یمن سے سعودی عرب کی ’’آبرومندانہ‘‘ واپسی کی تیاری
یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں سعودی عرب یمن کی دلدل سے ’’آبرومندانہ‘‘ انخلا کی تیاری کر رہا ہے۔ علاقے میں اس کے اتحادیوں کو بھی فکر لاحق ہے اور امریکہ نے بھی سعودی عرب اور امارات پر مزید اسلحے کی فراہمی کو روکنے کا اعلان کرکے آنے والے وقت میں اپنے دوستوں کو بچانے کی ہی ایک تدبیر کی ہے۔ اس تدبیر سے خود امریکہ کو بھی اپنی آبرو بچانے کی فکر لاحق ہے، کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ سعودی اتحاد یمن کے خلاف امریکی سرپرستی ہی میں چھ سال سے مصروف جنگ ہے۔
اس وقت تحریک انصاراللہ کی قیادت میں یمنی فوج اور رضاکاروں کے دستے یمن کے نہایت اہم اسٹرٹیجک شہر ماٰرب کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں انھوں نے ماٰرب کے قریب ایک نہایت اہم چھائونی کوفل پر قبضہ کر لیا ہے اور سعودی اتحادی افواج کو ایک مکمل شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ چھائونی ماٰرب کے شمال مغرب میں ہے۔ دوسری طرف سعودی سرزمین پر موجود فوجی اڈوں پر یمنی میزائلوں اور ڈرونز کے حملے بھی جاری ہیں۔
انصار اللہ کے ترجمان نے سعودی اور اماراتی شہریوں سے کہا ہے کہ اپنے ملکوں کے فوجی ہوائی اڈوں اور مراکز سے دور رہیں کیونکہ وہ ہمارے نشانے پر ہیں اور وہاں سے یمنی عوام پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم ان فوجی مراکز کو نشانہ بنائیں اور اپنے ملک پر جارحیت کرنے والوں کو جواب دیں۔ یمنی ترجمان کا یہ بیان سعودی اور اماراتی سوشل میڈیا پر نمایاں طورپر نشر ہوا ہے، البتہ دونوں ملکوں نے اپنے اہم مراکز کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ تحریک انصار اللہ کے سیاسی دفتر کے نمائندے عبدالوہاب مجشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یمن کی مشترکہ افواج کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور ان کامیابیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امید ہم بہت جلد شہر ماٰرب کی جارحین کے ہاتھوں سے آزادی کی خبر کا اعلان کریں گے۔
انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ معرکہ ماٰرب میں سعودی عرب اور امریکہ اپنے بمبار طیارے استعمال کر رہے ہیں، بھاری اسلحہ اور فوجی مشینری میدان میں لے آئے ہیں اور ہزاروں کرائے کے فوجیوں سے انھوں نے جنگ کو شدید کر دیا ہے، لیکن ہماری مسلح افواج اور رضاکاروں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ میدان جنگ میں زبردست معرکہ آرائی کرسکتے ہیں، تاکہ خطے میں امن قائم کرسکیں اور اپنے علاقوں کو کرائے کے فوجیوں اور تکفیریوں سے آزاد کروا سکیں۔ دوسری طرف یمنی افواج نے سعودی سرزمین کے اندر فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ابہا اور خمیس مشیط کے سعودی فوجی اڈے خاص طور پر ان کے ڈرونز اور میزائلوں کی زد میں ہیں۔ گذشتہ چھ دنوں میں ان اڈوں پر چار حملے کیے جا چکے ہیں۔
جب ماٰرب پر سعودی فوجی اتحاد نے قبضہ کیا تھا تو اس کا نعرہ تھا ’’صنعا ہم آرہے ہیں۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعرہ اب یوں تبدیل ہونے والا ہے ’’صنعا ہم جا رہے ہیں۔‘‘ ماٰرب چند ماہ پہلے ہی آزاد ہوگیا ہوتا لیکن علاقے کے قبائلی سرداروں نے انصار اللہ کی قیادت سے درخواست کی تھی کہ انھیں کوشش کر لینے دیں کہ جنگ اور خون ریزی کے بغیر جارحین یہ شہر خالی کر دیں۔ بہرحال اب سعودی اتحادی افواج اور کرائے کے فوجیوں کے ہولناک مظالم کے بعد ماٰرب کے شہریوں نے انصار اللہ سے مدد کی اپیل کی ہے۔ یہ اپیل اتحادی افواج کی طرف سے خواتین کے مسلسل اغواء کے بعد کی گئی ہے۔ جس کے بعد حکومت صنعا کے وفادار، فوجی اور رضاکار ماٰرب کی طرف پیش قدمی شروع کرچکے ہیں۔ لگتا ہے کہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ وہ میڈیا میں شکست کے شور شرابے کے بغیر ماٰرب سے اپنے فوجی افسروں کو نکال لے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ بھی ایک باقاعدہ شکست کا اعتراف ہے۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عملاً ماٰرب میں جنگ ختم ہوچکی ہے۔ اس شہر کی آزادی کے اعلان میں اب صرف مناسب وقت کا انتظار ہے۔ تقریباً یہی بات انصار اللہ کے ترجمان نے بھی کہی ہے، جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی فوج اور اس کے کرائے کے فوجیوں کی موومنٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان پر اتحادیوں اور منصور ہادی کو بھی اعتبار نہیں رہا اور یہ فوج اب اس قابل بھی نہیں کہ آل سعود کی حکومت کا دفاع کرسکے۔ ظاہر ہے کہ یہ شکست خوردہ فوج جب سعودی عرب واپس جائے گی تو اس پر کیسے اعتماد کیا جاسکے گا کہ وہ آل سعود کا دفاع کر سکے۔ ایک طرف ماٰرب میں سعودی عرب اور امارات کو شکست کا سامنا ہے اور دوسری طرف سعودی سرحدوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ سعودی فضا بھی محفوظ نہیں رہی۔ ماہرین کی رائے ہے کہ آل سعود کی حکومت کو اب تزویراتی لحاظ سے ایسی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جن کی مدد سے وہ اپنے زوال کی رفتار کو کم کرسکے۔
یمن میں شکست کی خبر عام ہونے کے بعد علاقے میں اتحادیوں پر سعودی عرب کا اثر و رسوخ کم ہونے کا امکان ہے۔ ملک کے اندر آل سعود کی حکومت کے خلاف پہلے ہی مختلف شہروں میں احتجاج ہوچکا ہے۔ بہت سی مذہبی شخصیات پر ظلم و ستم نے مذہبی حلقوں میں بھی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ بہت سے سعودی شہزادے محمد بن سلمان کے ہاتھوں نالاں ہیں۔ اقتصادی حالات الگ سے دگر گوں ہیں۔ محمد بن سلمان کی آزاد خیالیاں بھی اپنا رنگ لا رہی ہیں۔ مسلم عوام کے دلوں میں حرمین شریفین کے سبب سعودیہ کا جو احترام تھا، وہ اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگوں کی وجہ سے خاصا متاثر ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آل سعود کا زوال بڑی بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنے گا، البتہ جن ممالک کی فوجیں آج آل سعود کی حمایت میں یمنیوں کے قتل عام میں شریک ہیں، انھیں بھی اپنا حساب دینا ہوگا، کیونکہ قوموں کے حافظے بہت قوی ہوتے ہیں۔