سید مخدوم حسین نقوی

Published by سید نثار علی ترمذی on

سید نثار علی ترمذی

تنظیمیں اور تحریکیں مخلصین کے دم سے چلتی ہیں. شہید علامہ عارف حسین الحسینی ان خوش قسمت ترین میں شمار کئے جا سکتے ہیں جنہیں مخلصین کی ایک جماعت میسر آئی. چنیوٹ جیسا زرخیز علاقہ بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے. اس دور پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو چنیوٹ کی تحریکی زندگی میں تین واضح دکھائی دیں کہ جن کی انتھک جدوجہد نے تحریک کو اس سطح پر پہنچا دیا تھا کہ 1985- 1986 میں تحصیل چنیوٹ کو ضلع چنیوٹ کا درجہ دے کر حکومتی اقدامات سے برسوں پہلے اس کی اہمیت کو سمجھ لیا گیا تھا.


اس دور کے تحریک کے صدر کا نام مجھے
تو یاد نہیں مگر ان تین افراد کے نام آج بھی ہر تنظیمی شخص کو یاد ہیں. سید ناصر حسین ترمزی مرحوم آف شیخن, سینئر نائب صدر, سید مخدوم حسین نقوی, جنرل سیکریٹری, سید حاجی سجاد حسین زیدی مرحوم, فنانس سیکریٹری.
ان میں مخدوم حسین , 92 سال کی عمر
میں حشاش بشاش ہیں اور ماضی کو یاد کر تصور میں کھوے رہتے ہیں. یہ تینوں افراد ہر اجلاس میں شریک ہوتے. بعض اوقات یہ تینوں افراد ہی اجلاس میں شریک ہوتے, فیصلے کرتے اور عمل درآمد کے لیے کے لیے نکل پڑتے. نہ جدید وسائل اور نہ وسائل بلکہ جزبہ کے زور پر شہید حسینی کا پیغام بستی بستی قریہ قریہ پہنچا کر دم لیا.

مخدوم صاحب اپنے مخصوص لباس کھلے پائنچے کا پاجاما, کرتا اور قراقلی ٹوپی میں جب تنظیمی اجلاس میں تشریف لاتے تو ہر شخص کا چہرہ خوشی سے کھل کھلا اٹھتا. ہر شخص مخدوم صاحب پر تبصرہ کرتا اور مخدوم صاحب ایسا کرارہ جواب دیتے کہ مزہ آ جاتا. آپ ہر اجلاس میں شرکت کرتے, لکھی ہوئی مفصل رپورٹ ساتھ لے کر آتے. کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان اور دلکش لہجہ میں اعتماد کے ساتھ بیان کرتے. سوالوں کے برجستہ جواب دے کر اپنی قادر کلامی کا ثبوت دیتے. ہر خط کا جواب دیتے اور اور سرگرمی سے صوبائی دفتر کو مطلع رکھتے. جو وعدہ کرتے اسے پورا کرتے.


آپ کا گھر مہمانوں کی آماجگاہ بنا رہتا. یہ روایت تحریک سے پہلے سے تھی. علماء قوم و زعماء ملت جب تشریف لاتے تو مخدوم صاحب کا گھر کھلا ملتا. ان دنوں شہر میں تانگہ سواری تھی. تانگے والے مخدوم صاحب کے گھر کے باہر انتظار میں رہتے کہ یہاں تو آنا جانا لگا رہتا ہے. چنیوٹ شہر کی تمام مذہبی سرگرمیوں آپ کا وافر حصہ ہے.
تحریک چنیوٹ کی کارکردگی کا اندازہ ان امور سے لگایا جا سکتا ہے.
تحریک نے اس کی صلاحیت کو دیکھتے ہوے اسے ضلع کا درجہ دے دیا.
1985 میں تحریک پہلا کنونشن رجوعہ سادات, چنیوٹ میں منعقد ہوا.
قرآن و سنت کانفرنس منعقدہ مینار پاکستان کے بعد قرآن و کانفرنس چنیوٹ میں بھی منعقد ہوئی.
شہید حسینی نے ضلع چنیوٹ کے تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوے فرمایا کہ ” ضلع چنیوٹ کی کاکردگی کئ صوبوں سے بہتر ہے.” شہید نے جہاں یہ الفاظ کہہ کر ضلع چنیوٹ کے عہدیداروں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا وہیں صوبوں کی کاکردگی پر کڑی تنقید کی ہے.


ہر پروگرام میں چنیوٹ کی نمایاں نمائندگی ہوتی، تنظیم کی مالی معاونت کرنے میں یہ علاقہ سر فہرست رہا.
شہید حسینی کا بڑا استقبال بھی اسی ضلع کے قصبہ بھوانہ میں ہوا.
یہ سب کچھ ان مخلصین کی ٹیم کی وجہ سے ہوا, جس کی سربراہی مخدوم صاحب کرتے نظر آتے ہیں.
ایک یادگار واقعہ کہ شہید حسینی کی المناک شہادت بعد نئے تحریک کے سربراہ کے انتخاب کے لیے امام بارگاہ علمدار پشاور میں مرکزی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا. مخدوم صاحب بطور رکن مرکزی کونسل شریک ہوے. توقع تھی کہ اجلاس مختصر وقت میں ختم ہو جاے گا کیونکہ سپریم کونسل ایک ہی نام تجویز کیا تھا. مگر وہاں پر بحث شروع ہو گی اور مطلوبہ نتائج تک پہنچنے کے لیے ووٹ کا ستعمال شروع ہو گیا. مخدوم صاحب کو ایک شکایت بار بار پیشاب کے آنے کی تھی,جس کی وجہ سے انہیں باتھ روم میں جانا پڑتا. دو باتھ روم تھے اور لائن لگی ہوتی تھی اور انتہائی تکلیف میں باہر کھڑے آوازیں لگا تے. یہ کافی توجہ کا مرکز رہے. اسی طرح مخدوم صاحب جو پان ساتھ لے کر آے تھے وہ ختم ہو گیے. آپ بار بار اٹھ کر جاتے اور انتظامیہ کی منت کرتے کہ پان لا کر دیں. ایک پشاور دوسرا پان کا میسر آنا.

مخدوم صاحب طلب و تڑپ دیکھنے کے قابل تھی. آخر کار
اس بیچینی کو شہید انور علی اخونذادہ, جو کہ میزبان بھی تھے نے ذاتی دلچسپی لے کر اس مسئلہ کو حل کروایا.
مخدوم حسین زندہ دل انسان ہیں. ان کی اپنے مزہب کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں. اللہ انہیں طول عمر اور صحت کاملہ عطا کرے.
احباب اگر ان کی گراں قدر خدمات اور خوش گوار یادیں شیئر کریں تو موصوف کی خدمات کو خراج تحسین میں شمار ہو گا.

یہ بھی پڑھیں: محسن ملّت علامہ صفدر حسین نجفی https://albasirah.com/urdu/safdar-najafi/