یوکرائن اور نیٹو کے بھیڑیوں کا غول

Published by سید اسد عباس on

سید اسد عباس
ایک جنگل میں کچھ بھیڑیئے رہتے تھے، ان بھیڑیوں کا غول ہمیشہ مل کر شکار کیا کرتا تھا۔ جس کی دست درازی سے کوئی بھی جاندار محفوظ نہ تھا۔ اسی جنگل میں ایک ریچھ بھی رہتا تھا۔ بھیڑیئے اس ریچھ سے تنگ تھے، تاہم اس کے حجم اور قوت کے سامنے یہ بھیڑیئے مکمل طور پر بے بس تھے۔ مگر یہ بھیڑیئے اپنی حرکتوں سے کب باز آتے تھے، اکثر ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ریچھ کو پچھاڑا جائے، تاکہ وہ بھی ان کی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کر لے۔ ان بھیڑیوں نے ایک چال چلی، ریچھ کے ہمسائے میں رہنے والے ایک چھوٹے جانور کو لالچ دلایا کہ تم اس ریچھ کے خلاف کھڑے ہو جاؤ تو ہم تم کو اپنے جھنڈ میں شامل کر لیں گے۔ چھوٹا جاندار جو کسی وجہ سے ریچھ کا مخالف ہوچکا تھا، ان بھیڑیوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا۔ کام اس کا فقط یہی تھا کہ ایک دو مرتبہ ریچھ کی جانب دیکھ کر غرا دیا کرے۔ غرانے کا یہ سلسلہ ایک عرصے تک جاری رہا اور ایک روز ریچھ اس چھوٹے جانور کی غار پر حملہ آور ہوگیا۔ اس جاندار کو یہ توقع تھی کہ بھیڑیوں کا غول مجھے ریچھ سے بچانے کے لیے آئے گا، تاہم ایسا نہ ہوا، یہ غول دور سے ریچھ کو غراتا رہا اور ریچھ نے اس بھولے جاندار کو نگل لیا۔

یہی کہانی آج دنیا کے سیاسی منظر نامے پر دہرائی جا رہی ہے۔ نیٹو، بھیڑیوں کا وہ غول ہے، جس سے اس دنیا کا ہر ملک بالخصوص اسلامی ممالک زخم خوردہ ہیں۔ ان کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ کسی بھی جنگ میں براہ راست مداخلت نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ کسی کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلاتے ہیں۔ افغانستان میں اس گروہ نے پاکستان اور عربوں کے کندھے کو استعمال کیا۔ شام میں عربوں کو بروئے کار لائے۔ آج ان کا شکار یوکرائن ہے۔ یوکرائن سوویت یونین سے علیحدگی سے قبل روس کا حصہ تھا۔ 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرائن نے روس سے آزادی حاصل کی اور روسی تسلط سے مکمل چھٹکارے کے لیے مغرب سے تعلقات کو بہتر کرنا شروع کیا۔ یوکرائن کی سرحدیں بیلاروس، پولینڈ، سلواکیا، ہنگری، رومینیا، مولڈوا اور روس سے ملتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2004ء کے انتخابات میں روسی حمایت یافتہ صدارتی امیدوار وکٹر یناکووچ کے انتخاب کو یوکرائن کی عدلیہ نے کالعدم قرار دیا، جس کے سبب مغرب کے حمایت یافتہ امیدوار وکٹر یشنکوو کے حق میں عوامی مظاہروں کا آغاز ہوا۔ ان مظاہروں کو مغرب نے مالی مددر فراہم کی، نیز مظاہرین کو تربیت بھی دی گئی۔ گارڈین کے مطابق مدد کرنے والوں میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، یو ایس ایڈ اور اسی طرح کے کئی ایک ادارے شامل تھے۔

 روس کی جانب سے اپنے حمایت یافتہ امیدوار کو بھرپور مدد فراہم کی گئی اور وہ دوبارہ 2006ء میں ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ 2013ء میں روس نواز یوکرائنی صدر وکٹر یناکووچ کی جانب سے یورپی یونین کے بجائے رشین فیڈریشن کو ترجیح دیئے جانے کے سبب ایک مرتبہ پھر ملک گیر مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔ یوکرائن کے یہ مظاہرین نان وائلنٹ پروٹسٹ آرگنائزیشن کے تربیت یافتہ اور مغرب کی جانب سے مالی امداد کے حامل تھے۔ ملک گیر مظاہروں کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر وکٹر یناکووچ کو کرسی صدارت سے اترنا پڑا، جسے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بغاوت قرار دیتے ہیں۔ یوکرائن میں سیاسی تناؤ کے جواب کے طور پر روسی پارلیمان نے یوکرائن میں شامل کرائمیا کے جزیرے کو روس سے ملحق کرنے کی قرارداد پاس کی۔ کرائمیا کی زیادہ آبادی روسی نژاد ہے، روس نے اس جزیرے پر قبضے کے ساتھ ہی وہاں ریفرنڈم کروایا، جس کے نتائج کے مطابق وہاں کی 97 فیصد آبادی روس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ مغربی ممالک اس ریفرنڈم کو قبول نہیں کرتے۔

اس کے ساتھ ساتھ روس نے مشرقی یوکرائن کے دو صوبوں جن کو مشترکہ طور ڈونبس کہا جاتا ہے اور جنہیں حال ہی میں روسی صدر نے خود مختار ریاستوں کے طور پر قبول کیا ہے، میں علیحدگی پسند مسلح جدوجہد کی مدد شروع کر دی۔ 2014ء سے 2022ء تک اس علاقے میں ہونے والی جھڑپوں میں چودہ ہزار کے قریب افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ بھیڑیوں کے غول نے یوکرائن کو برفانی ریچھ کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اسے یورپی یونین اور نیٹو میں شامل کرنے کا جھانسہ دیا، یوکرائن بھی اس میٹھی گولی کے پیچھے چل پڑا۔ بھیڑیوں کا غول یعنی نیٹو اس ملک کو عسکری امداد فراہم کرتے رہے، جس سے یوکرائن کو توقع ہوگئی کہ وہ بھی جلد ہی اس غول کا حصہ بن جائے گا، تاہم آج یعنی 24 فروری 2022ء کو برفانی ریچھ یعنی روس نے یوکرائن پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اگرچہ یوکرائن کے فوجی مراکز پر ہے، تاہم اس نے پوری دنیا میں خوف و ہراس کو پھیلا دیا ہے۔ عالمی سطح پر کاروبار کو شدید دھچکا لگا ہے، تیل کی فی بیرل قیمت 100 ڈالر سے اوپر چلی گئی ہے، کئی ایک ملکوں میں سٹاک ایکسچینج مندی کا شکار ہے۔

روسی صدر پیوٹن کہتے ہیں کہ یہی اقدام کا وقت ہے، اپنے ایک خطاب میں انھوں نے کہا کہ نیٹو نے مجھ سے معاہدہ کیا کہ وہ مشرق کی جانب اپنے اقدامات کو وسعت نہیں دیں گے، لیکن انھوں نے پولینڈ اور آرمینیا میں اپنے اڈے قائم کیے۔ اب وہ یوکرائن میں اپنے اڈے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے روسی قوم کو دھوکہ دیا ہے۔ اگر اب ہم نے دیر کی تو یوکرائن میں نیٹو کے اڈے ہوں گے اور روس کے شہر نیٹو کے میزائلوں کی زد پر ہوں گے اور اس کے بحری بیڑے ہماری نیوی کے سامنے ہوں گے۔ میں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ یوکرائن پر حملہ کرتے ہوئے صدر پیوٹن نے کہا کہ امریکا اور نیٹو ممالک دنیا بھر میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے پھیلے ہوئے ہیں اور جب ہم اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدام کرتے ہیں تو اس کو وہ جارحیت قرار دیتے ہیں۔ روسی صدر نے واضح طور پر کہا کہ جو بھی روس کے راستے میں آئے گا، ہم اسے ایسا جواب دیں گے، جو اس نے اپنی تاریخ میں نہیں دیکھا ہوگا۔ روسی صدر نے واضح طور پر کہا کہ ہم ہر طرح کے حالات کے لیے آمادہ ہیں۔

روس کے یوکرائن پر حملے کے جواب میں بھیڑیوں کا غول دور کھڑا غرا رہا ہے۔ اقتصادی پابندیاں، عالمی قوانین کی خلاف ورزی، اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزیاں، طفل تسلیاں اور تنہاء نہیں چھوڑیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ نیٹو ممالک اور یورپی یونین روسی صدر کے حملے کے جواب میں فی الفور یوکرائن کو نیٹو کا حصہ بناتے اور روس سے ایک نیٹو اتحادی کے خلاف جنگ نہ کرنے کا مطالبہ کرتے، تاہم اس غول نے ایسا نہیں کیا۔ وہ اب بھی یوکرائن کو تسلی دے رہے ہیں۔ یوکرائن کا ائیر ڈیفنس سسٹم مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے، نیوی کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے، کئی ایک فوجی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ بہرحال یہ عالم انسانیت کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے۔ دو عظیم فوجی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔ ایک جانب روس اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے آمادہ ہے اور دوسری جانب بھیڑیوں کا غول بھی روس کو چھیڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ یہ معاملہ کسی وسیع معرکے کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ اللہ کریم انسانیت کو کسی بھی عالمی سانحہ سے محفوظ فرمائے، آمین۔

بشکریہ : اسلام تائمز