔
مستعلیہ فرقے کی تاریخ یہ ہے کہ جب مستعلی کے جانشین الآمرباحکام اللہ نے 524ھ میں وفات پائی تو یہ فرقہ ‘‘حافظیہ’’ اور ‘‘طیبہ’’ نامی دو شاخوں میں تقسیم ہو گیا۔ ‘‘الآمر’’ کی وفات سے کچھ عرصہ قبل اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اس نے ”طیب“ رکھا اور یہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا۔ پھر جب الآمر کی وفات ہوئی تو اس کا چچا زاد بھائی جس کا لقب ”حافظ لدین اللہ“ تھا وہ برسراقتدار آیا جن لوگوں نے اسے امام مانا انھیں ”حافظیہ“ کہا گیا اور جن لوگوں نے ”طیب“ کو امام مانا انھیں ”طیبیہ“ کے نام سے یاد کیا گیا۔
طیبیہ نے یمن میں اپنی تبلیغ شروع کی اور ہندوستان تک اس دعوت اور پھر طیبیہ مزید دو فرقوں ”داودی“ اور ”سلیمانی“ میں تقسیم ہو گیا۔
ہندوستان کے اکثرطیبی داودی ہیں اور یمن کے اکثر طیبی سلیمانی ہیں۔ جب 567ھ میں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں فاطمی حکومت ختم ہوئی اور آخری فاطمی حاکم العضد لدین اللہ کا انتقال ہوا تو ایوبیوں کے ہاتھوں ان کا خاتمہ ہو گیا۔
نزاریہ کی تاریخ یہ ہے کہ حسن بن صباح متوفی 518ھ کی قیادت میں الموت قلعے سے ان کی حکومت کا آغاز ہوا۔ حسن بن صباح نے مستنصر کی خلافت کے زمانے میں اس کی اجازت لی تھی تاکہ وہ ایران جا کر نزاریہ کی دعوت کو عام کرے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حسن بن صباح مستنصر کے ولی عہد نزار کا حامی تھا جب کہ مستنصر کا وزیر نزار کو حکومت سے محروم کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے حسن بن صباح کو مصر سے نکال دیا۔ بہرحال حسن بن صباح نے 487ھ میں الموت کے قلعوں پر قبضہ کر لیا اور ایران میں اسماعیلیہ نزاریہ حکومت کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس زمانے میں بیک وقت دو اسماعیلی حکومتیں قائم ہو چکی تھیں۔ ایک مستعلیہ فرقے کی حکومت تھی جو مصر اور شمال افریقا میں برسراقتدار تھی اور دوسری نزاری حکومت تھی جو ایران میں قائم تھی اور دونوں حکومتیں ایک دوسرے سے الگ الگ اپنا نظام چلا رہی تھیں۔
ایران میں اسماعیلیوں کی نئی حکومت کو ”دعوت جدید“ اور مصر کے فاطمیوں کی دعوت کو ”دعوت قدیم“ کہا جاتا ہے۔
الموت کے قلعوں پر حسن بن صباح کے جانشین حکومت کرتے رہے یہاں تک کہ ہلاکو خان نے 654ھ میں اس حکومت کا خاتمہ کردیا۔
اس واقعہ کے بعد نزاری مختلف علاقوں جیسے افغانستان، ایران اور برصغیر پاک وہند میں منتشر ہو گئے اور اس فرقے میں مستور ائمہ کا دور پھر سے شروع ہوا۔
28ویں نزاری امام شمس الدین محمد کی 710ھ میں وفات ہوئی تو نزاریوں میں پہلی دراڑ پڑی اور شمس الدین کے دو بیٹوں ‘‘مومن شاہ’’ اور ‘‘قاسم شاہ’’ میں والد کی جانشینی کا تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور ہر ایک نے نزاری جماعت سے وابستہ لوگوں کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی جس کے نتیجے میں نزاری جماعت دو دھڑوں ‘‘قاسم شاہی’’ اور‘‘محمد شاہی’’ میں تقسیم ہو گئی۔
محمد شاہی (مومنہ نزاری) کا آخری امام امیر محمد باقر تھا جس نے 1210ھ میں شام میں اپنے ماننے والوں سے آخری بار رابطہ کیا تھا۔ پھر اس کا کچھ پتا نہ چلا کہ وہ کہاں گیا۔ اس وقت مومنہ صرف شام میں پائے جاتے ہیں اور وہ جعفریہ کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ امیر محمد باقر کی نسل میں سے ایک مستور امام کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ لوگ شرعی احکام میں فقہ شافعی کے پیروکار ہیں جب کہ دوسرے نزاری گروہ یعنی قاسم شاہی کے اماموں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کو جاری رکھا یہاں تک کہ افشاری اورزندی عہد حکومت میں انھوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا بھی آغاز کیا۔
پھر قاچار حکومت کے دوران فتح علی شاہ قاچار نے قاسمی نزاری امام حسن علی شاہ کو ‘‘آغا خان’’ کا لقب دیا۔ یہ لقب موروثی طور پر ان کے جانشینوں کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا۔ کچھ عرصے بعد حسن علی شاہ نے قاچار حکومت سے باقاعدہ جنگ کی لیکن اسے شکست ہوئی اور وہ بھاگ کر افغانستان چلا گیا۔ اس طرح ایران میں قاسمی نزاری امامت کا دور اپنے اختتام کو پہنچا۔
اس کے بعد آغا خان اول نے ہندوستان پر قابض برطانوی راج سے تعلقات قائم کیے اور اس سے درخواست کی کہ اس فرقے کو برصغیر پاک وہند میں مذہبی آزادی دی جائے۔ اس وقت دنیا میں اسماعیلیوں کا یہی قاسمی نزاری گروہ وہ واحد اسماعیلی گروہ ہے جو عصر حاضر تک امامت کے تسلسل کا عقیدہ رکھتا ہے۔ پرنس کریم شاہ حسینی چہارم اُن کے 49 ویں امام ہیں۔
اس فرقے کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص برصغیر پاک وہند میں پایا جاتا ہے۔
جن فرقوں کو فاطمیین کا حصہ سمجھا جاتا ہے ان میں سے ایک دروزی فرقہ بھی ہے۔ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ چھٹے فاطمی امام الحاکم بامراللہ (متوفی 411ھ) مرے نہیں، غائب ہوئے ہیں اور ایک دن واپس آجائیں گے۔ یہ فرقہ ”الحاکم“ کے متعلق غلو کرتا ہے اور انھیں خدائی رتبے تک پہنچاتا ہے۔ اس لیے انھیں ”غلات“ کا ایک فرقہ سمجھا جاسکتا ہے۔(5)
مختصر یہ کہ اسماعیلیوں پر بہت سے ادوار گزرے ہیں اور یہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہوئے؛ تاہم ان فرقوں میں باطنیت ایک قدر مشترک رہی ہے ۔
اسماعیلیہ کے عقائد وافکار
امام جعفر صادق کے بعد تمام اسماعیلی آپ کے بڑے فرزند اسماعیل بن جعفر کی امامت کو قبول کرتے ہیں، پھر اُن کے نزدیک ائمہ مستور کا دور شروع ہوتا ہے جن کے اسماء یہ ہیں:
محمد بن اسماعیل
عبداللہ بن محمد
احمد بن عبداللہ
حسین بن احمد
ان ائمہ کے ناموں اورتاریخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ عباسیوں کے خوف سے ان کا مستور ہونا بیان کی جاتی ہے۔
شیخ دیدار علی، دورِ ستر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق کے بعد حضرت امام اسماعیل اور ان کے چند جانشین اماموں نے عباسی خلفاء کے اہلِ بیت پر ظلم و ستک کی وجہ سے نہایت ہی خفیہ طور پر زندگی بسر کی، یہ دور اسماعیلی تاریخ میں، دورِ ستر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دور حضرت امام اسماعیل علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے اور گیارہویں امام حضرت مہدی کے ظہور پر ختم ہوتا ہے۔ اس دور میں سوائے بڑے بڑے داعیوں کے، امام کی رہائش گاہ کا کسی کو علم نہ ہوتا تھا۔ حضرت امام جلد جلد اپنی رہائش گاہ تبدیل کرتے رہتے تھے، اس لیے بعض دفعہ بڑے بڑے داعیوں کو بھی حضرت امام کی تلاش میں بڑی تکالیف اٹھانی پڑتی تھیں۔ انھیں داعیوں کے ذریعے حضرت امام اپنے مریدوں کو ہدایت دیتے اور مذہب کی دعوت کرتے تھے۔ اس دور میں اسماعیلی داعیوں میں نہایت ہی جانفشانی سے اسماعیلی مذہب کی تبلیغ کی جس کی بدولت نہ صرف یہ کہ اسماعیلی دعوت ہند و پاک، یمن اور افریقہ جیسے دور دراز علاقوں میں پھیل گئی بلکہ یمن میں اسماعیلی داعی ابن حوشب (منصور یمن) کے ہاتھوں اسماعیلی حکومت قائم ہوئی اور حضرت ابوعبداللہ الشیعی نے شمالی افریقہ (مغرب) میں ۲۹۷ ھ (909ء) میں فاطمی خلافت کی بنیاد رکھی۔ (6)
ائمہ ستر کے بعد، اسماعیلیہ تمام فاطمی خلفا کی امامت کے قائل ہیں۔ جن کے نام یہ ہیں
۱۔ عبیداللہ المہدی(م:۳۲۲ ھ)
۲۔القائم بامراللہ (م:۳۳۴ ھ)
۳۔اسماعیل بن القائم المنصور(م:۳۴۱)
۴۔المعزلدین اللہ(م:۳۶۵)
۵۔العزیزباللہ(م:۳۸۶)
۶۔منصور ابو علی:الحاکم بامراللہ(م:۴۱۱)
۷۔ابوالحسن علی بن منصور الظاہر لاعزاز دین اللہ(م۴۲۷)
۸۔المستنصر باللہ (م:۴۸۷)
اسماعیلیوں کے ابتدائی عقائد
اسماعیلیوں کے ابتدائی عقائد پر بات کرتے ہوئے چند امور کی طرف توجہ ضروری ہے:
۱۔اسماعیلیوں کے مابین مختلف فرقوں کے ظہور سے پہلے کے تمام اسماعیلیوں کے ابتدائی عقائد میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ البتہ چند اصطلاحات کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ تاہم قرامطہ کے عقائد اور طریق ِکار میں فرق ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن یہ گروہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگیا اور موجودہ اسماعیلی گروہ بالعموم اپنے آپ کو ان سے الگ قرار دیتے ہیں۔
۲۔اسلام کے ظاہری عقائد اور احکام میں دور دراز کی تاویلات تمام اسماعیلی گروہوں میں پائی جاتی ہےں۔
۳۔باطنی تعلیمات کا تصور بھی تمام گروہوں میں موجود ہے۔
ہم ذیل میں معاصر آغا خانی دانشور فرہاد دفتری کی کتاب ”اسماعیلی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ“ سے ”اسماعیلیوں کے ابتدائی عقائد“ کے زیر عنوان دی گئی عبارت سے یہاں چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جس سے مندرجہ بالا امور کی تائید بھی ہوتی ہے اور ان کے ابتدائی عقائد کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے:
قدیم اسماعیلیوں نے مقدس الہامی کتب اور دینی اوامرونواہی کے ظاہری اورباطنی پہلوﺅں کے درمیان ایک بنیادی امتیاز پر زور دیا ہے۔ دوسریآٹھویں صدی میں جنوبی عراق میں رہنے والے شیعی گروہوں نے جن میں بعض شیعی غلات بھی شامل تھے اس امتیاز کی بنیاد پر بعض عقائد کی تشکیل پہلے ہی کی تھی جس سے سب سے زیادہ عملی استفادہ اسماعیلی نظام فکر میں ہوا ہے۔چنانچہ قدیم اسماعیلیوں کا کہنا تھا کہ الہامی کتب مقدسہ، خاص طور پر قرآن اور اس میں مقرر کیے ہوئے قوانین کے لفظی یا ظاہری معنی اور ان کے باطنی معنی یا صحیح روحانی حقائق میں جو ان کے باطن میں پوشیدہ ہیں ،فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ظاہریا کہ شرائع جن کا اعلان انبیاءنے کیا ہے زمانے کے ساتھ ساتھ تغیر کے مراحل سے گزرتے ہیں جبکہ باطن جو روحانی حقائق کا حامل ہے، ابدی اوراٹل ہے۔ یہ پوشیدہ حقائق تاویل یا تمثیلی تعبیر وتشریح کے ذریعے واضح کیے جاتے ہیں جو ظاہر سے باطن کے استخراج کا عمل ہے جس کے ذریعے قابلِ تشریح نظریات کو اپنی اصل کی طرف واپس لوٹایا جاتا ہے۔۔۔
قدیم اسماعیلیوں نے مزید یہ تعلیم دی کہ ہر دور میں روحانی حقیقت کے باطنی عالم تک رسائی صرف بنی نوع انسان کے خواص کو میسر آسکتی ہے جو عام لوگوں(عوام) سے ممیز ہیں اور عوام صرف ظاہر کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے مراد وحی کے ظاہری معنی ہیں۔ چنانچہ دورِ اسلام میں، جس کا آغاز حضرت محمد نے کیا ہے، دین کے ابدی حقائق کی وضاحت صرف ان افراد کے لیے کی جاسکتی ہے جنھیں باقاعدہ طور پر اسماعیلی جماعت میںشامل کیا گیا ہے اور انھوں نے حضرت محمد کے وصی علی ابن ابی طالبؑ اورامامانِ برحق کے اختیارِ تعلیم کو تسلیم کیا ہے جو ان کے جانشین ہیں،(اس لیے کہ دورِ اسلام میں تاویل کا واحد سرچشمہ صرف وہی ہیں)۔ قدیم اسماعیلیوں کی نظر میں تاویل کو مرکزی مقام حاصل تھا جس کی تصدیق اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ ان کے ادب کا ضخیم حصہ صنفِ تاویل پر مشتمل ہے جو اسماعیلی عقائد کے لیے قرآنی آیات میں جواز پیدا کرتا ہے۔
اسماعیلی مذہب میں داخل ہونے کا عمل جو”بلاغ“ کے نام سے معروف تھا اس وقت انجام پاتا تھا جب مبتدی بیعت کے ذریعے ایک پیمان لیتا تھا جو ”عہد“ یا ”میثاق“ کے نام سے معروف تھا۔یہ مبتدی اپنے اس پیمان کے ذریعے باطن کومخفی رکھنے کے پابند ہوتے تھے جو ان کے لیے امام کی طرف سے اجازت یافتہ معلمین کی حدود کے ذریعے ظاہر کیا جاتا تھا۔ چنانچہ باطن نہ صرف پوشیدہ تھا بلکہ(ایک)راز بھی تھا اوراس کا علم ان عام لوگوں یعنی غیر اسماعیلیوں سے جو اسے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اور دعوت کے ذریعے مدعو نہیں ہوئے تھے پوشیدہ رکھنا لازم تھا۔ اسماعیلی جماعت میں شمولیت کا عمل بتدریج انجام پاتا تھا جس میں حق تعلیم کے طور پر بعض رقوم کی ادائیگی بھی شامل تھی۔ کتاب العالم والغلام جو ان باقیماندہ قدیم اسماعیلی متون میں سے ہے جسے ابنِ حوشب، منصور الیمن یا ان کے فرزند جعفر سے منسوب کیا گیا ہے مذہب میں شمولیت کے اس عمل کے بارے میں انمول تفصیلات کی حامل ہے۔۔۔
قدیم اسماعیلی باطن اور اس میں موجود حقائق کو اعلیٰ مقام دینے کی وجہ سے باقیماندہ اسلامی معاشرے کی نظر میں اسلام میں باطن کا تصور پیش کرنے والی سب [سے] مقدم نمائندہ شیعی جماعت شمار ہونے لگے جس کی وجہ سے وہ ”باطنیہ“ کے عام لقب سے بھی ملقب ہوگئے۔ تاہم اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس لقب سے اسماعیلیوں کے مخالف منابع میں اکثر توہین کی غرض سے استفادہ کیا گیا ہے جو عموماً اسماعیلیوں پر ظاہر یا اسلام کے اوامر ونواہی کو نظرانداز کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ دستیاب شواہد، جن میں اسماعیلی میثاق نامہ کے جزوی متون بھی شامل ہیں واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ قدیم اسماعیلیوں کو کسی بھی مفہوم میں شریعت اوراس کی رسوم واحکام کی پابندی سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا تھا۔اس کے برعکس قدیم اسماعیلی تعلیمات ظاہر اورباطن،یعنی دونوں کو لازم و ملزوم سمجھتی ہیں اوردونوں کو مساوی طور پر اہمیت دیتی ہیںجو ایسے نظریات ہیں جن کی بعد میں فاطمی دور کی اسماعیلی تعلیمات اورمتون میں مکمل طور پر وضاحت کی گئی ہے۔ایسا دیکھائی دیتا ہے کہ قدیم اسماعیلیوں پر لگائے جانے والے اباحت یا اخلاقی قوانین کی خلاف ورزی کے ان الزامات کی جڑیں ان کے دشمنوں کی مخالفتوں میں پائی جاتی ہیں جنھوں نے قرمطیوں،بالخصوص بحرین کے قرمطیوں کے خلافِ اسلام نظریات اوراعمال کے لیے بھی پوری اسماعیلی تحریک کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔۔۔
اسماعیلی اس بات کی تعلیم دیتے تھے کہ ابدی حقائق جو باطن میں مخفی ہیں درحقیقت اس ابدی پیغام کی نمائندگی کرتے ہیں جو یہودیت، مسیحیت اوراسلام میں مشترک ہے۔ تاہم توحید کے قائل ادیان کے حقائق جن کو قرآن میں تسلیم کیا گیا ہے مختلف ظاہری قوانین کے تحت جو بدلتے ہوئے حالات زمانہ کے لیے لازم تھے ،پردہ اخفا میں رہے ہیں۔ قدیم اسماعیلیوں نے جو اپنے اس جامع اورکلی نقطہ نگاہ سے بخوبی باخبر تھے ان حقائق کی ایک عرفانی نظامِ فکر کے طور پر وسیع تر مفہومات کی نشوونما کی، ایک ایسا نظام جو روحانی حقیقت کی ایک نفیس اور ممتاز اسماعیلی باطنی دنیا کی نمائندگی کرتا تھا۔ اس نظام کے دواصل حصے تھے جن میں سے ایک رسالت کی ایک دَوری تاریخ تھی اوردوسرا کو نیات کا ایک عرفانی عقیدہ۔
۲۸۰ھ ۔ ۸۹۰ء کے ابتدائی عشرے تک اسماعیلیوں نے پہلے ہی بنی نوع انسان کی دینی تاریخ اور وقت کی ایک دَوری تشریح کی نشوونما کی تھی جس کا اطلاق انھوں نے یہودی اورمسیحی الہامی ادیان کے علاوہ اسلام سے قبل کے بعض دوسرے ادیان پر بھی کیا تھا۔ ان کے پاس زمان کا ایک خاص نیم دوری اورنیم خطی تصور تھا۔ وقت سے مراد پے درپے چکروں یا ادوار کا ایک سلسلہ تھا جو آغاز وانجام کاحامل تھا۔ اسماعیلیوں نے زمان کے اپنے التقاطی نقطہ نگاہ کی بنیاد پر جس سے یونانی،یہودی ومسیحی اورعرفانی اثرات کے علاوہ شیعوں کے معادیاتی نظریات کی بھی عکاسی ہوتی تھی، مختلف انبیاء کے ادوار کے مفہوم میں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے دینی تاریخ کے ایک خاص نقطہ نگاہ کی نشوونما کی۔ اس نقطہ نگاہ کا تعلق ان کے عقیدہ امامت کے ساتھ بھی تھا جو انھیں اصلاً قدیم امامی شیعوں سے ورثے میں ملا تھا۔
اپنے دَوری نقطہ نگاہ کے مطابق اسماعیلیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بنی نوع انسان کی دینی تاریخ نبوت کی مختلف مدتوں کی حامل سات ادوار کے ذریعے تشکیل پاتی ہے جن میں سے ہر دور کا آغاز ایک پیغمبر”ناطق“نے الٰہی وحی کے ذریعے کیا ہے جو اپنے ظاہری پہلو کے لحاظ سے ایک دینی قانون یا شریعت کی حامل ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ کے سابق چھ ادوار کے نطقاء (ج ناطق) میں آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسےٰؑ،عیسےٰؑ اورمحمد شامل تھے۔ ان نطقاءنے اپنی وحی کے ظاہری پہلو کا اعلان کیا تھا جس میں اس کے مذہبی رسوم اوراوامر ونواہی شامل تھے۔ تاہم انھوں نے اس کے باطنی معنی کی تعبیر وتشریح نہیں کی تھی۔ اس مقصد کے لیے ہر ناطق کا ایک جانشین ہوا کرتا تھا جو وصی کہلاتا تھا جسے صامت اوربعد میں اساس بھی کہا گیا ہے جو اس دور کے (الٰہی) پیغام کے باطنی پہلو میں موجود باطنی حقائق کا صرف چیدہ چیدہ افراد کے لیے اظہار کرتا تھا۔ انسانی تاریخ کے سابق چھ اوصیاءمیں شیثؑ، سامؑ،اسماعیلؑ،ہارونؑ،شمون الصفا اورعلی ابن ابی طالبؑ شامل تھے۔ ہر دور میں ہر وصی کے جانشین باری باری سات ائمہ ہوا کرتے تھے جنھیں اتمائ(واحد متم یعنی تمام کرنے والا) کہا جاتا تھا جو الہامی کتب کے حقیقی معنی اورشریعت کے ظاہری اور باطنی یعنی دونوں پہلوﺅں کے محافظ ہوا کرتے تھے۔ ہر دور کا امام ہفتم (یامتم) ارتقاءحاصل کرتا تھا اورآنے والے دور کے ناطق کے رتبے پر فائز ہوتا تھا جو سابق دورکی شریعت کو منسوخ کرتا تھا اورایک نئے دورکی شریعت کااعلان کرتا تھا۔ یہ طریق کار صرف تاریخ کے آخری دور یعنی دور ہفتم میں تبدیل ہونے والا تھا۔
دورِ ششم میں جو دور اسلام ہے محمد ابن اسماعیلؑ امام ہفتم تھے جو بحیثیت مہدی ستر میں چلے گئے تھے۔ اپنی بازگشت کے بعد انھیں ناطق ہفتم بننا تھا اوردور آخر کا آغاز کرنا تھا۔ تاہم سابق نطقاءکے برعکس محمد ابن اسماعیلؑ اسلام کی مقدس شریعت کی جگہ کوئی نئی شریعت لانے والے نہیں تھے۔ اس کی بجائے، جیسا کہ امید کی جاتی تھی آخری معادیاتی دور میں، ان کا مشن تمام سابق الہامات میں موجود تاہنوز مخفی باطنی حقائق کا تمام بنی نوع انسان کے لیے مکمل طورپر اظہار کرنا تھا۔ چنانچہ محمد بن اسماعیل کے اندر ناطق اور وصی،یعنی دونوں مرتبے یکجا تھے اوراماموں کے آخر میں معادیاتی امام مہدی بھی بننے والے تھے۔ خالص روحانی علم اس کے آخری ہزار سالہ دور میں ”حقائق“ تمام حجابات اورامثال سے مکمل طور پر آزاد ہونے والے تھے۔ مہدی کے اس مسیحائی دور میں ظاہر اور باطن اورشریعت کے لفظ اوراس کی باطنی روحانیت کے درمیان کوئی فرق باقی رہنے والا نہیں تھا۔ محمد ابن اسماعیل اپنے ظہورکے ساتھ اختتام زمان کا اعلان کرنے والے اورجسمانی دنیا کے اختتام سے قبل عالم پر عدل وانصاف سے حکومت کرنے والے تھے۔۔۔
قدیم اسماعیلی نظامِ حقائق کا دوسرا اہم حصہ کونیات کا ایک خاص نظام تھا۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آفرینش جہاں کے اس عقیدے کا،جو تیسرینویں صدی میں پروان چڑھا تھا قدیم اسماعیلی حلقوں میں زبانی طور پر پرچار کیا جاتا تھا۔ بہرکیف،کسی بھی معلوم قدیم اسماعیلی متن میں اصل کونیات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ ان ناقص اورمنتشر شواہد اورمتون کی بنیاد پر جو بعد کے متون اورتحریروں، بالخصوص ابوعیسےٰ المرشد کے رسالے میں باقی رہے ہیں جو فاطمی خلیفہ امام المعزلدین اللہ(م ۳۶۵ھ) کے زمانے میں فاطمی مصر کے دعاة اورقضاة میں سے تھے، نیز بعض فاطمی منابع کے حوالوں اوران اشارات کی مدد سے جو یمن میں لکھے ہوئے بعض ہم عصری زیدی متون میں پائے جاتے ہیں۔۔۔
اس قدیم کونیاتی عقیدے کے مطابق خدا اس وقت بھی موجود تھا جب نہ مکان تھا نہ ازل نہ ابد اورنہ زمان۔ باری تعالےٰ نے سب سے پہلے اپنے ارادے اورمشیت کے ذریعے ایک نور پیدا کیا اوراس سے قرآن کی تخلیقی صیغہ امر یعنی”کن“ کے ذریعہ خطاب کیا جس کے نتیجے میں خلقت معرضِ وجود میں آئی۔ ”کن“ نے اپنے دونوں حروف،”کاف“ اور”نون“ کو مثنیٰ بنا دیا اوراپنی مونث شکل حاصل کی اور ”کونی“ بن گئی۔ ”کونی“ نے جو مخلوق اول اور”سابق“ کے نام سے بھی موسوم ہے باری تعالےٰ کے امر سے اپنے نور سے مخلوق دوم کو پیدا کیا، جو”قدر“کے نام سے موسوم ہے، تاکہ اس(کونی) کے وزیر اورمعاون کا کردار ادا کرے۔ ”قدر“ نے جو”تالی“ کے نام سے بھی موسوم ہے ”کونی“ کے برعکس، جسے مادئہ اصل کا مقام حاصل ہے،نر اصل کی نمائندگی کی۔ چنانچہ”کونی“ اور”قدر“ تخلیق کے دواولین اصول تھے جنھیں قرآنی اصطلاحات”قلم“ اور ”لوح“ کا مماثل بنایا گیا ہے۔ باری تعالےٰ نے ”کونی“ کے ذریعے تمام اشیاءکو معرض وجود میں لایا اور”قدر“ کے ذریعے انھیں معین کیا۔۔۔
اس اولین جفت یعنی‘‘کونی’’اور‘‘قدر’’ کے عربی نام سات حروفِ صحیح پر مشتمل تھے جنھیں”الحروف العلویہ“ بھی کہا گیا ہے۔ ان کی تعبیر سات نطقاءکی امثال اولیّہ کی حیثیت سے کی گئی ہے جس کا آغاز ‘‘کاف’’ سے ہوتا ہے جو آدم کی مثال ہے اور‘‘را’’ پر اختتام کو پہنچتا ہے جو قائم یا مہدی کی مثال ہے۔ ان ہی اصلی حروف ہفتگانہ سے دوسرے تمام حروف اورناموں کا ظہور ہوا ہے اورناموں کے ساتھ بیک وقت ان حقیقی اشیاءکا بھی ظہور ہوا ہے جن پر وہ(نام)دلالت کرتے ہیں۔ باری تعالےٰ کے فعلِ خلاق نے اس اولین جوڑے کے توسط سے سب سے پہلے موجوداتِ عالم روحانی یعنی مبدعات کو معرض وجود میں لایا۔ ”کونی“ نے اپنے نور سے سات ناطقوں کے مقابلے میں سات ”کروبیہ“ کو پیدا کیا اورانھیں ”اسماءباطنیہ“ عنایت کیا جن کے معنی صرف”اولیاءاللہ“ اوروہ مخلص مومنین، یعنی اسماعیلی ہی سمجھ سکتے تھے جو ان(اولیاءاللہ=ائمہ) کی اطاعت کرتے تھے۔ اس کے بعد”قدر“ نے ”کونی“ کے حکم پر اپنے نور سے بارہ موجودات روحانیہ کو پیدا کیا اوران[ کے ]سنام نہی کی۔ ان روحانی موجودات میں سے کئی ایک کے نام اسلام کے تصورملائکہ سے ماخوذ ہیں جن میں (بہشت کا نگہبان) رضوان اور(دوزخ کا داروغہ) مالک اورتدفین کے بعد سوال کرنے والے دو فرشتے منکر اورنکیر شامل ہیں۔ یہ روحانی موجودات ”قدر“ جو مخلوقات کے سامنے”کونی“کا حجاب ہے اورانسانی تاریخ کے انبیاءناطق اورائمہ کے درمیان وسائط کا کردارادا کرتے ہیں۔ اوّلین تین روحانی موجودا ت کو جو ”جد“ (بختِ نیک)،”فتح“ (کشایش) اور”خیال“ (سوچ،خیال) کے نام سے موسوم ہیں اورجنھیں اسلام کے ملائکہ مقرب یعنی جبرائیل، میکائل اوراسرافیل کا مماثل بنایا گیا ہے، روحانی عالم اورجسمانی عالم میں حدود دین کے درمیان وسائط کی حیثیت سے نمایاں کردار حاصل ہے۔ دراصل یہ تین روحانی موجودات ”کونی“ اور”قدر“ کے ساتھ ملکر پانچ ارکان کی ایک اہم جماعت تشکیل دیتے ہیں جو قدیم اسماعیلیوں کی کونیات کو بنی نوع انسان کی دینی تاریخ کے دَوری نظریے سے ہم آہنگ بنا دیتی ہے۔یہی کونیاتی اصل عالم سفلی میں جسمانی دنیا کی خلقت کا بھی ذمہ دار شمار ہوتی ہے۔مادی دنیا کی خلقت بھی”کونی“ اور”قدر“ کے توسط سے ہوتی ہے جس کا آغاز ہوا اورپانی سے ہوا ہے جن کو باطنی طور پر قرآنی اصطلاحات ”عرش“ اور”کرسی“ کا مماثل بنایا گیا ہے اوراس کے بعد سات آسمان، زمین، سات سمندر وغیرہ کی خلقت ہوئی ہے۔
اس کونیات میں جسمانی اورروحانی عالم کے درمیان کئی متوازیات پائی جاتی ہیں۔ عالم علوی کی تقریباً ہر چیز عالم سفلی کی کسی چیز سے مطابقت رکھتی ہے،مثلاً”کونی“ کا مماثل سورج ہے، ”قدر“ کا چاند، سات کروبیہ کا سات آسمان اوربارہ موجودات روحانی اوربارہ منطقة البروج میں مطابقت پائی جاتی ہے۔ قدیم اسماعیلی کونیات میں تصور نجات کا بھی ایک کلیدی مقصد تھا۔ انسان، جو ایسا نظر آتا ہے کہ عمل تخلیق کے آخری سرے پر ہے، اپنی اصل اور اپنے خالق سے دور ہوا ہے۔ چنانچہ اس کونیات کا مقصد اس فاصلے کو ہٹانے کا راستہ دکھانا اورانسان کو نجات سے ہمکنار کرنا تھا۔ یہ مقصد صرف اس وقت حاصل ہوسکتا تھا جب انسان اپنی اصلیت سے واقف ہو اورباری تعالےٰ سے دوری کی وجوہات کا علم (یونانی میں GNOSIS) حاصل کرے جو ایک ایسا علم تھا جسے اللہ تعالےٰ کی طرف بھیجے ہوئے انبیا(نطقاء) اسے اس کے اصل منبع سے دے سکتے تھے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔(7)
معروف بوہرہ دانشور ڈاکٹر زاہد علی ہمارے مندرجہ بالا بیان کیے گئے نکات کی متعدد باتوں کی تائید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں :
حقیقت یہ ہے کہ اسماعیلی مذہب کی ابتدائی بناءاس اصول پر ہے کہ آنحضرت صلعم نے ظاہری شریعت وضع فرمائی اور مولانا علیؑ نے اس کے باطن یعنے تاویل کی تعلیم شروع کی۔ آپ کے بعد چھ امام یعنے مولانا حسنؑ، مولانا حسینؑ، مولانا علی زین العابدینؑ، مولانا محمد باقرؑ، مولانا جعفر صادقؑ اور مولانا اسماعیلؑ ہوئے جنھوں نے باطنی تعلیم کی تکمیل کی۔ اس لیے یہ ‘‘ائمہ مُتمین’’ کہلاتے ہیں۔ ساتویں امام مولانا محمد بن اسماعیل جو سابع المتمین، خاتم الائمہ، قائم الاتما، سابع الرسل اور سابع النطقاءکہے جاتے ہیں آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے شریعت محمدی کے ظاہر کو معطل کردیا۔ آپ نے محمد المصطفیٰ کے دور کو پورا کیا اور آپ سے ساتواں دور شروع ہوا جس سے عالم طبیعت کی انتہا اور دور روحانی کی ابتدا ہوئی۔ آپ کی نسل سے جو ائمہ ہوئے اور قیامت تک ہوں گے وہ سب خلفاءقائم ہیں۔ جو قائم کی دعوت کے فرائض ادا کریں گے۔ ان میں سے اگر کسی خلیفہ کو موقع ملے تو وہ قائم کی حیثیت سے ظہور فرمائیں گے اور تاویل یعنے علم باطن ظاہر کرکے تمام دنیا کو اسماعیلی مذہب کا پیرو بنائیں گے۔ چنانچہ داعی الدعاة قاضی القضاة سیدنا نعمان بن محمد نے مولانا معز اور مولانا حاکم کے متعلق یہ پیشین گوئی کی تھی اور ثقة الامام علم الاسلام کا قل قضاة المسلمین و ہادی دعاة المومنین سیدنا بدر الجمالی نے مولانا مستنصر کے بارے میں یہ امید ظاہر کی تھی۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اسماعیلی تعلیم کی بڑی خصوصیت راز داری اور پوشیدگی ہے بلکہ اس کی بنا ہی اسی پائے پر قائم ہے۔ سیاسی مصلحتوں اور ملکی اغراض کے باعث ہم اپنے اصلی عقیدے اپنی دعوت کے بڑے بڑے ارکان کے سوا کسی دوسرے کو نہیں بتاتے تھے کیونکہ ہماری عام رعایا کا مذہب سنی تھا۔ اس لیے ہم نے عام لوگوں کو جو تعلیم دی وہ اس تعلیم سے بالکل الگ تھی جو خاص خاص ارکان دعوت کو دی جاتی تھی۔ بلکہ خود اسماعیلیوں میں بھی مستجیبوں یعنی ابتدائی مدارج کے مومنوں کو وہ بھید نہیں بتائے جاتے تھے جو بالغوں کو بتاوے جاتے۔ یہ اصول ”حی علی الصلوة“ اور ”حی علی الفلاح“ کی تاویل پر مبنی ہے۔ غرض کہ ہم اسماعیلیوں نے اپنے عقیدوں کو دعوت کے اندرونی حلقے تک ہی محدود رکھا۔ اس طرز عمل کی اتنی شدت سے پابندی کی گئی کہ خود سیدنا نعمان جیسے مشہور و معروف جلیل القدر داعی الدعاة اور قاضی القضاة کو جو قضا کے ظاہری عہدے پر مامور تھے سیدنا جعفر بن منصور الیمن کی تصنیفوں کی خبر نہ تھی جو مولانا معز کے باطنی حلقے کے باب الابواب تھے۔(8)
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔ پاکستان کے دینی مسالک: ثاقب اکبر، اسلام آباد، البصیرہ، ط3، 2015ء۔ صفحہ 326
2۔ اسلامی مذاہب: ڈاکٹر رضا برنجکار، اردو ترجمہ: محمد حسن جعفری، کراچی، جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ، ط1، 2015ء۔ صفحہ 131
3۔ تاریخِ فاطمیینِ مصر: ڈاکٹر زاہد علی، کراچی، میر محمد کتب خانہ۔ صفحہ 7تا 9
4۔ پاکستان کے دینی مسالک، صفحہ 328، 329
5۔ اسلامی مذاہب، صفحہ 133۔ 137
6۔ تاریخ ائمہ اسماعیلیہ: عالیجاہ شیخ دیدار علی، کراچی، شیعہ امامی اسماعیلی طریقہ اینڈ ریلیجس ایجوکیشن بورڈ برائے پاکستان، 2006ء۔ صفحہ 153۔ 154
7۔ پاکستان کے دینی مسالک، صفحہ 342۔ 348
8۔ ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام: ڈاکٹر زاہد علی، کراچی، مکتبہ بینات۔ مقدمہ، س تا ل