دینی خدمت کا غیر انسانی رویہ

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

ہمارے ہاں دین سے قلبی وابستگی رکھنے والوں کی کمی نہیں ۔بہت بڑی تعداد میں آج بھی لوگ دینی خدمت کے جذبے سے بہت سے کام کرتے ہیں۔دین ومذہب کے نام پر بھاری رقمیں خرچ کی جاتی ہیں۔مذہب کے نام پر ہونے والے کاموں اور فعالیتوں کے پیچھے ’’اہل خیر‘‘کا مذہبی جذبہ ہی کار فرما ہے۔

عالیشان اور شاندار مسجدیں جو بہت بڑی تعداد میں زمین کے اوپر ابھرتی چلی آرہی ہیں،عرس اور میلاد کی محفلیں جو کوچہ کوچہ میں برپا ہیں،مذہبی مجالس اورجلوس جو ہر شہر اور محلے میں انعقاد پذیر ہیں سب مذہبی جوش وجذبہ کے زندہ ہونے کی علامت ہیں۔

بزرگانِ دین کے عظیم الشان مزارات ،بے پناہ مدارس اور امام بار گاہیں ہر طرف لوگوں کے دینی جذبے کی گواہی دے رہی ہیں۔

بازار میں آپ کو جومذہبی کتابیں نظر آتی ہیں اور جو دوسری کتب کی نسبت بالعموم خاصی سستی بھی ہوتی ہیں ان سب کے پیچھے مذہبی رجحان رکھنے والے اہل خیر کا تعاون چھپا ہوتاہے۔

یہ صورت حال صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بنگلہ دیش اور ہندوستان جیسے ممالک سے لے کر ایران ،ترکی بلکہ یورپ اور امریکہ تک آپ کو دکھائی دے گی ۔پھر یہ ’’مذہبی خدمت‘‘کا جذبہ صرف مسلمانوں میں نہیں بلکہ جیسے جیسے ’’مسجدیں‘‘ بڑھتی چلی جارہی ہیں عظیم الشان ’’مندر‘‘بھی اگتے چلے آرہے ہیں ۔’’امام بارگاہیں‘‘بن رہی ہیں تو شاندار ’’گورود وارے‘‘ بھی بنتے چلے جارہے ہیں۔(یاد رہے کہ امام بارگاہ اور گورود وارے کا لغوی اعتبار سے ایک ہی معنی ہے)۔

اسی طرح مذہبی اجتماعات بھی خوب پر رونق ہوتے ہیں. بلکہ ان کی رونقیں بڑھتی جا رہی ہیں۔طرح طرح کی مذہبی ادائیں اور اسلوب لیے ہوئے اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں۔

’’اہل دعوت‘‘زور شور سے دینی دعوت کے کام میں مگن ہیں ۔شب وروز انسانوں کی ’’عاقبت‘‘سنوارنے کے درد سے سرشار مصروف کا ر ہیں ۔کہیں’’دعا‘‘ کے اجتماعات ہیں،کہیں شب بیداری کے پروگرام ہیں،کہیں اللہ کودل میں اتارنے کی تدبیر یں ہیں،کہیں ذکر کی محفلیں ہیں،کہیں اللہ کے راستے میں ’’محنت‘‘ کے لیے دین سے دور لوگوں کو تیا ر کیا جارہا ہے ،کہیں ’’سنتوں بھرااجتماع‘‘ ہے۔

ہم یہاں ایک دوسرے سے’’ خداکی خاطر ‘‘ لڑانے والوں ،نفرتیں عام کرنے والوں،ایک دین والوں کو دوسرے دین والوں سے ٹکرانے اور قتل وغار تگر ی کی دعوت دینے والوں کا ذکر نہیں کر رہے۔وہ بھی ’’ماشاء ا للہ‘‘کم نہیں ہیں۔ مندر کی مندر سے لڑائی ،مسجد کی مسجد سے لڑائی۔مدرسے کی مدرسے سے لڑائی،جماعت کی جماعت سے لڑائی ۔اس سے ہم صرف نظر کر رہے ہیں۔ہم تو صرف ’’خیر‘‘ کے کام کرنے والوں کا تذکرہ کررہے ہیں۔

ہماری رائے یہ ہے کہ مجموعی طور پر خدمت دین کا تصور غیر انسانی ہو چکاہے۔اول تو ’’خدمت دین‘‘کی اصطلاح بذات خود محل نظر ہے۔اسلامی اصطلاحات میں ہم ’’حقوق اللہ‘‘ اور حقوق العباد‘‘کے الفاظ سے آشنا ہیں، وہ بھی روایات میں ۔جیسا کہ غرر الحکم میں حضرت علی کا قول ہے:

جعل اللہ سبحانہ حقوق عبادہ مقدمۃ علی حقوقہ فمن قام بحقوق عباد اللہ کان ذلک مودیا الی القیام بحق اللہ۔(الشیخ عبدالواحد آمدی تمیمی غررالحکم، حکمت ۳۰۱۴،ص۱۲۰،موسسہ الاعلمی للمطبوعات،بیروت،ط۱،۲۰۰۲ء)اللہ پاک نے اپنے بندوں کے حقوق کو اپنے حقوق پر مقدم کیا ہے لہذاٰ جو شخص بندگان خدا کے حقوق ادا کرنے کے درپے ہوتاہے وہ حقوق اللہ کی ادائی بھی کر سکتا ہے۔

اگر ہم قرآن حکیم پر غور و فکر کریں تو یہ حقیقت ہم پر آشکار ہوگی کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد عجیب طریقے سے آپس میں گندھے ہوئے ہیں ۔کئی مقامات پر یوں ہے کہ جہاں انسان اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی کرتاہے،یا ایسا کام کرتا ہے جو خدا کے نزدیک ناپسندیدہ ہے تو اللہ اسے بندوں کے ساتھ بھلائی کا حکم بطور کفارہ دیتاہے ۔گویا کہنا چاہتا ہے کہ میرے بندے! تو نے جو میرا یہ گناہ کیا ہے تو میں تجھ سے راضی ہو جاؤں گا اگر تو میرے بندوں کے ساتھ فلاں بھلائی کرے۔

’’کفارہ‘‘ درحقیقت ’’تلافی‘‘کا مفہوم رکھتا ہے ۔کفارے کے بارے میں چند آیات ملاحظہ کیجیے:

(۱) سورہ مائدہ کی آیت ۸۹ میں ہے:

لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔

تمھاری لغو (بے سوچی سمجھی)قسموں پر تو وہ مواخذ ہ نہیں کرتاالبتہ جو مضبوط قسم تم نے کھائی (اور اسے توڑ دیا) تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو وہ کھانا کھلانا ہے جو اوسط درجے کا تم اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو یا انھیں کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا۔پس جسے میسر نہ ہو وہ تین دن روزہ رکھے۔۔۔

(۲) سورہ مجادلہ کی تیسری اور چوتھی آیت میں ہے:

فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَاسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ

پس جو نہ پا سکے وہ (اپنی بیوی کو) مس کرنے سے پہلے لگاتار دو ماہ کے روزے رکھے اور جس میں اس کی بھی استطاعت نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے یہ اس لیے ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور یہ ہیں اللہ کی حدود جبکہ کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

(۳) اسی طرح کا حکم حالت احرام میں شکار کرنے کے بارے میں بھی ہے ۔دیکھیے سورہ مائدہ، آیت :۹۵۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ وَ مَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ھَدْیًا بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ

اے ایمان والو! احرام کی حالت میں شکار نہ کرو اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر (کوئی جانور) مار دے تو جو جانور اُس نے مارا ہے اُس کے برابر ایک جانور مویشیوں میں سے قربان کرے، جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل افراد کریں، یہ قربانی کعبہ تک پہنچائی جائے یا مسکینوں کو کھانا کھلانے کا کفارہ دے یا اُس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کیے کا ذائقہ چکھے، جو ہو چُکا، اُسے اللہ نے معاف کردیا اور اگر کسی نے اس غلطی کا اعادہ کیا تو اللہ اُس سے انتقام لے گا اور اللہ بڑا غالب آنے والا، انتقام لینے والا ہے۔

جو لوگ روزے رکھنے کی توانائی نہیں رکھتے انھیں بھی فدیہ کے طور پر مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے ۔

(۴) سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۴ ملاحظہ فرمائیے۔

اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔

(یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں، پھر اگر تُم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں مقدار پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے، پس جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو اُس کے لیے بہتر ہے اور تُم سمجھو تو روزہ رکھنا تمھارے لیے بہتر ہے۔ایسی آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے مابین نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ انسان سے خدا کے حضورؐ میں کوئی کوتاہی سرزد ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اس کے بندوں پر شفقت کرکے،ان کے دکھ بانٹ کر اللہ کو راضی کرے ۔اپنے گناہوں کی معافی کے لیے بھوکے انسانوں کو کھانا کھلائے۔مصیبتوں میں گرفتار انسانوں کی رہائی کے لیے چارہ جوئی کرے اور کچھ نہیں کر سکتا تو چند دن روزے رکھے اور بھوکا رہے تاکہ انسانوں کی مشکلات کا اسے اندازہ ہویا کچھ کھانا معاشرے کے بھوکے انسانوں کے لیے اسی طرح بچ جائے ۔ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو عصرحاضر میں ’’غلاموں‘‘ کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے لہذا ایک یا چند غلام آزادکرنے کے کفارے کا حکم ختم ہو چکا ہے لیکن ذراگہری نظر سے دیکھیں تو غلامی کے انداز بدل گئے ہیں۔آج تو قو میں اور ملک اقتصادی ،سیاسی اور فوجی غلامی کی زنجیروں میں گرفتار ہیں ۔جنھوں نے خداداد صلاحیتیں اور بے پناہ سر مایہ اللہ کی نافرمانیوں میں صرف کیا ہے وہ کسی نہ کسی طرح بندگان خداکے دکھ کم کرنے کی تدبیر کریں تاکہ اللہ کو راضی کر سکیں اگر وہ زیادہ باتدبیر ہوں تو کسی قوم یا قوموں کی آزادی کے لیے چارہ جوئی کریں۔

بیماروں کے لیے شفا خانوں کی تعمیر ،یتیموں کے لیے یتیم خانوں کا قیام ،ان پڑھوں کے لیے تعلیمی اداروں کا قیام ،دنیا میں قیام امن کی کوشش اورعورتو ں اور بچوں کے حقوق کے لیے جدوجہد جیسے کا م بالعموم مذہبی اداروں کے ذمے نہیں بلکہ ایسے کام انجام دینے والے اداروں کو ’’مذہبی ‘‘نہیں بلکہ ’’رفاہی‘‘ ادارے کہا جاتا ہے ۔قدرتی آفات کے موقع پر مصیبتوں میں پھنس جانے والوں کی مدد ،فساد زدہ علاقوں میں پھنس جانے والوں کو وہاں سے نکالنا وغیرہ جیسے کام کرنے والے مذہبی راہنما نہیں بلکہ سماجی راہنما کہلاتے ہیں۔

فرقہ واریت کے نام پر انسانوں کا خون بہ رہا ہو ،کافر کافر کی صدائیں بلند ہورہی ہوں،مسجدوں کے لاوڈ سپیکر زہر اگل رہے ہوں تو حکومتیں ’’مذہبی راہنماؤں‘‘ کو بلاتی ہیں کہ آئیں مل بیٹھ کر آپس کے اختلافات ختم کریں یا سیز فائر کرلیں۔اس سے ہمارے ہاں کا ’’خدمت دین‘‘کا تصور واضح ہوتا ہے۔ انسانی خدمت کو چونکہ’’ اہل مذہب‘‘ نے خیر باد کہہ دیا ہے اس لیے اب اگر ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام سے انسان دشمن سوئے استفادہ کرنے لگیں تو اہل مذہب کو شکایت کا کیا حق رہ جاتاہے ؟

ہم یہاں نہیں کہنا چاہتے کہ مسجد کی تعمیر کا کام نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسجد کا الٰہی اور انسانی کردار بحال ہونا چاہیے۔دین کا اور خدمت دین کا تصور درست ہونا چاہیے ۔دین انسانوں کے لیے ہے ۔مسجد کو انسانوں کی فلاح کا مرکز ہونا چاہیے۔’’حی علی الفلاح‘‘کہہ کر مسجدوں میں بلائے جانے والے انسانوں کی فلاح دارین کے منصوبے بننے چاہئیں ۔عجیب بات ہے کہ ’’حی علی الفلاح‘‘ کہہ کر ہم لوگوں کو جمع تو کر یں لیکن ان کی فلاح (WELFARE)کے لیے کوئی تدبیر نہ کریں ،کوئی مشورہ نہ کریں۔

اہل دین جب ’’فلاح‘‘ کے لیے قیام کرتے ہیں تو یہ فلاح ہمہ گیر بھی ہوتی ہے ،مخلصانہ بھی ہوتی ہے، رضائے الٰہی کے لیے ہوتی ہے ،دکھاوے کے لیے نہیں ہوتی،اس میں استعماری مقاصد چھپے ہوئے نہیں ہوتے ،بندوں کوعیال اللہ سمجھ کر کی جاتی ہے۔

بعض لوگوں کا تصور یہ ہے کہ ’’ہم اہل دین کو لوگوں کی بھلائی کے کام کرنے چاہئیں تاکہ لوگ ہمارے دین ،مذہب یا مذہبی پارٹی کی طرف راغب ہوں‘‘ ہماری رائے میں لوگوں کی بھلائی کے کام خود دینی کام ہیں ،خود یہی مقصود الٰہی بھی ہیں۔

دینی عمارات کی تعمیر کے حوالے سے یہ پہلو بھی قابل غورہے کہ جس معاشرے میں ہزاروں لاکھوں انسان ایک معمولی سی چھت کے لیے پریشان ہوں ،بے روزگاری کے ہاتھوں مصیبتوں کے طوفان جھیل رہے ہوں وہاں محلات نما مسجدیں بنانا انصاف نہیں۔مسجدیں سادہ ہونا چاہئیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے بادشاہوں کی طرح آکر اپنی شان وشوکت کا مظاہرہ نہیں کرنا ۔اللہ کا گھر اللہ کے بندوں کو ’’اپناسا‘‘لگنا چاہیے ۔اس کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کے بنائے ہوئے ’’بیت اللہ ‘‘ اور رسول اللہ کی تعمیر کردہ ’’مسجد نبوی‘‘ کو ہمیشہ اپنے لیے نمونہ قرار دینا چاہیے۔

’’خدمت دین‘‘ کے تصور کا ’’دینی مفہوم‘‘واضح کرنے کے لیے ہم قرآن حکیم کی چند مزید آیات کی طرف توجہ کی دعوت دیتے ہیں:

(۱) سووہ بلد بھی غیر انسانی روش اختیار کرنے والوں کی بدانجامی کی حکایت کرتی ہے۔چند آیات کا ترجمہ دیکھیے:

اور (کیا)دونوں نمایاں راستے اسے دکھا (نہیں ) دیے ۔مگر اس نے دشوار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی اور تم کیا جانو کہ وہ دشوار گھاٹی کیا ہے۔کسی گردن کو غلامی سے چھڑا دینا یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔

ہمیں اپنے دینی مراکز کے کردار کو بھی انسانی بناناچاہیے ،دینی مدارس کو اپنے نصاب میں بھی خدمت دین کے قرآنی اور انسانی تصور کی تعلیم شامل کرنا چاہیے۔ ہمارے اجتماعات میں تزکیہ نفس کے مرحلے سے شروع کرکے مخلوق خدا کو خدا کی نظر سے دیکھنے کے آخری مرحلے تک کی تعلیم دینا چاہیے۔تزکیہ نفس کا یہ نتیجہ بھی نکلنا چاہیے کہ انسان اپنے دنیاوی سازوسامان سے ایسا دل نہ باندھے کہ وہ اسی کا اسیر ہوجائے اور پھر محتاج انسانوں کی مدد کے لیے بھی انسان کا نفس آمادہ ہوتاکہ اس طرح انسان کو اللہ کی رضا اور قربت نصیب ہوسکے۔

بشکریہ : تجزیات آنلائن