بے قرار دل تو کربلا میں ہیں
جوں جوں اربعین حسینی نزدیک آرہا ہے، ساری دنیا سے بے قرار دلوں کا رُخ کربلا کی طرف ہوگیا ہے۔ کرونا کی وبا کا یہ دوسرا برس ہے۔ اس وبا کے بعد سے پوری دنیا کے معاملات درہم برہم ہوچکے ہیں۔ بڑے بڑے طاقتور ملک اس آسمانی بلا کے سامنے بے بس ہوگئے ہیں۔ زمینی ٹریفک کبھی جام ہو جاتی ہے اور کبھی رینگنے لگتی ہے۔ آسمانی ٹریفک بھی کبھی پرواز کا ارادہ کرتی ہے اور کبھی اس کا حوصلۂ پرواز مدہم پڑ جاتا ہے، لیکن عشق کے معمولات وہی ہیں بلکہ جب غم ہجراں کی آنچ تیز ہوتی ہے تو بے قراری سِوا ہو جاتی ہے۔ دو سال پہلے تو نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ یوں لگتا تھا کہ سب راستے کربلا کو جاتے ہیں۔ کروڑوں انسان ہزاروں رکاوٹیں عبور کرکے کربلا جا پہنچے تھے۔ اربعین حسینی دنیا کے لیے ایک نیا عالم گیر عنوان بن کر ابھر آیا تھا۔ اربعین حسینی ویسے تو شہادت کبریٰ کے بعد سے خانوادہ نبوت کے مریدوں اور عاشقوں کے لیے ظلم یزیدی کے خلاف احتجاج و عزاء کا عنوان رہا ہے، لیکن رفتہ رفتہ یہ روز روز عاشورہ کی مانند دنیا بھر میں عزادارانِ حسینی کے لیے اظہار جذب و عشق کے باقاعدہ اور منظم عوامی سلسلوں کا ایک روز بن گیا۔
کربلا جو دشت و صحرا سے بڑھ کر حسینی قافلے کی برکت سے ایک شہر بن گیا تھا، پوری دنیا سے زائرین کو اپنی طرف کھینچنے لگا۔ زائرین حسینی کی ابتدائی تاریخ اموی حکمرانوں کے مظالم کی وجہ سے انتہائی خونریز رہی۔ ہر دور میں زائرین حسینی مشکلات سے گزرتے رہے۔ عام طور پر حکمران کربلا سے خوفزدہ ہی رہے اور ظالموں کو کربلا سے خوفزدہ ہونا ہی چاہیے۔ جدید تاریخ میں عراق کے آمر کو بھی انہی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس نے ہمیشہ نجف و کربلا کے زائرین کے لیے نئی سے نئی مشکلات ایجاد کیں۔ جب صدام یزید کا دور حکومت ختم ہوگیا تو پوری دنیا میں عاشقان حسینی کو لگا کہ جیسے اب کربلا کا سفر آسان ہوگیا ہے۔ پوری دنیا سے قافلوں نے کربلا کی طرف رخت سفر باندھنا شروع کیا۔ قافلے ویسے تو سال بھر پایہ رکاب رہتے لیکن محرم الحرام میں یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہو جاتا اور اربعین حسینی کے موقع پر تو عاشق یعنی کربلا کی طرف جانے والوں کے دل کچھ زیادہ مچلنے لگتے، لیکن ابھی عاشقوں کے امتحان باقی تھے۔
عراق جانے والے اور نجف و کربلا کے راہیوں پر داعشی درندے حملے کرنے لگے۔ داعشیوں نے ائمہ اہل بیتؑ کے مزارات کو بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ کربلا و نجف میں بھی دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ کتنے ہی زائرین کی لاشیں پاکستان کے مختلف شہروں، قصبوں اور دیہات میں واپس پہنچیں، لیکن یہ عشق بھی عجیب ہے، جس بستی میں کوئی لاش آتی، اگلے برس وہاں پہلے سے بڑھ کر زیارت کی تمنا سے سرشار افراد نکل کھڑے ہوتے۔ خوف و دہشت جتنی بڑھتی جاتی، نبی پاکؐ کے پیاروں کی محبت اتنی ہی زیادہ سینوں میں جوش مارنے لگتی۔ نبی پاکؐ کے اس فرمان کی صداقت ہم نے کتنی ہی مرتبہ اپنی آنکھوں سے مجسم ہوتے دیکھی ہے: “یقیناً قتل حسین سے اہل ایمان کے دلوں میں ایک ایسی حرارت پیدا ہوگئی جو کبھی سرد نہ ہوگی۔” البتہ پھر چند برس امن کے آئے اور دنیا نے عشق حسینی کے جلوے دیکھے۔
اہل عراق نے امام حسینؑ کے مہمانوں کی جس طرح پذیرائی کی، اس نے ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ کروڑوں انسانوں نے اکٹھا ہو کر پرامن طریقے سے خانوادۂ مصطفیٰؐ کو جس انداز سے اپنی محبتوں کا خراج پیش کیا، وہ واقعاً دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دینے والا تھا۔ اس کی اپنی ایک داستان لازوال ہے۔ دو برس سے عاشقان حسینی کے امتحان کی نوعیت بدل گئی ہے۔ یہ نوعیت عالمی وبا کووڈ 19 کی وجہ سے بدلی ہے۔ یہ دوسرا برس ہے کہ قافلے پہلے کی طرح اربعین کے موقع پر کربلا نہیں پہنچ سکیں گے۔ کچھ پابندیاں حکومت عراق کی طرف سے عائد کی گئی ہیں اور کچھ ہر ملک کے اپنے حالات کی وجہ سے برقرار ہیں۔ اس کے باوجود لاکھوں زائرین اس وقت تک عراق میں پہنچ چکے ہیں۔ اربعین حسینی کا شاید سب سے پرکشش ایونٹ اربعین واک ہے، جو ویسے تو مختلف عراقی شہروں اور سرحدوں سے کربلا کی طرف پیدل چلنے والے افراد اور قافلوں پر صادق آتی ہے، لیکن خاص طور پر نجف اشرف سے کربلائے معلیٰ تک پیدل چل کر روز اربعین کعبہ عشاق تک پیدل پہنچنے والوں کے سفر پر صادق آتی ہے، جسے عرب ’’مشی‘‘ (واک) کہتے ہیں۔
گذشتہ برس تو عجیب ہوا، اہل ایمان کے دلوں میں قدرت کی طرف سے یہ بات پیدا ہوگئی کہ ہم چونکہ کرونا کی وجہ سے کربلا نہیں جا پائیں گے، اس لیے روز اربعین اپنے اپنے شہروں میں اس رسم عاشقی کو نبھائیں گے۔ ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں مومنین قافلہ در قافلہ پیدل نکلے کھڑے ہوئے۔ اگرچہ دنیا کے دیگر کئی ملکوں میں بھی اس سلسلے کی طرح ڈالی گئی، لیکن ہم اپنے وطن کی بات کرتے ہیں۔ ہم نے زندگی میں محبت حسینی کا ایسا فطری، بے ساختہ، بھرپور اور عوامی اظہار نہیں دیکھا۔ یہ اظہار بظاہر کسی تنظیم کے بغیر منظم تھا، امن و امان کی بحالی کے ذمہ داروں کی ڈیوٹی کے بغیر پرامن تھا، کسی لائسنس کے بغیر کسی لائسنس سے بے نیاز تھا، چونکہ پرامن طور پر پیدل چلنے والوں کے لیے تو کسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بازار کھلے تھے اور ٹریفک رواں دواں تھی۔ مرد، عورتیں اور بچے شدت تپش کے باوجود پرجوش عقیدت کے ساتھ مرکزی جلوسوں سے ملحق ہونے کے لیے رواں دواں تھے۔ بلا مبالغہ کروڑوں انسانوں نے ہزاروں مقامات پر اس حسینی واک میں حصہ لیا۔
افغانستان کی سابقہ حکومت کے دور میں پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور قومی سطح کے اخبارات افغانستان میں بھارت کی پاکستان کے خلاف کارروائیوں کو رپورٹ کرتے رہے ہیں۔ نمونے کے طور پر نوائے وقت کی ایک رپورٹ کا اقتباس دیکھیے: ’’بھارت کی مودی سرکار افغان امن عمل کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے جعلی خبروں کے ذریعے پاکستان مخالف پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں اسے افغان حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی معلومات سے پتہ چلا ہے کہ جس ہیش ٹیگ کے ذریعے پاکستان پر پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا، اس کے 65 فیصد ٹویٹس بوٹ مشینوں سے کیے گئے۔ جعلی خبروں پر نظر رکھنے والے ادارے جی فائیو انٹرنیٹ آبزرویٹری نے بھارت کے اس گھناؤنے کھیل کا سارا کچا چٹھا کھول دیا۔‘‘
البتہ یزیدیوں، ناصبیوں اور تکفیریوں پر یہ سب کچھ بہت گراں تھا، وہ سال بھر جیسے گرم ریت پر لیٹتے رہے ہوں۔ شاید انھوں نے سال بھر سوچا کہ اب کے برس ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے وہ منصوبہ سازی کرتے رہے اور ہم نے دیکھا کہ پھر انھوں نے روز اربعین سے پہلے جس میں اب چند روز باقی ہیں، فرقہ واریت کی فضا پیدا کرنے کے لیے ناپاک تدبیریں شروع کر دیں، لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کا فرمان ہے: وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ “ادھر وہ تدبیر کرتے ہیں اور ادھر اللہ تدبیر کرتا ہے اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔” اللہ کا وعدہ ہے کہ جو اسے یاد کرے گا، اللہ اسے یاد کرے گا۔ کربلا والوں نے اللہ کے ذکر کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا، کیسے ممکن ہے کہ اللہ ان کی یادوں کو محو ہونے دے۔ یزیدی و ناصبی ایک تدبیر کریں گے اور اللہ دوسری۔۔۔ اللہ کی تدبیر غالب رہے گی۔ شریکۃ الحسینؑ زینب کبریٰ نے یزید کو للکار کر کہا تھا کہ تو ہماری وحی کے تذکروں کو ختم نہیں کرسکے گا اور نہ ہماری یاد دلوں سے محو کر پائے گا۔ زینب کبریٰؑ کی سچائی ہمیشہ کی طرح اس اربعین کے موقع پر بھی مجسم ہو کر سامنے آئے گی، ان شاء اللہ۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز
Share this content: