ڈاکٹر صاحب آگئے ہیں اور میں تیار ہوں۔۔۔ آہ ثاقب صاحب بھی چل بسے(1)

Published by fawad on

dr nadeem baloch

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

یادوں کا ایک سیلاب ہے، جو دل میں طوفان برپا کیے ہوئے ہے، آنکھیں ہیں کہ ساون کی طرح برس رہی ہیں، ہمارے ثاقب صاحب چلے گئے۔ پتہ چلا کہ بیمار ہیں تو فوراً ہسپتال پہنچ گیا، میرے بیٹھنے سے پہلے ہی بول پڑے، ڈاکٹر صاحب آگئے ہیں اور میں تیار ہوں۔ جب بھی ثاقب صاحب کی محفل میں صرف ڈاکٹر صاحب کہا جاتا تو اس سے مراد ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہی ہوتے تھے۔ ثاقب صاحب کو ان سے عشق تھا، یوں ذکر کرتے تھے، جیسے ایک مرید اپنے مرشد کا ذکر کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک ایک بات کو اصول کی طرح اہمیت دیتے تھے۔ ثاقب اکبر صاحب کی ذات پر ڈاکٹر صاحب کے بہت زیادہ اثرات تھے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ مبالغہ کی حد تک منظم تھے، ان کے ساتھ کام کرنے والے جانتے ہیں کہ آغا صاحب دفتر ٹائم پر پہنچ جاتے تھے۔ اگر کوئی دوست لیٹ ہوتا تو ناصحانہ انداز میں کہتے تھے کہ آٹھ بج کر ساٹھ منٹ پر نو بجتے ہیں اور اس کے بعد تاخیر ہوتی ہے، وہ پانچ منٹ کی ہی کیوں نہ ہو۔ ویسے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جس کا بھی تعلق تھا، وہ ڈاکٹر صاحب کا عاشق و مرید بن کر رہا۔ جب ڈاکٹر صاحب شہید ہوئے تو میرے چھوٹے بھائی پیدا ہوئے، والد صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی یاد میں ان کا نام محمد علی رکھا۔

ثاقب صاحب کا تعلق ایک سید صوفی گھرانے سے تھا، جہاں لاڈ و پیار میں پرورش ہوتی ہے۔ ثاقت صاحب نے زمانہ طالب علمی میں ہی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار شروع کر دیا تھا۔ محبت اہلبیت دل میں سجائے ہوئے تھے، ایک بار ہنس کر بتانے لگے کہ حافظ سعید یو ای ٹی میں میرے اسلامیات کے ٹیچر تھے، انہوں نے کوئی بات کی، جو شیعہ مسلک کے نظریات کی توہین تھی، میں کھڑا ہوا اور ہنگامہ مچا دیا۔ انتظامیہ نے مداخلت کی اور مسئلہ کو حل کروا کر دم لیا، اس کے بعد کبھی کسی استاد نے ایسی بات نہ کی۔ آپ یو ای ٹی میں اس دور میں داخل ہوئے، جب وہاں شیعہ طلباء کی بڑی تعداد موجود تھی اور وہاں سے ایک سلسلہ خیر کا آغاز ہوا، جسے آئی ایس او کہتے ہیں۔ آپ اس کے بانیوں میں سے تھے اور اس کے دوسرے صدر بھی بنے۔ اس نے قوم و ملت کی بڑی خدمت کی۔ آپ آئی ایس او کے جوانوں کی سرپرستی کرتے تھے، فکری اور نظریاتی تربیت میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔

سید ثاقب اکبر نقوی اور خادم قرآن سید اظہر رضوی کی دوستی بے مثال تھی۔ اس دوستی کی بنیاد محبت اہلبیت تھی، سچ یہ ہے کہ ثاقب اکبر صاحب کی ذہنی تربیت اور فقہ اہلبیت کی طرف لانے میں رضوی صاحب کا بڑا کردار تھا۔ ثاقب صاحب بتاتے تھے کہ ہمارے گھروں کا فاصلہ اتنا تھا کہ پیدل آ جا سکتے تھے۔ جب یہ میرے گھر آتے اور جانے لگتے تو میں کہتا کہ میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں، جب ان کے گھر پہنچتے تو وہ کہتے میں اب آپ کو چھوڑ آتا ہوں، یوں دو تین چکر لگ جاتے، آخر میں یہ فیصلہ کرتے کہ گھروں کے درمیان موجود ایک چوک سے جدا ہو جائیں گے۔ اصل بات جو جدا نہیں ہونے دیتی تھی، وہ ذکر اہلبیت تھا، وہ علی ؑ و حسین کی باتیں تھیں، وہ خاندان زہراءؑ کا ذکر تھا۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ کیسے میں پی ایچ ڈی کے بعد ان کے پاس آیا تو میری اداریہ لکھنے سے لے کر مقالے پروف کرنے تک تربیت کی۔ حوصلہ دیتے، معمولی سے کام کی بھی بڑی تعریف کرتے، لوگوں سے متعارف کراتے اور ایسے متعارف کراتے کہ اکثر اس وقت ہمیں بھی معلوم ہو رہا ہوتا کہ ہماری شخصیت کے یہ پہلو بھی ہیں۔ کمال کے نقطہ داں تھے۔ مولانا فرحت حسین آتے تو کہتے فرحت کے آنے سے فرحت ملتی ہے، مجھے کہتے کہ آپ تو ہمارے ندیم ہیں، یوں ایک لفظ کو ایک ہی وقت میں دو معنی میں استعمال کر لیتے۔

مجھے ان کا یو ای ٹی کے زمانے کا ایک دوست ملا، اس نے کہا آپ ثاقب اکبر صاحب سے ملتے ہیں، میں نے کہا ملتا رہتا ہوں، کہا ان کا شکریہ ادا کرنا، میں نے پوچھا کس بات کا شکریہ۔؟ کہنے لگے میری خالہ ستر کی دہائی میں لاہور کی بڑی ڈاکٹر تھیں، شائد بخاری لیبز کے نام سے ان کی بڑی لیبارٹری بھی تھی۔ ان کے بچے مشنری سکولوں میں پڑھتے تھے، ڈاکٹر محمد علی نقوی سے کہا کہ ان کے لیے کسی ٹیوٹر کا انتظام کریں تو انہوں نے کہا کہ ثاقب آئے گا۔ وہ بچے اب امریکہ میں ڈاکٹر ہیں۔ وہ آئے ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے کہا کہ ثاقب اکبر صاحب کا شکریہ ادا کیجئے گا۔ اگر ان سے پڑھا، وہ سال ڈیڑھ نہ ہوتا تو ہم مسیحی یا بے دین ہوچکے ہوتے۔ یہ ثاقب صاحب کی تربیت ہے کہ ہم امریکہ میں بھی مذہب کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔جب میں نے ثاقب صاحب کو بتایا تو مسکرائے اور کہا اب آپ کا رابطہ ہو تو ان سے کہیے گا کہ ان کے گھر سے غالباً انگریزی کی کوئی کتاب میں نے لی تھی، جو واپس نہیں کرسکا، اس کی اجازت دے دیں یا پیسے لے لیں۔ میں آج بھی حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہوں کہ کس طرح چالیس پنتالیس سال بعد بھی یہ یاد رکھا ہوا تھا کہ ان کی ایک کتاب میں نے بغیر اجازت کے لے لی ہے۔

انہوں نے امت کو جوڑنا اپنا اوڑنا بچھونا بنا لیا تھا۔ وہ تنہائی میں بھی کوئی ایسی بات نہیں کرتے تھے، جس سے امت کو توڑنے کی کوئی صورت نکلتی ہو۔ ملی یکجہتی کونسل کو قاضی حسین احمد مرحوم سے مل کر دوبارہ زندہ کیا اور پھر اسی پلیٹ فارم سے امت کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے تمام مذہبی اکابرین سے بہت اچھے تعلقات تھے، کہہ رہے تھے کہ چند بار مولانا سمیع الحق کے درس حدیث میں شرکت کی تو مولانا سمیع الحق ہنس کر کہنے لگے، اب تم حقانی ہوگئے ہو۔ والد صاحب مرحوم کی قل خوانی میں تشریف لائے تو ہم نے اہل سنت کی مسجد میں قل خوانی اور مجلس کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس پر بہت خوش ہوئے اور جب میں نے بتایا کہ مسجد کے امام میرے استاد ہیں اور مجمع میں موجود ہیں، اسی طرح یہاں شرکاء میں تیس فیصد شیعہ ہوں گے، باقی سب اہل سنت ہیں تو حیرت کا اظہار کیا اور خطاب میں کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں اس مسجد کے امام کے پیچھے نماز ادا کروں، جس نے اتنا اچھا ماحول رکھا ہوا ہے۔

ایک بات بہت وضاحت کے ساتھ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے وحدت کے قائل ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ کسی شیعہ عقیدے کو ترک کر دیا جائے۔ وہ تمام شیعہ عقائد کا برملا اظہار کرتے تھے، جلوسوں اور مجالس میں شریک ہوتے تھے۔سالانہ مظلوم کربلا حضرت امام حسینؑ کی شان میں محفل مسالمہ کراتے تھے، اس میں بڑے بڑے شعراء شریک ہوتے تھے۔ ایک سچے عزادار کی طرح اس محفل کا اہتمام کرتے اور اپنا کلام بھی سناتے۔ ثاقب صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے اشعار سننے والا یہ سمجھے گا کہ وہ فقط شاعر ہیں، کیونکہ انہوں نے قصیدہ، رباعی، غزل، نظم ہر میدان میں شاعری کی اور خوب داد سمیٹی۔ یونیورسٹیز انہیں لیکچرز کے لیے اپنے ہاں مدعو کرتی تھیں، جہاں وہ عصر حاضر کے جدید ذہن کے مطابق انہیں مذہب کی تفہیم عطا کرتے۔

یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/milny-k-nahe-ham/

وہ بے نظریہ نہیں تھے، یہ بات بار بار سننے کو ملتی کہ ان کے نظریات ایسے ہیں، ویسے ہیں۔ وہ عمل میں اگرچہ سو فیصد تقلید کرتے تھے، مگر فکر کو دلیل کے تابع رکھتے تھے اور ایک صاحب علم کے لیے یہی سازگار ہے۔ جناح کنونشن سنٹر میں منعقدہ ایک پروگرام میں پاکستان کے ایک بڑے مفتی صاحب نے کہا کہ شیعوں کا قرآن مجید کے بارے میں عقیدہ میرے لیے واضح نہیں ہے، ان کو واضح کرنا چاہیئے۔ اس کے فوراً بعد ثاقب صاحب سٹیج پر گئے اور کہا سب سے پہلے تو مجھے حیرانگی ہے کہ آپ اتنے عرصے سے تحقیق سے وابستہ ہیں اور پھر بھی آپ کے لیے یہ واضح نہیں ہوسکا اور دوسرا میں شیعوں کے تمام مراکز میں آنے کی آپ کو دعوت دیتا ہوں آپ دیکھ لیں۔
جاری ہے۔۔۔۔