تاریخِ بشریت میں ہاجرہؑ کا ورود اور تاریخ کا نیا موڑ

Published by مفتی امجد عباس on

مفتی امجد عباس

ارشاد ربانی ہے: ٰٓیاََیُّہَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (۱) اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اورعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، کنبے اور قبیلے بنا دیے ہیں۔ اللہ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے بے شک خدا سب جاننے والا اور خبردار ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقویٰ و پرہیزگاری کا معیاراعلیٰ اخلاقی و ایمانی صفات ہیں، ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۲) اور جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت، وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اسے پاک زندگی سے زندہ رکھیں گے اور ان کے اعمال کا (آخرت میں) نہایت اچھا صلہ دیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے عمل صالح میں مذکر و مونث، علاقے، نسل اور رنگ وغیرہ کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا۔ تاریخ انسانیت میں جہاں انبیاء کرام سبھی مرد تھے، وہیں پر ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ عورتوں نے بھی اس الٰہی کار میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ انسانی تاریخ عورت کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے، حضرت آدمؑ کا قصہ حضرت حوا کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے، ایک طرف آدمؑ ہیں تو دوسری طرف حضرت حواؑ۔ تمام انسانیت انہی دو سے پھیلی۔ مصیبتوں میں حضرت آدمؑ کے ساتھ حضرت حواؑ نے بھرپور تعاون کیا تمام آزمائشوں اور امتحانوں میں ساتھ دیا۔

تاریخ اسلام پر نظر دوڑائیں تو حضرت خدیجہؑ کے بغیریہ نامکمل نظر آتی ہے۔ انہوں نے پیغمبر گرامی قدرؐ کی ڈھارس بندھائی، مکمل ساتھ دیا، مالی مشکلات کا کھلے دل سے سامنا کیا، آپؐ کی باقی ازواج مطہرات کا بھی اپنا اپناتاریخی کردار ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی تاریخ پر غور کریں تو آپؑ کی دو ازواج حضرت سارہؑ اور حضرت ہاجرہؑ کا نام سامنے آتا ہے۔ یہ دونوں ایمان و الیاں اور آپؑ کی مکمل معاون و مدد گار تھیں۔

آپ کی شادی حضرت سارہؑ سے ہوئی، قریں قیاس ہے کہ یہ آپ کے خاندان سے ہی تھیں۔ ایک عرصہ تک حضرت ابراہیمؑ کے ہاں اولاد نہ ہوئی، تب حضرت سارہؑ نے اپنی کنیز، حضرت ہاجرہؑ جو نیک اور پاک دامن تھیں، حضرت ابراہیمؑ کو عطا کی۔ہاجرہؑ کی آمد سے حضرت ابراہیمؑ کی زندگی میں نیا موڑ آتا ہے، ڈھلتی عمر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حضرت ہاجرہؑ سے بیٹا عطا فرمایا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اس فرزند کا نام اسماعیل رکھا۔ اس مرحلے پر بھی خداوند متعال کو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت ہاجرہ کا امتحان لینا مقصود تھا، ارشاد ربانی ہے: اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ(۳) تمھارے مال و اولاد آزمائش ہیں بڑھاپے میں اولاد ہو تو انسان انتہائی زیادہ محبت کرتا ہے، جب کہ اسماعیلؑ تھے ہی ابتداء میں اکلوتے، ایسے میں شاید حضرت ہاجرہ اور جناب اسماعیلؑ،حضرت ابراہیمؑ کے منظور نظر قرار پائے۔ ابھی حضرت اسماعیل کا بچپن ہی تھا کہ ارشاد ربانی ہوا اے ابراہیمؑ اپنی زوجہ اور بچے کو وادی مکہ میں چھوڑ آئو۔ قدرت کو یہی منظور تھا کہ اولاد اسماعیلؑ وادی ام القریٰ کو آباد کرے تب ہی حضرت ابراہیمؑ کو ایسا حکم ارشاد فرمایا۔ حضرت ابراہیمؑ بلند ہمت نبی تھے، لیکن آفرین ہے حضرت ہاجرہ پر جونبی نہ تھیں لیکن حکم خداوندی کے اتباع میں ابراہیم کی طرح ان کے بھی پائے استقلال میں ذرا برابر لغزش نہ آئی۔ انھوں نے بھی اس فیصلے کو بسروچشم قبول کیا۔ یوں حضرت ابراہیمؑ اپنے اس فرزند ارجمند اورزوجہ محترمہ کو لق و دق صحرا میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے چھوڑ آئے۔

یہ علاقہ وادی مکہ سے موسوم ہے، یہاں پانی کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ بچے کو پیاس نے ستایا حضرت ہاجرہؑ نے شکوہ کرنے کی بجائے، ہمت اورمحنت سے کام لینے کی ٹھانی۔ بچے کو لٹا کر پانی کی تلاش میں دوڑیں، حضرت ہاجرہ کا دوڑنا، پانی کی تلاش و کوشش کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ بچے کے پائوں کے نیچے چشمہ جاری فرما دیا اور حضرت ہاجرہؑ کے عمل کو رہتی دنیا تک کے لیے محفوظ کرنے کی خاطر حج بیت اللہ کرنے والوں کو حضرت ہاجرہ کے نقشِ قدم پر دوڑنے کاحکم دیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے تمام بڑے واقعات میں حضرت ہاجرہ بھی شریک کار نظر آتی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو مختلف مقامات پر آزمانا چاہا جن میں سے ایک ہجرت کا واقعہ ہے، کہ مکہ کی بے آب و گیارہ وادی میں اپنی زوجہ اور بیٹے کو چھوڑ آئیں، اس میں حضرت ہاجرہؑ نے حضرت ابراہیمؑ کا بھرپور ساتھ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حضرت اسماعیلؑ کے ذبح کرنے کاحکم دیا، ابراہیمؑ باپ تھے تو ہاجرہؑ ماں تھیں، جہاں ابراہیمؑ نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا وہیں ہاجرہؑ نے بھی کمال تسلیم و رضا کا مظاہرہ کیا اور اسماعیلؑ جن کے بارے میں ارشاد ہے: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِِنِّیْٓ اَرَی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ: یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۔(۴) پس وہ جب ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچا تو ابراہیمؑ نے کہا کہ بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کررہا ہوں تو تم سوچو تمھارا کیا خیال ہے؟ انھوں نے کہا کہ بابا جان جو آپ کو حکم ملا ہے وہی کیجیے ، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔

حضرت اسماعیل کا یہ فرمانا قابل غور ہے : اے بابا! وہ کر گزریے جس کا آپ کو رب جلیل نے حکم دیا ہے۔ اسی سے حضرت علامہ اقبال نے فرمایا: وہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کسی نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی اب ذرا تفصیلی حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ حضرت ہودؑ ا ور حضرت صالح ؑکی نبوت کے عرصہ دراز کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو مبعوث بررسالت فرمایا۔ آپ کا اسم گرامی قرآن مجید میں 69 مقامات پر مذکور ہے اور25سورتوں میں آپ کے متعلق گفتگوہوئی ہے۔ قرآن مجید میں آپ اور آپ کے خاندان کی بڑی مدح و ثنا کی گئی ہے۔جہاں آپ کابطور انسان کامل ذکر ہے وہیںآپ کے دو بیٹوں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیھما السلام کا بھی بطور نبی تذکرہ ہے، وہ بھی انسان کامل تھے۔ آپ کی ازواج حضرت سارہؑ اور حضرت ہاجرہ ؑبھی با ایمان نیک خواتین تھیں، قرآن مجید نے ان کا بھی احسن انداز میں ذکر کیا ہے۔ آپؑ کا دین حق کی تبلیغ کرنا، بت پرستوں سے مقابلہ کرنا جابر و قاہر شہنشاہوں کا سامنا کرنا، صبر و حوصلہ اور مہمان نوازی بہت مشہور ہے’’لقد کان فی ابراھیم۔۔۔‘‘ قرآن مجید کے مطابق آپ ایک نیک، صالح، فروتنی کرنے والے، صدیق، بردباد اور وعدہ پورا کرنے والے نبی و رسول تھے۔

آپ کے والد گرامی کا نام تارخ ہے، جبکہ چچا آزر، آزر کا نام توریت، قرآن اوراحادیث میں حضرت ابراہیم کے ساتھ آیا ہے۔ آزر پتھر اور مٹی کے بت بنانے میں خاص مہارت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ علم نجوم سے بھی واقف تھا، ان دونوں صلاحیتوں کی وجہ سے اس کی رسائی نمرود کے دربار تک ہو گئی تھی۔ ملک میں کیونکہ نمرود کی خدائی کے علاوہ بت پرستی بھی ہوتی تھی اور ستارہ پرستی بھی رائج تھی۔ اس لیے اس نے جلد ہی نمرود کے چیف آفیسر کا اعلیٰ مقام حاصل کر لیا۔ (۵) قرآن مجید میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آزر آپ کا چچا ہو سکتا ہے، والد نہیں۔ آزر ایرانی سال کا ایک مہینہ بھی ہے، جب کہ کلدانی زبان میں ’’آوار‘‘ مندر کے پروہت یا پجاری کے لیے استعمال ہوتا ہے، یہی لفظ عربی میں ’’آزر‘‘ بن گیا۔ اس طرح یہ خاندان سیاسی اور مذہبی دونوں لحاظ سے ملک کے اعلیٰ ترین طبقے میں شمار ہوتا ہے۔ روایات اہل بیت اور کچھ مفسرین نے صراحت سے لکھا ہے کہ تارخ حضرت ابراہیمؑ کے حقیقی باپ تھے، جب کہ ان کا انتقال حضرت ابراہیمؑ کے بچپن میں ہی ہوچکا تھا، اس لیے ان کا تذکرہ نہیں ملتا۔ چچا ہونے کی حیثیت سے آزر حضرت ابراہیم کا سرپرست تھا، اس لیے قرآن نے اسی حیثیت سے لفظ ’’اب‘‘ استعمال کیا ہے، عربی زبان میں لفظ ’’اب‘‘ چچا، سرپرست اور باپ سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ’’(اور یاد کرو) جب ابراہیم نے اپنے آپ کو آزر سے کہا کیا تم بتوں کو اپنا خدا بناتے ہو؟‘‘(۶) ’’ابراہیمؑ کا اپنے اَب آزر کے لیے استغفار اس وعدے کی بناپر تھا جو انھوں نے اس سے کیا تھا، لیکن جب انھیں معلوم ہو گیا کہ وہ دشمن خدا ہے تو اس سے بیزاری کی۔‘‘(۷) ’’یعنی میں عنقریب تمھارے لیے استغفار کروں گا۔‘‘(۸) عربی زبان کے قواعد کے مطابق لفظ والد صرف باپ کے لیے آتا ہے،حضرت ابراہیمؑ کی مشہور دعا جو آپ نے والدین اور مومنین کی مغفرت کے لیے فرمائی، قرآن مجید میں اس طرح درج ہے: اے پروردگار! مجھے میرے ماں باپ کو اور مومنین کو قیامت کے دن بخش دینا۔(۹) مذکورہ آیات صراحت کے ساتھ اب یعنی چچا اور ’’والدَی‘‘ یعنی ماں اور باپ کے مفہوم کو ادا کررہی ہیں۔ اس امر کی نشان دہی کررہی ہیں کہ حضرت ابراہیم کے چچا اور باپ دونوں الگ الگ شخصیتوں کے مالک تھے۔ ارشاد ربانی ہے کہ ابراہیمؑ تنہا ایک امت تھے۔(۱۰) مفسرین اور مورخین کے اقوال کے مطابق حضرت ابراہیم سمیریوں کے شہر اُر(الا) میں تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح پیدا ہوئے۔ ابتداء ہی میں آپؑ نے اپنے علاقے کے لوگوں کو توحید خالص سے روشناس کرانے کی کاوش کی۔(۱۱) اسی پاداش میں شہنشاہِ وقت نمرود نے آپ کو ہجرت پرمجبور کردیا۔ یوں آپ نے اپنے وطن اُر سے رختِ سفر باندھ لیا۔ اللہ کے رسولؐ و خلیل ابراہیم علیہ السلام کی اپنے وطن اُر سے ہجرت کوئی معمولی بات نہ تھی۔ تاریخ کا بیان ہے کہ اس واقعے نے نمرود کی خدائی میں ایسا خلل ڈالا کہ سلطنتِ اُر کے ساتھ دیوتائوں کے دیوتا کے عظیم مندرکی بنیادوں بھی ہل گئیں۔(۱۲) خلیلِ خدا اُرسے کیا نکلے کہ پوری سلطنت سے برکتیں اٹھ گئیں اور پورا ملک عذاب الٰہی کی زد پر آگیا اور مسلسل تباہیاں نازل ہونے لگیں۔ اس دوران مشرق سے آنے والے سامیٔ النسل عیلامی قہر خدا بن کر ملک پر ٹوٹے تو انھوں نے پورے ملک میں ایسا فساد برپا کیا کہ ارنمو کے دارلخلافے اُراورننار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اس خدائی کے دعوے دار کو عیلام تک کھینچتے ہوئے لے گئے۔ اس واقعے کے بعد سلطنت اُر(Ur) 2000 ق م کے بعد ایسی مٹی کہ مٹی کا گمشدہ باب بن کر رہ گئی۔ امام محمد باقرؑ سے منقول ہے کہ آپؑ اپنی بیوی حضرت سارہؑ اور اپنے بھتیجے حضرت لوطؑ کے ہمراہ فوراً ملکِ شام کی طرف روانہ ہو گئے اور سرزمین شام کی برکتوں والی زمین اس لیے کہا گیا ہے کہ آگے چل کر صدیوں تک یہی شام و فلسطین کی سرزمین نبیوں کا گہوارہ بنی رہی اور اکثر انبیاء و مرسلین اسی علاقے سے مبعوث ہوئے۔ 1900ق م میں حضرت ابراہیم اُر سے حضرت لوطؑ، حضرت سارہؑ اور اللہ پر ایمان لانے والے چند افراد کو لے کر نکلے تو آپؑ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے: وَقَالَ اِِنِّیْ ذَاہِبٌ اِِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ(۱۳) میں اپنے پروردگار کی طرف جاتا ہوں وہ میری رہنمائی کرے گا۔ اللہ نے جس زمین کی طرف اپنے خلیل کی راہنمائی کی وہ ملک کنعان اور صحرائے کنعان کے نام سے موسوم کی جاتی ہے۔ حام بن نوحؑ اور سام بن نوحؑ کی اولادوں نے یہاں کی بستیاں آباد کی تھیں۔ مگر اس وقت پرانی آبادیاں مٹ چکی تھیں۔ بحرِ روم کے ساتھ ساتھ مصر جانے والے راستے پر کچھ چرا گاہیں تھیں جن میں کچھ بدوی قبیلے آباد تھے۔ حضرت ابراہیمؑ نے انہی بستیوں میں حبرون (موجودہ الخلیل) کو اپنا مسکن بنایا۔ حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ اسی ملک کنعان میں پیدا ہوئے۔ اس لیے حضرت یوسفؑ کو یوسفِ کنعان اور ماہ کنعان بھی کہا جاتا ہے۔ بعد کی تاریخ یہی علاقہ شام کے نام سے مشہور ہوا۔ پھر حضرت موسیٰؑ کے بعد جب یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تو دوسرا حصہ فلسطین کہلایا جانے لگا۔ بہرحال اس برکتوں والی سرزمین کو اللہ نے اپنے خلیل اور اس کی آنے والی نسلوں کے لیے وقف کردیا اور آپؑ کو ان نسلوں کا مورث امتوں کا پیشوا اور بادشاہ کا جد بنایا۔ حضرت ابراہیمؑ کی رسالت کا اصل کام اسی سرزمین سے شروع ہوا اور اسلام کی عالمگیر دعوت کنعان سے مصر اور عراق سے حجاز تک پھیل گئی۔ حضرت ابراہیمؑ کے خاندان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب آپؑ نے بابل سے ہجرت کی تو پہلے آپؑ دریائے فرات کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف چلتے ہوئے حاران کے مقام پر پہنچے تھے اور کئی سال وہیں قیام کیا۔ بعد میں اپنے بھتیجے حضرت لوط اور بیوی حضرت سارہؑ کے ساتھ وہاں سے بھی ہجرت کی اور ملک کنعان میں آکر مستقل قیام کیا، جبکہ حضرت سارہؑ کے بھائی اوردوسرے مومنین حاران ہی میں آباد ہوگئے۔ آپؑ حضرت نوحؑ علیہ السلام کے بعد دوسرے اولوالعزم نبی تھے۔ ’’اور تحقیق اس کے شیعوں (یعنی پیروی کرنے والوں) میں سے تھا ابراہیم۔‘‘(۱۴) پورے قرآن میں صرف حضرت ابراہیمؑ کو حضرت نوحؑ کا شیعہ کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت نوحؑ کے بعد سلسلہ انبیاء کے دوسرے موسس ہیں یعنی آپؑ سے کائنات ہدایت کا دوسرا دورشروع ہوا۔ اللہ کی طرف سے ہدایت کے اس سلسلے میں بے شمار انبیاء و مرسلین ہیں جو تمام کے تمام دعوت ابراہیمیؑ کی نسبت سے ذریت ابراہیمیؑ میں داخل ہیں۔ ان میں سے سب سے عظیم الاثریہ ہیں: ہم نے اسحقؑ و یعقوبؑ عطا کیے اور ہم نے ہر ایک کو ہدایت کی اور نوحؑ کو بھی ہم نے اس سے پہلے ہدایت کی تھی اور اس کی ذریت و اولاد میں دائودؑ، سلیمانؑ، ایوبؑ، یوسفؑ،موسیٰ ؑاور ہارونؑ کو ہدایت کی اور ہم نیکو کاروں کو اسی طرح ہدایت دیتے ہیں‘‘۔ ’’اور اسی طرح زکریاؑ، یحییٰ ؑ، عیسیٰ ؑاور الیاسؑ سب کے سب صالحین میں سے تھے۔‘‘ ’’ اور اسماعیلؑ، الیسعؑ، یونس اور لوط ؑہر ایک کو ہم نے عالمین پر فوقیت دی۔‘‘(۱۵) ہجرت کے فوراً بعد اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے اور پھر پوتے کی بشارت دی۔ اس کے بعد آبرو مند اور لائق نسل کی جو تمام کی تمام انبیاء و مرسلین پر مشتمل تھی اور جو بلاشبہ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت تھی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ حبرون(کنعان) کے دوران قیام آپؑ برسوں شام، فلسطین، مصر اور حجاز میں گشت کرتے رہے اور جگہ جگہ اپنی تبلیغ کے مراکز بھی قائم کرتے رہے۔ سب سے پہلے آپؑ نے حضرت لوطؑ کو دریائے یرون کے مغرب میں سدوم کے علاقے میں بھیجا تھا۔ جغرافیائی اعتبار سے کنعان کا ملک عراق، عرب اور مصر کے درمیان واقع تھا اور تمام تجارتی قافلے آتے جاتے اس ملک کے شہروں سے گذرتے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ نے حبرون میں ہی رہ کر نسل انسانی کی ہدایت کے لیے سب سے موثر طریقہ اختیار کیا۔ اس سلسلے میں آپؑ کا روزانہ کا معمول تھا کہ آپؑ حضرت لوطؑ کو لے کر قافلوں کے آنے اور جانے والے راستوں پر بیٹھ جاتے اور جو بھی قافلہ ملتا، گھر لا کر اس کو مہمان رکھتے اور مناسب اور مدلل الفاظ میں دعوت اسلام دیتے۔

یہ بھی پڑھیں: اپنے اپنے اسماعیل ؑ کو بچا کر ابراہیم ؑ کی پیروی کا دعویٰ https://albasirah.com/urdu/apne-apne-ismail-as-ko-bacha-kr/

اسی طرح کئی سال گزر گئے۔ خلیل خدا کی مہمان نوازی اور اخلاق کریمانہ کے ساتھ ساتھ دین حنیف کی شہرت کنعان سے لے کر حجاز تک پھیل گئی۔ کنعان کے جنوب مغرب کی طرف ملک مصر تھا جو بابل کے بعد تہذیب و تمدن کا دوسرا بڑامرکز تھا۔ دور حاضر کی تحقیق کے مطابق، حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں مصر میں حام بن نوحؑ کے قطبی النسل فرعونوں کی حکومت تھی لیکن مصر کی سرحدوں پر سام بن نوحؑ کی نسل سے مختلف خاندان آباد تھے۔ ان ہی میں سے چند طاقتور خاندانوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ حضرت ابراہیم کا تعلق بھی کیونکہ اسی نسل سے تھا۔ اسی تعلق کی بناء پر آپؑ نے ملک مصر کا سفر اختیار کیا تھا۔

بظاہر اس سفر کی وجہ یہ تھی کہ ایک سال کنعان میں شدید قحط پڑا، لوگوں نے وہاں سے نقل مکانی کی تو حضرت ابراہیمؑ بھی اپنی بیوی حضرت سارہؑ اور حضرت لوطؑ کو ساتھ لے کر مصر کی طرف چلے گئے۔ مصر کی سرحد پر سامی بادشاہ کو جب آپؑ کی آمد کا علم ہوا تو اپنے قدیم خاندان سے اتصال کے شوق میں حضرت سارہؑ سے نکاح کا پیغام دیا، مگر جب یہ سنا کہ آپ حضرت ابراہیمؑ کی بیوی ہیں تو اپنی قسمت پر افسوس کیا۔ بہرحال اس سعادت کو اس طرح سے حاصل کیا کہ اپنی بیٹی ہاجرہ کو حضرت سارہؑ کی خدمت میں دے دیا۔ بادشاہ جانتا تھا کہ آپ پیغمبرِ خدا لاحج کی بیٹی ہیں اور اس کے پاس آپؑ کو دینے کے لیے اس سے بہتر کوئی عطیہ نہ تھا۔ حضرت ابراہیمؑ کئی سال مصر میں رہے اور جب کنعان میں قحط ختم ہوگیا توآپؑ واپس آگئے اور حبرون میں ہی قیام فرمایا۔ توریت کے بیان کے کے مطابق اس وقت آپ کی عمر75سال اور حضرت سارہ کی عمر 65سال تھی۔

واقعات کا تسلسل بتاتا ہے ہے کہ کنعان اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں کار رسالت انجام دیتے دیتے آپ کو 25سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا تھا۔ اسی دوران حضرت لوط ؑکو سدوم کی وادی میں دعوت اسلام کے لیے بھیجا گیا۔ ان کے جانے کے بعد حضرت ابراہیمؑ تنہا رہ گئے۔ سالہا سال گذر گئے آپ بڑے صبر سکون کے ساتھ اس بیٹے کی پیدائش کے منتظر تھے جس کی بشارت آپؑ کا رب آپؑ کو دے چکا تھا۔ یہاں تک کہ آپؑ کی عمر 80سال سے تجاوز کر گئی اور بی بی سارہؑ 70سال کی عمر کو پہنچیں۔

ابھی تک حضرت ابراہیمؑ نے دوسری شادی نہیں کی تھی، اسے لیے آپؑ حضرت سارہؑ کوبہت چاہتے تھے۔ حضرت لوطؑ کے بعد ایک وہی تھیں جو آپؑ پر اس وقت ایمان لائیں جب پوری قوم آپؑ کی دشمن تھی۔ آپؑ بہت مالدار تھیں اور آپؑ نے اپنا سارا مال و دولت اللہ کے خلیل کو بخش دیا تھا۔ ہجرت اور بے وطنی کے تمام مصائب میں آپ کی شریک تھیں۔ آپ نے اپنے ماں باپ، وطن ، مال و دولت اور ہر شے کو اللہ اور اس کے رسو ل کے لیے قربان کردیا تھا اور اب جب کہ آپؑ عمر کی زیادتی کے سبب اولاد سے مایوس ہو گئی تھیں۔ آخری قربانی یہ دی کہ خود حضرت ابراہیمؑ سے درخواست کی کہ: اے اللہ کے رسول! آپؑ ہاجرہ کو میری طرف سے قبول کریں، تاکہ اللہ ہمیں اس سے فرزند عطا کرے اور ہماری نسل باقی رہے۔ حضرت ابراہیمؑ حکم خدا سے اس امر پر راضی ہو گئے اور خدا سے باربار فرند صالح کی خواہش کی، جیسا کہ پہلے بھی دعا کر چکے تھے۔ اب اللہ کی طرف سے جواب عطا ہوا۔ ’’ہم نے (ابراہیمؑ کو) بشارت دی ایک حلیم لڑکے کی۔‘‘(۱۶) مفسرین نے لکھا ہے کہ بشارت حضرت اسمعیل ؑسے متعلق تھی اور آپ کی والدہ حضرت ہاجرہ تھیں۔ 86سال کی عمر میں حضرت اسماعیل ؑجیسے فرزند کو پا کر حضرت ابراہیمؑ بہت خوش تھے مگر حضرت سارہ ؑغمگین تھیں اور اللہ نے نہیں چاہا کہ اس نیک بی بی کو مزید آزمائش میں ڈالے، لہٰذا حضرت ابراہیم کو حکم ہوا کہ: ’’ہاجرہؑ اور اسماعیل ؑکو میرے حرم میں پہنچا دو۔‘‘

واضح رہے کہ حرم سے مراد حرم کعبہ یعنی حجاز کی سرزمین تھی اور یہ وہ خاص مقام تھا جہاں خانۂ کعبہ کے آثار موجود تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ حضرت لوطؑ کو سدوم کی وادی میں 15سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا تھا۔خود حضرت ابراہیمؑ مصر، کنعان اور حاران میں بت پرستی کے خلاف مسلسل جہاد کررہے تھے اور اب ضرورت تھی کہ سرزمین حجاز میں توحید کی شمع روشن ہو اور مرکز توحید یعنی خانۂ کعبہ کو اس کی بنیادوں پر پھر سے بلند کیا جائے اسی لیے اللہ نے اس سرزمین کو آل اسماعیل کے لیے پسند فرمایا۔

حضرت ابراہیمؑ کو جیسے ہی حکم ملا آپؑ حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو لے کر ملک حجاز کی طرف روانہ ہو گئے۔ کنعان سے سینکڑوں میل دور’’حجاز کی غیر ذی زرع‘‘ زمین پر جب نبی اللہ نے اپنی بیوی اور بچے کو اتارا اور خود واپسی کے لیے مڑنے لگے تو بی بی ہاجرہؑ نے گھبرا کر سوال کیا کہ: ’’اے اللہ کے رسول! اس زمین پر جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ زراعت کا نام و نشان، کس کے سہارے چھوڑے جاتے ہو؟‘‘ حضرت ابراہیمؑ نے بڑا مختصر سا جواب دیا کہ: ’’مجھے میرے رب نے یہی حکم دیا ہے۔‘‘ یہ سن کر بی بی ہاجرہ مطمئن ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ: ’’اگر ایسا ہے تو ہمارا رب ہمیں یونہی نہیں چھوڑے گا۔‘‘ خلیل خدا واپس چلے گئے۔ عرب کے واقع نگاروں کا بیان ہے کہ اس وقت مکے کے لق و دق ریگستان میں ایک سوکھا درخت تھا۔ بی بی نے اس پر اپنی چادر ڈال کر اس سے سایہ کیا اور بچے کو لے کر اطمینان سے بیٹھ گئیں۔

تفاسیر میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ کتنا عرصہ ماں اور بیٹے اس طرح سے بیٹھے رہے اور کچھ آب و دانہ ساتھ تھا کہ نہیں۔ بہرحال جب بچہ پیاس سے بے تاب ہو کر رویا تو اٹھ کر پانی کی تلاش میں چلیں۔ سامنے صفا اور مروہ کی پہاڑیاں تھیں۔ دوڑتی ہوئی کبھی ایک پہاڑی پر چڑھتی تھیں کبھی دوسری پر، گھبرا گھبرا کر روتے ہوئے بچے کو بھی دیکھتی جاتی تھیں۔ اسی طرح سات چکر لگا کر پہاڑی سے اتریں تو بچے کے رونے کی آواز بلند ہو چکی تھی۔ پریشانی کے عالم میں دوڑتی ہوئی بچے کے پاس آئیں۔ دیکھا کہ بچے نے جاں پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑی تھیں وہاں پانی کا چشمہ ابل رہا تھا۔ فوراً خدا کا شکر بجا لائیں، بچے کو سیراب کرکے بٹھایا اور اب بہتے ہوئے پانی کے گرد ریت سے بند بناتی جاتی تھیں اور کہتی جاتی تھیں کہ: زَم زَم(رُک جا۔ رُک جا) خلیل الرحمن اور ذبیح اللہ کے مرتبوں کے لیے کتاب خدا رطب اللسان ہے، مگر بی بی ہاجرہؑ کا رتبہ! بس اتنا ہی کافی ہے کہ پانی کے لیے صفا و مروہ کے درمیان آپ کی سعی حج بیت اللہ کا لازمی رکن بن گئی ہے اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو ایسا دوام حاصل ہوا کہ ہزاروں سال سے یہ چشمہ آب زم زم کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا پانی حیات بخش بھی ہے اور باعث شفاء بھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپؑ کی آغوش خلیل اللہ کے فرزند ذبیح اللہ کی اولین درس گاہ بنی۔

حضرت اسماعیلؑ کی پرورش کرنا کتنا بڑا اور اہم فریضہ تھا جسے بی بی ہاجرہؑ نے مکے کی غیر ذی زرع زمین پر محدود وسائل میں رہ کر ادا کیا۔ روایات بتاتی ہیں کہ جب حضرت ابراہیمؑ انپے بیٹے اور بیوی کو ریگستان کی تپتی ہوئی زمین پر چھوڑ کر چلے گئے تو دونوں کی تنہائی اور بے سرو سامانی کی وجہ سے بہت گھبرائے ، تھوڑا سا راستہ ہی طے کیا تھا کہ رک گئے۔ حرم خدا کی طرف رخ کیا اور دعا کی کہ: پروردگار! میں نے اپنی ذریت کو تیرے گھر کے پاس جو تیرا حرم ہے بے زراعت اور غیر آباد زمین میں ٹھہرایا ہے تاکہ نماز قائم کریں، تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف موڑ دے اور انھیں ثمرات میں سے رزق دے، شاید وہ تیرا شکر بجا لائیں۔‘‘(۱۷) حضرت ابراہیمؑ کی دعا اس طرح سے پوری ہوئی کہ چشمہ زم زم کے ظاہر ہوتے ہی پرندوں نے پانی کی تلاش میں وہاں جمع ہونا شروع کیا۔ قریب ہی میدان عرفات میں قبیلہ بنی جرہم کا تجارتی قافلہ ٹھہرا ہوا تھا۔ قافلے والوںنے صحرائی پرندوں کو ایک ہی سمت میں پرواز کرتے ہوئے دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ اس سمت میں پانی موجود ہے۔ فوری طور پرانھوں نے بھی ادھر کا رخ کیا۔ حرم کے پاس پہنچے تو چاہ زم زم کا معجزہ سامنے تھا۔ قافلے والے حضرت ابراہیمؑ کے نام سے آگ سے بچ نکلنے والے معجزے سے اور آپؑ کی رسالت سے ضرور واقف ہوں گے۔ اسی لیے حضرت ہاجرہؑ سے پورا حال معلوم کرکے بہت خوش ہوئے اس جگہ آباد ہونے کی اجازت چاہی۔ بی بیؑ نے جواب دیا کہ حضرت ابراہیمؑ سے پوچھ کر اجازت دوں گی۔ تیسرے دن حضرت ابراہیمؑ اللہ کے حکم سے اس جگہ واپس آئے اور قبیلہ بنی جرہم کو وہاں آباد ہونے کی اجازت دے کر چلے گئے۔

تیسری دفعہ آئے تو یہ غیر ذی زرع زمین آباد ہوچکی تھی۔ اللہ کے فضل و کرم سے قبیلہ بنی جرہم کے لوگ آپؑ کے بیوی اور بچے کے مونس و غمخوار تھے۔ آپ اطمینان سے کنعان کی طرف واپس چلے گئے۔ حضرت ابراہیم کی دعا میں ’’ تیرے محترم‘‘ گھر کے الفاظ اس امر کی وضاحت کررہے ہیں کہ حضرت آدمؑ کے بنائے ہوئے بیت اللہ کے آثار زمین مکہ پر موجود تھے اور اس حد تک ظاہر تھے کہ وہ جگہ حرم محترم کے نام سے جانی پہچانی جاتی تھی۔ قرآن کے بیان کے مطابق: ’’اللہ کا یہ پہلا گھر جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا سبب بنا سرزمین بکۃ یا مکہ میں اول البشر حضرت آدمؑ نے تعمیر کیا تھا۔(۱۸) محققین اور مورخین کی آراء کے مطابق یہ وہ معبد ہے جس کی قدامت عہد تاریخ سے آگے ہے۔ مکے کے مذہب کی تاریخ بہت ہی قدیم ماننی پڑے گی۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کعبہ ایک نامعلوم زمانہ سے ملک عرب کا مرکز چلا آتا ہے۔ اسلامی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت نوحؑ تک یہ عبادت کا مرکز رہا اور ایک ہی صورت میں قائم رہا۔ یعنی اس کی تعمیر میں کسی قسم کی کی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی۔ لیکن طوفان نوح سے جہاں متاثرہ علاقے کی تمام عمارتیں نیست و نابود ہو گئیں تھیں وہاں اس گھر کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا۔ مگر اس کے آثار حضرت ابراہیمؑ کے زمانے تک موجود تھے اور اب اللہ نے چاہا کہ اس کا محترم و مقدس گھر آدمؑ کی ڈالی ہوئی بنیادوں پر از سرنو تعمیر ہو۔ خلیل حق سے بڑھ کر کون معمار ہو سکتا تھا، لہٰذا اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم کنعان سے ملکے تشریف لائے اور یہاں قیام کے دوران بیت اللہ کی تعمیر کی۔

یہ وہ وقت تھا کہ حضرت اسماعیل اتنے بڑے ہو چکے تھے کے پتھر اٹھا اٹھا کر حضرت ابراہیم کو دیتے جاتے تھے اور آپ دیواریں بناتے جاتے تھے۔ جب دیواریں آپ کے ہاتھوں سے بلند ہو گئیں اس وقت آپ ایک بڑے پتھر پر کھڑے ہوئے۔ کہاں جاتا ہے کہ عمارت جتنی بلند ہوتی جاتی تھی پتھر اسی قدر اوپر اٹھتا جاتا تھا اور جب آپ تعمیر سے فارغ ہوئے تو پتھر کے اوپر آپ کے قدم ثبت ہو چکے تھے۔ یہی وہ پتھر ہے جو مقام ابراہیم کے نام سے مشہور ہے۔ بیت اللہ جو زمین پر سب سے پہلا گھر ہے۔ ’’اس میں واضح اور آشکارا نشانیاں ان میں سے مقام ابراہیم ہے‘‘۔(۱۹) اللہ کا حکم ہے: ’’مقام ابراہم کو مصلی بنائو۔‘‘(۲۰) اسی لیے جولوگ حج کرنے جاتے ہیں، طواف کعبہ کے بعد اس مقام کی حدود میں نماز طواف ادا کرتے ہیں۔ بیت اللہ سے متعلق دوسرا پتھر حجر اسود ہے۔ جو کہ محترم اور مقدس ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم ترین بھی ہے۔ اسلامی عقائد کے مطابق حضرت آدمؑ نے جب اس گھر کو تعمیر کیا تھا اسی وقت سے یہ پتھر اس میں نصب تھا۔ طوفان نوح کے وقت اس پتھر کو اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل نے کوہ ابو قبیس پر محفوظ کردیا تھا۔ جب حضرت ابراہیمؑ بیت اللہ کی دیواروں کو ایک حد تک بلند کر چکے تو حضرت جبرائیل اس پتھر کو لائے اور حضرت ابراہیم نے اس کی مقررہ جگہ پر رکھ کر باقی عمارت کو مکمل کیا۔ جب یہ گھر بن کر تیار ہو گیا تو اللہ نے: ابراہیمؑ و اسماعیل ؑکو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اس گھر کے خادموں اور اس میں سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک و پاکیزہ رکھو۔‘‘ (بقرہ:۱۲۵اورحج۲۶) دونوں عظیم پیغمبروں نے اس حکم کی بجا آوری میں اس مقدس معبد کو ہر قسم کی ظاہری اور باطنی آلودگیوں سے پاک کردیا۔ اللہ نے اس خدمت کو اس طرح سے قبول کیا کہ پورے مکہ کو حرم بنا دیا۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کے قرب و جوار کی مقدس زمین پر آل اسماعیل آباد ہو۔ قرآن میں آپؑ کی بیشتر دعائیں اس شہر اور ا سکے باشندوں کے لیے مخصوص ہیں۔ آپ کی پہلی دعا تو جیسے پیچھے مذکور ہوا یہی تھی کہ کچھ لوگوں کے دل میری اولاد کی طرف موڑدے، اس کے بعد عرض کرتے ہیں کہ: پروردگار! اس زمین کو شہر امن قرار دے اور اس کے رہنے والوں کو جو خدااور یوم آخرت پر یقین رکھیں انھیں قسم قسم کے میووں کی روزی دے۔ پروردگار! ہمیںاپنے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا قرار دے اور ہماری اولاد میں سے ایسی امت بنا جو تیرے حضور سر تسلیم خم کرنے والی ہو، ہمیں اپنی عبادت کا راستہ دکھا۔(۲۱) مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ۔(۲۲) پروردگار! ان کے (شہر مکہ والوں کے) درمیان انھیں میں سے ایک نبی مبعوث فرما جو انھیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انھیں پاک کرے، کیونکہ تو توانا اور حکیم ہے۔(۲۳) مکے کی تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیم کی یہ تمام دعائیں حرف بحرف پوری ہوئیں۔ آپ کے رب نے آپ کی خدمات کے عوض: شہر مکہ کو ہمیشہ کے لیے امن اور عافیت کا گھر بنادیا۔(۲۴) مکے کی غیر ذی ذرع زمین کثرت سے آباد ہوگئی۔ ناقابل کاشت زمین پر کسی موسم میں بھی کھانے پینے کی چیزوںخاص طور پر پھلوں کی کمی نظرنہیں آتی۔ قدرت کے معجزوں میں سے یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ حضرت ہاجرہؑ اور حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے اللہ نے وہ امت پید کی جو اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والی ہے اور جس کا دین ہی دین اسلام ہے۔ آپؑ کے فرزند اسماعیل کی نسل سے خاتم النبیین اور ان کے بعد آئمہ اہل بیتؑ کا جو سلسلہ نسب قائم ہوا اس پورے نسبی سلسلے میں کسی فرد واحد نے بھی کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی۔ اسی شہر مکہ سے انہی لوگوں میں سے اللہ نے حضرت اسماعیلؑ کے بعد وہ نبی مبعوث کیا جو دعائے خلیل اور نوید مسیحیٰ بن کر آیا اور جس نے انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دی۔ حضرت ہاجرہؑ کی زندگی میں بڑے بڑے امتحان آئے جیسے لق و دق صحرا میں بے آسرا اپنے بچے سمیت رہنا، اپنے اکلوتے فرزند کو راہ خدا میں قربان کرنے کا الٰہی حکم وغیرہ لیکن آپ علیھاالسلام نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا اور اس کے بدل میں اللہ تعالیٰ نے درج ذیل انعامات سے آپ کو نوازا: ۱۔ مکہ شہر کو آباد فرمایا۔ ۲۔ زم زم کا اجراء۔ ۳۔ اور حج کے موقع پر جہاں بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے وہیں حضرت ہاجرہ کی سعی و کوشش، جو انھوں نے اپنے فرزند کو پانی پلانے کے لیے کی، اس کی یاد بھی فراموش نہ ہونے دی۔ گویا آج حج حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ ؑعلیھا السلام کی یادوں کو تازہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کو حضرت ہاجرہؑ کے نقش قدم پر چلنے کا حکم دے کر اس بات کی نفی فرما دی کہ اس کی بارگاہ میں کوئی صنفی امتیاز ہے۔

حضرت ہاجرہ ؑ کے واقعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنی فطری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سعی و کوشش کرنا لازم ہے، پیاس بجھانا فطری عمل ہے حضرت ہاجرہؑ نے تگ و دو کی اللہ تعالیٰ نے ان کی اس محنت کو ضائع نہ کیا۔ آج حضرت ہاجرہؑ ’’انسانی سعی‘‘کی علامت بن چکی ہیں۔ نیز اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مائوں کی ممتا اگر زندہ ہو تو اسی ممتا کی وجہ سے بچے کی پیدائش پر اس کی چھاتیاں ابل پڑتی ہیں لیکن ممتا کا رشتہ کمزور ہو جائے تو سینے خشک ہوجاتے ہیں اور آپ و دانہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے چھاتیاں نہ ابل سکیں لیکن ممتا پوری قوت سے زندہ ہو تو پھر زمین سے زم زم پھوٹ اٹھتاہے۔ جیسے دنیا کے ہزار طرح کے دودھ میں سے حواء کی بیٹی کے سینے سے ابلنے والا دودھ نسل انسانی کے لیے بے مثال اور کوئی نعم البدل نہیں رکھتا اسی طرح ممتا کی قوت سے زمین سے پھوٹنے والے زم زم کی بھی پورے کرہ ارض پر مثال نہیں ہے۔

آج حاجی سعی و کوشش حضرت حاجرہؑ کی طرح کرتے ہیں اور نتیجہ میں زم زم پیتے ہیں، آج پھر حضرت ہاجرہؑ کی نسل سے ان کے فرزند مہدیؑ سے ہدایت کا چشمہ ابلنے والا ہے جو جہالت میں گھری ہوئی انسانیت کو علوم نبوت و رسالت سے سیراب کرے گا۔ حج کوانجام دیتے ہوئے ہمیں روح حج کو سمجھنا چاہیے۔ حاجی کو حضرت ابراہیمؑ،حضرت اسماعیلؑؑ اور حضرت ہاجرہؑ کا سا عزم و ایمان لے کر لوٹنا چاہیے۔ مختصر یہ کہ حضرت ہاجرہؑ کی سیرت پورے عالم انسانیت کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔

حوالہ جات ۱۔الحجرات:۱۳ ۲۔نحل:۹۷ ۳۔انفال:۲۸ ۴۔الصافات:۱۰۲ ۵۔تفہیم القرآن، جلد۱، صفحہ ۱۹۸ ۶۔انعام:۷۴ ۷۔توبہ:۱۱۴ ۸۔مریم:آیت۴۷ ۹۔ابراہیم:۴۱ ۱۰۔نحل: ۱۲۰ ۱۱۔انعام: ۷۶تا۷۹ ۱۲۔تفہیم القرآن جلد۱،صفحہ۵۵۵ ۱۳۔صافات:۹۹ ۱۴۔صافات آیت۸۳ ۱۵۔سورہ انعام:۸۴و۸۶ ۱۶۔صافات:۱۰۱ ۱۷۔ابراہیم:۳۷ ۱۸۔عمران:۹۶ ۱۹۔آل عمران:۹۶ ۲۰۔بقرہ:۱۲۵ ۲۱۔بقرہ: ۱۲۶تا۱۲۸ ۲۲۔ابراہیم: ۳۵ ۲۳۔بقرہ:۱۲۹ ۲۴۔عنکبوت:۶۷ تاریخی واقعات ان کتب سے ماخوذ ہیں: ۱۔ابن کثیر،البدایۃ والنھایۃ،ج۱،ص۱۶۰ ۲۔ابن جریر طبری، تاریخ الطبری،ج۱،ص۱۶۲ ۳۔ ابن الاثیر،الکامل فی التاریخ،ج۱،ص ۹۴ ۴۔ احمد بن ابی یعقوب، یعقوبی،تاریخ یعقوبی،مترجم علامہ ثاقب اکبر، ص ۲۰ ۵۔سیدہ انوار زہرا زیدی،تاریخ انبیاء علیھم السلام اور اقوام عالم، ج۱،ص۱۳۵