عقیدے کی بنیاد پر قتل انسانیت کا قتل ہے

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

بحیثیت مسلمان اور ہاشمی النسب انسان، میری نظر میں ناپسندیدہ ترین عقیدہ ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنا اور ختمی مرتبتﷺ کے بعد کسی انسان کی نبوت کا قائل ہونا ہے۔ خواہ اسے بعدہ مسیح موعود یا مہدی موعود کہہ کر اپنے بنیادی دعوے کو چھپانے کی کوشش کی جائے۔ آئین پاکستان میں بھی اسی لیے اس عقیدہ کے حامل شخص کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے، تاہم اس نظریہ اور عقیدہ کے باوجود میرا دین یعنی دین اسلام (سلامتی) مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں ایک ناپسندیدہ عقیدے کے سبب کسی بھی انسان کے جان و مال کو کوئی نقصان پہنچاؤں یا اس نقصان کی حمایت کروں، بلکہ اس کے برعکس میرا دین مجھے حکم دیتا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘، کوئی شخص کافر ہو یا مشرک، یا اسی طرح کسی بھی دوسرے مذہب اور عقیدے کا حامل، اس سے عقیدتی اختلاف اس بات کا باعث نہیں بنتا کہ میں ایسے شخص کے جان و مال کو اپنے لیے مباح سمجھنے لگوں۔

دین اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ایک انسان کی زندگی بچانا پوری انسانیت کو زندگی دینے کے مترادف ہے، اسی طرح ایک انسان کا جرم کے بغیر قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ لفظ مسلمان یا مومن استعمال نہیں کیا گیا بلکہ لفظ ’’ناس‘‘ ہے، یعنی انسان خواہ اس کا عقیدہ کچھ بھی ہو، جب تک وہ کوئی ایسا گناہ نہ کرے، جس کی سزا قتل ہو، اس کی جان محفوظ ہے۔ سزا کا تعین بھی اللہ نے ہر مسلمان پر نہیں چھوڑا بلکہ اہل علم اور خبرہ کو حق ہے کہ وہ کسی انسان کے جرم کا تعین کریں اور اسلامی قانون کے مطابق سزا تجویز کریں، لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں اور بعض مسلم مسالک کے ساتھ یہ رویہ رکھا گیا ہے کہ ان کو فقط ان کے عقیدے کے سبب قتل کیا گیا، عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے، مذہبی اجتماعات کو نشانہ بنایا گیا۔ حال ہی میں ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والا حملہ اس کی مثال ہے۔

پاکستان میں عیسائی، ہندو، سکھ، قادیانی، شیعہ، بریلوی، اصلاح پسند دیوبندی  اور دیگر روشن فکر افراد ان مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں جان و مال کے ضیاع کے صدمے اٹھا رہے ہیں۔ فقط گذشتہ ایک برس میں پشاور میں چار ایسے افراد کو قتل کیا گیا ہے، جن کا تعلق قادیانی کمیونٹی سے تھا۔ تازہ ترین واقعہ ایک ڈاکٹر کے قتل کا ہے، جس کو قاتل نے مریض کے روپ میں آکر گولیوں کا نشانہ بنایا۔ قادیانی جماعت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کی کسی سے ذاتی دشمنی نہ تھی۔ بی بی سی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قادیانی فرد کے قتل کا یہ آٹھواں واقعہ ہے۔ نومبر 2020ء میں محبوب احمد نامی قادیانی کو قتل کیا گیا، اکتوبر 2020ء کو پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین خٹک قتل ہوئے، مارچ 2020ء میں دو قادیانی ڈاکٹر فتح جنگ کے قریب قتل کیے گئے، اسی طرح 2019ء میں ایک قادیانی خاتون پروفیسر قتل ہوئیں۔ قادیانی عبادت گاہیں بھی اس ملک میں اکثر مذہبی جنونیوں کے حملوں کی زد پر رہتی ہیں۔ یہی حال دیگر مذاہب اور مسالک کے افراد کا ہے۔

یہ واقعات حکومت، عوام اور خواص بالخصوص دین اسلام کے حقیقی خیر خواہوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ ایسے واقعات فی ذاتہ قبیح اور غیر اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی توہین کا باعث بنتے ہیں۔ ان واقعات سے نہ فقط مسلمانوں کی توہین ہوتی ہے بلکہ اسلام کی ایک غلط تصویر دنیا کے سامنے ابھر کر سامنے آتی ہے۔ جو کسی بھی اسلام دشمن کے اسلامی تعلیمات یا عقائد پر حملے سے کم نہیں ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اس امر کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قسم کے دباؤ کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری کو انجام دے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے۔

خواص بالخصوص علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام تک حقیقی اسلامی تعلیمات پہنچائیں اور حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ وہ علماء جو لاعلمی کی وجہ سے معاشرے میں تشدد پسندانہ رویوں کو ترویج دے رہے ہیں، انھیں متنبہ کرے اور اگر وہ اپنے عمل سے باز نہ آئیں تو ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر ہم نے اس بے لگام شدت پسندی کو لگام نہ ڈالی تو پاکستانی معاشرے میں اختلاف نظر ایک ناقابل برداشت چیز بن جائے گی اور اس اختلاف کی بنیاد پر یہ معاشرہ بے امنی اور ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہو جائے گا۔ ہم نے بحیثیت قوم پہلے ہی اس کام میں بہت دیر کر دی ہے۔ نوے کی دہائی سے مسلک کے نام پر قتل ہونے والے افراد کے مجرموں، ان کے حامیوں اور معاشرے میں نفرتیں پیدا کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزائیں دی جاتیں تو ہزاروں بے گناہ انسانی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔