مسئلہ فلسطین پر خاموشی کیوں؟

Published by fawad on

عرفان حسین

تحریر:مولانا عرفان حسین


نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا لیکن آج بھی فلسطین کے مسلمانوں پرہونے والا ظلم ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ فلسطین کا مسئلہ انسانیت کا غم رکھنے والوں کو نظر کیوں نہیں آتا، کیوں روز اٹھنے والے لاشے نظر نہیں آتے کہ جو خون میں لت پت سرزمین فلسطین پر پڑے امت مسلمہ کی غیرت اسلامی کو پکارتے ہیں؟ شکم سیر ہو کر اپنے محلات میں سونے والو کو کیوں اجڑے گھروں میں بھوکوں اور پیاسوں کی مجبور زندگی دکھائی نہیں دیتی؟ وہ مقدس مقام جو ہر کلمہ گو کے لیے روحانی تسکین کا سبب ہونے چاہئیں کیسے غفلت سے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ امت اسلامیہ کہ جس کا مرکز قرآن و سیرت النبیؐ ہے اس کو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا خیال کب، کہاں اور کیسے آئے گا۔ سوالات بہت سے ہیں لیکن ان کے جوابات کیوں نہیں؟


غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز قیام سے لے کر اب تک اگر اس ظالم ریاست کے ظلم و تشدد اور مظلوم فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسرائیل نے آج تک جو کچھ کیا ہے اس کے پیچھے مغرب اور امریکہ کی بھرپور حمایت ہے۔ اسرائیل کے مظالم کے خلاف عالمی اداروں میں کئی دفعہ قراردادیں آئیں لیکن امریکہ نے کبھی بھی ان قراردادوں کو منظور نہیں ہونے دیا اگر کبھی غلطی سے کوئی قرارداد امریکہ کے ویٹو سے بچ بھی گئی تو اسرائیل نے امریکہ اور مغربی ملکوں کی حمایت کی وجہ سے اسےکبھی بھی قابل توجہ اور قابل عمل نہیں سمجھا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی اس بے جا اور بھرپور حمایت نے اسرائیل کی غاصب صہیونی ریاست کواتنا جری بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف علی الاعلان عالمی اداروں کے فیصلوں کو نہیں مانتی بلکہ ان فیصلوں اور قراردادوں کے خلاف عمل کرتی ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت تو ممکن ہے اسلام دشمنی اور علاقے میں اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلط کرتا ہو لیکن کیوں امت مسلم خاص کر عرب ممالک کے حکمرانوں کا اس مسئلہ پر خاموش رہنا قلبی بے سکونی کا باعث ہے۔


عرب ممالک کے سربراہ یوں تو اپنے ہر مسئلے کو عربوں کا مسئلہ قرار دے کر اس کے لیے شب و روز کوششیں کرتے ہیں لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا رویہ ہمیشہ انتہائی کمزور رہا ہے۔ عالمی اداروں کی خاموشی، عرب حکمرانوں کا منافقانہ رویہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے میدان عمل میں آجائے یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم ایک امت کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبلہء اول کی آزادی کے لیے سراپا احتجاج ہوں، ہم ہر دفعہ عالم عرب کی لاپرواہی، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی نہ کرنے اور اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کی باتیں سنتے آئے ہیں۔ مسئلہ قدس و فلسطین کو سنجیدگی سے نہ لینے والے او آئی سی، عرب لیگ، سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی طرف سےکی جانے والے دانستہ غفلتوں اور جرم پرستوں کو کیوں شرم نہیں آتی؟ جو لوگ قبلہء اول کے لیے متفقہ، متحدہ اور ایک آواز نہیں اٹھا سکتے، وہ کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کی صدائے احتجاج سے اسرائیل خوفزدہ ہوگا یا امریکہ لرزہ براندام ہوگا یا اقوام متحدہ کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی؟؟؟

یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/masjid-aqsa-phlestine-ka-wahid-asasa/