امام حج کے طور پر صیہونی امام کا تعین
سعودی عرب میں عموماً خطبہ حج امام کعبہ جاری کرتے ہیں، تاہم اس مرتبہ خطبہ حج کے لیے رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد العیسیٰ کا انتخاب کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد العیسیٰ رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ہونے کے علاوہ سعودیہ کے علماء کی کونسل کے سربراہ بھی ہیں اور ان کی ایک اور خاصیت ان کا صیہونی امام ہونا ہے۔ صیہونی امام کا لقب ڈاکٹر محمد العیسیٰ کو اسرائیلی اخبار دی ٹایمز آف اسرائیل نے دیا۔ ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے جنوری 2020ء میں پولینڈ میں قائم نازی کیمپ کا دورہ کیا اور وہاں موجود صیہونیوں سے ملاقاتیں کیں۔ اسرائیل نے ڈاکٹر العیسیٰ کے اس دورے کو سراہا تھا۔ محمد العیسیٰ کئی ایک یہودی اداروں اور تنظیموں سے خطاب کرچکے ہیں، وہ یہودی رابیوں کو ریاض آنے کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے ذیل میں ڈاکٹر محمد العیسیٰ کا کہنا ہے کہ یہودی بھی اہل کتاب ہیں اور مسلمانوں اور یہودیوں کو مل کر دنیا کے امن و امان کے لیے کوشش کرنی چاہیئے۔ ڈاکٹر محمد العیسیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جرمن نازیوں نے یہودیوں پر بہت مظالم کیے، وہ اپنے خطابات میں جرمن نازیوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور ہولوکاسٹ کا انکار کرنے والوں کو مجرم قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے 2020ء میں امریکن جیویش کونسل سے خطاب میں کہا کہ میں نے رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ کی حیثیت سے دنیا بھر کے یہودی اداروں کو ہولوکاسٹ کی 75ویں برسی کی مناسبت سے تعزیتی خطوط لکھے ہیں، انھوں نے اپنے خطاب میں بتایا کہ وہ علماء کے ایک وفد کے ہمراہ نازی کیمپ میں گئے، وہاں انھوں نے جرمن عقوبت خانے، لیبارٹریاں، قتل گاہیں، مقتولین کے کپڑے، بیگ، تسمے بھی دیکھے، جنھیں دیکھ کر انھیں رونا آگیا۔ ڈاکٹر العیسیٰ کا خطاب میں کہنا تھا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کو اس وقت شدت پسندی کا سامنا ہے، اسلام انسانیت کا درس دیتا ہے۔ شدت پسند یہودیوں اور مسلمانوں کے مشترکہ دشمن ہیں۔ ہم وسیع تر مکالمہ اور ملاقاتوں کے ذریعے باہمی دوریاں ختم کرسکتے ہیں۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں مل کر شدت پسندی کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔
باتیں تو ان کی نہایت خوبصورت ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی، امن و امان، بھائی چارہ، ابراہیمی مذاہب کا مل کر دنیا کے پسے ہوئے محروم طبقات کی مدد کرنا، لیکن نہ جانے کیوں ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے اپنے جیویش کونسل آف امریکہ کے خطاب میں فلسطینیوں کا تذکرہ نہ کیا۔؟ ان کو یہودیوں کے بیگ، جوتے اور تسمے دیکھ کر تو رونا آگیا، تاہم ان کو فلسطین میں روزانہ کی بنیاد پر قتل ہونے والے بچے، خواتین اور بوڑھے دکھائی نہیں دیئے۔ انھیں ہولوکاسٹ کی کہانی پر تو یقین آگیا، جو اگر ہوئی بھی ہے تو چند برس میں مکمل ہوگئی، تاہم ان کو مشرق وسطیٰ میں ہونے والا فلسطینیوں کا 74 سال سے جاری ہولوکاسٹ دکھائی نہیں دیا۔ ان کو 2011ء سے یمن پر ڈھائے جانے والے سعودی حکومت کے مظالم بھی نظر نہیں آئے۔
ایک ایسے شخص کو امام حج کے طور پر متعین کرنا نہایت سوال انگیز ہے، وہ بھی ایسے وقت پر جب امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کے بعد سعودیہ کے دورے پر آرہے ہیں۔ اس وقت اسرائیل عرب امارات، بحرین کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد سعودیہ سے بھی ظاہری تعلقات کا خواہاں ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سرپرستی میں نیٹو کی طرز کا ایک اتحاد تشکیل پا جائے، جس کے ذریعے ایران اور اس کے اتحادی گروہوں انصار اللہ، حزب اللہ، حماس، جہاد فلسطین اور حشد الشعبی کی فضائی اور مقاومتی سرگرمیوں کو روکا جاسکے۔ فی الحال اسرائیل کے مدنظر ایک فضائی دفاعی نظام ہے، تاہم یقیناً وہ چاہے گا کہ اس نظام کو مکمل دفاعی نظام کی شکل میں تبدیل کیا جائے۔
وہ جانتا ہے کہ سعودیہ اور عرب امارات حوثیوں کے ڈرون حملوں کی زد پر ہیں، وہ خود حماس اور جہاد فلسطین اور حزب اللہ کے راکٹس اور ڈرونز کا شکار ہے، عراق میں اسے براہ راست ایرانی افواج کے میزائل حملوں کا سامنا ہے۔ ایسے میں ایک فضائی دفاعی نظام سعودیہ، عرب امارات اور اسرائیل کی مشترکہ ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کو عملی شکل دینے کے لیے اسرائیل کی حکومت ایک عرصے سے تگ و دو کر رہی ہے۔ جو بائیڈن کے حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی خواہش ہوگی کہ فضائی دفاعی نظام اور سعودیہ سے اسرائیل کے روابط کے حوالے سے اصولی اتفاق رائے حاصل کرکے کام کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ گذشتہ چند دنوں میں اسرائیلی وفود سعودیہ کے کئی ایک خفیہ دورے بھی کرچکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ “صہیونی امام” کے مسلم دنیا کی اہم ترین مناسبت یعنی حج کے موقع پر امام حج متعین ہونے کو اسرائیلی حلقوں میں ایک مثبت سگنل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ دی ٹائمز آف اسرائیل نے 10 جولائی 2022ء کی آن لائن اشاعت میں لکھا کہ ڈاکٹر العیسیٰ کا خطیب حج کے طور پر انتخاب اسرائیل کو تعلقات کی بحالی کے حوالے سے ایک اہم سگنل ہے۔ سعودیہ میں گذشتہ چند برسوں سے ثقافت کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات براہ راست طور پر صیہونیوں کی دسترس میں آچکے ہیں اور اس دسترس کے اثرات بہت جلد پوری مسلم دنیا میں ظاہر ہوں گے۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: