مشیر کاظمی مرحوم

Published by fawad on

musheer kazmi

9-5-1915 8-12-1975

nisar ali tirmazi
سید نثار علی ترمذی

مشیر کاظمی مرحوم سے بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔ آپ ہمارے رشتے کے ماموں سید جعفر رضا ترمذی مرحوم کے دوست تھے۔ ان دنوں بزرگوں اور رشتے داروں سے ملنا ایک سماجی و مذہبی ضرورت تھی۔ وقت تھا، محبت تھی اور قریبی عزیزوں کی خیر خیریت دریافت کرنے کے لیے خود جا کر ملنا اور کچھ وقت گزارنا عام تھا ۔ مہمان بھی اپنا گھر سمجھ کر آتے تھے اور میزبان بھی جو میسر ہوتا سامنے رکھ دیتے تھے ۔ اسی وجہ اس وقت مہمان نعمت سمجھا جاتا تھا نہ کہ زحمت۔ ایک مرتبہ ہمارے ماموں سید جعفر رضا ترمذی ہمارے گھر تشریف لائے۔ کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ والدہ مرحومہ نے مجھے چائے کا کپ دے کر کہا کہ ان کے ساتھ ایک دوست آئے ہیں اور وہ باہر بیٹھے ہیں، انہیں دے آؤ۔


گلی میں ایک رکشہ کھڑا ہے۔ سامنے گھر کے سامنے بنے ہوئے تھڑے پر مشیر کاظمی مرحوم اکڑوں بیٹھے ہیں ھاتھ میں سیگریٹ اور رکشہ ڈرائیور سے گپ شپ میں مشغول ہیں۔ میں نے سلام کیا اور چائے کا کپ ھاتھ میں تھما دیا۔ آپ نے میرا نام پوچھا، تعلیم کے بارے میں دریافت کیا اور دعائیں دی۔ کئی دن میں اپنے چھوٹے بھائیوں کے سامنے اتراتا رہا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا کیونکہ کہ آپ ان دنوں اکثر مجالس میں اپنی شاعری کی وجہ سے مقبول تھے۔ ان کی منقبت ” حسین سب کا ” کے بیشتر بند مجھے زبانی یاد تھے۔ ان کی مشہور نظمیں، حسین خاموش کیوں کھڑا ہے، تلہ زینبیہ کی ڈیمانڈ تھی۔ ہر مجلس میں آپ سے انہی نظموں کو پڑھنے کا کہا جاتا۔ لمبا قد، پینٹ شرٹ میں ملبوس، مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر لہک لہک کر تحت لفظ پڑھنے کا منفرد انداز اور بعض مقامات پر نثر میں تشریح اور مجمع کی داد غرض یہ کہ اس دور میں شاذ و نادر ہی کوئی اس انداز میں پڑھتا ہو۔


انہی دنوں میں یہ خبر بھی آ گئی کہ آپ اچانک اپنے چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔
وقت گزرتا چلا گیا، مصروفیات اور سے اور ہوتی چلی گئیں مگر کتاب دوستی قائم رہی۔ ایک مرتبہ مال روڈ، نزد پرانی انارکلی، لاہور پر پرانی کتابوں کے اتوار بازار سے "حسین سب کا ” چند صفحات پر مشتمل کتابچہ مل گیا جو بعد ازاں ہماری ایک عزیزہ لے گیں۔ بس کبھی کبھار ” حسین سب کا ” ٹائٹل کسی سیمینار، مجلس یا گروپ کے عنوان سے نظر آتے یا اس کے ایک دو بند بر سر منبر پڑھے جاتے۔
پیام اسلام آباد کا خاص نعت نمبر کے سلسلے میں شعراء کرام کی تلاش جاری تھی کہ مشیر کاظمی مرحوم کے نام سے فیس بک پیج نظر سے گزرا۔ بہت خوشی ہوئی۔ رابطے پر معلوم ہوا کہ محترم ثقلین کاظمی صاحب ہیں جو مشیر کاظمی مرحوم کے فرزند ہیں۔ آج کل امریکہ میں ہوتے ہیں۔ بتایا کہ ان کے والد بزرگوار کی نعت تو ملی نہیں مگر ان کی اپنی کہی ہوئی نعت ہے۔ یہ نعمت مل بھی گئی۔ ہم میسنجر سے واٹس ایپ پر آ گئے۔ بات سے بات نکلی تو مشیر کاظمی کے کلام کو جمع کرنے اور شائع کرنے تک آ نکلی۔ برادر ثقلین کاظمی نے بتایا کہ ان کے والد بزرگوار کا مذہبی کلام تو شائع ہو چکا ہے اب وہ کلیاتِ مرتب کر رہے۔ آپ نے ” کھلی جو چشم بصیرت ” کا ایک نسخہ مجھے بھجوا دیا جو لائیبریری کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سید مخدوم حسین نقوی https://albasirah.com/urdu/makhdoom-hussain-naqvi/


آپ کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی ہے۔ 9 مئی 1915ء کو بنوڑ، ضلع انبالہ، ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ والد گرامی پولیس سروس میں تھے۔ میٹرک کے بعد ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف مائل ہوئے۔ تقسم ہند کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور، ضلع مظفر گڑھ میں آن بسے، مگر یہاں ان کی طبیعت مائل نہ ہوئی، چنانچہ آپ علی پور سے لاہور آ گئے
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مشیر کاظمی کا قومی نغمہ
اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
بے حد مقبول ہوا۔ آپ نے متعدد فلموں کے گیت بھی لکھے ۔
مشہور نظمیں
1-قائدِاعظم کی قبر پر
2-نقطہ
3- حسین سب کا
4-حسین خاموش کیوں کھڑا ہے
5- دس محرم
6- تصورات کربلا
7-نہیں ہوتی گناہ گاروں سے محبت ہو بھی سکتی ہے
8- ہم علی کو خدا نہیں کہتے
9- تلہ زینبیہ
10- سجدہ
11- زینب سر بازار ہے خاموش ہے دنیا
12- عشق علی
ان کے علاؤہ آپ کا بہت سا شہرہ آفاق کلام ان کے نام سے بنے ہوئے فیس بک پیج پر دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے. فیس بک اکاؤنٹ
https://www.facebook.com/syedmusheerkazmi?mibextid=ZbWKwL