شہید ذوالفقار حسین نقوی..

Published by fawad on

shaheed zulfiqar naqvi

31-12-1996 – 4-12-1945
سید نثار علی ترمذی

1986 اپریل کا مہینہ تھا۔ ہم سب تحریک کے دوسرے سالانہ تنظیمی کنونشن میں شرکت کے لیے بزریعہ ٹرین کراچی جارہے تھے۔ قافلے میں ایک اجنبی کو دیکھا جو عینک لگائے اور داڑھی سجائے ایک برتھ پر آرام فرما رہے تھے. میں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ لیبر لیڈر ہیں اور انہیں تیار کیا ہے یہ تحریک لاہور کے لیے کام کریں گے، کنونشن میں ضلع لاہور کی نمائندگی کریں گے۔ ان کا نام غالباً مرزا پرویز تھا۔ پھر ان سے خوب گاڑھی چھنی. مگر واپسی پر وہ اپنے گھر، اللہ اللہ خیر سلا.۔

چند ماہ گزرے تھے کہ دفتر میں دو افراد کا آنا جانا بڑھ گیا۔ ایک مولانا مشہور کاظمی مرحوم اور دوسرے ذوالفقار حسین نقوی شہید۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مولانا مشہور کاظمی صاحب تحریک لاہور کے صدر اور ذوالفقار حسین نقوی جنرل سیکریٹری نامزد ہو گیے ہیں۔ جلد ہی انہوں نے کابینہ مکمل کر لی اور تیزی سے یونٹ سازی کرنے لگے. آج یہاں میٹنگ ہے تو کل وہاں، غرضیکہ لاہور تحریک کا خلا پر ہو گیا۔ مولانا صاحب جمیعت طلبہ جعفریہ کے رہنماء رہے تھے۔ پکے انقلابی اور امام خمینی عاشق۔کاظمی صاحب چندراے پنڈ میں رہائیش پزیر تھے اور نقوی صاحب کا تعلق بھی اس بستی سے تھا۔

شہید ذوالفقار حسین نقوی محکمہ اوقاف میں ملازم تھے۔ لاء گریجویٹ تھے، ذاکری کرتے تھے۔ مولانا صفدر حسین نجفی اور مولانا کرامت علی نجفی سے قریبی تعلق تھا، کیونکہ آپ ذاکری بھی کرتے رہے تھے اس سے کافی روابط تھے جنہیں انہوں نے تحریک کی تنظیم سازی کے لیے استعمال کیا۔

لاہور کیوں کہ صوبائی صدر مقام ہے, اس وجہ سے پورے صوبے کے مومنین مسائل کے حل کے لیے یہاں رابطہ کرتے تھے۔ اس وقت تک انتظامیہ سے رابطے کے لیے تحریک کے پاس کوئی ایسی شخصیت نہ تھی جو تحریک اور انتظامیہ کے درمیان رابطے کا کام کر سکے۔ باامرمجبوری مشکل کے وقت معروف شیعہ رہنماوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا. جن میں حیدر علی مرزا مرحوم بطور مثال ہیں۔ نقوی صاحب نے بہت جلد اس کمی کو پورا کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ پھر اس خدمت کی وجہ سے بتدریج ضلع سے صوبائی کابینہ میں بطور نائب صدر آ گئے۔

یہ بھی دیکھیں: https://www.youtube.com/watch?v=6t8TtFNXO-E

تحریک میں سرگرم رہنے کی وجہ سے محکمہ نے کہا یا تو آپ اس قسم کی سرگرمیوں سے دور ہو جائیں یا ملازمت چھوڑ دیں۔ یوں آپ نے ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور وکالت شروع کردی۔ ان دنوں میرا دفتر اسلامیہ کالج سول لائن کے ساتھ تھا۔ تو اس طرح کئ انتظامیہ کی میٹنگز کے ساتھ مجھے ان کے ساتھ شرکت کا موقع ملا۔ تحریک کی مصروفیت کی وجہ سے آپ کو ٹیلی فون کا بل، گاڑی کے اخرجات زیر بار رکھتے تھے۔ شہید اپنے علاقہ کے زمیندار تھے کچھ مزاج بھی ایسا تھا جس کی وجہ نظریاتی نوجوان ان کے قریب نہ آ سکے. اسی دوران ایک تنظیمی نوجوان سید ابوالحسن نقوی کو آپ نے شرف دامادی بخشا۔ اس نسبت کو طے کروانے میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا بھی کردار ہے۔ آپ کو امام خمینی علیہ رحمہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک کابینہ میی رہتے ہوئے ان سے بعض معالات پر اختلاف بھی رہا۔ مگر مجموعی طور پر آپ نے اس ملت کی خلوص کے ساتھ خدمت کی۔ آپ کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شہادت سے قبل نظر بند کر دیا گیا تھا۔ برادر قیصر عباس بخاری صاحب راوی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ نقوی صاحب کو چھوڑنے چندراے گئے تو کافی علاقہ سنسان تھا اور کھیت تھے تو شہید نے اس علاقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے اس علاقہ میں قاتلانہ حملے کا خدشہ ہے۔

آج کے دن آپ اپنے فرزند عمار اور باڈی گارڈ ہمراہ گھر سے شہر کی طرف آنے کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں ہی اپنے فرزند اور باڈی گارڈ کے شہید کر دیے گیے۔ اللہ ان شہداء کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
یہ بھی پڑھیں: سید مخدوم حسین نقوی https://albasirah.com/urdu/makhdoom-hussain-naqvi/