صدر رئیسی کے جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس سے چند اقتباسات
تحریر: سید اسد عباس
اس وقت نیویارک امریکہ میں اقوام عالم کے راہنماؤں کی بیٹھک جاری ہے۔ یہ بیٹھک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس کے سلسلے میں ہو رہی ہے۔ اس بیٹھک میں جہاں عالمی قائدین ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں گے وہاں دنیا کو درپیش مسائل پر بھی بات ہوگی۔ پاکستان سے بھی ایک وفد وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں نیویارک میں موجود ہے جس میں وزیر خارجہ پاکستان بلاول زرداری، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور دیگر موجود ہیں۔ اس وقت جنرل اسمبلی میں خطابات کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اس وقت تک کے خطابات میں یوکرین جنگ، ماحولیاتی تبدیلی، دنیا میں مہنگائی، خوراک کی کمی، ایٹمی اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف اقدامات جیسے مسائل پر بات ہوئی ہے۔ امریکی صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں یوکرین پر حملے کو ایک شخص کا فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ روس عالمی قرارداوں اور اقوام کی خودمختاری کی راہ میں کھڑا ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ روس نے یوکرین پر غیر منصفافہ قبضہ کیا اور اس وقت وہاں ریفرنڈم کی تیاری کر رہا ہے تاکہ یوکرین کو روس میں شامل کیا جاسکے۔ بائیڈن نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ امریکا یوکرین کے دفاع کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکا دنیا میں ایٹمی اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کو بھی روکے گا۔ بائیڈن نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دے گا۔
بائیڈن کے خطاب سے قبل ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بھی خطاب کیا۔ صدر رئیسی کے خطاب کی تصاویر اور شہ سرخیاں اس قدر دلچسپ ہیں کہ ضروری ہے کہ پورا خطاب اردو دان قارئین کے لئے بھی پیش کیا جائے۔ ایک تصویر میں صدر رئیسی اقوام متحدہ کے اجلاس میں ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی تصویر اٹھائے دکھائی دیتے ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی کی تصویر اٹھا کر صدر رئیسی نے اقوام عالم کے سامنے سابق امریکی صدر کے جرم کا ثبوت پیش کیا اور کہا کہ دنیا کو اس جرم کے مرتکب کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیئے۔ عین صدر رئیسی کے خطاب کے کچھ دیر بعد ڈونلڈ ٹرمپ، اس کی اولاد کے خلاف امریکا کی وفاقی حکومت نے ایک مقدمہ قائم کیا ہے۔ اس سے قبل ان کے گھر پر سرکاری دستاویز چھپانے کے الزام میں چھاپے مارے گئے۔ یہ شاید خدا کا انتقام ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ بہرحال صدر رئیسی نے اپنے خطاب کے دوران واضح کیا کہ ایران کے نمائندہ کی حیثیت سے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا، ایران کی دفاعی ڈاکٹرائن میں ایٹمی ہتھیار کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایرانیوں کے لئے آیت اللہ خامنہ کا شرعی فتویٰ کسی بھی عالمی نگرانی سے اہم تر اور مؤثر تر ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام عالمی ایٹمی پروگراموں کا فقط دو فیصد ہے جبکہ 35 فیصد سوالات ہم سے کئے گئے ہیں۔
صدر رئیسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارے ساتھ دشمنی کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم ظلم کو قبول نہیں کرتے، نہ ہم ظلم کرتے ہیں اور نہ تحت ظلم رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری منطق کی جڑیں قرآنی ثقافت میں پیوست ہیں جو کہتا ہے کہ نہ ظلم کرو نہ ظلم کے تحت زندگی گزارو، جو ممالک منطق سے عاری ہیں وہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں ایسے ممالک بغاوت، دہشت گردی اور اسی قسم کی دیگر نا انصا فیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہوں نے اقوام عالم کے راہنماؤں سے سوال کیا کہ ایران نے اپنے حقوق کے علاوہ کس چیز کا تقاضا کیا ہے کہ جس نے دنیا کے تسلط پسندوں کو آزردہ کر دیا ہے؟ صدر رئیسی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ مجھے ایک ایسی قوم کی نمائندگی کرنے پر فخر ہے جو ایک بڑی تہذیب کی وارث ہے۔ ایرانی ہمیشہ ایک آزاد قوم رہے ہیں اور انہوں نے طول تاریخ میں اپنی تقدیر پر تسلط کی خواہش رکھنے والوں کو ناکام کیا ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ ہم اپنی قوم کے حقوق کے دفاع کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران عالمی برادرای کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتی ہے، مذاکرات کا راستہ ہی مسائل کو حل کرنے کا راستہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی خطے کے مسائل کا حل علاقائی طور پر ہونا چاہیئے، بیرونی مداخلت سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
صدر رئیسی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ دنیا میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک دنیا کا نظام عدالت کے معیارات کے مطابق نہ ہو۔ صدر رئیسی کہا کہ ہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک منصفانہ عدالت کے ذریعے ایرانی عوام کے خلاف ان کے جرائم، خاص طور پر شہید قاسم سلیمانی کے قتل کے لئے مجرم قرار دینے کے طریقہ کار پر عمل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدل و انصاف اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے اور ایران انصاف کا خیرمقدم کرتا ہے کیونکہ یہ لوگوں کو متحد کرتا ہے جبکہ ناانصافی تنازعات اور جنگوں کا باعث بنتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انصاف پر عمل کرنا مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ انصاف کے بہت سے نام نہاد وکیل انصاف کے عمل سے بھاگ جاتے ہیں۔ ایرانی صدر نے کہا کہ بے انصافیوں کا جمع ہونا انسانی تحریکوں کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں بہت سے انقلاب اپنی اصل راہ سے ہٹ چکے ہیں لیکن کچھ انقلابات منجملہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں میں انصاف کی امید کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/iranian-president-visits-russia/
صدر اسلامی جمہوریہ ایران کے اس خطاب کے حوالے سے عالمی میڈیا پر خاصی سرگرمی دیکھنے کو ملی۔ فرانس 24نیوز نے صدر رئیسی کے خطاب کو اس انداز سے بیان کیا کہ صدر رئیسی نے کہا کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنانا چاہتا ہے، دنیا اس خطاب کی منتظر تھی۔ ڈیلی میل نے خبر لگائی کہ ایران ایٹمی معاہدہ کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے سوال اٹھایا ہے کہ امریکا کے 2018ء میں یکطرفہ انخلاء کے بعد کیا امریکی وعدوں پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی صدر رئیسی کے خطاب سے اسی امر کو شہ سرخی بنایا اس کے باوجود بائیڈن صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دیں گے۔ میرے خیال میں ایٹمی ہتھیار فقط ایک بہانہ ہیں ایک بہانہ نہیں رہے گا تو اعتراض کے لئے دوسرا تلاش کرلیا جائے گا۔ اصل بات وہی ہے کہ ایران نہ ظلم کرتا ہے نہ ظلم کے تحت جیتا ہے اور دنیا کو بھی ظلم کے خلاف قیام کی عملی دعوت دیتا ہے۔ اس کی یہ دعوت عراق، لبنان، شام، فلسطین اور یمن میں سنی جاچکی ہے اور یہ اقوام بھی ہر ظلم کے خلاف قیام کئے ہوئے ہیں، یہ روشنی بھلا ظالم کو کیسے برداشت ہوسکتی ہے۔