افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(2)

Published by سید اسد عباس on

سید اسد عباس

طالبان نے افغانستان کے امور کو چلانے کے لیے اپنی 34 رکنی کابینہ کا اعلان کر دیا ہے، جس کا تعارف گذشتہ قسط میں پیش کیا گیا۔ اس کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے دنیا بھر میں جو اعتراض اٹھا، یہی تھا کہ اس کابینہ میں افغانستان کے تمام لسانی، علاقائی اور مذہبی گروہوں کو نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت عبوری دور کے لیے ہے۔ طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ ہم افغانستان میں ایسی حکومت تشکیل دیں گے، جس میں افغانستان کی تمام قومیتوں، مسالک اور گروہوں کی نمائندگی ہوگی۔

سہیل شاہین نے کابل پر قبضے سے قبل ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ تسلط کی سیاست افغانستان میں ناکامی سے دوچار ہوئی ہے، ہم اپنی گذشتہ غلطی کو نہیں دہرائیں گے۔ شاید اسی لیے وہ اپنی موجودہ حکومت کو عبوری حکومت کہہ رہے ہیں، تاہم اس عبوری حکومت کی مدت اور آئندہ کی حکومت کے لیے لائحہ عمل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

طالبان کے ماضی کے تناظر میں ان کا کابینہ کی تشکیل کا اعلان افغانستان میں ملی جلی کیفیت کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ افغانستان کی شیعہ آبادی کی نمائندہ تنظیم شوریٰ علمائے شیعیان افغانستان نے گذشتہ دنوں اپنے تین روزہ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق افغانستان کے تمام طبقات پر مشتمل حکومت قائم کریں، ساتھ ساتھ اس اعلامیہ میں طالبان سے شہری حقوق، خواتین کے حقوق کی پاسداری کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس اعلامیہ میں نیٹو اور امریکی افواج کے انخلاء کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ کوشش کی جائے کہ آئندہ افغان سے باہر کی کوئی قوت ہمارے امور میں دخالت نہ کرسکے۔ اس اعلامیے میں طالبان حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام کی وہ صورت نافذ کریں، جو تمام مسالک کے لیے قابل قبول ہو۔ اسی طرح سے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ معاشرے میں رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دیں۔

طالبان کی عاشورہ کے مراسم کے انعقاد کی اجازت کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے، ساتھ ساتھ شیعہ قوم کو طالبان حکومت میں متناسب نمائندگی دیئے جانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ چودہ نکات پر مشتمل یہ اعلامیہ ایک جامع دستاویز ہے، جس میں مستقبل کی راہ کے تعین کے ساتھ ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار بھی خوبصورت پیرائے میں کیا گیا ہے۔ شمالی اتحاد کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کے فرزند احمد مسعود نے طالبان کابینہ کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی مقاومت فرنٹ سیاسی شخصیات اور ماہرین سے مشاورت کے بعد جلد ہی مستقبل کی حکومت کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے طالبان کی کابینہ کے اعلان کو غیر قانونی اور اس گروہ کی افغان عوام سے کھلی دشمنی کی واضح علامت قرار دیا ہے۔ احمد مسعود نے کہا کہ کابل میں طالبان کی ناجائز حکومت افغانستان، خطے اور دنیا کے استحکام و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ان کے مطابق جمہوری، جائز اور قانونی حکومت کا قیام صرف عام انتخابات جو بین الاقوامی برادری کے لیے قابل قبول ہوں نیز عوام کی مرضی اور ووٹ کے ذریعے ممکن ہے۔

مسعود نے مزید کہا کہ ہم اقوام متحدہ، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، یورپی یونین، شنگھائی علاقائی تعاون تنظیم، سارک، ای سی او، ہارٹ آف ایشیا کے اراکین ممالک، اسلامی تعاون تنظیم، خطے اور دنیا کے بااثر ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ افغان عوام کی خواہش پر طالبان کے ساتھ سیاسی اور سفارتی تعاون سے اجتناب کریں۔ ذرائع کے مطابق حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ ہم طالبان حکومت کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہم نے طالبان ‏کو مشورہ دیا تھا کہ پہلے عبوری حکومت قائم کریں۔ گلبدین حکمت یار نے کہا کہ غیر یقینی صورتحال میں حزب اسلامی طالبان کی تائید کرتی ہے۔ 20 سال جدوجہد کرنے والے ہی عبوری ‏کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گلبدین حکمت یار نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آنے والے وقت میں لوئیہ جرگہ اور ملک کی آئین ‏سازی کیسے ہوگی؟ پارلیمنٹ کو کونسی شوریٰ تبدیل کرے گی۔؟

طالبان حکومت کے قیام سے متعلق عالمی طاقتیں اور دیگر ممالک بھی اپنے اپنے موقف کا اظہار کر رہے ہیں اور دنیا ‏بھر سے ردعمل آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ چینی حکومت جو قبل ازیں طالبان کے حوالے سے محتاط تھی، نے اب افغانستان کی نئی حکومت اور سربراہ کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ‏ ہم افغانستان کی خود مختاری، آزادی اور سالمیت کا احترام کرتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے طالبان کی عبوری حکومت کے اعلان پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان کو ان کی باتوں سے نہیں، ان کے اقدامات سے پرکھیں گے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں حکومت سازی کا جائزہ لے رہا ہے، امید ہے کہ عبوری افغان حکومت امن و سلامتی ‏کیلئے کام کرے گی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ افغان عوام کی فلاح و بہبود عبوری حکومت کی ترجیح ہونی چاہیئے۔ پاکستان پرامن، ‏مستحکم اور خود مختار افغانستان کا حامی ہے۔

ملا واثیق انٹیلجنس چیف، ملا خیر خواہ وزیر برائے اطلاعات و کلچر، ملا نور وزیر برائے سرحدات و قبائل اور ملا فاضل کو نائب وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے جبکہ مولوی عمری کو افغان صوبہ خوست کا گورنر مقرر کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ نائن الیون سے قبل ملا واثیق طالبان حکومت کے انٹیلجنس چیف قاری احمد اللہ کے دست راست اور اس کے ساتھ نائب وزیر برائے استخبارات تھے۔ قاری احمد اللہ افغانستان پر امریکی حملے کے آغاز میں مارے گئے۔ ملا فاضل نائین الیون سے قبل بھی طالبان کے نائب وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ تھے، مگر انھیں اب فقط ایک عہدہ دیا گیا ہے۔ ملا خیر خواہ بھی ماضی میں طالبان حکومت میں وزارت داخلہ سمیت کئی کلیدی عہدوں پر مقرر رہے۔ ملا نوری ماضی میں طالبان حکومت کے دیگر عہدوں کے ساتھ صوبہ بلخ کے گورنر ہونے کے ساتھ شمالی زون کے سربراہ رہے۔ طالبان حکومت میں سب سے دلچسپ تقرری فوج کے سربراہ کی ہے، جس کے لیے صوبہ بدخشان سے تعلق رکھنے والے تاجک النسل طالبان اہم کمانڈر قاری فصیح الدین کو منتخب کیا گیا ہے۔ طالبان کے لیے گذشتہ برسوں میں ان کی عسکری فتوحات کو دیکھتے ہوئے اس عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ میں روسی نمایندہ واسیلی نبنزیا نے کہا کہ اعلان شدہ کابینہ کو بین الاقوامی تائید حاصل نہیں ہے۔ واسیلی نبنزیا کا کہنا تھا کہ صرف افغان عوام ملک کے نمایندے کو منتخب کرسکتے ہیں، ساتھ ساتھ واسیلی نے اس بات پر زور دیا کہ مغربی ممالک افغانستان کی بلاک شدہ رقم کو جاری کریں، تاکہ افغان عوام کو ریلیف مل سکے۔ سعودیہ جو کافی عرصے سے خاموش تھا، اس نے بھی طالبان کابینہ کی تشکیل کو خوش آئند قرار دیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ اب افغانستان استحکام اور سلامتی کے حصول کے لیے درست سمت بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے مطابق ان کا ملک افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ افغان شہریوں کی مدد کے وعدے پر بھی قائم ہے اور مشکل وقت میں ہر ممکن مدد فراہم کرے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی طالبان سے بات کرنے پر زور دیا ہے۔ درج بالا تاثرات اور بیانات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر دنیا کی حکومتیں طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کر لیں گی۔ اگرچہ بعض حکومتیں طالبان کے اقدامات کا انتظار کریں گی۔

طالبان کی اپنی خواہش بھی یہی ہے کہ ان کی حکومت کو عالمی سطح پر مشروعیت حاصل ہو جائے۔ یہ خواہش گذشتہ اور موجودہ طالبان کے مابین ایک واضح فرق ہے اور اسی خواہش سے امید بھی وابستہ ہے کہ طالبان افغان عوام سے کیے گئے وعدوں پر عمل کریں گے اور ملک میں ایک اسلامی، شورای نظام لائیں گے، جس میں افغانستان کے تمام طبقات کو نمائندگی حاصل ہوگی۔ یہ خواہش طالبان کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے، جیسا کہ راقم نے اپنے ایک گذشتہ کالم میں لکھا کہ افغانستان کو فتح کرنا کبھی مشکل نہیں رہا بلکہ یہ ریاستوں کا قبرستان یہاں نظم و نسق قائم کرنے والوں کے لیے بنا ہے۔ امید کی جانی چاہیئے کہ طالبان کسی خارجی مداخلت کے بغیر افغانستان کی بہتری، تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے درست فیصلے لیں گے۔ اگر طالبان اپنے آپ کو غیر ملکی اثرات سے نہ بچا سکے تو ان کی حکومت کا بھی وہی حال ہوسکتا ہے، جو اشرف غنی کی حکومت کا ہوا۔ اللہ کریم افغان عوام کو امن، سکون، سلامتی اور ترقی نصیب فرمائے، آمین۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز