ایٹمی معاہدے کی بحالی کیلئے دوحہ مذاکرات
ایران اور مغربی دنیا کے مابین ایٹمی معاہدہ جس کا انگریزی مخفف JCPOA اور فارسی مخفف برجام (برنامہ جامع اقدام مشترک) ہے، اوباما دور حکومت میں چین، فرانس، روس، برطانیہ، امریکہ، جرمنی اور ایران کے مابین طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت چند شرائط کی بنیاد پر ایران پر سے اقتصادی اور سیاسی پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ان پابندیوں میں امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے ایران پر عائد کی گئی پابندیاں شامل تھیں۔ یہ معاہدہ طے پانے کے بعد رکن ممالک کے صدور اور وزرائے خارجہ نے اس معاہدے کو عالمی امن کی جانب ایک اہم پیشرفت قرار دیا، تاہم ایسے بھی چند ممالک تھے، جو اس معاہدے پر سیخ پا ہوئے اور اسے تاریخی غلطی قرار دیا گیا۔ ان ممالک میں اسرائیل اور سعودیہ پیش پیش ہیں۔ ٹرمپ دور حکومت میں برجام کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہی دستخط سے ختم کر دیا اور ایران پر اقتصادی پابندیاں نئے سرے سے لگا دی گئیں۔
ٹرمپ حکومت کے خاتمے کے بعد بائیڈن نے دوبارہ برجام کو بحال کرنے کا عندیہ دیا۔ اس حوالے سے امریکہ، یورپ اور ایران کے مابین بالواسطہ اور براہ راست مذاکرات ویانا میں ہو رہے تھے۔ امریکہ اس معاہدے کو چند نئی شرائط کے ساتھ منظور کروانا چاہتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ویانا مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہوئے، جب امریکہ نے چاہا کہ ایسی عبارت شرائط میں شامل کی جائے، جس کے تحت اگر امریکہ چاہے تو وہ افراد اور ادارے جن پر سے پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے، کسی اور وجہ سے پابندیوں کی زد پر آسکیں۔ ویانا مذاکرات ایک طویل عرصہ جاری رہنے کے بعد تعطل کا شکار ہوگئے۔ ویانا مذاکرات میں تعطل کے بعد عالمی ایٹمی ایجنسی کی گورننگ باڈی میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے خلاف ایک قرارداد پیش کی۔ یہ قرارداد پیش ہونے کے بعد ایران نے اپنے ایٹمی پلانٹس پر نصب عالمی ایٹمی ایجنسی کے کیمروں کو بند کر دیا۔ ان کیمروں کی تعداد تقریباً بیس تھی۔
ایران کی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ نے ان کیمروں کی بندش کے وقت اعلان کیا کہ ایران نے عالمی ایٹمی ایجنسی اور برجام میں درج تمام تر شرائط کو پورا کیا ہے، جس کی توثیق عالمی ایٹمی ایجنسی پہلے ہی کرچکی ہے۔ عالمی ایٹمی ایجنسی کی گورننگ باڈی میں ایران کے خلاف قرارداد پیش کرنا قطعاً درست نہیں ہے، یہ فنی فورم سیاسی طور پر عمل کر رہا ہے، لہذا ایران کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ برجام کے تحت لگائے گئے عالمی ایٹمی ایجنسی کے تمام کیمروں کو بند کرکے اپنی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو جاری رکھے۔ ایران ایٹمی ایجنسی کے سربراہ نے وضاحت کی کہ عالمی ایٹمی ایجنسی کے وہ کیمرے بند کیے گئے ہیں، جو برجام کے تحت لگائے گئے تھے۔ ایجنسی کے باقی کیمرے اب بھی فعال ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے عالمی ایٹمی ایجنسی کی گورننگ باڈی میں قرارداد پیش کیے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایجنسی کے سربراہ گروسی جو تازہ تازہ اسرائیل کا دورہ کرکے آئے تھے، کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے غلط وقت پر غلط مقام کا دورہ کیا ہے، این پی ٹی پر دستخط کنندہ ملک کی حیثیت سے ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم ایٹمی ٹیکنالوجی کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کریں، تاہم اسرائیل جس نے آج تک این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے اور اپنی خفیہ ایٹمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اس سے پوچھ گچھ نہ کرنا عالمی ادارے کا دوہرا معیار ہے۔ بہرحال تناؤ کی یہ فضا کچھ عرصے سے قائم ہے۔ ایسے میں یورپ اس چیز کا شدید خواہشمند ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا دوبارہ آغازکیا جائے اور امریکہ، یورپ اور ایران کے مابین کوئی معاہدہ طے پا جائے۔
یورپی یونین کے امور خارجہ کے مسئول جوزف بورل اپنے بیانات میں متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ہمیں ویانا مذاکرات، برجام اور عالمی ایٹمی ایجنسی کی قرارداد کو الگ الگ دیکھنا چاہیئے۔ ان کے متعدد ایسے بیانات موجود ہیں، جن میں وہ ایران اور مغرب کے مابین موجود اختلافات کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں یورپ کے کئی اعلیٰ اہلکار ویانا مذاکرات کی بحالی کے لیے ایران کا دورہ کرچکے ہیں۔ تازہ ترین دورہ جوزف بورل کا تھا۔ یورپ کی مانند امریکی ادارے، افراد اور تنظیمیں بھی ایران کے ساتھ معاہدے کے حق میں ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے کیمرے بند کرنے کے عمل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایٹمی ایجنسی کی قرارداد اور ویانا مذاکرات کو جداگانہ طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت یورپ، امریکا اور ایران کے مذاکرات کار دوحہ پہنچ چکے ہیں۔
قطر کے امیر نے بھی اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں ایران کا دورہ کیا تھا۔ آج ہی ایک عرب میڈیا کے ذریعے یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ امریکا نے پاسداران اسلام اور اس کی شخصیات پر سے پابندیاں اٹھانے کے ایرانی مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے۔ مجھے یورپ، امریکا اور عالمی اداروں کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوکرائن جنگ اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال بالخصوص عالمی منڈیوں میں تیل اور گیس کی ضرورت وہ بنیادی وجہ ہیں، جس کے سبب امریکا اور یورپ ایران کے ساتھ کسی نہ کسی معاہدے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ آج امریکا اور یورپ کی وہ حالت نہیں ہے، جو برجام کے وقت یعنی 2015ء میں تھی۔ یوکرائن اور روس سے گندم کی ترسیل بند ہوچکی ہے۔ روس پر پابندیوں کے باعث کئی ایک یورپی ممالک میں گیس کی سپلائی منقطع ہوگئی ہے۔
عرب امارات اور سعودیہ کے پوری صلاحیت کے ساتھ پیڑول نکالنے کے باوجود عالمی منڈی کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے، جس کے سبب دنیا بھر میں پیڑول کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ آج ہی فرانس کے صدر نے بیان دیا ہے کہ ہمیں ایران اور وینیزویلا کے تیل کو عالمی منڈی میں آنے کی اجازت دینی ہوگی۔ اگر یوکرائن جنگ سردیوں کے موسم تک طول کھینچتی ہے تو یورپ کو ٹھٹر کر مرنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ ایسے میں یقیناً نیٹو اتحادیوں کی خواہش ہوگی کہ ایران کے ساتھ تیل اور گیس کے معاہدے کرکے اپنے مشکل دنوں کو گزارا جائے۔ دوسری جانب روس اور چین نے ایران کی برکس میں شرکت کی درخواست کو قبول کر لیا ہے، وہ نہیں چاہیں گے کہ اس وقت ایران مغرب یا یورپ کی کوئی مدد کرے۔ دیکھیں حالات کس طرف جاتے ہیں۔ بہرحال برجام معاہدے کی بحالی ایک احسن اقدام ہوگا، جس کے امکانات نہایت روشن ہوچکے ہیں۔
ٹرمپ حکومت کے خاتمے کے بعد بائیڈن نے دوبارہ برجام کو بحال کرنے کا عندیہ دیا۔ اس حوالے سے امریکہ، یورپ اور ایران کے مابین بالواسطہ اور براہ راست مذاکرات ویانا میں ہو رہے تھے۔ امریکہ اس معاہدے کو چند نئی شرائط کے ساتھ منظور کروانا چاہتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ویانا مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہوئے، جب امریکہ نے چاہا کہ ایسی عبارت شرائط میں شامل کی جائے، جس کے تحت اگر امریکہ چاہے تو وہ افراد اور ادارے جن پر سے پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے، کسی اور وجہ سے پابندیوں کی زد پر آسکیں۔ ویانا مذاکرات ایک طویل عرصہ جاری رہنے کے بعد تعطل کا شکار ہوگئے۔ ویانا مذاکرات میں تعطل کے بعد عالمی ایٹمی ایجنسی کی گورننگ باڈی میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے خلاف ایک قرارداد پیش کی۔ یہ قرارداد پیش ہونے کے بعد ایران نے اپنے ایٹمی پلانٹس پر نصب عالمی ایٹمی ایجنسی کے کیمروں کو بند کر دیا۔ ان کیمروں کی تعداد تقریباً بیس تھی۔
ایران کی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ نے ان کیمروں کی بندش کے وقت اعلان کیا کہ ایران نے عالمی ایٹمی ایجنسی اور برجام میں درج تمام تر شرائط کو پورا کیا ہے، جس کی توثیق عالمی ایٹمی ایجنسی پہلے ہی کرچکی ہے۔ عالمی ایٹمی ایجنسی کی گورننگ باڈی میں ایران کے خلاف قرارداد پیش کرنا قطعاً درست نہیں ہے، یہ فنی فورم سیاسی طور پر عمل کر رہا ہے، لہذا ایران کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ برجام کے تحت لگائے گئے عالمی ایٹمی ایجنسی کے تمام کیمروں کو بند کرکے اپنی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو جاری رکھے۔ ایران ایٹمی ایجنسی کے سربراہ نے وضاحت کی کہ عالمی ایٹمی ایجنسی کے وہ کیمرے بند کیے گئے ہیں، جو برجام کے تحت لگائے گئے تھے۔ ایجنسی کے باقی کیمرے اب بھی فعال ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے عالمی ایٹمی ایجنسی کی گورننگ باڈی میں قرارداد پیش کیے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایجنسی کے سربراہ گروسی جو تازہ تازہ اسرائیل کا دورہ کرکے آئے تھے، کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے غلط وقت پر غلط مقام کا دورہ کیا ہے، این پی ٹی پر دستخط کنندہ ملک کی حیثیت سے ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم ایٹمی ٹیکنالوجی کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کریں، تاہم اسرائیل جس نے آج تک این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے اور اپنی خفیہ ایٹمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اس سے پوچھ گچھ نہ کرنا عالمی ادارے کا دوہرا معیار ہے۔ بہرحال تناؤ کی یہ فضا کچھ عرصے سے قائم ہے۔ ایسے میں یورپ اس چیز کا شدید خواہشمند ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا دوبارہ آغازکیا جائے اور امریکہ، یورپ اور ایران کے مابین کوئی معاہدہ طے پا جائے۔
یورپی یونین کے امور خارجہ کے مسئول جوزف بورل اپنے بیانات میں متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ہمیں ویانا مذاکرات، برجام اور عالمی ایٹمی ایجنسی کی قرارداد کو الگ الگ دیکھنا چاہیئے۔ ان کے متعدد ایسے بیانات موجود ہیں، جن میں وہ ایران اور مغرب کے مابین موجود اختلافات کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں یورپ کے کئی اعلیٰ اہلکار ویانا مذاکرات کی بحالی کے لیے ایران کا دورہ کرچکے ہیں۔ تازہ ترین دورہ جوزف بورل کا تھا۔ یورپ کی مانند امریکی ادارے، افراد اور تنظیمیں بھی ایران کے ساتھ معاہدے کے حق میں ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے کیمرے بند کرنے کے عمل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایٹمی ایجنسی کی قرارداد اور ویانا مذاکرات کو جداگانہ طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت یورپ، امریکا اور ایران کے مذاکرات کار دوحہ پہنچ چکے ہیں۔
قطر کے امیر نے بھی اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں ایران کا دورہ کیا تھا۔ آج ہی ایک عرب میڈیا کے ذریعے یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ امریکا نے پاسداران اسلام اور اس کی شخصیات پر سے پابندیاں اٹھانے کے ایرانی مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے۔ مجھے یورپ، امریکا اور عالمی اداروں کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوکرائن جنگ اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال بالخصوص عالمی منڈیوں میں تیل اور گیس کی ضرورت وہ بنیادی وجہ ہیں، جس کے سبب امریکا اور یورپ ایران کے ساتھ کسی نہ کسی معاہدے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ آج امریکا اور یورپ کی وہ حالت نہیں ہے، جو برجام کے وقت یعنی 2015ء میں تھی۔ یوکرائن اور روس سے گندم کی ترسیل بند ہوچکی ہے۔ روس پر پابندیوں کے باعث کئی ایک یورپی ممالک میں گیس کی سپلائی منقطع ہوگئی ہے۔
عرب امارات اور سعودیہ کے پوری صلاحیت کے ساتھ پیڑول نکالنے کے باوجود عالمی منڈی کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے، جس کے سبب دنیا بھر میں پیڑول کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ آج ہی فرانس کے صدر نے بیان دیا ہے کہ ہمیں ایران اور وینیزویلا کے تیل کو عالمی منڈی میں آنے کی اجازت دینی ہوگی۔ اگر یوکرائن جنگ سردیوں کے موسم تک طول کھینچتی ہے تو یورپ کو ٹھٹر کر مرنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ ایسے میں یقیناً نیٹو اتحادیوں کی خواہش ہوگی کہ ایران کے ساتھ تیل اور گیس کے معاہدے کرکے اپنے مشکل دنوں کو گزارا جائے۔ دوسری جانب روس اور چین نے ایران کی برکس میں شرکت کی درخواست کو قبول کر لیا ہے، وہ نہیں چاہیں گے کہ اس وقت ایران مغرب یا یورپ کی کوئی مدد کرے۔ دیکھیں حالات کس طرف جاتے ہیں۔ بہرحال برجام معاہدے کی بحالی ایک احسن اقدام ہوگا، جس کے امکانات نہایت روشن ہوچکے ہیں۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: