اسرائیل کی ٹیکنالوجی کی برتری۔۔۔ مکڑی کا ایک جال
کچھ عرصہ پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو خطے کے تمام ممالک میں ٹیکنالوجی کے لحاظ سے برتری حاصل ہے۔ اسرائیل کو ایک بڑی فوجی طاقت قرار دیا جاتا تھا اور اسی فوجی طاقت سے ہمسایہ عرب ممالک کو ڈرایا جاتا تھا۔ ڈراوا دے کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا ڈول بھی ڈالا گیا، لیکن جوں جوں وقت آگے بڑھ رہا ہے، اسرائیل کی ٹیکنالوجی مکڑی کا ایک جال ثابت ہو رہی ہے۔ اسرائیل بار بار یہ کہہ چکا ہے کہ ایران اس کا دشمن نمبر ایک ہے۔ ایران کے خلاف اس کی غیر قانونی فوجی کارروائیوں اور سائبر حملوں کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ ایران کے کئی ایک اہم سائنسدانوں کے قتل کی ذمہ داری بھی اسرائیل پر عائد کی جا چکی ہے۔ ایران کے پارلیمان اور امام خمینیؒ کے مزار پر حملوں میں بھی اسرائیل ملوث قرار دیا گیا تھا۔ شام میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شامی حکومت کی درخواست پر جو ایرانی فوجی مشیر وہاں موجود ہیں، ان پر بار بار اسرائیل حملے کر چکا ہے۔
بعض رپورٹوں میں گذشتہ ماہ کرمان شاہ میں ایرانی ڈرونز پر حملے کو بھی اسرائیل کی کارروائی قرار دیا گیا تھا۔ دوسری طرف ایران ہمیشہ کہتا رہا ہے کہ اسرائیل ایسی کارروائیوں سے باز آجائے، ورنہ مناسب وقت اور مناسب طریقے سے اس سے بدلہ لیا جائے گا۔ اسرائیل کے خلاف ایران کے بعض حالیہ اقدامات نے اس سلسلے میں ایران کی سنجیدگی کو واضح کر دیا ہے۔ چنانچہ 14 مارچ 2022ء کو عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل کے مضافات میں ایران نے اسرائیل کے ایک اسٹرٹیجک سنٹر پر متعدد بلاسٹک میزائل داغے۔ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں تصدیق کی کہ انھوں نے یہ پراجیکٹائل فائر کیے اور دعویٰ کیا کہ انھوں نے ان مقامات کو نشانہ بنایا ہے، جو امریکہ کا صف اول کا اتحادی اسرائیل استعمال کر رہا ہے۔ سپاہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونیوں کی سازشوں اور شرارتوں کے ایک اسٹرٹیجک مرکز کو پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے داغے گئے طاقتور میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس حملے میں بائیس کے قریب موساد کے افسر اور اہلکار مارے گئے ہیں۔ سپاہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر مجرم صہیونی حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ اسے دوبارہ کسی بھی شر انگیزی پر، سخت، فیصلہ کن اور تباہ کن ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ابھی دنیا میں اربیل کے اسرائیلی اسٹرٹیجک مرکز پر حملے کی خبر پر تجزیات ہو رہے تھے کہ ایک اس سے بڑی خبر نے دنیا کو ششدر کر دیا۔ اسرائیلی اخبار(Harretz) ہارتیز نے دو روز پہلے یہ خبر دی کہ اسرائیل کی تمام وہ سائٹس جن کا لاحقہ Gov.il ہے اور جن کا تعلق اسرائیلی حکومت سے ہے، انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان تمام سائٹس تک اسرائیلی اداروں کی رسائی کو کچھ عرصے کے لیے ختم کر دیا گیا۔ اس حملے میں اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سمیت تمام وزارت خانوں کی ویب سائٹس ہیک کر لی گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ اسرائیل کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف کیا جانے والا سب سے بڑا سائبر حملہ ہے۔ اسرائیلی سکیورٹی اہلکار کہہ رہے ہیں کہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ملک یا کوئی بڑی تنظیم ہے۔ بعدازاں بعض اسرائیلی تجزیہ کاروں نےکہا کہ یہ کارروائی ایران نے کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران اس طرح سے وارد ہوا ہے کہ جس کا ہم نے اندازہ بھی نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حملے کے ذریعے تہران تل ابیب سے کہنا چاہتا ہے کہ اگر آپ نے ہمارے خلاف کارروائی جاری رکھی تو ہم اپنے اعلان کردہ موقف کے مطابق عمل کرسکتے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس کے سربراہ اور ان کی بیوی کا موبائل فون بھی ہیک کر لیا گیا ہے۔ ان فونز کو ہیک کرنے والے ہیکر نے موساد کے سربراہ کی نجی تصاویر اور سفری معلومات بھی شیئر کی ہیں۔
ان سائبر حملوں کے بعد اسرائیل کے تمام عہدیدار خوفزدہ ہیں اور ایران کی سائبر ٹیکنالوجی کی برتری پر ششدر ہیں۔ اسرائیل میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سائبر ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس کی کوئی چیز بھی ایران کی دسترس سے محفوظ نہیں رہی۔ اسرائیل میں اس سوال پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایران نے یہ صلاحیت اسلامی جہاد اور حماس کو بھی دے دی ہو، کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ خود اسرائیل کے اندر اب ایسے ہیکر موجود ہیں، جو اسرائیل کی پیشرفتہ ٹیکنالوجی کے کسی بھی شعبے پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ ان واقعات نے اسرائیل کی سائبر ٹیکنالوجی کی پیش رفت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
اربیل کے اسرائیلی اسٹرٹیجک مرکز پر ایران کے اعلانیہ حملے نے بھی بعض نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ قبل ازیں اسرائیل مختلف ممالک میں فوجی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ صدام کے دور حکومت میں عراق کی جوہری ٹیکنالوجی کے مرکز کو اسرائیل ہی نے تباہ کیا تھا۔ شام پر گذشہ دس برس میں اسرائیل سینکڑوں حملے کرچکا ہے، جبکہ شامی علاقہ جولان ہائٹس 1967ء سے اس کے ناجائز قبضے میں ہے، لیکن شامی فوج نے ابھی تک کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ اسرائیل کے بقول وہ شام میں موجود ایرانی فوجی مراکز کو نشانہ بنا رہا ہے، جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی فوجی مرکز شام میں موجود نہیں۔
اب پہلی بار ہے کہ ایران نے اپنے دشمن اسرائیل کے تزویراتی مرکز کو کسی دوسرے ملک میں نشانہ بنایا ہے۔ کیا یہ متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین اور دیگر خلیجی ممالک میں قائم ہوتے ہوئے اسرائیلی اڈوں کے لیے بھی ایک پیغام تو نہیں؟ ایران پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اگر کوئی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہوئی تو وہ اس کے خلاف اقدام کرسکتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس اسرائیل کو اپنے ہاں دعوت دے کر عرب حکمران خوش ہو رہے ہیں اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ اسرائیل سے سفارتی اور فوجی تعلقات ان کی مضبوطی کا باعث ہوں گے، وہ الٹا ان کے لیے وبال جان بن جائیں، کیونکہ اسرائیل کا ناپاک قدم مسلمان ممالک کے لیے خیر کا باعث نہیں ہوسکتا۔
بعض رپورٹوں میں گذشتہ ماہ کرمان شاہ میں ایرانی ڈرونز پر حملے کو بھی اسرائیل کی کارروائی قرار دیا گیا تھا۔ دوسری طرف ایران ہمیشہ کہتا رہا ہے کہ اسرائیل ایسی کارروائیوں سے باز آجائے، ورنہ مناسب وقت اور مناسب طریقے سے اس سے بدلہ لیا جائے گا۔ اسرائیل کے خلاف ایران کے بعض حالیہ اقدامات نے اس سلسلے میں ایران کی سنجیدگی کو واضح کر دیا ہے۔ چنانچہ 14 مارچ 2022ء کو عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل کے مضافات میں ایران نے اسرائیل کے ایک اسٹرٹیجک سنٹر پر متعدد بلاسٹک میزائل داغے۔ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں تصدیق کی کہ انھوں نے یہ پراجیکٹائل فائر کیے اور دعویٰ کیا کہ انھوں نے ان مقامات کو نشانہ بنایا ہے، جو امریکہ کا صف اول کا اتحادی اسرائیل استعمال کر رہا ہے۔ سپاہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونیوں کی سازشوں اور شرارتوں کے ایک اسٹرٹیجک مرکز کو پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے داغے گئے طاقتور میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس حملے میں بائیس کے قریب موساد کے افسر اور اہلکار مارے گئے ہیں۔ سپاہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر مجرم صہیونی حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ اسے دوبارہ کسی بھی شر انگیزی پر، سخت، فیصلہ کن اور تباہ کن ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ابھی دنیا میں اربیل کے اسرائیلی اسٹرٹیجک مرکز پر حملے کی خبر پر تجزیات ہو رہے تھے کہ ایک اس سے بڑی خبر نے دنیا کو ششدر کر دیا۔ اسرائیلی اخبار(Harretz) ہارتیز نے دو روز پہلے یہ خبر دی کہ اسرائیل کی تمام وہ سائٹس جن کا لاحقہ Gov.il ہے اور جن کا تعلق اسرائیلی حکومت سے ہے، انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان تمام سائٹس تک اسرائیلی اداروں کی رسائی کو کچھ عرصے کے لیے ختم کر دیا گیا۔ اس حملے میں اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سمیت تمام وزارت خانوں کی ویب سائٹس ہیک کر لی گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ اسرائیل کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف کیا جانے والا سب سے بڑا سائبر حملہ ہے۔ اسرائیلی سکیورٹی اہلکار کہہ رہے ہیں کہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ملک یا کوئی بڑی تنظیم ہے۔ بعدازاں بعض اسرائیلی تجزیہ کاروں نےکہا کہ یہ کارروائی ایران نے کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران اس طرح سے وارد ہوا ہے کہ جس کا ہم نے اندازہ بھی نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حملے کے ذریعے تہران تل ابیب سے کہنا چاہتا ہے کہ اگر آپ نے ہمارے خلاف کارروائی جاری رکھی تو ہم اپنے اعلان کردہ موقف کے مطابق عمل کرسکتے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس کے سربراہ اور ان کی بیوی کا موبائل فون بھی ہیک کر لیا گیا ہے۔ ان فونز کو ہیک کرنے والے ہیکر نے موساد کے سربراہ کی نجی تصاویر اور سفری معلومات بھی شیئر کی ہیں۔
ان سائبر حملوں کے بعد اسرائیل کے تمام عہدیدار خوفزدہ ہیں اور ایران کی سائبر ٹیکنالوجی کی برتری پر ششدر ہیں۔ اسرائیل میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سائبر ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس کی کوئی چیز بھی ایران کی دسترس سے محفوظ نہیں رہی۔ اسرائیل میں اس سوال پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایران نے یہ صلاحیت اسلامی جہاد اور حماس کو بھی دے دی ہو، کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ خود اسرائیل کے اندر اب ایسے ہیکر موجود ہیں، جو اسرائیل کی پیشرفتہ ٹیکنالوجی کے کسی بھی شعبے پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ ان واقعات نے اسرائیل کی سائبر ٹیکنالوجی کی پیش رفت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
اربیل کے اسرائیلی اسٹرٹیجک مرکز پر ایران کے اعلانیہ حملے نے بھی بعض نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ قبل ازیں اسرائیل مختلف ممالک میں فوجی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ صدام کے دور حکومت میں عراق کی جوہری ٹیکنالوجی کے مرکز کو اسرائیل ہی نے تباہ کیا تھا۔ شام پر گذشہ دس برس میں اسرائیل سینکڑوں حملے کرچکا ہے، جبکہ شامی علاقہ جولان ہائٹس 1967ء سے اس کے ناجائز قبضے میں ہے، لیکن شامی فوج نے ابھی تک کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ اسرائیل کے بقول وہ شام میں موجود ایرانی فوجی مراکز کو نشانہ بنا رہا ہے، جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی فوجی مرکز شام میں موجود نہیں۔
اب پہلی بار ہے کہ ایران نے اپنے دشمن اسرائیل کے تزویراتی مرکز کو کسی دوسرے ملک میں نشانہ بنایا ہے۔ کیا یہ متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین اور دیگر خلیجی ممالک میں قائم ہوتے ہوئے اسرائیلی اڈوں کے لیے بھی ایک پیغام تو نہیں؟ ایران پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اگر کوئی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہوئی تو وہ اس کے خلاف اقدام کرسکتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس اسرائیل کو اپنے ہاں دعوت دے کر عرب حکمران خوش ہو رہے ہیں اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ اسرائیل سے سفارتی اور فوجی تعلقات ان کی مضبوطی کا باعث ہوں گے، وہ الٹا ان کے لیے وبال جان بن جائیں، کیونکہ اسرائیل کا ناپاک قدم مسلمان ممالک کے لیے خیر کا باعث نہیں ہوسکتا۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: