سید اسد عباس

افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(2)

طالبان نے افغانستان کے امور کو چلانے کے لیے اپنی 34 رکنی کابینہ کا اعلان کر دیا ہے، جس کا تعارف گذشتہ قسط میں پیش کیا گیا۔ اس کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے دنیا بھر میں جو اعتراض اٹھا، یہی تھا کہ اس کابینہ میں افغانستان کے تمام لسانی، علاقائی اور مذہبی گروہوں کو نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت عبوری دور کے لیے ہے۔ طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ ہم افغانستان میں ایسی حکومت تشکیل دیں گے، جس میں افغانستان کی تمام قومیتوں، مسالک اور گروہوں کی نمائندگی ہوگی۔ (more…)

سید اسد عباس

افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(1)

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے 23 دن بعد افغان طالبان کے ترجمان نے وزیراعظم اور ان کے دو معاونین سمیت طالبان کی 34 رکنی عبوری کابینہ اور حکومت کا اعلان کیا، جس میں 20 وزراء اور سات نائب وزراء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فوج اور افغان مرکزی بینک کے سربراہ سمیت حکومت کے ڈائریکٹر برائے انتظامی امور کا بھی تقرر کیا گیا ہے۔ ان 34 عہدوں میں تین افراد کے علاوہ تمام پشتون النسل مرد افغان ہیں اور کابینہ میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا۔ طالبان کی اس نئی حکومت اور کابینہ میں 15 افراد کا تعلق جنوبی افغانستان سے، 10 کا جنوب مشرقی، پانچ کا مشرقی اور تین کا شمالی افغانستان سے ہے۔ ملا ہبت اللہ اخونزادہ کو افغان حکومت میں رہبر یا امیر المومنین کی حیثیت حاصل ہے جبکہ ملا حسن اخوند افغانستان کے نئے وزیراعظم، ملا عبدالغنی برادر اور مولوی عبدالسلام حنفی کو نائب وزرائے اعظم مقرر کیا گیا ہے۔ (more…)

سید اسد عباس

افغانستان کا معمہ اور عربوں کی چپ

افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال، طالبان کا بدلا ہوا رویہ اور اسلامی ممالک بالخصوص عرب دنیا جو کہ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے اور امریکہ کے جہاد افغانستان میں فعال کردار کے وقت سے افغان امور میں دخیل تھی، اس کی خاموشی، ایسے امور ہیں، جس نے حالات حاضرہ اور بالخصوص خطے کے مسائل میں دلچسپی لینے والے اذہان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ تجزیہ کاروں کو اس وقت تک یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اچانک کیسے طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود عوامی حکومت کیسے ایک دم سے زمین بوس ہوگئی۔ امریکہ اور نیٹو کی تربیت یافتہ فوج اپنے جدید ترین ہتھیار زمین پر رکھ کر چلتی بنی اور طالبان نے دنوں میں پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ آیا یہ طالبان کا خوف ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور چند دیگر ممالک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تربیت یافتہ افواج کسی کرپٹ نظام کے لیے نہیں لڑ سکتی تھیں۔ لہذا افغانستان طالبان کے سامنے لمحوں میں زیر ہوگیا۔ (more…)

سید اسد عباس

اپ ڈیٹڈ طالبان، ایرانی پریس اور بی بی سی کا تجزیہ

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا کہنا ہے کہ ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ اور اکثر جرائد، رسائل اور ٹی وی چینلز پر طالبان کی ایک معتدل تصویر پیش کی جا رہی ہے۔ ان کے خیال میں نشر و اشاعت کے کئی ادارے تو طالبان کو ایرانی عوام کو اپنا حامی بنانے اور اپنی صفائیاں پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ طالبان حکام ایرانی نشریاتی اداروں کو مسلسل انٹرویوز دے رہے ہیں اور کم از کم دو مواقع پر طالبان کے رہنماؤں کے انٹرویو براہ راست نشر کیے گئے ہیں، جن میں وہ ایران کے عوام کو اس بات پر قائل کرتے نظر آئے کہ انھوں نے ماضی کی اپنی روش کو ترک کر دیا ہے۔ کیہان اور پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے اخبار جوان کے بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ دونوں ادارے اِس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں۔ (more…)