گذشتہ ہفتے کا ایران
گذشتہ ہفتے یعنی 19 جون 2022ء سے 26 جون 2022ء تک ایران میں بہت سی سیاسی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیاں ہوئیں۔ راقم گذشتہ چند ماہ سے ایرانی اخبارات کو دیکھ رہا ہے، سوچا اردو دان قارئین کے لیے بھی ان خبروں میں سے اہم خبروں کا احوال پیش کر دوں۔ 19جون 2022ء کو قزاقستان کے صدر قاسم ژومارت ایک روزہ دورے پر ایران تشریف لائے۔ اس دورے میں قاسم ژومارت کی صدر ایران، وزیر خارجہ اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ایران اور قزاقستان اقتصادی شعبے میں کافی قریب ہیں، اس دورے کے دوران بھی مختلف شعبہ جات میں تقریباً 9 معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ ان میں ٹرانزٹ ٹریڈ، سائنس، ثقافتی تبادلہ، توانائی، زراعت، تجارتی و اقتصادی تبادلے شامل ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تجارت کا حجم 2020ء میں تقریباً 250 ملین ڈالر تھا۔ قاسم ژومارت نے اس دورے میں ایران کے روحانی پیشوا رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی۔
اس ملاقات میں رہبر انقلاب نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین علاقائی امور میں تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ مشترکہ اقتصادی کمیشن کی سرگمیوں کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ رہبر انقلاب نے قزاقستان اور ایران کے روابط کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ہمیں مشترکہ علمی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ملاقات میں یوکرائن کے مسئلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یوکرائن مسئلے کی بنیادی وجہ نیٹو کی توسیع پسندانہ پالیسی ہے، وہ جہاں ممکن ہو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 20 جون کو ایران میں کروشیا کی پارلیمنٹ کا ایک وفد آیا، جس نے سپیکر پارلیمنٹ کے علاوہ دیگر اہم عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔ ایران کے سپیکر پارلیمان نے دونوں ممالک کے مابین اقتصادی روابط کو فروغ دینے کی اہمیت اور اس میں پارلیمان کے کردار پر زور دیا۔
20 جون کو ہی پاکستان کے وزیر توانائی خرم دستگیر خان ایران کے دورے پر پہنچے۔ خرم دستگیر خان نے بلوچستان کے لیے 100 میگاواٹ اضافی بجلی کے معاہدے پر دستخط کیے۔ ایران پاکستان کو 1999ء سے گوادر، کیچ اور پنجگور کے اضلاع کو 35 میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا تھا۔ 2013ء میں ایران نے ان اضلاع کو 100 میگاواٹ بجلی فراہم کرنی شروع کی، جسے اب مزید 100 میگا واٹ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ بجلی 18 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ کے حساب سے فراہم کی جاتی ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایران کی ملک میں بجلی کی کھپت تقریباً 64 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ اس کی آبادی تقریباً 83 ملین ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی کل کھپت تقریباً 26 ہزار میگا واٹ ہے اور ہماری آبادی تقریباً 220 ملین ہے جبکہ ہمارا بجلی کا شارٹ فال اندازاً پانچ سے 6 ہزار میگا واٹ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم ایران سے گوادر، کیچ اور خضدار کے لیے سستی بجلی لے سکتے ہیں تو پاکستان کے دیگر علاقوں کے لیے یہ بجلی کیوں نہیں حاصل کی جاسکتی۔؟ اسی طرح پیڑول، گیس اور دیگر مصنوعات کے حوالے سے عالمی پابندیاں کیوں آڑے آجاتی ہیں۔؟
23 جون کو روسی وزیر خارجہ سرگئی لارووف ایک روزہ دورے پر ایران آئے۔ اس دورے کے دوران سرگئی لارووف نے روس اور ایران کے مابین طویل مدت کے اقتصادی منصوبہ جات کے حوالے بات چیت کی۔ سرگئی لارووف نے اپنے ہم منصب حسین امیر عبد اللھیان اور صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا اہم مقصد مغرب کی اقتصادی پابندیوں سے مل کر نبرد آزما ہونا اور ان کے اثرات کو کم کرنا بھی تھا۔ اس ہفتے افغانستان میں آنے والے زلزلے جس میں تقریباً 1500 کے قریب افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے کے حوالے سے ہلال احمر ایران نے امدادی سرگرمیاں انجام دیں، اب تک ایران کی جانب سے امدادی سامان پر مشتمل چار جہاز افغانستان پہنچ چکے ہیں اور ہلال احمر ایران کے کارکنان طالبان کے ہمراہ امدادی کاموں میں مشغول ہیں۔ 24 جون کو صدر ابراہیم رئیسی نے BRICS کے اجلاس سے خطاب کیا۔ برازیل، روس، ہندوستان، چین اور ساوتھ افریقہ کے اس اقتصادی اتحاد کو اب برکس پلس کا عنوان دیا جا رہا ہے۔ اس اجلاس کی میزبانی چین نے کی اور اجلاس میں تقریباً 18 ممالک کے سربراہان نے آن لائن شرکت کی۔
چینی صدر نے ایران کے صدر رئیسی کو بھی اجلاس سے خطاب کی دعوت دی۔ برکس پلس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے صدر رئیسی نے کہا کہ برکس عالمی امن کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے، ایران اپنی ٹرانزٹ ٹریڈ، توانائی کے وسائل اور علمی صلاحیات کے ساتھ برکس ممالک کے ساتھ اشتراک کے لیے تیار ہے۔ اس اجلاس اور دنیا میں ہونے والے دیگر اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرائن صورتحال اور مغرب کی جانب سے بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیوں کے باعث روس اور چین اپنی معیشت کو بحال رکھنے اور اسے ترقی دینے کے لیے دیگر ذرائع پر توجہ دے رہے ہیں۔ برکس بھی ان میں سے ایک اہم فورم ہے، جس کو اب مزید وسعت دی جا رہی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برکس کے رکن ممالک کی آبادی دنیا کی آبادی کا 41 فیصد، معدنی ذخائر 20 فیصد اور تجارت تقریباً 16 فیصد ہے۔ اگر یہ ممالک پلس ہوتے ہیں تو ایک نیا اقتصادی اتحاد جنم دے سکتے ہیں، جس کو ممکن ہے کہ یورپی اور مغربی منڈیوں کی احتیاج نہ رہے۔
25 جون کو یورپی یونین کے امور خارجہ کے مسئول جوزف بورل ایک وفد کے ہمراہ ایران آئے۔ اس دورے کا مقصد ایران اور مغربی دنیا کے مابین تعطل کا شکار ہونے والے ویانا مذاکرات کا احیاء تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے حال ہی میں ایران کے خلاف عالمی ایٹمی ایجنسی میں ایک قرارداد پیش کی، جس کے بعد ایران نے عالمی ایٹمی ایجنسی سے تعاون ختم کر دیا تھا۔ ویانا میں ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ پہلے سے تعطل کا شکار تھا، ایسے میں یورپی وفد کی ایران آمد کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ایٹمی مذاکرات کے آغاز کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بورل کی ایران آمد مغربی بلاک کی ایران کو اپنی جانب جذب کرنے کی کوشش ہے، امریکہ میں مذہبی راہنماوں اور پندرہ تجارتی تنظیموں نے بائیڈن سے ایٹمی معاہدے کی جانب لوٹ جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کشش کا سبب یوکرائن جنگ کے سبب عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور مہنگائی ہے۔ روس یورپ کو گیس بند کر رہا ہے، اب یورپ کے پاس اپنی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کا کوئی اور ذریعہ باقی نہیں رہا، لہذا اب ایٹمی ایران بھی ان کو قبول ہے۔
اس ملاقات میں رہبر انقلاب نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین علاقائی امور میں تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ مشترکہ اقتصادی کمیشن کی سرگمیوں کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ رہبر انقلاب نے قزاقستان اور ایران کے روابط کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ہمیں مشترکہ علمی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ملاقات میں یوکرائن کے مسئلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یوکرائن مسئلے کی بنیادی وجہ نیٹو کی توسیع پسندانہ پالیسی ہے، وہ جہاں ممکن ہو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 20 جون کو ایران میں کروشیا کی پارلیمنٹ کا ایک وفد آیا، جس نے سپیکر پارلیمنٹ کے علاوہ دیگر اہم عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔ ایران کے سپیکر پارلیمان نے دونوں ممالک کے مابین اقتصادی روابط کو فروغ دینے کی اہمیت اور اس میں پارلیمان کے کردار پر زور دیا۔
20 جون کو ہی پاکستان کے وزیر توانائی خرم دستگیر خان ایران کے دورے پر پہنچے۔ خرم دستگیر خان نے بلوچستان کے لیے 100 میگاواٹ اضافی بجلی کے معاہدے پر دستخط کیے۔ ایران پاکستان کو 1999ء سے گوادر، کیچ اور پنجگور کے اضلاع کو 35 میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا تھا۔ 2013ء میں ایران نے ان اضلاع کو 100 میگاواٹ بجلی فراہم کرنی شروع کی، جسے اب مزید 100 میگا واٹ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ بجلی 18 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ کے حساب سے فراہم کی جاتی ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایران کی ملک میں بجلی کی کھپت تقریباً 64 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ اس کی آبادی تقریباً 83 ملین ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی کل کھپت تقریباً 26 ہزار میگا واٹ ہے اور ہماری آبادی تقریباً 220 ملین ہے جبکہ ہمارا بجلی کا شارٹ فال اندازاً پانچ سے 6 ہزار میگا واٹ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم ایران سے گوادر، کیچ اور خضدار کے لیے سستی بجلی لے سکتے ہیں تو پاکستان کے دیگر علاقوں کے لیے یہ بجلی کیوں نہیں حاصل کی جاسکتی۔؟ اسی طرح پیڑول، گیس اور دیگر مصنوعات کے حوالے سے عالمی پابندیاں کیوں آڑے آجاتی ہیں۔؟
23 جون کو روسی وزیر خارجہ سرگئی لارووف ایک روزہ دورے پر ایران آئے۔ اس دورے کے دوران سرگئی لارووف نے روس اور ایران کے مابین طویل مدت کے اقتصادی منصوبہ جات کے حوالے بات چیت کی۔ سرگئی لارووف نے اپنے ہم منصب حسین امیر عبد اللھیان اور صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا اہم مقصد مغرب کی اقتصادی پابندیوں سے مل کر نبرد آزما ہونا اور ان کے اثرات کو کم کرنا بھی تھا۔ اس ہفتے افغانستان میں آنے والے زلزلے جس میں تقریباً 1500 کے قریب افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے کے حوالے سے ہلال احمر ایران نے امدادی سرگرمیاں انجام دیں، اب تک ایران کی جانب سے امدادی سامان پر مشتمل چار جہاز افغانستان پہنچ چکے ہیں اور ہلال احمر ایران کے کارکنان طالبان کے ہمراہ امدادی کاموں میں مشغول ہیں۔ 24 جون کو صدر ابراہیم رئیسی نے BRICS کے اجلاس سے خطاب کیا۔ برازیل، روس، ہندوستان، چین اور ساوتھ افریقہ کے اس اقتصادی اتحاد کو اب برکس پلس کا عنوان دیا جا رہا ہے۔ اس اجلاس کی میزبانی چین نے کی اور اجلاس میں تقریباً 18 ممالک کے سربراہان نے آن لائن شرکت کی۔
چینی صدر نے ایران کے صدر رئیسی کو بھی اجلاس سے خطاب کی دعوت دی۔ برکس پلس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے صدر رئیسی نے کہا کہ برکس عالمی امن کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے، ایران اپنی ٹرانزٹ ٹریڈ، توانائی کے وسائل اور علمی صلاحیات کے ساتھ برکس ممالک کے ساتھ اشتراک کے لیے تیار ہے۔ اس اجلاس اور دنیا میں ہونے والے دیگر اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرائن صورتحال اور مغرب کی جانب سے بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیوں کے باعث روس اور چین اپنی معیشت کو بحال رکھنے اور اسے ترقی دینے کے لیے دیگر ذرائع پر توجہ دے رہے ہیں۔ برکس بھی ان میں سے ایک اہم فورم ہے، جس کو اب مزید وسعت دی جا رہی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برکس کے رکن ممالک کی آبادی دنیا کی آبادی کا 41 فیصد، معدنی ذخائر 20 فیصد اور تجارت تقریباً 16 فیصد ہے۔ اگر یہ ممالک پلس ہوتے ہیں تو ایک نیا اقتصادی اتحاد جنم دے سکتے ہیں، جس کو ممکن ہے کہ یورپی اور مغربی منڈیوں کی احتیاج نہ رہے۔
25 جون کو یورپی یونین کے امور خارجہ کے مسئول جوزف بورل ایک وفد کے ہمراہ ایران آئے۔ اس دورے کا مقصد ایران اور مغربی دنیا کے مابین تعطل کا شکار ہونے والے ویانا مذاکرات کا احیاء تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے حال ہی میں ایران کے خلاف عالمی ایٹمی ایجنسی میں ایک قرارداد پیش کی، جس کے بعد ایران نے عالمی ایٹمی ایجنسی سے تعاون ختم کر دیا تھا۔ ویانا میں ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ پہلے سے تعطل کا شکار تھا، ایسے میں یورپی وفد کی ایران آمد کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ایٹمی مذاکرات کے آغاز کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بورل کی ایران آمد مغربی بلاک کی ایران کو اپنی جانب جذب کرنے کی کوشش ہے، امریکہ میں مذہبی راہنماوں اور پندرہ تجارتی تنظیموں نے بائیڈن سے ایٹمی معاہدے کی جانب لوٹ جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کشش کا سبب یوکرائن جنگ کے سبب عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور مہنگائی ہے۔ روس یورپ کو گیس بند کر رہا ہے، اب یورپ کے پاس اپنی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کا کوئی اور ذریعہ باقی نہیں رہا، لہذا اب ایٹمی ایران بھی ان کو قبول ہے۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: